سورہ الحمد اور دیگر چند آیات نے اللہ سے کلام کی

خلاصہ: بعض آیات کے بارے میں روایت ہے کہ جب اللہ نے ان کو نازل کرنا چاہا تو انہوں نے اللہ سے کلام کی، اس مضمون میں وضاحت سے اس بات کو بیان کیا جارہا ہے۔

سورہ الحمد اور دیگر چند آیات نے اللہ سے کلام کی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

وعن جعفر بن محمد ، عن أبيه ، عن آبائه (علیهم السلام): عن النبي (صلّی اللہ علیه وآله)  قال: لما أراد الله عزوجل أن ينزل فاتحة الكتاب وآية الكرسي ، وشهد الله ، وقل اللهم مالك الملك إلى قوله بغير حساب ، تعلقن بالعرش ليس بينهن وبين الله حجاب ، فقلن يا رب تهبطنا إلى دار الذنوب ، وإلى من يعصيك ، ونحن متعلقات بالطهور والقدس؟ فقال سبحانه : وعزتي وجلالي ما من عبد قرأ كن في دبر كل صلاة إلا أسكنته حظيرة القدس ، على ما كان فيه ، وإلا نظرت إليه بعيني المكنونة في كل يوم سبعين نظرة ، وإلا قضيت له في كل يوم سبعين حاجة أدناها المغفرة ، وإلا أعذته من كل عدو ، ونصرته عليه ، ولا يمنعه من دخول الجنة إلا الموت”.

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:
“جب اللہ عزّوجلّ نے فاتحۃ الکتاب اور آیۃ الکرسی اور شھداللہ اور قل اللهم مالك الملك کو بغير حساب تک نازل کرنا چاہا وہ عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی تھیں، ان کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں تھا، تو انہوں نے کہا: اے پروردگار! تو ہمیں گناہوں کے گھر کی طرف اور ان کی طرف جو تیری نافرمانی کرتے ہیں، اتار رہا ہے جبکہ ہم طہور اور قدس کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں؟ تو (اللہ) سبحانہ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم! جو بندہ بھی تم (سب) کو ہر نماز کے بعد پڑھے میں اسے حظیرۃ القدس میں ٹھہراؤں گا جیسا بھی ہو، ورنہ اس کی طرف اپنی مکنون آنکھ سے روزانہ ستّر بار دیکھوں گا، ورنہ روزانہ اس کی ستّر حاجات پوری کروں گا جن میں سے کم سے کم مغفرت ہے، ورنہ اسے ہر دشمن سے پناہ دوں گا اور اس (دشمن) کے مقابلہ میں اس کی مدد کروں گا، اور اسے جنّت میں داخل ہونے سے موت کے علاوہ کوئی چیز نہیں روکے گی”۔ [بحارالانوار، ج۹۲، ص۲۶۱]
اس روایت سے متعلق چند نکات (جو حجت الاسلام استاد محرّر کے بیانات سے ماخوذ اور فارسی سے اردو ترجمہ ہے):
۱۔ مذکورہ آیات، اللہ کی صفات اور تمجید کے لحاظ سے سب سے گہری آیات ہیں۔
۲۔ حجاب نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ آیات، معرفتِ توحید اور اللہ کے جمال و جلال کو مکمل طور پر دکھاتی ہیں۔
۳۔ طہور اور قدس سے مراد یہ ہے کہ یہ آیات اللہ کی تنزیہ اور تقدیس کے اعلی ترین درجہ کی حامل ہیں۔
۴۔ نمازوں سے مراد سب نمازیں ہیں۔
۵۔ حظیرۃ القدس سے مراد، جنّت کا مرکزی حصہ ہے۔
۶۔ حظیرۃ القدس اور متعلقات بالطهور والقدس کا باہمی تعلّق اسی طرح ہے جیسے اسمائے حسنیٰ اور مخلوقات کا آپس میں تعلّق ہے۔
۷۔ ” على ما كان فيہ”، “(وہ شخص) جیسا بھی ہو” سے مراد یہ ہے کہ ان آیات کو پڑھنے والا جن کمالات اور نیکیوں، نواقص اور گناہوں کے ساتھ بھی ہوگا، پاک کردیا جائے گا۔
۸۔ اللہ کی عینِ مکنونہ سے مراد اللہ کا اخص (بہت خاص) لطف و کرم ہے، جو عام اور خاص لطف و کرم کے علاوہ ہے۔
۹۔ ستّر بار دیکھنے سے مراد، اخص لطف و کرم کا جاری رہنا ہے۔

……………….
حوالہ:
[بحارالانوار، علامہ مجلسی، مؤسسةالوفاء]

تبصرے
Loading...