موت سے خوف کی وجہ؟!

خلاصہ: انسان جس چیز سے ناواقف اور جاہل ہو اس سے نفرت کرتا ہے، امام محمد تقی (علیہ السلام) کے ارشاد کے مطابق مسلمان چونکہ موت کے بارے میں جاہل ہیں تو اس سے نفرت کرتے ہیں، نیز انسان کو چاہیے کہ موت کی تیاری بھی کرے اور جن چیزوں کی وہاں پر ضرورت ہے ان کو فراہم کرے۔ جب انسان موت کی حقیقت کو پہچان لیگا تو موت سے نفرت نہیں بلکہ محبت کرے گا۔

موت سے خوف کی وجہ؟!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اکثر لوگ موت سے ڈرتے ہیں، اس کی نشانیوں سے فرار کرتے ہیں، قبرستان کا نام سننا پسند نہیں کرتے اور قبروں کو سجا کر کوشش کرتے ہیں کہ موت کی یاد کو طاق نسیان پر رکھ دیں۔ اگر موت، قبر، حساب و کتاب، قیامت، آخرت پر گفتگو ہونے لگے تو بات کو ہی بدل دیتے ہیں تا کہ اس کی یاد سے پریشانی پیدا نہ ہونے پائے اور گزرتے ہوئے اوقات تلخ نہ ہوجائیں، اگر ان کے ہاں کسی آدمی کا انتقال ہوجائے تو اس کی موت کے بعد مختلف عناوین پر سینکڑوں باتیں تو کی جائیں گی مگر صرف آخرت کے موضوع پر کوئی گفتگو نہیں ہوگی حالانکہ میت کو اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں، اپنے ہاتھوں سے غسل و کفن دے کر دفن کرکے آئے ہیں اس کے باوجود حتی جنازہ تشییع کرتے ہوئے بھی اپنی روزمرہ زندگی کے متعلق باتیں کرتے جائیں اور ہنسی کی بات کرکے ہنس دیں گے، وارثین، رسومات کو ہی پورا کرنے کے کوشاں ہوں گے، یعنی میت کی وفات کے موقع پر طرح طرح کے کام ہورہے ہیں، اتنے بھرے مجمع میں صرف ایک چیز کی کمی ہوگی جو موت کی یاد ہے۔ ان مختلف غلطیوں کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ انسان موت سے نفرت کرتا ہے۔ کیوں نفرت کرتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہم حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی بارگاہ سے جا کر دریافت کرتے ہیں، وہ امام جن کا ایک مشہور لقب جواد الائمہ ہے، جو بچپن میں ہی اللہ تعالی کی جانب سے مقام امامت پر فائز ہوئے اور بچپن میں ہی لوگوں کے سوالوں کے جواب دیا کرتے تھے۔
آپ سے دریافت کیا گیا کہ یہ مسلمان موت سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: “لِأنَّهُم جَهِلُوهُ، ‌فَکَرِهُوهُ، ‌وَ لَو عَرَفُوهُ وَ کانُوا مِن اَولِیاءِ اللهِ عزّوجلّ لاَحَبُّوهُ، ‌وَ لَعَلِمُوا اَنَّ الآخِرَةَ خَیرٌ لَهُم مِنَ الدُّنیا”، “کیونکہ وہ موت کو نہیں جانتے (موت کے مفہوم سے جاہل ہیں) تو اس سے نفرت کرتے ہیں، حالانکہ اگر اسے پہچان لیتے اور اللہ عزوجل کے اولیاء میں سے ہوتے تو یقیناً اس سے محبت کرتے اور ضرور جان لیتے کہ یقیناً آخرت ان کے لئے دنیا سے بہتر ہے”.
پھر آپ نے فرمایا: اے اباعبداللہ! بچے اور دیوانے اس دوا کو کھانے سے کیوں پرہیز کرتے ہیں جو ان کے بدن کو صحت مند کردیتی ہے اور ان کے درد کو ختم کردیتی ہے؟ اس نے عرض کیا: کیونکہ دوا کے فائدہ کو نہیں جانتے۔
آپ نے فرمایا: “و الّذي بَعَثَ محمّدا بالحَقِّ نبيّا إنّ مَنِ استَعدَّ للمَوتِ حَقَّ الاستِعدادِ فهُو أنفَعُ لَهُ مِن هذا الدَّواءِ لهذا المُتعالِجِ ، أما إنّهُم لَو عَرَفوا ما يُؤدّي إلَيهِ المَوتُ من النّعيمِ لاستَدعَوهُ و أحَبُّوهُ أشَدَّ ما يَستَدعي العاقِلُ الحازِمُ الدَّواءَ لدَفعِ الآفاتِ و اجتِلابِ السَّلاماتِ”[1]، “قسم اس کی جس نے محمد کو برحق نبی بنایا، جو شخص اپنے آپ کو جیسا حق ہے ویسا موت کے لئے تیار کرلے تو اس کے لئے موت اس دوا سے زیادہ فائدہ مند ہے جتنی اس علاج کرنے والے کے لئے فائدہ مند ہے، جان لو کہ اگر لوگ جانتے کہ موت کیسی نعمتوں تک پہنچاتی ہے تو یقیناً اس عقلمند دوراندیش سے زیادہ موت کو طلب کرتے اور اس سے محبت کرتے، جو بیماریوں کو ختم کرنے اور صحت یابی کے لئے دوا کی تلاش میں ہے”۔
حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی اس نورانی حدیث کی اس تحریر میں ہم مختصر وضاحت بیان کرتے ہیں:
جہل کے مختلف لغوی معانی بیان ہوئے ہیں: علم و آگاہی کی نقیض[2]، اطمینان و سکون کی ضد[3]، سفاہت (بیوقوفی)[4] اور بے توجہی[5]، نفس کا علم سے خالی ہونا اور ایسی بات کرنا جس پر عمل نہ کیا جائے۔[6]
جہل کے اصطلاح میں دو معنی ہیں:
۱۔ جہل بسیط: یعنی نفس کا علم سے خالی ہونا اور جہل کی صفت پانا، ابتدا میں یہ صفت مذمت کے لائق نہیں بلکہ قابل تعریف ہے کیونکہ جب تک آدمی اپنی جہل سے سامنا نہ کرے اور نہ جان لے کہ نہیں جانتا تب تک علم حاصل کرنے کے لئے کوشش نہیں کرے گا، لیکن اسی جہالت پر ثابت قدم رہنا، بہت بڑی اخلاقی برائیوں میں سے ہے جس کو دور کرنا ضروری اور اس کا باقی رہنا ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ہے۔ جس شخص میں یہ صفت پائی جاتی ہو اسے چاہیے کہ اسے دور کرے۔
۲۔ جہل مرکب: آدمی کسی چیز کو نہ جانتا ہو یا حقیقت کے برخلاف جانتا ہو لیکن سمجھتا ہو کہ حق کو پاگیا ہے۔ لہذا وہ نہیں جانتا کہ نہیں جانتا ہے اور یہ بدترین اخلاقی برائیوں میں سے ہے اور اسے ختم کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔[7]
یہ لفظ قرآن کریم میں اپنے مشتقات کے ساتھ “جاهل، جاهلون، ‌جاهلین، جهالة، یجهلون،‌ تجهلون و جهول” کی صورت میں استعمال ہوا ہے۔ نیز واضح رہے کہ جہل دو چیزوں کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے: عقل اور علم۔ روایات میں جہل کا بہت ذکر ہوا ہے جس کی متعدد جگہوں پر مذمت کی گئی ہے۔
امام محمد تقی (علیہ السلام) کے فرمان کے اس فقرے کو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی اس حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “النّاسُ أعْداءُ ما جَهِلوهُ”[8]، “لوگ جس چیز کو نہیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں”۔ لہذا ایک مسلمان چونکہ موت کو نہیں جانتا تو اس سے ڈرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت امام علی نقی (علیہ السلام) اپنے ایک صحابی کے پاس تشریف لے گئے جو مریض تھا، آپ نے دیکھا کہ وہ مریض رو رہا ہے اور موت سے ڈر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا: “يا عبدَ اللّه ِ، تَخافُ من المَوتِ لأنّكَ لا تَعرِفُهُ [9]، “اے اللہ کے بندہ! تو موت سے ڈرتا ہے چونکہ اسے نہیں جانتا”۔
یہاں تک یہ ثابت ہوا کہ مسلمان اس لیے موت سے ڈرتا ہے چونکہ اسے نہیں جانتا، اگر اسے جان لے تو نہیں ڈرے گا۔ اب ہم روایات اور علما کے بیانات کی روشنی میں موت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
انسان ہمیشہ نابودی سے ڈرتا ہے، بیماری سے ڈرتا ہے کیونکہ بیماری صحت کی نابودی ہے، اندھیرے سے ڈرتا ہے چونکہ اندھیرا روشنی کی نابودی ہے، فقر سے ڈرتا ہے اس لیے کہ فقر مالدار ہونے کی نابودی ہے، اسی طرح اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ موت فنا اور نیست و نابود ہوجانے کا نام ہے اور انسان فنا اور نابود ہوجانے سے ڈرتا ہے اور یہ فطری چیز ہے کہ انسان مختلف طرح کی نابودیوں سے ڈرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وجود کا وجود سے تعلق اور واقفیت ہے اور ہرگز وجود کی عدم سے واقفیت نہیں ہے، لہذا نابودی سے  فرار کرنا بالکل صحیح ہے۔ اگر انسان موت کو نابودی سمجھے تو ضرور اس سے فرار اختیار کرے گا، یہاں تک کہ زندگی کے بہترین حالات اور خوشیوں میں بھی موت کی یاد اس سے زندگی کی مٹھاس چھین لے گی، اگر موت کو ہر چیز کی انتہا سمجھ لیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ مرنے سے ہر چیز ختم ہوجائے گی تو موت سے ہمارا ڈرنا صحیح ہے اور حتی اس کے نام اور تصور سے بھی ڈریں گے کیونکہ ہمارا تصور یہ ہوگا کہ موت نے ہم سے سب کچھ چھین لینا ہے لیکن اگر موت کو ایک نئی زندگی، ابدی حیات اور ایک عظیم کائنات کی طرف کھلتا ہوا دروازہ سمجھیں تو اس سے نہ صرف، نفرت، دوری اور فرار اختیار نہیں کریں گے بلکہ اس سے محبت بھی کریں گے جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) موت سے محبت کے بارے میں فرماتے ہیں: “وَ اللَّهِ لَابْنُ أَبِي طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْيِ أُمِّهِ[10] “اللہ کی قسم! ابوطالب کا فرزند موت سے اس سے زیادہ مانوس ہے جتنا بچہ اپنی ماں کے سینہ سے مانوس ہوتا ہے”۔ یہ صحیح ہے کہ دودھ اور ماں کا سینہ بچے کے لئے باعث حیات ہے، بچہ کھانا، پانی اور حتی دوا کو اسی سے لیتا ہے، اسی لیے جب بچے کے سیراب ہوجانے سے پہلے، اس کو ہٹا دیا جائے تو ایسے چیختا چلاتا ہے جیسے اس سے ساری دنیا چھین لی گئی ہے اور جب اسے دودھ کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے تو ایسے خوشی کا اظہار کرتا ہے جیسے پوری دنیا اسے دیدی گئی ہے لیکن یہ محبت فطری طور پر ہے، مگر حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی، موت اور ملاقات پروردگار سے محبت، عقل و شعور اور علم و دانائی کی بنیاد پر ہے، کیونکہ آپ موت کو عظیم جہان میں نئی زندگی سمجھتے ہیں۔ کون سا عاقل آدمی زندان سے نکل کر آزادی میں زندگی بسر کرنا پسند نہیں کرتا۔ ہاں بعض لوگ موت کی حقیقت سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ڈرتے ہیں اور بعض اس لیے موت سے ڈرتے ہیں کہ دنیا کی رنگین اور نفسانی خواہشات کے مطابق گزرتی ہوئی اس زندگی کو چھوڑ کر، جہنم کے زندان اور دردناک عذاب میں گرفتار ہوجائیں گے، وہی عذاب جو ان کے برے اعمال کی حقیقت ہے، انہوں نے مرنے کے بعد چونکہ اپنے گناہوں سے سامنا کرنا ہے جو عذاب کی صورت میں ظاہر ہوں گے، تو اسی لیے ڈرتے ہیں۔ ان کی مثال اس مجرم کی ہے جسے زندان سے آزاد کرنا چاہ رہے ہوں تو وہ زندان کے دروازے کو تھام لے اور وہیں رہنے کی کوشش کرے، کیوں؟ اس لیے کہ یہ ایسی آزادی ہے جس کے بعد پھانسی کا پھندا ہے، ایسا شخص زندان کو ہی پسند کرے گا، اس کے لئے زندان ہی زندگی ہے اور آزادی محض موت ہے۔ لیکن جس آدمی نے کوئی گناہ نہیں کیا اور اسے کچھ عرصہ کے لئے زندان میں ڈال دیا گیا ہو تو وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ زندان سے آزادی پا لے اور باہر جاکر کھلی فضا میں سکون کی زندگی بسر کرے۔
نتیجہ: اگر انسان اللہ کے حکم کے مطابق عمل کرے، اپنی بیہودہ خواہشات کو اللہ کی خاطر مٹا کر، امر الہی کو بجا لائے اور اہل بیت (علیہم السلام) کی ہدایات پر عمل کرتا ہوا صراط مستقیم پر گامزن رہے تو موت سے نفرت نہیں کرے گا اور نہ صرف نفرت نہیں کرے گا بلکہ محبت بھی کرے گا، کیونکہ اپنے نیک اعمال کا ثواب، اہل بیت (علیہم السلام) سے ملاقات اور پروردگار کی عظیم نعمتوں تک پہنچ جائے گا، جس تک پہنچنے کے بعد نہ گزشتہ کے بارے میں حزن ہوگا، نہ آئندہ سے خوف، نہ نعمتوں کے کٹ جانے کا خطرہ ہوگا اور نہ لذات کے کھوجانے کی پریشانی ہوگی، تعجب کی بات تو یہ ہے کہ انسان ان عظیم فائدوں اور بے تحاشہ خوشیوں کو نظرانداز کرکے اسی دنیا کی چند دن کی زندگی سے محبت کرتا ہے جس کا ختم ہونا یقینی ہے، جس کی لذات ایک دن میں کئی بار انسان سے چھن جاتی ہیں، پھر بھی انسان اسی دنیا سے دل لگا لیتے ہے، کیسے موازنہ کیا جائے اس دنیا کی لذات کا آخرت کی لذات سے جبکہ مکمل طور پر ایک دوسرے کی ضد ہیں، یہاں تک کہ جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے مولا امیرالمومنین (علیہ السلام) کا ارشاد ہے: ” و هُما بمَنزِلَةِ المَشرِقِ و المَغرِبِ و ماشٍ بَينَهُما ، كُلَّما قَرُبَ مِن واحدٍ بَعُدَ مِنَ الآخَرِ ، و هُما بَعدُ ضَرَّتانِ[11] ، دنیا و آخرت، مغرب و مشرق کی طرح ہیں اور ان کے درمیان چلنے والا شخص جب بھی ایک کی طرف قریب ہوتا ہے تو دوسرے سے دور ہوجاتا ہے، دنیا و آخرت ایک دوسری کی سوتن ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ميزان الحكمہ، ج11، ص96۔
[2] لسان العرب، چ 3، ج 11، ص 129
[3] التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ‌ج 2، ‌ص 131۔
[4] فرهنگ ابجدی عربی-فارسی، ص 54.
[5] قاموس قرآن، سید علی‌اکبر قرشی، چ 6، ج 2، ص 81۔
[6] المفردات فی غریب القرآن، ص 209۔
[7] معراج السعادة، ج1، ص54۔
[8] ميزان الحكمہ، ج2، ص357۔
[9] معاني الأخبار: 290/9.
[10] نہج البلاغہ، خطبہ 5۔
[11] نہج البلاغہ: حکمت 103۔

تبصرے
Loading...