قرآن کریم حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی نظر میں [۱]

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قرآن کریم حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی نظر میں [۱]

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام قرآن ناطق ہیں اور ثقلین میں سے ہیں۔ ہم یہاں اس بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں کہ آنحضرتؑ تلاوت قرآن اور ثواب تلاوت پر کتنی توجہ دیتے تھے۔

۱۔ دلکش اور حزن انگیز آواز

بزرگوار عالم شیخ مفید علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: سابقہ دلیلوں کی بنیاد پر، آپؑ زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے اور سب سے بڑھ کر کتاب الٰہی کے محافظ اور قرائت قرآن میں سب سے زیادہ دلکش آواز والے تھے۔آپؑ قرائت آہستہ اور حزن انگیز انداز میں کرتے اور گریہ کرتے اور سننے والے بھی روتے، اہل مدینہ آپؑ کو “زین المجتہدین” کہتے تھے۔[1]

دوسری روایت میں نقل ہوا ہے: و کانت قراءته حزنا” یعنی آنحضرتؑ کی قرائت حزین تھی”۔[2]

آپؑ نے ابرہہ مسیحی سے فرمایا: “تو اپنی کتاب کے ساتھ کس حد تک واقف ہے؟ اس نے جواب دیا: میں اس کی متن اور تاویل سے آگاہ ہوں، ہشام کا کہنا ہے کہ: حضرت امام کاظم علیہ السلام نے انجیل کی قرائت کرنا شروع کی تو ابرہہ نے کہا: “حضرت مسیح اِسی طرح پڑھتے تھے اور ان کے علاوہ کسی نے اس طرح نہیں پڑھا اور میں گزشتہ پچاس سال سے اب تک ایسی شخصیت کی تلاش میں تھا” اُس وقت ابرہہ امامؑ کے دست مبارک پر مسلمان ہوگیا۔[3]

۲۔ ترتیل

یعنی حروف مکمل ادا ہوں اور بیان اور وقوف کا خیال رکھا جائے۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے “وَ رَتَّلِ الْقُرآنَ تَرْتیلاً”[4] کے مطلب کے بارے میں دریافت کیا گیا، آپؐ نے فرمایا: “بیّنه تبیانا و لا تنثره نثر الرهل و لا تهذّه هذّالشعر، قفوا عند عجائبه و حرکوا به القلوب و لا یکون همّ أحدکم آخر السوره”[5] یعنی قرآن کو بالکل واضح بیان کر اور اس کے حروف کو ریت کی طرح (جسے ہوا ایک ہی بار میں اڑا دیتی ہے) ایک دوسرے کے اوپر نہ اڑاتا جا اور اسے شعر پڑھنے کی طرح پے در پے اور تیزی کے ساتھ نہ پڑھ، قرآن کے عجائبات پر ٹھہر جاؤ اور دلوں کو اس کے ذریعہ ہلاؤ اور تم میں سےکسی کی کوشش، سورہ کے آخر تک پہنچنے کی نہ ہو۔ (یعنی معیار پر توجہ دینی چاہیے نہ کہ مقدار پر)۔

۳۔ حاملان قرآن کی عزت افزائی

آپؑ اپنے جدّ بزرگوار سے ایک حدیث نقل فرماتے ہیں: خداوند متعال بخشنے والا ہے اور جود کو پسند کرتا ہے اور اعلیٰ کاموں کو پسند کرتا ہے اور پست کاموں سے ناراض ہے اور واقعی جلال الٰہی کا احترام کرنے میں سے یہ ہے کہ تین گروہوں کا احترام کیا جائے:

۱۔ سفید ریش مسلمان 
۲۔ عادل امام
۳۔ جو شخص قرآن کا حامل اور اس کے سامنے تسلیم ہے۔ اس طرح سے کہ نہ غالی ہے اور نہ اپنے فرائض کو نظرانداز کرتا ہے۔[6]

۴۔ تلاوت قرآن کا ثواب معصومین کو ہدیہ کرنا

علی بن مغیرہ نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے عرض کیا: “… میرے باپ کا یہ طریقہ کار تھا کہ وہ ماہ رمضان میں چالیس بار قرآن ختم کیا کرتے تھے اور میں بھی باپ کے بعد قرآن پڑھتا ہوں کبھی اپنے باپ سے زیادہ اور کبھی کم، کم اور زیادہ پڑھنا موقوف تھا فرصت اور فارغ رہنے کی مقدار پر یا میرے کام، مصروفیت، نشاط اور بیماری پر اور جو قرآن میں نے پڑھے ہوئے تھے عیدفطر کے موقع پر اس میں سے ایک ختم رسول اکرمؐ، ایک حضرت علیؑ، ایک حضرت فاطمہؑ اور اسی طرح ہر امام کے لئے، یہاں تک کہ آپؑ تک پہنچا اور ایک نیز آپؑ کے لئے قرار دیتا تھا، جب سے خدا نے یہ بصیرت اور کیفیت مجھے عطا کی ہے اور آپؑ کے پیروکاروں کے راستے میں قرار پایا ہوں۔

اب کیا میرے لیے بھی کوئی ثواب ہے؟ حضرتؑ نے فرمایا: تمہارا ثواب یہ ہے کہ قیامت کے دن اُن کے ساتھ ہو، میں نے کہا: اللہ اکبر، کیا میرا ایسا اجر ہے؟ حضرتؐ نے تین مرتبہ فرمایا: ہاں[7]۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ماخوذ: دانستنی های امام کاظم علیه السلام)

[1]  ارشاد مفید، ص ۲۳۵؛ بحارالانوار، ج ۴۸، ص ۱۰۲.

[2]  کافی، ج ۲، ص ۶۰۶، به نقل از مسند الامام الکاظم (ع)، ج ۲، ص ۱۱.

[3]  بحارالانوار، ج ۴۸، ص ۱۰۴.

[4]  سوره مزمّل، آیت ۴.

[5]  بحارالانوار، ج ۷۶، ص ۶۳؛ مسند الامام الکاظم (ع)، ج ۲، ص ۴۴.

[6]  بحارالانوار، ج ۹۲، ص ۱۸۴.

[7]  کافی، ج ۲، ص ۴۱۸.

تبصرے
Loading...