اختیار معرفۃ الرجال (کتاب)

اختیار معرفۃ الرجال
کتاب رجال کشی.jpg
مؤلف: شیخ طوسی
زبان: عربی
موضوع: رجال
تعداد مجلد: 1(6اجزا)
ناشر: دانشگاه مشہد، دانشکده الہیات و معارف اسلامی، مرکز تحقیقات و مطالعات

إختیارُ مَعرفَۃ الرّجال شیعہ امامیہ کی علم رجال کے منابع میں سے ایک کتاب کا نام ہے ۔ یہ کتاب رجال کَشّی کے نام سے مشہور ہے نیز اسے معرفۃُ النّاقلین بھی کہا جاتا ہے ۔ شیخ طوسی نے مذکورہ کتاب کو محمد بن عمر کشی (متوفی حدود ۳۴۰ق) کی رجالی کتاب سے منتخب کیا ہے اور اس وقت اصل کتاب موجود نہیں ہے۔

مؤلف

ابو عمرو محمد بن عمر بن عبد العزیز کَشّی تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے بزرگ شیعہ علما میں سے ہیں۔ وہ محمد بن مسعود عیاشی صاحب تفسیر عیاشی کے شاگرد تھے. انکی تاریخی وفات ۳۴۰ق لکھی گئی ہے۔ [1]

کتاب

ابن شہر آشوب نے اس کتاب کا نام معرفۃ الناقلین عن الائمۃ الصادقین‌ نقل کیا ہے۔ [2] شیخ طوسی اسکا نام معرفۃ الرجال‌ رکھتے ہیں۔[3] اور آقا بزرگ تہرانی نے اسے معرفۃ الناقلین ذکر کیا ہے[4]

تعارف

رجال کشی کا کوئی نسخہ ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ اس وقت جو موجود ہے وہ شیخ طوسی کا تلخیص شدہ اور منتخب شدہ نسخہ موجود ہے ۔ شیخ طوسی (م۴۶۰) نے کتاب فہرست اور رجال، کے بعد جدید اور نئے مطالب کو رجال کشی میں پایا تو ۴۵۶ ق میں رجال کشی کی تلخیص اور تہذیب اپنے شاگرد کو املا کروائی ۔اسی مناسبت سے اس تلخیص و انتخاب کا نام اختیار معرفۃ الرجال ہے۔

یہ تالیف علم رجال کی اہم ترین کتاب ہے کہ جس میں ائمہ طاہرین کی زندگی کی بھی اہم معلومات مذکور ہے۔ البتہ اس کتاب اصلی ہدف راویوں کی جرح و تعدیل بیان کرنا ہے خاص طور پر کشی نے غیبت کے زمانے میں زندگی گزارنے کی وجہ سے تنقیح روایات کی ضرورت کو محسوس کیا۔

شیوۂ تحریر

مؤلف کی اس کتاب میں یہ روش رہی ہے کہ راویوں اور اصحاب آئمہ سے متعلق اپنی رائے ذکر کئے بغیر روایات ذکر کرتے ہیں نیز اس کتاب میں صرف شیعہ روایوں کے نام مذکور ہیں اہل سنت کے صرف ان راویوں کے نام ذکر کئے ہیں جو شیعوں کیلئے روایت نقل کرتے تھے ۔

مضامین کتاب

کتاب ۱۱۵۱ روایات پر مشتمل ہے اور چھ اجزا میں مرتب ہوئی ہے ۔ کتاب کے آغاز میں اخذ حدیث کی اہمیت کی بیان گر گیارہ(۱۱) روایتیں ذکر کی ہیں پھر شیعہ رجال کے اسمائے پیامبر سے لے کر عصر امام ہادی(ع) اور امام عسکری(ع) تک ذکر کئے اور تاریخی ترتیب کے مطابق ان سے مربوط کچھ روایات ذکر کی ہیں۔ بعض علما شیخ طوسی کی طرف سے کتاب کی تہذیب و تلخیص میں غلطیوں کے پائے جانے کا منشائ اصل کتاب یا دوسرے نسخوں میں موجود اغلاط کو سمجھتے ہیں ۔

خصوصیات

  1. کشی کی کتاب ائمہ کے نزدیک ترین زمانے میں اس طرح تدوین ہوئی ہے کہ کشی صرف ایک واسطے سے آئمہ کے زمانے کے ابن فضال جیسے برجستہ ترین اصحاب سے روایات نقل کرتے ہیں ۔
  2. کشی سے پہلے بغداد، کوفہ، قم اور دیگر مناطق میں رجالی آثار حوادث کا شکار ہو کر ناپید ہو گئے تھے ۔ اس لحاظ سے کشی کی کتاب مختلف شیعہ حوزوں میں تنہا ایک جامع رجالی کی حیثیت رکھتی تھی ۔
  3. غلات، واقفیہ، فطحیہ، تبریہ، مرجئہ، زیدیہ، ناووسیہ، کیسانیہ، علیاویہ، طاہریہ، عجلیہ، عبدالله بن سبا و…. جیسے مختلف شیعہ فرقوں کے حدیث میں مؤثر کردار ادا کرنے والے گروہوں کے متعلق ابحاث اس کتاب کا حصہ ہیں ۔
  4. کشی نے اپنے سے پہلے کی رجالی کتب جیسے رسالۂ علی بن مہز یار، کتاب جامع و کتاب الدور، کے ناموں اور ان کے مضامین کو اپنی کتاب میں جگہ دی ہے ۔
  5. معصومین کی نگاہ و رائے کے مطابق راویوں کی شناخت، شیعوں کی آئمہ سے خط و کتابت اسکی دیگر خصوصیات میں سے ہیں ۔[5] [6]

خطی نسخے

کتاب معرفۃ الناقلین کا کوئی نسخہ ہم تک نہیں پہنچا ہے یہانتک کہ چھٹی اور ساتویں ہجری صدی تک کی منقول اخبار میں بھی اسکا کوئی اثر یا تذکرہ نہیں پایا جاتا ہے ۔پس اس بنا پر شیخ طوسی کی اختیار معرفۃ الرجال ہی کے مختلف خطی نسخے ہی کتاب کشی تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں ۔ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

  1. ۵۷۷ ہجری سے مربوط نسخہ جو حدیث ۳ تا ۸۵۷ پر مشتمل ہے اور منصور بن علی بن منصور خازن کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے ۔ اس نسخے میں چند جگہوں پر دوسرے نسخوں سے مقابلے کی علامات اور تعلیقے موجود ہیں ۔
  2. کتابخانہ دانشگاه تہران کا خطی نسخہ کہ جو جزو چہارم سے آخر تک کا ہے ۔وہ ۶۰۲ ہجری میں بخط ابو احمد بن ابی المعالی کا لکھا ہوا ہے اور یہ نسخہ خط شیخ طوسی کے ساتھ جانچہ ہوا ہے ۔
  3. کتابخانۂ آیت اللہ مرعشی نجفی قم میں کتاب معالم العلماء کے ساتھ ایک جلد میں ہے ۔

طباعت

یہ کتاب ۱۳۴۸ میں کنگره ہزاره شیخ طوسی کے موقع پر حسن مصطفوی کے توسط سے دانشگاه مشہد سے محمد واعظ زاده خراسانی کے مقدمے اور حسن مصطفوی کی تحقیق کے ساتھ چھپی ۔

اسی طرح ۱۳۸۲ہ ق میں محمد تقی فاضل میبدی اور ابوالفضل موسویان کی تحقیق کے ساتھ سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی نے اسے چھاپا ۔

حوالہ جات

  1. حسینی دشتی، معارف و معاریف، ۱۳۷۹ش، ج۸، ص۵۱۶؛ بحوالۂ تنقیح المقال و الاعلام.
  2. ابن شہر آشوب، معالم العلماء، ص۱۳۷.
  3. طوسی، رجال، ۱۴۱۵ ق، ص۶.
  4. آقا بزرگ، الذریعہ، ج۶، ص۸۷.
  5. سید حسین کنعانی، ویژگی‌ ہای رجالی کتاب اختیار معرفۃ الرجال، ۱۳۸۹ش.
  6. پروین بہارزادہ، جستاری در اختیار معرفۃ الرجال، ۱۳۸۳ش.

منابع

  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، معالم العلما، بی جا، بی تا.
  • تہرانی، آقابزرگ، الذریعہ، بیروت، دارالاضواء.
  • حسینی دشتی، سیدمصطفی، معارف و معاریف: دائرة المعارف جامع اسلامی، تہران: مؤسسہ فرہنگی آرایہ، ۱۳۷۹ش.
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال طوسی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۵ ق.
  • کنعانی، سید حسین، ویژگی‌ ہای رجالی کتاب اختیار معرفۃ الرجال، مشکو‌ة، تابستان ۱۳۸۹ – شماره ۱۰۷.
  • بہارزادہ، پروین، جستاری در اختیار معرفۃ الرجال، تحقیقات علوم قرآن و حدیث، پاییز و زمستان ۱۳۸۳ – شماره ۲.
  • کتاب شناخت سیره معصومان، مرکز تحقیقات رایانہ ای علوم اسلامی نور.
تبصرے
Loading...