قرآن پاک کی تاریخ

اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب۔ قرآن پاک۔ دُنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ عبدالمنان معاویہ ’اطراف‘ کے قلمی سرپرست ہیں۔ ان سے فرمائش کی گئی تھی کہ وہ قرآن پاک کی اشاعت کی مختصر تاریخ قلمبند کریں۔ انہوں نے بڑی عرق ریزی سے قرآن کریم کے بارے میں ضروری معلومات۔ وحی کے نزول کی اقسام۔ قرآن پاک کی یکجائی۔ تفسیر و تلاوت کے بارے میں جمع کی ہیں۔’اطراف‘ ان کے شکریے کے ساتھ نذرِ قارئین کررہا ہے۔

تعارف قرآن کریم،وحی الہٰی کی ضرورت اور نزول وحی کے طریقے،زمانہ نزول وتدوین قرآن مجید ،قرآن کریم کا مطالعہ کیسے کیا جائے.؟

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی ورسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحبہٖ وسلم پر نازل فرمایا،نزول قرآن کریم سے قبل بڑی کتابوں میں ’’زبور،تورات اور انجیل ‘‘نازل کی گئی تھیں اور اس کے علاوہ صحائف تھے،جو کئی انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل کیے گئے ،قرآن کریم میں کئی مقامات پر اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ صحائف کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے ۔

قُراٰن:۔قرآن ٹھہرٹھہر کر پڑھنا ،اللہ تعالیٰ کی کتاب کا خاص نام جو حضوراکر م صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل کی گئی ،کسی دوسری آسمانی کتاب کا نام قرآن نہیں ،مصدر ہے ۔
(معجم القرآن،سید فضل الرحمن :344 )
(الف)قرآن باب نصر ینصر (قرن یقرن)سے بروزن فعلان مصدر ہے ،جو مبنی للمفعول ہے ،جس کے معنی ’’مقرن بعضھا مع بعض ‘‘ یعنی اس کے حصے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں ،یہ اتصال اور پیوست کرنے کے معنی پر مستعمل ہے ،مطلب یہ کہ قرآن کریم کی رکوعات اور سورتیں ایک دوسرے کے ساتھ متصل (مربوط) ہیں ،اسی وجہ سے اس کو قرآن کا نام دیا گیا ۔
(ب) جب لفظ قرآن سماعی مہموز اللام ۱ ؂ (قر،یقرء) سے ماخوذ ہوجائے گا ،’’مقروء‘‘ (بہت زیادہ پڑھنے والی کتاب) چونکہ یہ کتاب دنیا کے ہر خطے میں سب سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے ،اسی وجہ سے اسے قرآن کریم کا نام دیا گیا ،یہ لفظ قرآن کریم میں 32 سورتوں میں 65 آیات میں ذکر کیا گیا ہے ،مثلاً ’’آ * والقرآن المجید ‘‘(سورۃ ق،آیت نمبر:۱۔۲)

(الف)ھو کلام اللّٰہ المعجز المنزل علی خاتم الانبیاء والمرسلینﷺ بواسطۃ جبرائیل امین ،المکتوب فی المصاحف المنقول الینا بالتواتر۔یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی معجز کتاب ہے ،جو خاتم الانبیاء والمرسلین ﷺ پر جبرئیل امین علیہ السلام کے واسطے نازل ہوئی ہے
،جو مصاحف میں مکتوب ہے اور تواتر سے ہمیں منقول ہوگئی ہے۔
(ب) القرآن ھو کتاب اللّٰہ المنزل علی الرسول ﷺ المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نجماً نجماً نقلاً متواتراً بلا شبھہ فی نقلہ ۔

یعنی قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی منزل کتاب ہے جو رسول اکرم ﷺ پر نازل ہوئی ہے اور مصاحف میں مکتوب ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھوڑا تھوڑا منقول ہوئی ہے ،اس کے نقل کرنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ‘‘۔(الخیر الکثیر فی مقدمۃ التفسیر از مولانا نور الہادی شاہ منصوری :۲۴،۲۳)
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم ؒ لکھتے ہیں:۔’’ اس کانام عرف عام میں تو قرآن ہے لیکن اصل نام ’’القرآن‘‘ ہے ،القرآن ،الف لام کے ساتھ ۔اس کے لفظی معنی کیا ہیں ؟ یہ نام اس کتاب کے لیے کیوں اختیار کیا،گیا ؟ اس پر بھی مفسرین قرآن نے بہت تفصیل سے کلام کیا ہے ۔
۱ ؂ سماعی مہموز اللام ،مہموز :عربی کا وہ کلمہ جس کے اصلی حرفوں میں سے ایک پر ہمزہ ہو ،اُسے مہموز کہتے ہیں ۔ سماعی مہموز اللام عربی گرائمر کاایک کلیہ ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ لفظ قراء یقر اسے ماخوذ ہے ۔جس کے معنی پرھنے کے ہیں ،اور قرآن ،فعلان ،غفران اور فرقان کے وزن پر ہے ،جو بظاہر تو مصدر ہے ،لیکن اس میں اسم آلہ کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے ،جو دوام اور تسلسل پر دلالت کرتا ہے ،اس لیے قرآن سے مراد وہ چیز ہوگی جو بار بار اور تسلسل سے پڑھی جائے ،بیشتر اہل علم نے قرآن کو قرء یقرء یعنی پڑھنے ہی کے مفہوم سے مشتق قرار دیا ہے ۔کچھ لوگوں نے قرآن کے لفظ کا کچھ اور اشتقاق اور مفہوم بھی بیان کیا ہے ۔لیکن دوسرے مفاہیم لغوی اعتبار سے کمزور ہیں اور عربی زبان کے قواعد اور محاورہ ان میں سے اکثر کا ساتھ نہیں دیتے ،عربی زبان کے قواعد اور صَرف کے اصولوں کی بنیاد پر جو مفہوم زیادہ قرین عقل اور قرین فہم ہے وہ یہی پڑھنے کا مفہوم ہے ۔اس مفہوم کو سامنے رکھ کر اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک اعتبار سے جو کتا ب بار بار پڑھی جائے وہ قرآن کہلا سکتی ہے ۔ہوسکتا ہے لغوی اعتبار سے قرآن کا لفظ ہر اس کتاب یا تحریر پر صادق آسکتا ہے جو بار بار پڑھی جائے ،لیکن یہاں صرف قرآن نہیں القرآن کا لفظ استعمال ہواہے ،یعنی وہ واحد کتاب اور متعین کتاب جو تسلسل اور تکرار کے ساتھ بار بار پڑھی جارہی ہے یہ نام قرآن مجید کے علاوہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا ‘‘۔ (محاضرات قرآنی :69 )
ہمیں ڈاکٹر صاحب مرحوم کے کلام کے آخری حصہ سے اختلاف ہے جہاں وہ فرماتے ہیں کہ :’’ لغوی اعتبار سے قرآن کا لفظ ہر اس کتاب یا تحریر پر صادق آسکتا ہے جو بار بار پڑھی جائے‘‘۔جب کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لفظ’’قرآن ‘‘صرف قرآن کریم ہی کے لیے بولا ،لکھا ،کہا جاسکتا ہے ،جیسا کہ اوپر ہم سید فضل الرحمن کے حوالہ سے نقل کرآئے ہیں کہ :’’کسی دوسری آسمانی کتاب کا نام قرآن نہیں ‘‘۔(معجم القرآن،سید فضل الرحمن :344 )جب ’’قرآن ‘‘ کسی دوسری سماوی کتاب کا نام ہی حق تبارک وتعالیٰ نہ نہیں رکھا ،اور نہ ہی اُن کتابوں کے پیروکاروں نے اُن کتابوں کو ’’قرآن ‘‘کہا ہے حالانکہ ایک وقت تک وہ کتابیں بھی کثرت سے پڑھی جاتی رہی ہیں اور آج اُن کتابوں کا جیسا کیسا مجموعہ ’’بائبل ‘‘کے نام سے باقی ہے اور پڑھا بھی جارہا ہے لیکن کوئی بھی اسے ’’قرآن ‘‘نہیں کہتا ،نہ اصطلاحی اور نہ ہی لغوی۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم مزید لکھتے ہیں :۔’’القرآن وہ واحد نام ہے جو قرآن مجید کے علاوہ کسی اور کتاب کو نہیں دیا جاسکتا ۔اس لیے کہ دنیا میں کوئی کتاب اتنی کثرت اور اتنے تواتر کے ساتھ نہ ماضی میں پڑھی گئی ،نہ حال میں پڑھی جارہی ہے اور آئندہ مستقبل میں پڑھے جانے کا کوئی امکان ہے۔ممکن ہے کہ آپ کو لگے کہ یہ ایک بے دلیل دعویٰ ہے ،یا کوئی یہ کہے کہ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو ہر شخص کرسکتا ہے ،اور ہر خوش گمان عقیدت اپنی پسندیدہ ،محبوب اور محترم چیزوں اور شخصیتوں کے بارہ میں اس طرح کے دعوے کرسکتا ہے ۔لیکن ذرا غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ ایسا نہیں ہے ،ذرا روئے زمین کا نقشہ لے کربیٹھیں ،یہ بات آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین گول بنائی ہے ،سورج اس کے چاروں طرف طلوع ہوتا ہے ،دن رات بدلتے ہیں ،زمین بھی گھومتی ہے ،سورج بھی گھومتا ہے ،اس مسلسل حرکت کانام کائنات ہے ،آپ کو یہ بھی علم ہے کہ مسلمان روئے زمین کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں ،روئے زمین کے انتہائی مشرق میں ایک علاقہ ہے جسے فجی کہتے ہیں ،یہاں مسلمان تقریباً ایک لاکھ کی تعداد میں بستے ہیں ،یہ وہی علاقہ ہے جس کے قریب سے انٹرنیشنل ڈیٹ لائن گزرتی ہے ،یعنی وہ خط جہاں سے نئی تاریخ پہلی مرتبہ شروع ہوتی ہے ،آج اپریل کی آٹھ تاریخ ہے تو سب سے پہلے آٹھ اپریل ۲۰۰۳ ء دنیا کی تاریخ میں فجی میں آئی ہے ،اس سے پہلے کہیں نہیں آئی ،وہاں مسلمان بستے ہیں ،نماز بھی پڑھتے ہیں اور قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتے ہیں ،وہاں مدرسے اور دارلعلوم بھی کھلے ہوئے ہیں ،وہاں ہزاروں مسلمان نمازِ فجر میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نمازِ فجر کے بعد بھی مصروف تلاوت رہتے ہیں ،ان کے ہاں جب فجر کا وقت ختم ہوجاتا ہے تو آسٹریلیا میں فجر کا وقت شروع ہوجاتا ہے ،آسٹریلیا میں پانچ لاکھ مسلمان بستے ہیں وہ بھی فجی کے مسلمانوں کی طرح نمازِ فجر سے پہلے ، نمازِ فجر کے دوران میں اور نمازِفجر کے بعد تلاوت قرآن کرتے ہیں ،جب آسٹریلیا میں فجر کا وقت ختم ہوتا ہے تو انڈونیشیا میں شروع ہوجاتا ہے ،اب انڈونیشیا میں کروڑوں مسلمان اسی طرح اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں جس طرح ابھی تھوڑی دیر قبل فجی اور آسٹریلیا کے لاکھوں مسلمان کررہے تھے ،پھر جب انڈونیشیا میں نماز فجر کا وقت اور مرحلہ ختم ہوتا ہے توملائشیا میں شروع ہوجاتا ہے ،ملائشیا میں ختم ہوتا ہے تو بنگلادیش میں شروع ہوجاتا ہے ،بنگلادیش کے بعد بھارت میں بیس کروڑ مسلمان نماز فجر ادا کرتے ہیں،جب ہم پاکستان میں فجر کی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں ،اس وقت فجی کے مسلمان ظہر کی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں ،جس کا جی چاہے فجی فون کرکے معلوم کرلے اور خود سن لے کہ وہاں تلاوت ہورہی ہے اور نمازوں ،بالخصوص نماز فجر اور ظہر کے بعد مکتبوں میں بچے اور بڑے تلاوت میں مصروف ہیں ،جب مصر کے مسلمان فجر کی نماز اداکررہے ہوتے ہیں تو فجی کے مسلمان عصر کی نماز پڑھتے ہیں ،اور جب لیبیا اور الجزائر کے مسلمان فجر پڑھتے ہیں تو فجی کے مسلمان نماز مغرب پڑھ رہے ہوتے ہیں ،پھر جب مراکش کے مسلمان نماز فجر پڑھ رہے ہوں تو فجی کے لوگ عشاء پڑھ رہے ہوتے ہیں ۔اور درمیان میں باقی چاروں نمازوں کے اوقات درجہ بدرجہ آتے ہیں ،لہٰذا پانچوں نمازوں کے یہ اوقات مسلسل روئے زمین کے گرد پھر رہے ہوتے ہیں ،آپ نے اشتہار کے گرد گھومنے والی روشنی دیکھی ہوگی ،ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ روشنی چاروں طرف گھوم رہی ہے ،وہ تو گھومتی ہے یا نہیں گھومتی ،ہوسکتا ہے کہ نظر کا دھوکہ ہو ،لیکن نماز وں کے اوقات روئے زمین کے گرد مسلسل گھومتے رہتے ہیں ،اور یہ تلاوت قرآن کی ایک زنجیر ہے جو دنیا کے گرد ہالہ بنائے ہوئے ہے ،اس میں کبھی کوئی انقطاع اور توقف نہیں ہوتا ہے اس مسلسل عمل میں توقف یا انقطاع اسی وقت ہوسکتا ہے جب زمین اپنے محور پر چلنا چھوڑ دے ،یا سورج گردش کرنا چھوڑ دے یا سارے مسلمان یک دم اللہ کو پیارے ہوجائیں ،اس کے علاوہ کوئی شکل اس تلاوت مسلسل کو روکنے کی نہیں ہے ‘‘۔(محاضرات قرآنی :70/71 )
اب قرآن کریم کا مختصر تعارف آیات قرآنیہ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے :۔
انّہ لتنزیل ربّ العٰلمین (سورۃ الشعرآء :۱۹۲) بے شک یہ قرآن رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے۔
انّ الذی فرض علیک القراٰن ..الخ(سورۃ القصص:۸۵) (اے پیغمبر!) جس ذات نے تم پر قرآن کی ذمہ داری ڈالی ہے۔(یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم اے پیغمبر ﷺ آپ پرنازل فرمایا…ع،م،معاویہ)
نزل بہ الرّوح الامین * علیٰ قلبک لتکون من المنذرین (سورۃ الشعرآء :۔۱۹۴۔۱۹۳) امانت دار فرشتہ اسے لے کر اترا ہے ۔(اے پیغمبر!) تمہارے قلب پر اترا ہے تاکہ تم اُن(پیغمبروں ) میں شامل ہوجاؤ جولوگوں کو خبردار کرتے ہیں۔
قل من کان عدوّ الّجبریل فانّہ نزّلہ علیٰ قلبک باذن اللّٰہ مصدّ قاً لّما بین یدیہ و ھدًی وّ بشرٰی للمومنین (سورۃ البقرۃ:۹۷)(اے پیغمبر!)کہہ دو کہ اگر کوئی شخص جبرئیل کا دشمن ہے تو (ہوا کرے) انہوں نے تو یہ کلام اللہ کی اجازت سے تمہارے دل پر اتارا ہے جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کررہا ہے ،اور ایمان والوں کے لیے مجسم ہدایت اور خوشخبری ہے ۔
بلسانٍ عربیٍّ مّبین (سورۃ الشعرآء :۱۹۵) ایسی عربی زبان میں اتراہے جو پیغام کو واضح کردینے والی ہے ۔
انّآ انزلنٰہ قرءٰ نًا عربیًّا لّعلّکم تعقلون (سورۃ یوسف:۲) ہم نے اس کو ایسا قرآن بنا کر اتارا ہے جو عربی زبان میں ہے تاکہ تم سمجھ سکو ۔
واذا قرِیئ القراٰن فاستمعوالہ ٗ وانصتوا لعلّکم ترحمون (سورۃ الاعراف:۲۰۴) اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو کان لگا کر سنو ،اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحمت ہو۔
آیت ہٰذا سے احناف استدلال کرتے ہیں کہ نماز میں جب سورہ فاتحہ کی تلاوت کی جائے تو سکوت اختیار کرنا چاہیے اور امام کی قرأت کو سنناچاہیے اس کے ساتھ تلاوت نہیں کرنی چاہیے،اور جن احادیث میں بغیر فاتحہ کے نماز نہ ہونے کا ذکر ہے وہ انفرادی کے لیے ہیں، اجتماعی حالت میں امام کی قرأت سامع کے لیے بھی کافی ہے،لیکن شوافع ودیگر مسالک کے علماء بغیر فاتحہ نماز نہ ہونے والی احادیث کے ظاہر پر عمل پیرا ہیں ۔
افلا یتدبّرون القراٰنط ولوکان من عند غیر اللّٰہ لوجد وا فیہ اختلافًا کثیرًا (سورۃ النسآء :۸۲) کیا یہ لوگ قرآن میں غور وفکر سے کام نہیں لیتے ؟اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بکثرت اختلافات پاتے ۔
آیت کریمہ میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں اولاً:کہ قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس میں تدبر وتفکر کیا جائے کہ حق تعالیٰ نے اپنے کلام مقدس میں کیا بیان فرمایا ہے ،اس سے جہاں مقصد تخلیق کائنات اورانس وجان کا علم ہوگا اورقرآن کریم کو سمجھ کر عمل کرنے سے معرفت الہٰی نصیب ہوگی تو وہیں قوموں کے عروج وزوال کا فلسفہ بھی سمجھ میں آجائے گااورقرآن کریم نے فلسفہ عروج وزوال کو یوں بیان کیا ہے کہ :۔انّ ھٰذا لقراٰن یھدی للّتی ھی اقوم ویبشّرا لمؤ منین الّذین یعملون الصّٰلحت انّ لھم اجرًا کبیرًا (سورۃ بنیٓ اسرآء ئیل :۹)حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے ،اور جو لوگ (اس پر) ایمان لاکر نیک عمل کرتے ہیں ،انہیں خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے ۔
تو قرآن کریم نے قوموں کے عروج کی بابت بتا دیا کہ جو لوگ ایمان کیے اور اعمال صالح کیے اور قرآن کریم کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوئے انہیں بشارت ہو بڑے اجر کی ..اور اجر سے دنیا وی واُخروی دونوں جہانوں کی کامیابیاں مراد ہیں ،اُس کی واضح مثال حضرات اصحاب رسول رضوان اللہ علہیم اجمعین کی ہے کہ جب وہ اسلام لائے ان کی حالت کیا تھی لیکن جب انہوں نے قرآن کو سینے سے لگایا اوراحکامات قرآنی وطریق نبویؐ پر عمل پیرا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے قیصروکسریٰ کی بڑی سلطنتوں اُن کے واسطے زیر کردی ،تمام مخلوق کو اُن کے تابع کردیا ،کتب سیر میں جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جس کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ،ہم موجودہ حالات کو قرآن کریم کے تناظر میں دیکھیں کہ آج بحیثیت ایک قوم جمیع عالم میں مسلمان پستی وذلت کا شکار ہیں ،برما کے حالات،اراکانی مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہاء ،کشمیر میں بھارتی فوج کی بربریت ، فلسطین میں اسرائیلی مظالم ،یورپی ممالک میں مسلمانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جارہاہے،چین نے مسلمانوں سے قرآن کریم کے نسخے جمع کرانے کا حکم دے دیا ہے ،افغانستان میں امریکہ قابض ہے ،شام وعراق جل رہے ہیں ،یمن باہمی جنگ کا شکار ،قطر ودیگر عرب امارات میں باہمی کشمکش کی صورت حال ہے ،پاکستان میں بھی کوئی پُرامن صورت حال نہیں ہے افراتفری کا سما ہے گویا چہار جانب مسلمان پسے ہوئے ہیں اس کی بین وجہ باہمی اختلافات وقرآنی تعلیمات سے دوری ہے ۔اورثانیاً:یہ کلام مقدس حق تعالیٰ کا ہی کلام ہے یہ کسی مخلوق کی کاوش نہیں ،کسی ذہین وفطین کی خامہ فرسائی نہیں ،کسی شاعر وادیب کا کمال فن نہیں بلکہ یہ حق تعالیٰ کا کلام ہے ۔اُم القریٰ میں ولید بن مغیرہ جیسے نقاد ادب نے اس کو سنا تو بے اختیار کہہ اٹھا :۔واللّٰہ ،مامنکم رجل اعرف بالاشعار منی ،ولااعلم برجزہ ولا بقصیدہ منی ،ولا باشعار الجن ،واللّٰہ ،ما یشبہ الذی یقول شیءًا من ھذا ،واللّٰہ ،ان لقولہ الذہ یقولہ حلاوۃ وان علیہ لطلاوۃ ،انہ لمثمر اعلاہ ،معدق اسفلہ ،وانہ لیعلوولا یعلیٰ ،وانہ لیحطم ماتحتہ (السیرۃ النبویہ ،ابن کثیر :۱؍۴۹۹) بخدا تم میں سے کوئی شخص مجھ سے بڑھ کر نہ شعر سے واقف ہے نہ رجز ہے ،اور قصیدہ سے اور نہ جنوں کے الہام سے ،خدا کی قسم ! یہ کلام جو اس شخص کی زبان پر جاری ہے ان میں سے کسی چیز سے مشابہ نہیں ہے ،بخدا ،اس کلام میں بڑی حلاوت اور اس پر بڑی رونق ہے ،اس کی شاخیں ثمر بار ہیں ،اس کی جڑیں شاداب ہیں ،یہ لازماً غالب ہوگا ،اس پر کوئی چیز غلبہ نہ پاسکے گی اور یہ اپنے نیچے ہر چیز کو توڑ ڈالے گا ‘‘۔
شعرائے سبعہ معلقہ میں سے لبید اُس وقت زندہ تھے ،یہ وہی شاعر ہیں جن کے ایک شعر پر فرزدق جیسا شاعر سجدہ ریز ہوگیا ،لیکن وہ بھی اس کے سامنے اس طرح گنگ ہوئے کہ جب سیدنا فاروقؓ نے شعر سنانے کی فرمائش کی تو فرمایا : بقرہ وآل عمران کے بعد اب شعر کہاں،ماکنت لاقول شعرًا بعد ان علمنی اللّٰہ البقرۃ وآل عمران (الاستیعاب بہامش الاصابہ:۳؍۲۳۷۔میزان:۱۷)
یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا کلام ہے اور اس کی تلاوت کرنے والے کتنے خوش قسمت ہیں کہ اللہ کا کلام پڑھ رہے ہیں ،اللہ کے فرمودات پڑھ رہے ہیں،ہماری درج بالا تحریر سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ بغیر سمجھے پڑھنے سے ثواب نہیں ملتا ،جی ہاں ثواب بغیر سمجھے پڑھنے سے بھی ملتا ہے ،لیکن اس سے وہ قلبی حالت نہیں ہوتی جو سمجھ کر پڑھنے سے ہوتی ہے وہ معرفت الہٰیہ نصیب نہیں ہوتی جو سمجھ کر پڑھنے سے ہوتی ہے ،اسی لیے امیر شریعت سید عطا ء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ: ’’مسلمانوں کو قرآن کریم کو رازی وغزالی کی طرح نہ سہی ،شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ وامام الہند ابوالکلام آزاد ؒ کی طرح نہ سہی ،اقبال ؒ کی طرح ہی سمجھ کر پڑھ لو اقبال ؒ نے قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھا، تو مغرب کی تہذیب پر دھاوا بول دیا ‘‘۔
اآرٰ قف تلک اٰیٰت الکتٰب المبین (سورۃ یوسف:۱) اآرٰ ۔یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں جو حق واضح کرنے والی ہے۔
اآرٰ قف تلک اٰیٰت الکتٰب وقراٰن مّبین (سورۃ الحجر:۱) اآرٰ۔یہ (اللہ کی ) کتاب اور روشن قرآن کی آیتیں ہیں۔
طٰسٓمّٓ * تلک اٰیٰت الکتٰب المبین (سورۃ الشعرآء:۲۔۱) طٰآمآ ۔یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں جو حق کو واضح کرنے والی ہے۔
طٰسٓ قف تلک اٰیٰت القراٰن وکتاب مّبین (سورۃ النمل :۱) طٰآ۔ یہ قرآن کی اور ایک کتاب کی آیتیں ہیں جو حقیقت کھول دینے والی ہے ۔
اآرٰ قف تلک اٰیٰت الکتٰب الحکیم (سورۃ یونس :۱) اآرٰ ۔یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں جو حکمت سے بھری ہوئی ہے ۔
اآرٰقفکتٰبٌ احکمت اٰیٰتہ ٗ ثمّ فصّلت من لّدن حکیمٍ خبیرٍ (سور ۃ ہود :۱) اآر ۔یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتوں کو (دلائل سے ) مضبوط کیا گیا ہے ،پھر ایک ایسی ذات کی طرف ان کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو حکمت کی مالک اور ہر بات سے باخبر ہے ۔
یٰٓا یّھا النّاس قد جآ ءَ کم برھانٌ مّن رّبّکم وانزلنا الیکم نورًامّبینًا (سورۃ النسآء:۱۷۴) اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردِگار کی طرف سے کھلی دلیل آچکی ہے اور ہم نے تمہارے پاس ایک ایسی روشنی بھیج دی ہے جو راستے کی پوری وضاحت کرنے والی ہے ۔
قد جآ ءَ کم مّن اللّٰہ نورٌ وّ کتٰبٌ مّبین (سورۃ المآئدۃ:۱۵) تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی آئی ہے اور ایک ایسی کتاب جو حق کو واضح کردینے والی ہے۔
سورہ نسآء اور سورہ مائدہ کی دونوں آیات میں حق تعالیٰ نے قرآن کریم کو روشن برہان اور نور ہدایت بیان فرمایا ہے اور یہی اکثر مفسرین نے بیان کیا ہے ،ہاں بعض مفسرین نے من اللّٰہ نورٌسے مراد ذاتِ نبوی ﷺ کو بھی لیا ہے ،مسلکی اختلافات سے ہٹ کر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں معنی ہی مراد لیے جاسکتے ہیں کیونکہ دونوں (قرآن کریم اور صاحب قرآنﷺ) خد اکی زمین پر خداوندقدوس کی جانب سے روشن برہان ونورِ ہدایت ہیں ۔
یٰٓا یّھا النّاس قدجآ ءَ تکم مّوعظۃٌ مّن رّبّکم شفآ ءٌ لّما فی الصّدورلا وھدً ی وّرحمۃٌ لّلمؤ منین (سورۃ یونس :۵۷) لوگو! تمہارے پاس ایک ایسی چیز آئی ہے جو تمہارے پروردِگار کی طرف سے ایک نصیحت ہے ،اور دِلوں کی بیماریوں کے لیے شفاہے اور ایمان والو ں کے لئے ہدایت اور رحمت کا سامان ہے ۔
وننزّل من القراٰن ماھو شفآ ءٌوّ رحمۃٌ لّلمؤ منین …الخ( سورۃ بنیٓ اسرائیل:۸۲) اور ہم وہ قرآن نازل کررہے ہیں جومؤ منوں کے لئے شفا اور رحمت کا سامان ہے ۔
ان آیات ربانیہ سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں مسلمانوں کے لئے شفاء ہے ،جیسا کہ حدیث نبویہ ؐ کا مفہو م بھی اسی ضمن میں ہے کہ’’ تمہارے لئے قرآن میں روح کی شفااور شہد میں جسم کی شفا ہے ‘‘۔ساز ومضراب میں مسلمان کے لئے نہ تو جسمانی شفا ہے اور نہ ہی روحانی شفا …اولیاء کرام رحمہم اللہ کے مزارات پر موجودہ دور میں جو قوالی میں مزامیر کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے خود مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی اعلیٰ حضرت کے نزدیک سراسر حرام ہے ،اس لیے ایسے امور سے بچنا چاہیے جو حرام ہوں ۔اگر ہم قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں اور اُن پر عمل پیرا ہوں تویقین جانیے قرآن کریم ایک مسلمان کے لیے بہترین دستورِ حیات ہے ،خود ارشاد ربانی اسی سورہ بنی اسرائیل میں یوں موجود ہے کہ:۔ولقد صرّفنا للنّاس فی ھٰذا القراٰن من کلّ مثلٍ ..الخ (آیت :۸۹) اور ہم نے انسانوں کی بھلائی کے لئے اس قرآن میں ہرقسم کی حکمت کی باتیں طرح طرح سے بیان کی ہیں ۔
انسانوں کی بھلائی کے لیے ہمہ قسم کے عمدہ مضامین اُس علام الغیوب اللہ تبارک وتعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں جسے آج سے چودہ صدیاں قبل کے حالات وواقعات کا اُسی طرح علم تھا جیسا کہ نزول قرآن سے چودہ صدیاں بعد کا علم تھا اور نزول قرآن کے وقت انسانیت کی ضروریاتِ زندگی سے وہ اللہ تبارک وتعالیٰ ویسے ہی واقف تھے جیسے آج کے معاشرے میں موجود ضروریاتِ حیات انسانی سے واقف ہیں،اس کا علم ازلی وابدی ہے ۔اگر بالفرض محال قرآن کریم نے کسی متعین زمان ومکان کے لیے نازل ہوتاتو اس کی آفاقیت تو متاثر ہونا ہی تھی ساتھ ہی نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحبہٖ وبارک وسلم کی عالمگیر نبوت بھی متاثر ہونا تھی ،اس کی بین وجہ یہ ہے کہ اگر اس کتاب کا زمانہ بیت گیا تو اس کی جگہ کسی نئی کتاب نے آنا ہے جو لوگوں کی وحی الہٰی کے مطابق رہنمائی کرے اور وحی الہٰی یا نزول کتاب کے لیے کسی نبی ورسول کا آنا بھی ضروری ہے جس پر کتاب کا نزول ہو،اور یہ بات قرآن کریم کی کم وبیش یک صد آیات اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحبہٖ وبارک وسلم کی دو سو احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحبہٖ وبارک وسلم کے بعد کوئی ،کسی بھی قسم کا نبی نہیں پیدا ہونا تو معلوم ہوا کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحبہٖ وبارک وسلم آخری نبی ہیں اور اُن کا انتخاب ’’انتخاب الہٰی ‘‘ہے اسی طرح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحبہٖ وبارک وسلم کے صحابہ کرامؓ واہل بیت عظامؓ کے منصب پر جولوگ آئے وہ بھی ’’انتخاب الہٰی ‘‘تھے اور بعینہٖ اسی طرح کتابوں میں قرآن کریم ’’آخری کتاب‘‘ہے ،اس کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہونی ،اور اسیمیں قیام قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے رہنمائی ہے۔قرآن کریم کو چھوڑ کر دوسری طرف نظر کرنے والوں کے بارے میں سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحبہٖ وبارک وسلم روزِ محشر فرمائیں گے کہ :۔وقال الرّسول یٰربّ انّ قومی اتّخذواھٰذا القراٰن مھجورًا (سورۃ الفرقان:۳۰) اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )کہیں گے کہ :’’ یاربّ ! میری قوم اس قرآن کر بالکل چھوڑ بیٹھی تھی ‘‘۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی آیت ھٰذاکے ذیل لکھتے ہیں:۔’’اگرچہ سیاق وسباق کی روشنی میں یہاں قوم سے مراد کافر لوگ ہیں ،لیکن یہ مسلمانوں کے لئے بھی ڈرنے کا مقام ہے کہ اگر مسلمان ہونے کے باوجود قرآن کریم کو پس پشت ڈال دیا جائے تو کہیں وہ بھی اس سنگین جملے کا مصداق نہ بن جائیں ،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کے بجائے شکایت پیش کریں ،والعیاذباللہ العلی العظیم‘‘۔(آسان ترجمہ قرآن:۷۶۹)
اس لیے ہمیں قرآن کریم سے رہنمائی لینے کے لیے قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے اور جو حضرات قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے چودہ یا اس سے زائد علوم کو ضروری قرار دیتے ہیں وہ مفسرین کرام کے لیے ہے عوام کے لیے نہیں ہے ،قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ :۔ولقد یسّرنا القراٰن للذّکر فھل مّدّکرٍ (سورۃ القمر:۱۷) اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کر نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنادیا ہے اب کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے ۔
یعنی مستند علمائے دین کے تراجم پڑھ کر قرآنی احکامات پر عمل پیرا ہواجاسکتا ہے ،اور ہم اپنی عمر کے بچے کچے ایام قرآنی طرز میں ڈھال سکتے ہیں اور آیت درج بالا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا سہل ہے نہ کہ جیسا کہ بعض حضرات جو عربی کے چند قواعد پڑھ کر قرآن کریم کی من چاہی تشریح وتفسیر شروع کردیتے ہیں ایسے حضرات کویہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم کوئی معمولی کتاب نہیں ہے جس کے لفظوں کی تعبیر وتشریح وہ اپنے خود ساختہ خیالات ونظریات کی بنا پر کرلیں ،بلکہ یہ وہ عظیم الشان کتاب ہے جس کے بارے میں حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :۔لو انزلنا ھٰذا القراٰن علیٰ جبلٍ لّرایتہ خاشعًامّتصدّعًا مّن خشیۃ اللّٰہط وتلک الامثال نضربھا للنّاس لعلّھم یتفکّرون (سورۃ الحشر: ۲۱) اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا توتم اسے دیکھتے کہ وہ اللہ کے رعب سے جھکا ہوا ہے اور پھٹاپڑتا ہے ،اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے سامنے اس لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں ۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی اس آخری کتاب کو محرفین کی تحریف سے بلکہ تحریف کی جملہ اقسام سے محفوظ کرنے کا خود ذمہ لیا ہے،اس لیے جو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں نے قرآن کریم میں کمی کردی یا اضافہ کردیا یاقرآن کی آیات کو اپنے اصل مقام سے ذاتی اغراض ومقاصد کے لیے ہٹا دیا ، وہ دراصل اللہ تعالیٰ کے وعدہ حفاظت کو غلط کہہ رہے ہیں ،لبادۂ اسلام اوڑھ کریدِ دشمنان دین کو تحریف القرآن کا عقیدہ گھڑکر مضبوط کررہے ہیں ۔غور فرمائیے صیانتِ قرآنِ کریم کے بارے میں حق جل مجدہ فرماتے ہیں:۔انّا نحن نزّ لنا الذّکر وانّا لہ لحٰفظون (سورۃ الحجر:۹) حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر (یعنی قرآن ) ہم نے ہی اتارا ہے ،اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی تحریر فرماتے ہیں:۔’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اگرچہ قرآنِ کریم سے پہلے بھی آسمانی کتابیں بھیجی گئی تھیں ،لیکن چونکہ وہ خاص خاص قوموں اور خاص خاص زمانوں کے لئے آتی تھیں،اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُن کو قیامت تک محفوظ رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں دی تھی،بلکہ ان کی حفاظت کاکام انہی لوگوں کو سونپ دیا تھا جو اُن کے مخاطب تھے ،جیسا کہ (سورۂ مائدہ(۵:۴۴) میں فرمایا گیا ہے ،لیکن قرآن کریم چونکہ آخری آسمانی کتاب ہے جو قیامت تک کے لئے نافذ العمل رہے گی ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے ،چنانچہ اس میں قیامت تک کوئی ردّ وبدل نہیں ہو سکتا ۔اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت اس طرح فرمائی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے سینوں میں اسے اس طرح محفوظ کردیاہے کہ اگر بالفرض کوئی دشمن قرآنِ کریم اس کے سارے نسخے (معاذ اللہ ) ختم کردے ،تب بھی چھوٹے چھوٹے بچے اُسے دوبارہ کسی معمولی تبدیلی کے بغیر لکھوا سکتے ہیں جو بذاتِ خود قرآن کریم کا زندہ معجزہ ہے ‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن :۵۶۳)
دشمنان دین وقائلین تحریف کو مزید اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں چیلنج کیا ہے کہ :وان کنتم فی ریبٍ مّمّا نزّلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃٍ مّن مّثلہٖص وادعو شھدآ ءَ کم مّن دون اللّٰہ ان کنتم صٰدقین (سورۃ البقرۃ:۲۳) اور اگر تم اس( قرآن) کے بارے میں ذرا بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اُتارا ہے ،تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ ،اور اگر تم سچے ہو تو اللہ کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بلا لو۔

انسان کی سعادت وشقاوت کے اصول بتلانے کے لئے عقل انسانی کافی نہیں ،ایک تو اس وجہ سے کہ عقل کے معلومات سائنس کے اصول کے تحت تجربات اور مشاہدات کے تجزیہ وتحلیل سے ماخوذ ہیں اور سعادت وشقاوت کے اصول عقائد ،اخلاق اور اعمال کی خصوصیات کی معرفت سے ماخوذ ہیں ، جوکہ تجربات ومشاہدات اور محسوسات کے دائرہ سے خارج ہیں ،تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعہ ان کا تجزیہ وتحلیل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ان کے لئے کوئی لیبارٹری ہے ۔دوم اس وجہ سے کہ عقل کے فیصلوں میں وہم کی مداخلت ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے عقل کے فیصلوں میں غلطی واقع ہوجاتی ہے ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ عقول متفاوت ہیں ،عقل صحیح کی صورتیں کم اور عقول فاسدہ کی صورتیں ان امو ر کے متعلق زیادہ ہیں ۔چوتھی یہ کہ عقل کے فیصلے بسااوقات جذبات کے تحت ہوتے ہیں ،جن کی وجہ سے ان کے فیصلے اکثر غلط ہوتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم کی عقلوں کے فیصلے معرفت الہٰی ،دریافت حقیقتِ نبوت اور مجازات اعمال اور امورِ آخرت اور صحیح اور غلط اعمال کے متعلق متضاد ہیں ،کوئی قوم شرک کو ،صحیح سمجھتی ہے کوئی تثلیث کو ،کوئی خداپرستی کو ،کوئی مخلوق کو ،کوئی قوم گائے کا گوشت کھانے کو معصیت سمجھتی ہے کوئی اس کے خلاف ،کوئی خنزیر خوری کو اچھا سمجھتا ہے کوئی اس کے خلاف،کسی کا طریقہ عبادت ورضاء الہٰی کچھ ہے کسی کا کچھ ،کسی کا تصور نبوت اور ہے کسی کا اور ۔کوئی مجازات اعمال جنت ودوزخ کی شکل میں مانتا ہے ،کوئی بصورت راحت والم روحانی ،کوئی بصورت تناسخ ،یہی تمام امور روحانیہ میں ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ مذکورہ امور میں عقل کافی نہیں ……ان امو ر کی معرفت کے لئے خالق کائنات کی وحی اور کلام الہٰی یا بالفاظ دیگر قرآن کی ضرورت ہے ،تاکہ انسان کی سعادت وشقاوت کے اصول کا قطعی فیصلہ اس طرح ہوجائے کہ جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہے ۔ (علوم القرآن،از علامہ شمس الحق افغانی ؒ :۴۔۳)
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی:۔’’ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحبہٖ وسلم پر نزول وحی کے طریقے ‘‘کے حوالہ سے رقم طراز ہیں :۔’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوئی تھی ،’’صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشامؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے .؟توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے ،اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے ،پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے ،تو جو کچھ اس آواز نے کہا ہوتا ہے ،مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے ،اور کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آجاتا ہے ‘‘۔(صحیح بخاری :۱؍۲)اس حدیث میں آپﷺ نے ’’وحی‘‘ کی آواز کو گھنٹیوں کی آواز سے جوتشبیہ دی ہے ،شیخ محی الدین عربی ؒ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ایک تو وحی کی آواز گھنٹی کی طرح مسلسل ہوتی ہے ،اور بیچ میں ٹوٹتی نہیں ،دوسرے گھنٹی جب مسلسل بجتی ہے تو عموماً سننے والے کو اس کی آواز کی سمت متعین کرنا مشکل ہوتا ہے ،کیونکہ اس کی آواز ہر جہت سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ،اور کلام الہٰی کی بھی یہ خصوصیت ہے کہ اس کی کوئی ایک سمت نہیں ہوتی ،بلکہ ہر جہت سے آواز سنائی دیتی ہے ،اس کیفیت کا صحیح ادراک تو بغیر مشاہد ہ کے ممکن نہیں ،لیکن اس بات کو عام ذہنوں سے قریب کرنے کے لئے آپؐ نے اسے گھنٹیوں کی آواز سے تشبیہ دے دی ہے ۔(فیض الباری :۱؍۱۹،۲۰)بعض اوقات اس وحیکی ہلکی ہلکی آواز دوسروں کو بھی محسوس ہوتی تھی ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپﷺ کے چہرۂ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی ۔(تبویب مسند احمدؒ ،کتاب السیرۃ النبویہ ؐ :۲۰؍ ۲۱۳)وحی کی دوسری صورت یہ تھی کہ فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپؐ کے پاس آکر اللہ کا پیغام پہنچا دیتا تھا ،ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایاکرتے تھے،البتہ بعض اوقات کسی دوسری صور ت میں بھی تشریف لائے ہیں ،بہر کیف جب حضرت جبرئیل علیہ السلام انسانی شکل میں وحی لے کر آتے تو نزولِ وحی کی یہ صورت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سب سے آسان ہوتی تھی ۔(الاتقان :۱؍۴۶)وحی کی تیسری صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسان کی شکل اختیار کئے بغیر اپنی اصلی صورت میں دکھائی دیتے تھے ،لیکن ایسا آپﷺ کی تمام عمرمیں صرف تین مرتبہ ہوا ہے ،ایک مرتبہ اس وقت جب آپﷺ نے خود حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصلی شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی ،دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری بار نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں مکہ مکرمہ کے مقام اجیاد پر ،پہلے دو واقعات تو صحیح سند سے ثابت ہیں ،البتہ یہ آخری واقعہ سنداً کمزور ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے ۔(فتح الباری :۱؍۱۸،۱۹)چوتھی صورت براہِ راست اور بلا واسطہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہمکلامی کی ہے ،یہ شرف آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری کی حالت میں صرف ایک بار ،یعنی معراج کے وقت حاصل ہو اہے ،البتہ ایک مرتبہ خواب میں بھی آپﷺ اللہ تعالیٰ سے ہمکلا م ہوئے ہیں۔(الاتقان :۱؍۴۶)وحی کی پانچویں صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی صورت میں سامنے آئے بغیر آپﷺ کے قلبِ مبارک میں کوئی بات القا ء فرمادیتے تھے ،اسے اصطلاح میں ’’نفث فی الرّ وع‘‘ کہتے ہیں ۔(ایضاً۔معارف القرآن :۱؍۲۴،۲۳)

قرآن مجید دراصل کلام الہٰی ہے ،اس لئے ازل سے لوح محفوظ میں موجود ہے،قرآن کریم کا ارشاد ہے ،بل ھو قراٰنٌ مّجید فی لوحٍ مّحفوظٍ (بلکہ یہ قرآن مجید ہے ،لوح محفوظ میں) پھر لوح محفوظ سے اس کا نزول دو مرتبہ ہوا ہے ،ایک مرتبہ یہ پورے کا پورا آسمانِ دنیا کے بیتِ عزت میں نازل کردیا گیا تھا ،بیتِ عزت (جسے بیت المعمور بھی کہتے ہیں) کعبۃ اللہ کے محاذات میں آسمان پر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے ،یہ نزول لیلۃ القدر میں ہوا تھا ،پھر دوسری مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تھوڑا تھوڑا کرکے حسبِ ضرورت نازل کیا جاتا رہا ،یہاں تک کہ تئیس سال میں اس کی تکمیل ہوئی ،نزولِ قرآن کی یہ دو صورتیں خود قرآن کریم کے اندازِ بیان سے بھی واضح ہیں ،اس کے علاوہ نسائی ،بیہقی اور حاکم وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے متعدد روایتیں نقل کی ہیں ،جن کا خلاصہ یہی ہے کہ قرآن کریم کا پہلا نزول یکبارگی آسمانِ دنیا پر ہوا اور دوسرا نزول بتدریج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ۔ (الاتقان:۱؍۴۱۔معارف القرآن :۱؍۲۵)
قرآن کریم کوتدریجاً تدریجاًاس لئے بھی نازل کیا گیاتا کہ جو لوگ اسلام قبول کررہے ہیں اُن کے لئے رکاوٹ پیدا نہ ہو،کیونکہ اُن کے لیے یک لخت اپنے آبائی دین وقدیمی اطوارسے ہٹنا مشکل ہوسکتا تھا ،اس لیے قرآن کریم کو عرصہ تئیس سال میں نازل کیا گیا ،دوسری بات کہ اگر قرآن کریم یک لخت نازل کردیا جاتا تو اُس کے جملہ احکامات پر فوراً عمل پیرا ہونے کی ضرورت تھی ،جب کہ بہت سے ایسے احکامات ہیں جن پر عمل پیرا ہونے کا میدان مسلمانوں کو مکہ مکرمہ کے13 سالہ دورِ ابتلاء میں نہیں ملا ،بلکہ اُن احکامات پر مدینہ منورہ میں عمل پیرا ہوئے،اگر قرآن کریم یک لخت نازل کردیا جاتا تو کافی سارے مسئلے پیدا ہوسکتے تھے اس لئے اُس خدائے عالم الغیوب نے قرآن کریم کو تدریج بتدریج نازل کیا ہے ،اور آپ جانتے ہیں کہ دیگر سماوی کتب یکبار نازل کی گئی ،اُن سے امتیاز پید اکرنے کے لیے بھی ضرورت تھی کہ قرآن کریم کو یک بار گی میں نازل نہ کیا جائے ۔
سورۃ القیٰمۃ میں ارشاد ربانی موجود ہے کہ :لا تحرّک بہٖ لسانک لتعجل بہٖ * انّ علینا جمعہ ٗ وقراٰنہٗ (آیت نمبر:۱۷۔۱۶) (اے پیغمبر!) تم اس قرآن کر جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو ہلایا نہ کرو ۔یقین رکھو کہ اس کو یاد کرانا (یعنی جمع کرانا…ع،م،معاویہ )اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے ۔
آیت ھٰذا کی تفسیر میں کتابی حوالہ جات سے کنارہ کشی اختیارکرتے ہوئے ہم خلاصہ درج کیے دیتے ہیں ،جیسا کہ لمحہ قبل آپ نے پڑھا کہ قرآن کریم تدریج بتدریج نازل ہوا ،تو حیاتِ نبویﷺمیں قرآن کریم کو جمع نہیں کیا جاسکتا تھا اس کی بین وجہ یہ ہے کہ نزول قرآن کا سلسلہ جاری تھا ،اس لیے اُس وقت جمع نا ممکن تھا ، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحبہٖ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ بلا فصل سید ناامام ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین سیدنا امام عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ جنگ یمامہ میں کم وبیش 1200 کے لگ بھگ حفاظ قرآن شہید ہوچکے ہیں اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو خدشہ ہے کہ قرآن کریم ضائع ہوسکتا ہے اس لیے آپ قرآن کریم کو کتابی شکل میں جمع فرمائیں ،خلیفہ بلا فصل سیدنا امام صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو کام نبی کریم ﷺ نے نہیں کیا میں وہ کام کیسے کرسکتا ہوں ،سیدنا امام عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اُس وقت نزول قرآن کا سلسلہ جاری تھا جس کی وجہ سے جمع قرآن کا کام نہ کیا جاسکتا تھا لیکن اب وہ احتمال ختم ہوگیا ہے سلسلہ نزول وحی ختم ہوگیا ہے اب اس کام کی ضرورت ہے ،کچھ ایام تک خلیفہ بلا فصل سیدنا امام صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سوچ وبچار میں رہے ودیگر چندصحابہ کرامؓ سے مشاورت جاری رہی،اس کے بعد آپ نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ قرآن کریم کو جمع کریں ،خلیفہ بلا فصل سیدنا امام صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حکم سے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک عرصہ تک جدوجہد کی اور قرآن کریم کو جمع کردیا ،پھر خلیفہ ثالث سیدنا امام عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو لغتِ قریش پر مرتب کرواکر تمام بلاد اسلامیہ میں ارسال فرمایا دیا ،قرآن کریم کا لغتِ قریش پر مرتب ہونا بھی محفوظیت کی طرف ایک قدم تھا ،پھر خلیفہ رابع سیدنا امام علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے خوارج سے تنزیل قرآن پر جہاد کیا اس طرح جو وعدہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیغمبر اسلام ﷺ سے کیا تھا اُس کا ظہور آپﷺ کے جانشینوںؓ کے ہاتھوں ہوا ،اس وعدہ کی تکمیل خلفائے برحقؓ کے عہد خلافت میں ہونا ، ایک طرف وعدہ الہٰی کا سچا ہونا ہے اور دوسری طرف خلفائے اربعہؓ کی حقانیت کی دلیل ہے ۔
صحابہ کرامؓ کے جمع وتدوین کے بعد کیا قرآن کریم میں تحریف کے امکانات باقی ہیں اس بارے میں شیعہ محقق عالم علامہ طبرسی اپنی تفسیر ’’مجمع البیان ‘‘میں لکھتا ہے :’’ ان العلم بصحۃ نقل القراٰن کالعلم بالبلدان والحوادث الکبار والوقائع العظام والکتب المشھورۃ ترجمہ:یعنی قرآن اپنی اصلی حالت کے ساتھ گذشتہ نسلوں سے منتقل ہوتے ہوئے پچھلی نسلوں تک پہنچا ہے ،اس واقعہ کے علم کی نوعیت وہی ہے جو بڑے بڑے شہروں یا مشہور حوادث اور اہم تاریخی واقعات یا مشہورکتابوں کے علم کی ہے ‘‘۔ (مقدمہ روح المعانی ،ج:۱،صفحہ:۲۴،مکتبہ امدادیہ ملتان،پاکستان)
مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ شیعہ عالم علامہ طبرسی کی مندرجہ بالا تحریر نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :’’بلاشبہ واقعہ یہی ہے ،آج نیویارک اور لندن کے وجود میں شبہ یا شک جیسے جنون ہے یا جنگ عظیم کے حادثہ کا منکر پاگل سمجھا جائے گا ،یقیناًمتواتر اور متوارث ہونے میں بجنسہٖ یہی حال قرآن مجید کا بھی ہے ،یہ ایک واقعہ ہے کہ تیرہ ساڑھے تیرہ سو سال کی اس طویل مدت میں ایک لمحہ کے لئے نہ مسلمان ہی اس کتاب سے جدا ہوئے اور نہ یہ کتاب ہی مسلمانوں سے جدا ہوئی ،جیسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سپرد کرکے دنیا سے تشریف لے گئے ،پیغمبر ﷺ نے جن مسلمانوں کے سپرد اس کتاب کوکیا تھاان کی تعداد لاکھوں سے متجاوز تھی ،پھر ان ہی لوگوں نے اپنی بعد کی نسلوں تک اسے پہنچایا جن کی تعداد بلامبالغہ کروڑوں سے بھی آگے بڑھ چکی تھی اور یونہی طبقۃً بعد طبقۃٍ ،نسلاً بعد نسلٍ نوشتہ ومکتوبہ شکل میں یہ کتاب مسلمانوں میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہے ،پس سچی بات یہی ہے کہ قرآن تو قرآن ،ایسی کتابیں جیسے نحو میں ’’سیبویہ‘‘ کی یا اصول میں ’’المزنی‘‘ کی کتاب ہے ،بقول علامہ طبرسی کے :۔ ترجمہ:اگر سیبویہ اور مزنی کی کتابوں میں کوئی شخص اپنی طرف سے کسی چیز کو داخل کردے تو فوراً یہ بات پہچان لی جائے گی ۔(روح المعانی ۔ج:۱۔صفحہ:۲۴)تو پھر قرآن میں اضافہ یا کمی کے امکان کی بھلا کیا صورت ہے ،اسلامی ممالک کے کسی ابتدائی مکتب کا ایک بچہ بھی اس شخص کو ٹوک سکتا ہے جو فتحہ(زبر) کی جگہ کسی حرف کو رفع(پیش) کے ساتھ پڑھے گا ،جس کا جی چاہے اس کا تجربہ کرسکتا ہے ‘‘۔(تدوین قرآن :۵۷۔۵۶)

ہمارا خیال تھا کہ قرآن کریم کا مطالعہ کیسے کیا جائے اس سے قبل ’’ناسخ ومنسوخ کی بحث،اعجاز القرآن ،نظم القرآن ،لغات القرآن ،پیغام القرآن ،مضامین القرآن اور مستشرقین کے شکوک وشبہات کا ازالہ‘‘کے عنوان سے مختصر پیرائے قلمبند کریں گے، لیکن مضمون کی طوالت بڑھ گئی ، اس لیے آخر میں چند گزارشات اسی حوالہ سے کرتے ہیں کہ ہمیں بحیثیت مسلمان کس طرح قرآن حکیم کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔
اس ضمن میں امام انقلاب حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔’’ قرآن کریم کی تعلیم کا طریقہ خود قرآن شریف سے اور رسول اللہ صلعم اور اصحاب کرامؓ کے عمل سے بالکل واضح ہے ،اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ ہم کس قدر اس طریقہ تعلیم کے مطابق قرآن سے فائدہ اٹھاتے ہیں ،اب اگر وہی نتائج پیدا نہیں ہوتے تو کیا تعجب کی بات ہے ،اگر وہ نتائج آپ چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اسی طریقہ سے قرآن مجید سے فائدہ اٹھائیں ہماری نجات اسی طریقہ پر منحصر ہے ،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بالکل صحیح فرمایاہے :لایصلح اٰخر ھذہ الامۃ الا بما صلح اوّلھا ۔اس امت کے آخری حصہ کی اصلاح فقط اسی چیز سے ہوگی جس سے اول کی ہوئی ۔اب ہمیں اس پر غور کرنا ہے کہ اس صحیح طریقہ کے چھوڑنے سے قرآن کی اصلی تعلیم میں کون سے نقص پیدا ہوگئے ہیں ،تاکہ اس کی تلافی کرنے میں خاص طورسے سعی کی جائے ،اس سے یہ بھی ظاہر ہوگا کہ غلط طریقہ تعلیم سے ہم قرآن کے صحیح مطالب سے کس قدر دور ہوگئے ہیں….چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب ؒ جو علمائے ہند کے امام ہیں اپنی نادر کتاب ’’تفہیمات الہٰیہ ‘‘ میں اسی طبقے کی طرف اشارہ فرماتے ہیں :واقول لطلبۃ العلم ،ایھاالسفھا والمسمون انفسکم بالعلماء اشتغلتم بالعلوم الیونانین وبالصرف والنحو وظننتم ان ھذا ھو العلم ۔اور میں طالب علموں سے کہتا ہوں کہ اے بے وقوفو! جو خود کو علماء کا خطاب دیتے ہیں ، تم یونانیوں کے علوم میں مشغول ہو گئے ہو ،اور صرف اور نحو میں پھنس گئے ہو،اور تمہارا خیال یہ ہے کہ یہ حقیقی علم ہے ‘‘۔
اس کے بعد ایک موقعہ پر ارشاد فرماتے ہیں کہ :قرآن مجید سمجھنے کے جن مقدمات کی ضرورت ہے ،ان کو بقدر ضرورت سیکھا جائے ،نہ کہ ان کو مستقل درجہ دے دیا جائے ۔ان لا تشتغلوا بالعلوم آلالیۃ الا بانھاآلۃ لا بانھا امورٌ مستقلۃ ۔علوم آلیہ میں شغل محض آلہ ہونے کی حیثیت سے کیاجاوئے ،نہ کہ اس لحاظ سے کہ وہ مقصود بالذات ہیں‘‘۔(قرآن پاک کا مطالعہ کیسے کیا جائے .؟:۴۲۔۴۱)
عالم اسلام کے نامور محقق وصاحب تصانیف کثیرہ ،مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ لکھتے ہیں کہ:۔’’قرآن مجید سے ذاتی اور قوی تعلق ،ربط ومناسبت اور اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ اور اس کے ذریعہ سے ترقی اور قربِ الہٰی حاصل کرنے کے سلسلہ میں ایک تجربہ اور مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے کلام اللہ سے براہ راست اشتغال اور متن قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی جائے ، اس سے لذت وذوق حاصل کیا جائے اور اس کے معانی ومضامین میں تدبر سے کام لیاجائے ،اگر بقدر ضرورت عربی زبان کی استعداد اور اس کے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے تو براہ راست ،ورنہ کسی معتبر ترجمہ اور مختصر حاشیہ کے ذریعہ حتی الامکان انسانی تفہیم وتشریح کی مدد پر انحصاراورتفسیروں کی بار بار مراجعت کے بغیر قرآن مجید کی تلاوت اس کے سمجھنے اور اس کا لفط لینے کی کوشش کی جائے اور ایک عرصہ تک اسی پر اکتفاء کیا جائے اور توفیق خدا وندی اور اعانتِ الہٰی سے جو کچھ میسر آئے اس پر ہزار زبان سے شکر کیا جائے کہ ؂ کہ انچہ ساقئ ماریخت عین الطاف است
اس میں سوائے اضطراری موقعوں کے کہ کسی لفظ کی تحقیق ،کسی شبہ کے ازالہ اور کسی سبب نزول کی واقعیت کے بغیر کام نہ چلتا ہو،کتب تفسیر (عربی واردو)کی تفصیلی بحثوں ،مفسرین ومصنفین کی دقیقہ سنجیوں اور نکتہ آفرینیوں سے پرہیز کیا جائے کہ بعض اوقات قرآن مجید کے چشمہ صافی پر انسانی عقول وعلوم کا ایسا ہی سایہ پڑجاتا ہے ،جیسا کہ کسی صاف وشفاف چشمہ پر کنارے کے درختوں کے گھنے سایہ کا ،اور پھر اس میں لطافت واصلیت اور کلام الہٰی کی حلاوت ولذت باقی نہیں رہتی ،جو اس کی اصل جان ہے،بلکہ بعض اوقات یہ تجربہ ہوا ہے کہ پڑھنے والا کسی لائق وذہین انسان کی تفہیم سے (جس سے وہ پہلے ہی متاثرتھا) اس سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوجاتا ہے جتنا کہ اصل کلام سے متاثر ہونا چاہیے ،اور اس کے ذہن کے کسی روزن سے یہ بات اس کے شعور میں داخل ہوجاتی ہے کہ اس کلام کی عظمت وجلال اور اس کا حسن وجمال شاید اس تفہیم کے بغیر سامنے نہ آتا اور کم سے کم یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ انسان کلام الہٰی کو اس کے کسی خاص مفسر یا شارح یا ترجمان کی عینک ہی سے دیکھنے کا عادی بن جاتا ہے ‘‘۔(مطالعہ قرآن کے اصول ومبادی:۱۹۳۔۱۹۲)
عظمت کلام الہٰی وتقدس کلام باری تعالیٰ کو سامنے رکھتے ہوئے اور قرآن مجیدکو کھولنے سے قبل ہاتھوں میں لے کر ایک بار یہ سوچ لیجئے کہ آپ کے ہاتھوں میں جو کتاب ہے یہ کسی کی تصنیف نہیں،کسی بشر ومخلوق میں سے کسی ذہین کے ذہن رسا کا کمال نہیں ،کسی ادیب وشاعر کی فکر رساں نہیں ،کسی مفکر کی تخلیق وکسی ماہر نفسیات کی انسانی نفسیات پر تحقیق نہیں،بلکہ یہ خالق کائنات ،مالک السمٰوات والارض کا کلام پاک ہے جس طرح اللہ تعالیٰ قدیم ہیں یعنی ازل سے ہیں اسی طرح کلام الہٰی بھی قدیم وازلی ہوا ،اور جس طرح اللہ تعالیٰ ہر عیب ونقص سے پاک ہیں اسی طرح ان کا کلام بھی ہرعیب ونقص سے پاک ہے ، تلاوت کلام پاک سے قبل بس یہ ذہن میں رہے کہ آپ قرآن پاک میں درج الفاظ نہیں اپنے اللہ تبارک وتعالیٰ کی باتیں (کلام) پڑھ رہے ہیں ،اور جب قرآن کریم میں آئے ’’یٰٓاایّھاالّذین اٰمنوا‘‘ توآپ کی مسرت میں بے پناہ اضافہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کہا ہے کہ: اے میری توحید اور میرے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دل سے تصدیق کرنے والے بندے! اللہ اللہ ! کیا مقام ہے،کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ،اپنے غلام کو اُس کی ایمانی صفات سے بلائیں اور جب غلام کو بلائیں بھی تو ’’اے بندے ‘‘نہیں بلکہ اے میرے بندے کہہ کر بلائیں ،اُس مالک کی نافرمانی ..چہ معنی دارد.!
مشہور مورخ و سیرۃ نگار علامہ شبلی نعمانی ؒ کے بقول ؂

تم کسی قوم کی تاریخ اٹھا کر تو دیکھو 
دو ہی باتیں ہیں کہ جن پر ہے ترقی کا مدار 
یاکوئی جذبہ دینی تھا کہ جس نے دم میں
کردیا ذرہ افسردہ کو ہم رنگ شرار 
ہے یہ وہ قوت پُر زور کہ جس کی ٹکڑ 
سنگ خارا کو بنادیتی ہے اک مشت غبار
جس کی زد کھا کے لرز جاتی ہے بنیاد زمین
اس سے ٹکڑا کے بکھر جاتے ہیں اوراق دیار 
یہ اسی کا تھا کرشمہ کہ عرب کے بچے 
کھیلنے جاتے تھے ایوان گہ کسریٰ میں شکار
وہ الٹ دیتے تھے دنیا کا مرقع دم میں
جن کے ہاتھوں میں رہا کرتی تھی اونٹوں کی مہار 
اس کی برکت تھی کہ صحرائے حجازی کی سموم 
بن گئی دہر میں جاکر چمن آرائے بہار
یہ اسی کا تھا کرشمہ کہ عرب کے رہزن 
فاش کرنے لگے جبریل امیں کے اسرار 
یاکوئی جذبہ ملک ووطن تھا جس نے 
کردئیے دم میں قوائے علمی بیدار 
ہے اسی مٹی سے سرمستی احرار وطن 
ہے اسی نشہ سے یہ گرمئ ہنگامہ کار

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کا حامی وناصر ہو،تمام مسلمانوں کو قرآن حکیم کو پڑھنے ،سمجھنے اور سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔

تبصرے
Loading...