قرآن کریم کے ساتھ ہمارا تعلق

مولانا مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

قرآن ایک مسلمان کے لئے سرمایہ حیات اور زندگی گزارنے کا اصل الاصول اور مسلمان کی حیات کا منشور اور دستور ہے، قرآن سے لو لگانا اور نہ صرف اس کی تلاوت بلکہ عربی کی جانکاری کے ذریعے اس کے معافی اور مطالب کا سمجھنا بھی ایک مسلمان کے لئے بحیثیت ایک مسلمان کے نہائت ضروری ہے، لیکن آج کے اس دور میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کون ہم میں سے ایسا ہے جس کا قرآن کریم کے ساتھ تعلق مضبوط ہے؟ تلاوت کتنے لوگ کرتے ہیں؟ حالانکہ صرف قرآن تلاوت کی کتاب نہیں ہے، یہ تو اللہ کافضل ہے تلاوت بھی باعث ثواب  اور قرب خداوندی کا ذریعہ ہے، لیکن اصل تو یہی ہے کہ قرآن کریم ہمارا یہ دستور حیات ہے، یہ ہماری زندگی کے نشیب و فراز میں ہماری رہنمائی اور رہبری اور سرپرستی کا کام انجامن دیتا ہے، زندگی کے ہر موڑ اور گوشۂ حیات کی ہر سمت پر ہمارےلئے ہادی و دلیل ہے؟ اس یقین کے ساتھ قرآن کریم سے تعلق کو استوار کرنا  ہے، ایک مسلمان کی انفرادی زندگی میں صبح  اٹھنے سے لے کر رات کو سونے تک اس کے ہر عمل کے تعلق سے اور اجتماعی زندگی میں گھر اور افراد خاندان کے آپسی نبھاؤ اور بناؤ اور خاندانی اختلافات کے حل سے لے کر حکومت و سیاست اور عالمی منظر نامہ پر قیادت و سیادت، بلکہ ہماری اس زندگی سے ہٹ کر اس دنیا کو درپیش ہر حالت اور خطرہ کا حل قرآن کریم میں موجود ہے، بلکہ بعد کی زندگی کے بناؤ اور سدھار کا سامان بھی اسی قرآن کریم میںموجود ہے، اس کے معنی اور مطالب کے غواصی کے ذریعہ نہ صرف یہ کہ انسان اپنے زندگی کے مسائل اور مشاکل کا حل تلاش کرسکتا ہے، بلکہ ساری دنیا جہاں کو درپیش تمام مصائب اور خطرات اور احوال و مشکلات کا کامل و مکمل حل بھی قرآن کریم جیسے معجزہ اور رہنما کتاب میں موجو د ہے، حالات میں مایوسی کی ضرورت نہیں بلکہ اس وقت دو سطح پر کام کرنا ہے ایک تو ہر شخص کو بذات خود احادیث اور تفسیر آیات قرآنیہ کی روشنی اس قرآن کو اپنی زندگی کا اوڑھنابچھونا اور دستور حیات اور اپنی ہر انفرادی ، اجتماعی، سماجی، معاشی  و معاشرتی اور حیاتی زندگی کا حل اور علاج بنانا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس قرآنی علم کو عام و تام کرنے اور اس کو ہر مسلمان کی زندگی کا سرمایۂ حیات اور زندگی کا لازمہ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

قرآن کریم جو کہ دستور حیات ہے اس کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت یہ ہوگئی ہے کہ ہم نے اس کو طاقوں میں سجا کر رکھ دیا ہے بطور تعویذ استعمال کیاجاتا ہے، شادی کے موقع سے لڑکی کو بطور جہیز بس رسماً دیا جاتا ہے، ہمیں قرآن کے اس قانون پر کوئی اعتماد نہیں، ہم قرآن کو بطور دستور حیات نہیں پڑھتے، قانون پر تو دوسروں کے چلتے ہیں بلکہ اس کو تو تبرک اوربیماریوں کے دفعیہ اور قسم کی تکمیل کا ذریعہ اور بس متبرک کتاب گردانتے ہیں۔ جس کی وجہ سےاسے نہایت شان و شوکت کے ساتھ نہایت آراستہ و پیراستہ ڈبوں یا جزدان میں بند کرکے گھر کی برکت کے واسطہ رکھ دیا جاتا ہے ، قرآن کےساتھ ہم  نے یہ رویہ کررکھا ہے، یہی ہماری ناکامی و نامرادی اورخست و ذلت کانتیجہ ہے۔

اسی سلسلے میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندی کی وہ گفتگو جو انہوں نے مالٹا کی اسیری سے واپسی کے بعد کہی تھی نہایت رہنما اور نشان راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعد ایک رات بعد عشاء دارالعلوم میں شیخ الہند تشریف فرما تھے، علماء کا بڑا مجمع سامنے تھا،اس وقت فرمایاکہ: ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں، یہ الفاظ سن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہوگیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے اتنے سالوں میں علماء کو درس دینے کے بعد آخر عمر میں جو سبق سیکھے ہیں وہ کیا ہیں؟ فرمایا کہ:

 ’’میں  نے جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں؟ تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے، ایک ان کا قرآن کوچھوڑ دینا، دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی، اس لئے میں وہیں سے یہ عزم کرکے آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً  اور معنیً عام کیا جائے، بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی میںقائم کئے جائیں، بڑوں کو عوامی درس کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیم پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ وجدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔‘‘

نباض امت نے ملت مرحومہ کے مرض کی جو تشخیص اور تجویز فرمائی تھی باقی ایام زندگی میں ضعف و علالت اور ہجوم و مشاغل کے باوجود اس کے لئے سعی فرمائی، بذات خود درس قرآن شروع کرایا، جس میں تمام علماء، شہر اورحضرت مولانا حسین احمد مدنی اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی جیسےعلماء بھی شریک ہوتے تھے اور عوام بھی۔ حضرت شیخ الہند نے قرآن کے مطالب اور معانی کو عام کرنے کے لئے ترجمہ شیخ الہند تحریر فرمایا، جس کے معنی اور مطالب کی تکمیل حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی نے بشکل’تفسیر عثمانی‘ کی۔

قرآن کریم کے ساتھ تعلق صرف تلاوت کا نہیں ہے بلکہ اس کی آیات اور معانی و مطالب پر غور وخوض کرنے کے ذریعے اپنی زندگی اور حیات مستعار میں اپنانے کی ضرورت ہے۔

ہماری دنیا میںذلت اور خست کی اہم وجہ یہ ہےکہ ہم نے قرآن کریم کو پس پشت ڈال کر اختلافات اور فرقہ بندیوں اور ٹکڑیوں کو گلے لگایا، جب اللہ عزو جل نے قرآن کریم میں اہل کتاب سے توحید اور اللہ کی یکتائی کی بنیاد پر یکجا ہونے کی بات کہی ہے تو ہم کیوں کہ شریعت کے بہت سارے امور، قرآن و حدیث اور اسلام کی پانچ بنیادوں پر اتفاق کے ساتھ یکجا نہیں ہوسکتے۔

قرآن کریم ایک دستور حیات ہے جسے ہرمسلمان کو اپنی زندگی میں اپنانا ہے، یہ انسانی زندگی کے  نشیب و فراز اور زندگی کے تمام مشکلات اور مسائل کا حل بیان کرتا ہے، اس کا پیغام نہایت طاقتور اور بے پناہ قوت کا حامل ہے۔ جس کو اللہ عزو جل نے فرمایا:’’اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تم اسے دیکھتے کہ  وہ اللہ کے رعب سے جھکا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔‘‘(الحشر:۲۱)

یعنی یہ قرآن کریم صرف کتاب تلاوت نہیں بلکہ یہ ایک پیغام کی حامل کتاب  ہے اس میں نہایت قوت اور طاقت ہے اس کے پیغامات اور احکامات پہاڑوں اور زمینوں کے حوالہ کئے جاتے، اس کی اہمیت اور قوت کی وجہ سے یہ پہاڑ عدم تحمل کی  وجہ سے جھک جاتے ہیں اور ایک جگہ اس مفہوم کو یوں فرمایا:

’’ ہم نے  یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے  اس کے اٹھانے سے انکار کیا، اور اس سےڈر گئے، اورانسان نے اس کا بوجھ اٹھالیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ظالم ، بڑا نادان ہے۔‘‘ (الاحزاب:۷۲)

اس آیت کریمہ کی روشنی میں احکام خداوندی جس کوقرآن اور احادیث نبویہ مشتمل ہیں ، اللہ عزو جل نے ان احکام کو آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو اس کے تحمل اور اس کی بجا آوری سے انکار کیا اور سہم گئے اور اولاد آدم نے ان احکامات اور قرآن وحدیث کو اپنی عملی زندگی میں اختیار کرنے کا وعدہ کیا: لیکن اس نے اس کی کماحقہ تکمیل نہیں کی جس کی وجہ سے اس کو ظالم اور جاہل کہا گیا ، وہ احکام خداوندی اور امور شریعت ، قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے سے پیچھے رہ گیا جو اس کو دونوں جہانوں میں کامیابی و کامرانی کی منزل سے ہم کنار کرسکتے تھے۔

اور ایک جگہ فرمایا کہ جو قرآن کو ترک کرتے ہیں، اس کو پس پشت ڈال کراپنی زندگی گزارتے ہیں ، اس کے آیات و احکام اور معانی و مطالب پر غور وخوض کرکے اس کو زندگی میں اپنانے کی کوشش نہیں کرتے ان کے تعلق سے قرآن کریم کہتا ہے:

’’ یعنی جو شخص قرآن کریم اور پیغمبر قرآن سے اعراض کرتا ہے ، اس کی جانب دھیان اور توجہ نہیں دیتا، قرآن کریم کو پس پشت ڈالتا ہے، اس کے تعلق سے فرمایا،اس کو اس زندگی میں پریشان حال اور سرگرداں اور حیران کردیتے ہیں اور روز قیامت میں بھی وہ اپنی بصیرت اور اپنی عقل و دانش سے محروم ہوگا، یا حقیقت میں وہ آنکھ سے اور بصارت سے محروم کردیاجائے گا، سوائے جہنم کے اس کو کچھ نظر نہیں آئے گا، اس لئے کہ اس نے قرآن اور انبیاءکی تعلیمات کو دنیا میں ان سنی اور دیکھی ان دیکھی کردی تو اس کو روز قیامت آنکھوں کی بصارت اور بصیرت سے محروم کردیا جائے گا وہ اپنے اس بصارت اوربصیرت کے کھو جانے پر سوال کرے گا کہ اس کے ساتھ یہ کیوں ہوا تو اللہ عزو جل فرمائیں گے کہ تم نے جس طرح دنیا میں قرآن اور انبیاء کے پیغام کو پس پشت ڈال دیا، اس سے اعراض کیا اور ا ن کو بھول گئے ہم نے تم کو اسی طرح بھلا دیا، تم کو اس بصیرت اور بصارت سے محروم کردیا۔ (سورہ طہٰ:۲۴ – ۲۵ – ۲۶ )

یعنی ترک قرآن دنیا و آخرت دونوں جہاں میں ناکامی خست و ذلت کے باعث ہیں اس پر عمل پیرا ہونا اور قرآن کریم کو بدستور حیات بنانا اور اس کے پیغام کو عام کرنے  اور اس کو سیکھنے سمجھنے اور اس کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنانے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے دونوں جہاں میں چین و سکون اور راحت و آرام اور ہردو جہاں کی کامیابی و کامرانی نصیب ہوسکتی ہے ورنہ یہ جہاں بھی پریشانیوں کی آماجگاہ اور روز قیامت بھی سوائے افسوس، ناکامی اور نامرادی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

اسی کو نبی کریمﷺ نے فرمایا: میں نے تمہارے بیچ دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم ان دونوں چیزوں کو تھامے اور پکڑے رہوگے اس وقت تک گمراہ نہیں ہوسکتے، اللہ کی کتاب اور سنت رسول۔

یعنی جب تک قرآن کریم اور سنت رسول کی تعلیمات کو مسلمان اپنائے رہے گا تو پھر اس کے گم کردہ راہ ہونے اور اس کے ذلت و خست میں  پڑنے کا کوئی امکان نہیں، وہ نہایت سیدھی اور سچی راہ پر چل کر جس میں کو ئی اندھیر نہیں راہ عالم بقا ہوجائے گا، اسے دنیا و آخرت دونوں کی کامرانی اور کامیابی اور سرخ روئی حاصل ہوگی۔

خلاصہ یہ ہے کہ آج کے  اس دور میں جب کہ ہر طرف سے مسلمانوں پر گھیرا تنگ کیا جارہا ہے،مسلمانوں کو مٹانے اور ان کو زیر کرنے کی ہر تگ ودو جاری ہے، مسلمانوں پر دہشت گردی اور اسلام کے پاک چہرے پر کیچڑ اچھالنے اور اسلامی تعلیمات ی شبیہ خراب کرنے کی ہر طرف سے کوشش ہورہی ہے، ہمیں ایسے وقت میں قرآن کریم کو رہنما اور راہبر اور اس کی تعلیمات اور احکامات کو سمجھنے اور عام کرنے اور قرآن کریم کے اصول و ضوابط کی روشنی میں اور احادیث نبویہ کی توضیح و تشریح کے ضمن میں زندگی کے ہر مسئلے کے حل کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، یہ تگ و دو نہ صرف انسان کو اس دنیا میں سرخ روئی اور کامیابی سے سرفراز کرے گی بلکہ وہ آخرت میں بھی کامیابی اور کامرانی سے سرفراز ہو جائے گا۔

اس کے لئے عملی زندگی میں ہمیں قرآن کو سیکھنے اور عربی زبان کی جانکاری اور براہ راست قرآن و حدیث سے استفادہ اور ناظرہ و قرآن کے مکاتب اور مدارس اور قرآن و تفسیری حلقوں سے استفادہ اور تجوید قرآن و تصیح قرآن کے حلقوں سے استفادہ کی ضرورت ہے اورقرآن کے ساتھ اپنے لگاؤ اورتعلق کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے
Loading...