حضرت علی(ع)کی خلافت ظاہری سے پہلے دین کی حالت

حضرت علی(ع) کے نزدیک ملک وبادشاہی جو حق کو قائم کرنے اورباطل کو زائل کرنے کے لئے نہ ہوتو وہ دنیاکی پست ترین چیزوں سے بھی زیادہ پست تھی، یہی سبب ہے حضرت علی(ع)کے نزدیک اس حکومت کی قیمت جو عدل وانصاف قائم کرنے میں ناکام ہو ان کی پھٹی ہوئی جوتیوں سے بھی کمتر تھی، جس میں سماج کے ستم زدہ اور مظلوموں کو انصاف نہ مل سکے، اسی تناظر میں مندرجہ ذیل مختصر توشتہ خود امیرالمؤمنین کی زبانی ملاحظہ فرمائیں کہ آپ کی خلافت ظاہری سے پہلے دین کی حالت کیا تھی۔

حضرت علی(ع)کی خلافت ظاہری سے پہلے دین کی حالت

نہج البلاغہ میں موجود امیر المؤمنین(ع) کی زبانی یہ بیان ملاحظہ فرمائیں اور اندازہ لگائیں کہ رحلت پیغمبر اسلام(ص) کے بعد اور آپ کی خلافت ظاہرہ سے پہلے دین کی حالت کیا اور کیسی ہوگئی تھی:
مولا امیرالمؤمنین(ع) نے جب مالک اشتر کو مصر کی گورنری کے لیے بھیجا تو مالک(رضوان الله عليه)کو لکھے مشہور زمانہ خط میں ارشاد فرمایا: فَإِنَّ هَذَا الدِّينَ قَدْ كَانَ أَسِيراً فِي أَيْدِي الأَشْرَارِ – يُعْمَلُ فِيه بِالْهَوَى وتُطْلَبُ بِه الدُّنْيَا؛یہ دین بہت دنوں اشرار کے ہاتھوں می قیدی رہ چکا ہے جہاں خواہشات کی بنیاد پر کام ہوتا تھا اور مقصد صرف دنیا طلبی تھا۔[نہج البلاغہ ج۱ص۴۲۵]
اسی طرح  امیرالمؤمنین(ع) کا یہ بیان بھی ملاحظہ فرمئیں: إِذَا قَبَضَ اللَّه رَسُولَه  صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رَجَعَ قَوْمٌ عَلَى الأَعْقَابِ – وغَالَتْهُمُ السُّبُلُ واتَّكَلُوا عَلَى الْوَلَائِجِ  – ووَصَلُوا غَيْرَ الرَّحِمِ – وهَجَرُوا السَّبَبَ الَّذِي أُمِرُوا بِمَوَدَّتِه – ونَقَلُوا الْبِنَاءَ عَنْ رَصِّ أَسَاسِه فَبَنَوْه فِي غَيْرِ مَوْضِعِه – مَعَادِنُ كُلِّ خَطِيئَةٍ وأَبْوَابُ كُلِّ ضَارِبٍ فِي غَمْرَةٍ  – قَدْ مَارُوا  فِي الْحَيْرَةِ وذَهَلُوا فِي السَّكْرَةِ – عَلَى سُنَّةٍ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ – مِنْ مُنْقَطِعٍ إِلَى الدُّنْيَا رَاكِنٍ – أَوْ مُفَارِقٍ لِلدِّينِ مُبَايِنٍ؛ جب پروردگار نے پیغمبر اکرم (ص) کو اپنے پاس بلا لیا تو ایک قو م الٹے پاؤں پلٹ گئی اوراسے مختلف راستوں نے تباہ کردیا ۔انہوں نے مہمل عقائد کا سہارا لیا اور غیر قرابت دار سے تعلقات پیدا کئے اور اس سبب کو نظر انداز کردیا جس سے مودت کا حکم دیا گیاتھا۔عمارت کو جڑ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ پر قائم کردیا جو ہر غلطی کا معدن و مخزن اور ہرگمراہی کا دروازہ تھے۔حیرت میں سرگرداں اور آل فرعو ن کی طرح نشہ میں غافل تھے ان میں کوئی دنیا کی طرف مکمل کٹ کرآگیاتھا اور کوئی دین سے مستقل طریقہ پرالگ ہوگیا تھا۔[نہج البلاغہ ج۱ص۲۰۹]
صحیح بخاری کے کتاب الفتن میں اسی صورت حال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب رسول اکرم (ص) حوض کوثر پربعض اصحاب کا حشر دیکھ کر کہ انہیں ہنکا یا جا رہا ہے ۔فریاد کریں گے کہ خدایا یہ میرے اصحاب ہیں توارشاد ہوگا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کی ہیں اور کس طرح دین خداسے منحرف ہوئے ہیں۔۔۔۔
اب فیصلہ آپ کا ہے کہ آپ کس راستے کو چنتے ہیں؛آج تحقیقات کے سارے ذرائع انٹرنیٹ کی شکل میں موجود ہیں ایک ذرا سرچ کریں اور نتیجے تک پہچیں اور صحیح مسلک اور درست راستے کا انتخاب کریں۔
 نهج البلاغة – ط دار الكتاب اللبناني: السيد الشريف الرضي  جلد:1صفحه: 435
 نهج البلاغة – ط دار الكتاب اللبناني: السيد الشريف الرضي  جلد:1صفحه: 209

تبصرے
Loading...