الامالی (شیخ صدوق)

الامالی شیخ صدوق

 

الأمالی

عربی زبان میں شیخ صدوق (تقریبا ۳۰۶-۳۸۱ ق) کی تالیف ہے جو چوتھی صدی ہجری میں شیعہ امامیہ کے متکلم،
محدث، فقیہ اور حدیث شناس شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہ کتاب حقیقت میں شیخ صدوق کے ان دروس پر مشتمل ہے جو انہوں نے ایران کے شہر مشہد کے سفر کے دوران منگل اور جمعہ کے دن اپنے شاگردوں کو دیئے اور انہوں نے ان اسے تحریر کیا۔ یہ دروس ۱۸ رجب سال ۳۶۷ ہجری سے لے کر ۱۱ شعبان سال ۳۶۸ ہجری قمری میں دیئے گئے۔

مصنف

شیخ صدوق (۳۰۶۔ ۳۸۱ ق) کا اصل نام محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی ہے۔ وہ چوتھی صدی کے بزرگترین شیعہ امامیہ کے عالم دین ہیں۔ ان کی دقیق تاریخ پیدائش معلوم نہیں۔ لیکن وہ ۳۰۵ ه‍.ق کے بعد تھے۔ ان کا مدفن ایران کے شہر ری میں ہے۔ وہ اپنے زمانے کے بزرگترین محدث، فقیہ اور قم کے مکتب حدیثی کے عالم شمار ہوتے ہیں۔ ان کی تالیفات کی تعداد ۳۰۰ کے قریب بیان کی جاتی ہے جن میں سے بہت سی ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔ ان کی تالیف من لایحضرہ الفقیہ شیعہ امامیہ کی کتب اربعہ میں سے ایک ہے۔ ان کے دیگر اہم آثار میں معانی الاخبار، عیون الاخبار، الخصال، علل الشرائع اور صفات الشیعہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔

ان کے مشہور شاگردوں میں سے سید مرتضی، شیخ مفید و تلعکبری ہیں۔[1]

امالی‌ نویسی

تیسری صدی ہجری کے آواخر میں محافل ادبی میں فنون کے رائج ہونے کے بعد اسلامی دانشمندوں کے درمیان فن امالی نویسی متعارف ہوا۔ امالی املا کی جمع ہے۔ اسکی صورت کچھ اسطرح سے تھی کہ استاد یا دانشمند کسی محفل میں تقریر کرتا تو حاضرین اس کی تقریر کو لکھ لیتے تا کہ وہ ایک کتاب کی صورت میں حاصل ہو جائے۔ تالیف کی اس روش کو امالی کہتے تھے۔ شیعہ کی اہم ترین امالیاں درج ذیل ہیں:

مضامین کتاب

شیخ صدوق نے اس کتاب میں ۹۷ مجلسیں ہیں جن کی تدوین میں ۱۳ مہینے لگے۔ یہ مجلسیں (۲۲، ۲۳، ۲۴و ۲۶) کے علاوہ ہر جمعہ اور منگل کے روز برقرار ہوتیں۔ ان کے شروع کی تاریخ ۱۸رجب ۳۶۷ ق تھی اور ان کے اختتام کی تاریخ ۱۸ شعبان ۳۶۸ ق تھی۔ ان مجالس کا سلسلہ ایران کے شہر مشہد کے سفر کے دوران قائم ہوا۔ طوس کے راستے میں تدوین کتاب میں کچھ مدت کا فاصلہ آیا۔

۲۹ویں مجلس ماہ محرم کی آٹھ تاریخ سے مطابق تھی اور یہ اس سال کے محرم کا دوسرا جمعہ تھا۔ لہذا اس مناسبت سے شیخ صدوق نے سید الشہداء کے مقتل کا بیان شروع کیااور اسے ۳۰ویں اور ۳۱ویں مجلس میں مکمل کیا۔ ۲۶ویں مجلس غدیر کے روز تھی لہذا اس میں اس دن کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے شیخ صدوق نقل احادیث میں زمان و مکان کی خصوصیات کی طرف متوجہ تھے۔

نیز ماہ رجب میں اس ماہ کے فضائل، ماہ مبارک رمضان میں اس کے فضائل، روزے کے ثواب کے متعلق احادیث بیان کی ہیں۔ جب نیشا پور پہنچتے ہیں تو یہاں زیارت امام رضا کی فضیلت کے متعلق حدیثیں بیان کی ہیں۔[2]

یہ کتاب نبوی(ص) اور اہل بیت(ع) کی مختلف موضوعات میں احادیث کا ایک مجموعہ ہے مثلا اسراء و معراج، ادعیہ اور موعظہ حسنہ، فضائل اور مناقب اہل بیت(ع) کی احادیث شامل ہیں نیز اس میں تاریخی و اخلاقی و عقائدی و … موضوعات بھی شامل ہیں۔[3]

نقد و نظر

محمد باقر کُمره‌ای اس کتاب کے ترجمے میں کتاب کے ضعیف نقاط بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اس کتاب میں مذکور مضامین کے ضمن میں ظاہرا بعض ضعیف اور قابل اعتراض روایات موجود ہیں۔ ان روایات کے ضعف کا لحاظ کیا جانا چاہئے۔

  • مستحب اعمال اور عبادات جیسے ہر دن کے روزہ رکھنے کی فضیلت، رجب و شعبان کے روزے رکھنے کے ثواب سے متعلق روایات معمولی فکر کے شخص کی نسبت عقلی لحاظ سے بعید نظر آتی ہیں۔
  • محشر و قیامت کے حالات، معراج،دوزخیوں کے عذاب سے متعلق روایات معمولی شخص کیلئے قابل تصور نہیں ہیں۔ مثلا قیامت کے دن کافر کے دانت کا کوہ احد کی مانند ہونا۔
  • قرآن کی سورتوں کی بعض آیات کی مخصوص مقامات پر تطبیق اور ان کے مخصوص شان نزول کا اعتبار تاریخ نزول کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ مثلا حضرت علی کی خلافت کے تعین میں قرآن کے والنجم کی آیات کا رسول اللہ کے ایام مریضی میں حضرت علی گھر میں اترنا جبکہ نزول کے لحاظ سے اس سورہ کو مکی کہا گیا ہے۔
ان اعتراضات کا جواب دو طرح سے دیا جا سکتا ہے:

  • ان میں سے اکثر روایات متشابہات میں سے ہیں نیز وہ ایسے مطالب پر مشتمل ہیں جو نامحسوس اور روز آخرت جیسے آنے والے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قرآن پاک میں خود محکم اور متشابہ آیات موجود ہیں اور متشابہ آیات سے مراد محکم آیات کا منظور اور مراد ہیں جن میں واضح اور روشن عمل کے دستورات مذکور ہیں۔ اخلاق و اکثر قصص قرآنی سے متعلق آیات سے اخلاقی تربیت کرنا، پند و نصیحت اور ڈرانا….. مقصود ہے۔
  • ضبط حدیث میں دقت کے لحاظ سے اور شیخ صدوق سے ان کا ثابت ہونا۔ گذشتہ علما خاص طور پر دسویں صدی سے لے کر بارھویں صدی کے درمیان کے موجود آثار میں مذکور احادیث کا سلسلۂ سند متصل نہیں ہے۔[4]

طباعت

  • طبع سنگی ۱۳۰۰ ق؛
  • تصحیح سید فضل اللہ طباطبائی یزدی، ۱۳۳۴ ش قم؛
  • نشر حیدریہ نجف، تصحیح سید محمد مہدی خرسان؛
  • طبع علی اکبر غفاری
  • طبع اعلمی بیروت، پنجم ۱۴۰۰ق؛
  • نشر انتشارات کتابچی، ششم ۱۳۷۶ش؛
  • الامالی کے نام سے تین امالیوں کے مجموعے میں شیخ صدوق کی امالی کی طباعت، محمّد جواد محمودی، قم، بنیاد معارف اسلامی، ۱۴۲۰ق؛[5]

ترجمے

فارسی میں درج ذیل ترجمے موجود ہیں:

  • ترجمہ امالی از سید علی بن محمدبن اسد اللہ حسینی عریضی امامی سپاہانی (قرن ۱۱ق)؛
  • شرح و ترجمہ امالی از علی رضا خراسانی یزدی (م ۱۲۵۶ق)؛
  • ترجمہ سید صادق بن سید حسین توشخانکی؛
  • ترجمہ از محمد باقر کمره‌ای، کتابخانہ اسلامیہ، تہران،۱۳۴۹ و ۱۳۵۸ش؛
  • ترجمہ از کریم فیضی، تہذیب، ۱۳۸۶ش قم.[6]
تبصرے
Loading...