آقا بزرگ تہرانی

آقا بزرگ تہرانی

آقا بزرگ تہرانی اپنے بیٹوں کے ہمراہ

محمد محسن بن‌ علی منزوی تہرانی (1293-1389 ھ)، آقا بزرگ تہرانی کے نام سے معروف شیعہ عالم دین، فقیہ اور ماہر کتاب‌ شناس تھے۔ انہوں نے بہت سے آثار چھوڑے مگر ان میں الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ شیعہ کتب و آثار کے تعارف کا نہایت ضخیم ذخیرہ و طبقات اعلام الشیعہ چوتھی صدی ہجری سے لیکر چودہویں صدی ہجری کے شیعہ علماء کے احوال اور آثار کا دائرۃ المعارف، سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔

زندگی‌ نامہ

آقا بزرگ تہرانی 11 ربیع الاول 1293 ھ میں ایران کے شہر تہران میں پیدا ہوئے۔ انکے والد اور داد اسی شہر کے علمائے دین میں سے تھے ۔ پردادا حاج‌ محسن تاجر تھے جنہوں نے منوچہر خان معتمد الدولہ گرجی کی معاونت سے ایران میں سب سے پہلا چاپ خانے کی سنگ بنیاد رکھی۔ آپ نے دو شادیاں کیں جن سے ۵ بیٹے اور ۴ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ علی نقی منزوی اور احمد منزوی ان بیٹوں میں سے ہیں جنہوں نے الذریعہ کی تالیف میں باپ کی مدد کی۔

تعلیمی سفر

ابتدائی تعلیمات کا آغاز مدرسہ دانگی پھر مدرسہ پامنار اور مدرسہ فخریہ (مروی) میں اسے جاری رکھا۔ عرب ادبیات شیخ‌ محمد حسین خراسانی اور شیخ ‌محمد باقر معزالدولہ، منطق مرزا محمد تقی، علم اصول سید عبد الکریم مدرسی، سید محمد تقی گرکانی اور شیخ‌ علی ‌نور ایلکائی کے پاس پڑھا۔ ریاضی کا کچھ حصہ مرزا ابراہیم زنجانی کے پاس پڑھا۔ اسی طرح تاریخ ادبیات اور رجال حدیث کا علم حاصل کیا۔ 10 جمادی الثانی 1315 ھ میں مزید تعلیم کے حصول کی لئے نجف گئے اور ۱۳۲۹ ھ تک وہاں رہے۔ یہاں حاج ‌میرزا حسین نوری، شیخ‌ محمد طہ نجف، سید مرتضی کشمیری، حاج‌ مرزا حسین میرزا خلیل، آخوند ملا محمّد کاظم خراسانی، سید احمد حائری تہرانی، مرزا محمد علی چہاردہی، سید محمد کاظم یزدی اور شیخ الشریعہ اصفہانی کے دروس میں شرکت کی۔

تدوین کتاب الذریعہ

طویل عرصے سے شیعہ مصنفین کے آثار کی فہرست کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ دوسرے مسلمان مذاہب نے اپنے مصنفین کے آثار کی فہرستیں مرتب کرتے رہے لیکن شیعہ آثار بے توجہی کا شکار ہو رہے تھے۔ انہی سالوں میں عیسائی ادیب جرجی زیدان نے اپنی کتاب تاریخ آداب‌ اللغه‌ العربیه میں اسلامی معاشرے اور فرہنگ کی تشکیل میں تشیع کے کردار کو معمولی شمار کیا۔ یہ بات شیعہ فقہاء پر گران گزری اور چند علما اکٹھے ہوئے،ان میں سے تین علماء نے شیعہ آثار کی معرفی اور اس مؤرخ کے اعتراض کے جواب دینے کا ارادہ کیا۔ علوم اسلامی میں شیعوں کا کردار سید حسن صدر کے حوالے ہوا پس انہوں نے کتاب تأسیس‌ الشیعہ ‌الکرام لفنون ‌الاسلام اسی غرض سے لکھی۔ شیخ ‌محمد حسین کاشف‌ الغطاء نے جرجی زیدان کی کتاب میں موجود غلطیوں اور لغزشوں کے بیان میں المراجعات‌ الریحانیہ کو لکھنا شروع کیا اور آقا بزرگ تہرانی نے تألیف‌ الذریعہ کا عہدہ اپنے ذمہ لیا جس کا مکمل نام الذریعہ الی تصانیف الشیعہ ہے۔

وہ ۱۳۲۹ ق میں کاظمین گئے اور وہاں الذریعہ کی تدوین کی خاطر تحقیق و جستجو شروع کی۔ کچھ مدت بعد سامرا گئے وہاں اس کام کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مرزا محمد تقی شیرازی کے درس خارج میں شرکت کی۔ ۱۳۳۵ ق میں دوبارہ کاظمین واپس آ گئے دو سال یہاں رہنے کے بعد مرتبہ پھر سامرا چلے گئے۔ ۱۳۵۴ ق میں نجف واپس لوٹ آئے اور یہاں اس کتاب کی چھپائی کیلئے مطبعه‌ السعاده کے نام سے چاپخانے کا سنگ بنیاد رکھا لیکن عراقی حکومت اس کام میں رکاوٹیں ڈالتی رہی یہان تک کہ شیخ‌ نے الذریعہ کی پہلی جلد مطبعہ ‌الغری سے چھپوائی لیکن حکومت عراق اس کتاب کے منتشر میں بھی رکاوٹ بنی یہاں تک کہ یہ کتاب چھ مہینے کی تاخیر سے منتشر ہوئی۔

آقا بزرگ تہرانی نے اس دائرۃ المعارف کی تدوین کیلئے بہت لمبے سفر کئے۔ جن میں عراق، ایران، شام، فلسطین، مصر، حجاز نیز دیگر اور بہت سے عمومی کتابخانوں اور انہی ممالک کے خصوصی کتابخانوں کے دورے کئے۔ ذاتی طور پر انہوں ۶۲ کتب خانوں کو دیکھا نیز ان کے علاوہ دیگر بہت سے کتب خانوں کی فہرستوں کا مطالعہ کیا۔

وفات

وہ طویل مدت تک بیمار رہ کر 13 ذی الحجہ 1389 ھ میں نجف میں فوت ہوئے اور اپنی وصیت کے مطابق اپنے ہی کتابخانے میں دفن ہوئے کہ جسے علما اور طلاب کے عمومی استفادے کیلئے وقف کیا تھا۔

اجازۂ روایت

آقا بزرگ تہرانی کے پاس مختلف مذاہب کے محدثین کے روایت نقل کرنے کے اجازت نامے موجود تھے ،مثلا:
  • میرزا حسین نوری
  • سید محمد علی شاه ‌عبد العظیمی
  • شیخ‌ علی خاقانی
  • شیخ ‌محمد صالح آل طعان بحرانی
  • شیخ‌ موسی کرمان شاہی
  • سید ابوتراب خوانساری
  • شیخ علی کاشف الغطاء
  • سید حسن صدر
  • شیخ ‌محمد علی ازہری ‌مالکی (رئیس مدرسین مسجدالحرام)
  • شیخ ‌عبد الوہاب شافعی (امام جماعت مسجدالحرام)
  • شیخ ‌ابراہیم ‌بن ‌احمدالاحمدی (از فقهائے مدینہ)
  • شیخ ‌عبد القادر طرابلسی (مدرس حرم شریف)
  • شیخ ‌عبد الرحمن علیش حنفی (مدرس‌ الازہر)
جن افراد کے پاس بزرگ تہرانی سے روایت نقل کرنے کے اجازت نامے موجود ہیں:

آثار

الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ اور طبقات‌ اعلام‌ الشیعه بزرگ تہرانی کے اہم ترین آثار میں سے ہیں۔ان میں سے الذریعہ ضخامت کے اعتبار سے ۲۶ جلدوں کو شامل ہے اور اس کی نویں جلد 4 جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب ۱۳۵۷-۱۳۹۷ق/۱۹۳۸-۱۹۷۷ ع میں نجف اور بیروت سے چھپ چکی ہے۔

نیز انکے علاوہ دیگر آثار درج ذیل ہیں:

  1. نوابغ‌ الرواه ‌فی ‌رابعه ‌امات، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۳۹۱ق/۱۹۷۱ ع
  2. الثقاه و العیون فی سادس القرون، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۳۹۲ق/۱۹۷۲ ع
  3. الضیاء اللامع فی عباقره ‌القرن ‌التاسع، دانشگاه تہران، ۱۳۶۲ش
  4. احیاء الداثر فی مآثر اهل‌ القرن ‌العاشر، دانشگاه تہران
  5. روضه النضره فی تراجم علماء المائه ‌الحادیه‌ عشره
  6. الکواکب‌ المنتشره فی ‌القرن ‌الثانی بعد العشره (خطی)
  7. الکرام ‌البرره فی‌ القرن‌ الثالث بعد العشره، نجف، ۱۳۷۳-۱۳۷۷ق/۱۹۵۴-۱۹۵۸ ع
  8. نقباء البشر فی القرن الرابع عشر، نجف، ۱۳۷۳ق
  9. مصفی المقال فی مصنفی علم‌ الرجال، تہران، ۱۳۳۷ش
  10. المشیخه، نجف، ۱۳۵۶ق/۱۹۳۸ ع
  11. هدیه الرازی الی المجدد الشیرازی، کربلا، ۱۳۸۳ق/۱۹۶۳ ع
  12. النقد اللطیف فی نفی التحریف عن القرآن الشریف (خطی)
  13. توضیح الرشاد فی تاریخ حصر الاجتہاد، قم، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ ع
  14. تفنید قول العوام بقدم الکلام (خطی)
  15. ذیل المشیخه، نجف، ۱۳۵۵ق/۱۹۳۷ ع
  16. ضیاء المفازات فی طریق مشایخ ‌الاجازات، (خطی)
  17. اجازات الطوسی، نجف، ۱۳۷۶ق/۱۹۵۶ ع، (اسی طرح مقدمہ تفسیر‌التبیان چاپ ہوا ہے: بیروت، دار احیاء التراث‌ العربی)
  18. مستدرک کشف‌ الظنون: یا ذیل کشف‌ الظنون، تہران، مکتبہ الاسلامیہ و جعفری تبریزی ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ ع

لائبریری

آقا بزرگ تہرانی کی قبر

بزرگ تہرانی ایک وسیع کتابخانے کے مالک تھے۔ اس میں مختلف علوم کی ۵۰۰۰ جلد سے زیادہ کتابیں تھیں جن میں تاریخ، عمرانیات، عمومی فہرستیں، خصوصی فہرستیں مختلف دائرة المعارف و … شامل ہیں۔ انکی ساری زندگی میں طلاب اور اہل مطالعہ تحریر و تحقیق میں اس کتابخانے سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ عمر کے آخری سالوں میں ضعیفی اور کہولت کے باوجود لائیبریری میں آنے والوں کی راہنمائی اور مدد کرتے رہتے۔ اس لائبریری کی تاسیس ۱۳۵۴ ھ کو عمل میں آئی تھی۔ اس بزرگ عالم دین نے اسے محفوظ اور پراکندگی سے بچانے کی خاطر ۱۳۷۵ ھ میں اسے وقف کر دیا۔ پھر ۱۳۸۰ ھ میں اپنے وقف نامے میں تجدید نظر کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے لکھا کہ اگر اس کتابخانے کے متولیوں اور متصدیوں کیلئے اسکی حفاظت نہ رہے تو اس کتابخانے کو کتابخانۂ امیرالمؤمنین میں منتقل کر دیں۔[1]

حوالہ جات

  1. حکیمی، محمد رضا، حماسہ غدیر، قم: دلیل ما، ۱۳۸۹، ص۳۱۵-۳۱۶.

منابع

  • تہرانی، آقا بزرگ، تاریخ حصر الاجتہاد، قم، مطبعہ الخیام، ۱۴۰۱ق، ص ۵۵-۶۶؛
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ ۱/مقدمہ، ۱۲۹، ۳۰۸، ۲/۷۰، ۴۲۸، ۳/۷۱، ۴/۲۱۶، ۳۸۳، ۵/۸، ۷/۳۴، ۸/۸۶، ۸۷، ۱۰//۲۶، ۲۷، ۵۱، ۱۱/۳۰۴، ۱۳/۳۱، ۱۵/۱۲۷، ۱۲۸، ۱۳۰، ۱۴۶، ۲۰۲، ۱۸/۱۸، ۲۶۹، ۲۰/۸۲، ۱۵۱، ۲۱/۵۰۴، ۱۳۰، ۲۴/۱، ۱۱۵، ۲۷۱، ۲۷۸، ۳۱۵، ۲۵/۱۲۳، ۲۰۷، ۲۷۴.
  • تہرانی، آقا بزرگ، طبقات اعلام‌الشیعہ، (القرن‌الرابع)، بیروت، دار الکتاب‌العربی، ۱۹۷۱ ع، مقدمہ؛ حکیمی، #محمد رضا، شیخ‌ آقا بزرگ، تہرانی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی ص ۳-۲۸.
  • خلیلی، جعفر، موسوعہ ‌العتبات ‌المقدسہ، بغداد، دار التعارف، ۱۹۶۵ ع ۲/۲۶۱-۲۶۲.
  • زیدان، جرجی، تاریخ آداب ‌اللغۃ العربیہ، قاہره، دارالہلال، ۱۹۵۷ ع، ۲/۳۸۴.
  • عبد الرحیم، محمد علی، شیخ ‌الباحثین ‌آغا بزرگ‌ الطهرانی، نجف، ۱۳۹۰ق.
  • مشار، خان بابا، فہرست چاپی عربی ص ۵۸، ۳۴۴، ۳۹۲، ۶۰۵، ۸۵۷.
  • منزوی، علی نقی، «الذریعہ و آقا بزرگ تہرانی» ، آینده، س ۶، شمـ ۳-۴، ۷-۸ (خرداد ـ تیر، مہر ـ آبان، ۱۳۵۹ش) ص ۲۴۷-۲۵۳، ۵۸۸-۵۹۶.

پیوند به بیرون

http://ur.wikishia.net/view/%D8%A2%D9%82%D8%A7_%D8%A8%D8%B2%D8%B1%DA%AF_%D8%B7%DB%81%D8%B1%D8%A7%D9%86%DB%8C

تبصرے
Loading...