ابن ابی الخطاب

ابن ابی الخطاب

ابن ابی الخطاب
معلومات اصحاب امام(ع)
مکمل نام محمد بن حسین بن ابی الخطاب زید زَیّات ہمدانی کوفی
کنیت ابن ابی الخطاب
نسب ہمدانی
صحابی امام محمد تقی،امام علی نقی،امام حسن عسکری
کارہائے نمایاں محدث، مؤلف
تالیفات کتاب التوحید، کتاب المعرفة و البداء، کتاب الامامة،..

ابن ابی الخطاب کے نام سے معروف شخصیت کا نام محمد بن حسین بن ابی الخطاب زید زَیّات ہمدانی کوفی (متوفی 262 ق) ہے۔ یہ اپنے زمانے کے شیعہ ایرانی محدث شمار ہوتے تھے انہیں تین اماموں کی صحبت کا شرف حاصل رہا۔

نام و نسب

وہ عبد العزیز بن المہتدی بن محمد بن عبد العزیز الاشعری القمی کو نواسوں میں سے ہیں۔[1]

کلینی (متوفی ۳۲۸ یا ۳۲۹ ق) نے اصول کافی میں مختلف مقام پر “محمد بن الحسین ” اور ابن قولویہ نے [2] “محمد بن الحسین بن ابی الخطاب ” ذکر کیا ہے۔

نجاشی نے ان کا نام، کنیت اور ان کے باپ کا نام یوں ذکر کیا ہے: محمد بن الحسین بن ابی الخطاب ابو جعفر الزَّیات الہمدانی”[3]

علامہ حلّی نے بھی اسی صورت میں ذکر کیا ہے البتہ ظاہر ہوتا ہے کہ “الحسین ” کی بجائے “ابی الحسین ” ذکر کیا ہے۔ [4] متقدمین اور متاخرین نے نجاشی کی مانند ہی ذکر کو ترجیح دی ہے۔

صحابیت آئمہ

مامقانی نے انہیں امام محمد تقی(ع)، امام علی نقی(ع) اور امام حسن عسکری(ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ ان سے منقول روایات کا سلسلہ کبھی تین یا چھ واسطوں کے ذریعے ائمہ سے متصل ہو کر امیرالمومنین علی(ع) پر منتہی ہوتا ہے۔[5]

وثاقت

نجاشی ان کی روایات کو مورد اطمینان قرار دیا ہے اور انہیں اجلّہ محدّثین شیعہ، کثیر الروایہ، ثقہ، شناختہ شدہ اور صاحب تصنیف کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ [6]

طول عمر

کثرت روایات، ان کی احادیث اور تین اماموں زمانے کے درک کی وجہ سے بعض مآخذ میں انہیں ان افراد میں سے شمار کیا ہے جو بچپن میں ائمہ کی خدمت میں رہے۔[7] آقا بزرگ تہرانی ان کی عمر تقریبا سو سال ذکر کی ہے۔ [8]

آثار

نجاشی نے درج ذیل آثار کو ان سے منسوب کیا ہے:

  1. کتاب التوحید
  2. کتاب المعرفة و البداء
  3. کتاب الرد علی اہل القدر
  4. کتاب الامامة
  5. کتاب اللؤلؤة
  6. کتاب وصایا الائمة علیہم السّلام
  7. کتاب النّوادر۔[9]

خود ابن ابی الخطاب سے اس سے زیادہ تالیفات کی روایت مروی ہے۔ [10]

حوالہ جات

  1. طوسی، الفہرست، ص۱۸۳.
  2. ابن قولویہ، کامل الزیارات، ص۳۷.
  3. نجاشی، رجال، ص۲۳۶.
  4. حلی، کتاب الرجال، ص۲۸۵.
  5. مامقانی، تتقیح المقال، ص۱۰۶
  6. نجاشی، رجال، ص۲۳۶.
  7. مامقانی، تتقیح المقال، ص۱۰۶
  8. آقابزرگ، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۲، ص۳۳۴.
  9. نجاشی، رجال، ص۲۳۶.
  10. خویی، معجم رجال الحدیث، ج۱۵، ص۲۹۱.

منابع

  • آقابزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، چاپ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت، ۱۴۰۳ق.
  • ابن قولویہ، جعفر، کامل الزیارات ، کوشش عبدالحسین امینی تبریزی، نجف، ۱۳۵۶ق /۱۹۳۷م.
  • حلی، حسن، کتاب الرجال ، کوشش جلال الدین حسینی ارموی، تہران، ۱۳۴۲ش.
  • خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث ، بیروت، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م.
  • طوسی، محمد، الفہرست ، کوشش محمود رامیار، مشہد، ۱۳۵۱ش.
  • کلینی، محمد، اصول کافی ، کوشش علی اکبر غفاری، بیروت، ۱۴۰۱ق /۱۹۸۱م.
  • مامقانی، عبداللہ، تتقیح المقال ، نجف، ۱۳۵۰ق /۱۹۳۱م.
  • نجاشی، احمد، رجال ، بمبئی، ۱۳۱۷ق.

بیرونی ربط

http://ur.wikishia.net/view/%D8%A7%D8%A8%D9%86_%D8%A7%D8%A8%DB%8C_%D8%A7%D9%84%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8

تبصرے
Loading...