ساری حمد اللہ کے لئے (خطبہ فدکیہ کی تشریح)

خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اپنے خطبہ فدکیہ کا آغاز “الحمدللہ” سے کیا ہے، اس مضمون میں لفظ حمد اور مدح کی وضاحت کی گئی ہے اور قرآنی دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ ساری حمد و تعریف اللہ کے لئے ہے۔

ساری حمد اللہ کے لئے (خطبہ فدکیہ کی تشریح)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ دوسرا مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اس خطبہ کی ابتداء جو “الحمدللہ” سے کی ہے، اس لفظ “الحمدللہ” کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بیان کیا جارہا ہے کہ کیسے ساری حمد اللہ کے لئے ہے۔
حضرت سیدہ کونین (سلام اللہ علیہا) جب اپنے بابا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں عزت و عظمت کے ساتھ داخل ہوئیں تو گریہ کرنے لگیں، لوگ بھی آپؑ کے گریہ کی وجہ سے رونے لگے، جب لوگ خاموش ہوگئے تو آپؑ نے خطبہ شروع کرتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات بھیجی، یہ سن کر لوگ دوبارہ رونے لگ گئے، جب انہوں نے خاموشی اختیار کی تو آپؑ نے دوبارہ اپنا خطبہ آغاز کیا، راوی کا کہنا ہے: “فَقالَتْ: اَلْحَمْدُلِلّهِ عَلی ما أنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ”…[1]، “آپؑ نے فرمایا: ساری حمد (تعریف) اللہ کے لئے ہے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں اور اس کا شکر ہے اس (اچھی سمجھ) پر جو اس نے الہام کی (دل میں ڈالی) “…۔
تشریح: حمد کے معنی “تعریف کرنا” ہے[2] جو ذم کے متضاد ہے[3]۔ حمد کے بارے میں چند نکات پر گفتگو کی جارہی ہے:
“الحمدللہ” قرآن کریم میں: “الحمدللہ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے سالوں کی تعداد کے برابر ۲۳ بار قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے اور پانچ سورتیں “الحمدللہ” سے شروع ہوتی ہیں۔ ویسے لفظ حمد، مشتقات کو شمار کیے بغیر ۴۰بار قرآن کریم میں آیا ہے، جن میں سے ۱۴ بار “سبح” کی مشتقات کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔[4] قرآن مجید میں لفظ “حمد” کی مشتقات اسم فاعل، اسم مفعول اور دیگر صرفی صورتوں میں بیان ہوا ہے۔[5] قرآن کریم نے حمد کو دنیا و آخرت میں[6] اور آسمانوں اور زمین میں[7] خدا ہی سے مختص جانا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ نے اپنی حمد خود کی ہے، نیز دیگر حمد کرنے والے انبیاء، ملائکہ، مومنین ہیں، بلکہ ہر چیز حمد کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتی ہے[8]، مگر قرآن کریم نے بعض عظیم شخصیات کا حمد کرنا بتایا ہے اور بعض کی حمد کو تسبیح کے ساتھ ذکر کیا ہے، علامہ طباطبائی ؒ کے قول کے مطابق جب اللہ تعالی نے حمد کرنے کی نسبت مخلوقات سے دی ہے تو اس کے ساتھ تسبیح کا بھی تذکرہ کیا ہے اور جب حمد کو اپنی طرف سے یا انبیاء (علیہم السلام) کی طرف سے بیان کیا ہے تو حمد کو اکیلے ذکر کیا ہے۔[9]
حمد اور مدح کا فرق: حمد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ “هو الثناء على الجميل الاختياري و المدح أعم من”[10]، حمد وہ ثناء ہے جو اچھے اور خوبصورت عمل کی وجہ سے کی جاتی ہے اور عمل کرنے والے نے اپنے اختیار سے وہ عمل کیا ہو، مگر مدح، اِس ثناء (اچھا کام اور بااختیار) کو بھی شامل ہوتی ہے اور غیراختیاری عمل کو بھی۔ مثلاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کی سخاوت کی وجہ سے اس کی حمد اور مدح کی (کیونکہ سخاوت اچھا اور اختیاری عمل ہے) لیکن خوشبودار پھول کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ میں نے اس کی حمد کی، بلکہ صرف کہا جاسکتا ہے کہ میں نے اس کی مدح کی (کیونکہ خوشبودار ہونا، پھول کے اختیار میں نہیں ہے)۔
ساری حمد کا اللہ کے لئے ہونا، فعل کے لحاظ سے: حمد پر جو “ال” لائی گئی ہے، یا استغراق اور عمومیت کے لئے ہے یا ہوسکتا ہے کہ لامِ جنس ہو، اور ان میں سے کوئی بھی ہو اس کا نتیجہ ایک ہی ہے، یعنی ساری حمد اللہ کے لئے ہے۔ ساری حمد، اللہ کے لئے اس وجہ سے ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: “ذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ‏”[11]، “وہی تمہارا پروردگار ہے جو ہر شے کا خالق ہے”، لہذا جو مخلوق بھی شی اور چیز کہلاتی ہے وہ اللہ کی مخلوق ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا ہے: “الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْ‏ءٍ خَلَقَهُ”[12]، “اس نے ہر چیز کو حُسن کے ساتھ بنایا ہے” بنابریں جو چیز بھی مخلوق ہے، اللہ کی مخلوق ہونے کے لحاظ سے حَسَن اور خوبصورت ہے۔ حَسَن ہونا اور خوبصورت ہونا، خلقت پر موقوف ہے، جیسا کہ خلقت بھی حَسَن ہونے پر موقوف ہے، نتیجہ یہ ملتا ہے کہ سب مخلوقات اللہ کے احسان سے حَسَن ہیں اور اللہ کے خوبصورت خلق کرنے کی وجہ سے جمیل اور خوبصورت ہیں اور نیز جو بھی حَسَن اور خوبصورت ہے اللہ کی مخلوق اور اللہ سے منسوب ہے۔ حمد کی وضاحت میں بیان ہوا کہ عمل اچھا ہو اور عامل نے اختیار کے ساتھ اسے انجام دیا ہو تو مذکورہ آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ کا ہر عمل اچھا اور خوبصورت ہے۔ حمد کی دوسری شرط “اختیار” ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے: “هُوَ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ”[13] ، “وہی اللہ ہے جو یکتا (اور سب پر) غالب ہے” نیز فرمایا: “وَ عَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ‏”[14]، “اس دن سارے چہرے خدائے حی و قیوم کے سامنے جھکے ہوں گے[15]” ان دو آیات سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے کسی چیز کو کسی کے جبر اور قہر سے خلق نہیں کیا، بلکہ جو کچھ خلق کیا ہے اپنے علم اور اختیار سے خلق کیا ہے، لہذا ہر مخلوق اللہ کا اختیاری فعل ہے اور وہ بھی جمیل اور حَسَن فعل۔ بنابریں فعل اور کام کے لحاظ سے ساری حمد اللہ کے لئے ہے۔
ساری حمد کا اللہ کے لئے ہونا، اسماء کے لحاظ سے:قرآن کریم میں ارشاد باریتعالی ہے: “اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى‏”[16]، “وہ اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اس کے لئے بہترین نام ہیں” اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے: “وَ لِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى‏ فَادْعُوهُ بِها وَ ذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ”[17]، “اور اللہ ہی کے لئے بہترین نام ہیں لہذا اسے ان ہی کے ذریعہ پکارو”، لہذا اللہ اپنے اسماء کے لحاظ سے بھی جمیل ہے اور اپنے افعال کے لحاظ سے بھی جمیل ہے اور ہر جمیل اللہ ہی کی طرف سے آتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالی اپنے اسماء کی وجہ سے بھی محمود اورلائق تعریف ہے اور اپنے افعال کی وجہ سے بھی۔ ان آیات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی حمد کرنے والا، جس لائق حمد کی حمد و تعریف کرے وہ حقیقت میں اللہ کی حمد ہے، کیونکہ وہ جمیل چیز جس کی حمد کرنے والا حمد و تعریف کررہا ہے، وہ چیز اللہ کا عمل ہے جسے اللہ نے ایجاد کیا ہے، لہذا حمد کی جنس اور ساری حمد و تعریف اللہ کے لئے ہے۔
نتیجہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اپنے خطبہ اور کلام کا آغاز “الحمدللہ” سے کیا ہے۔ حمد اچھے اور اختیاری کام کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر “الحمدللہ”کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ الحمد کے معنی یہ ہیں کہ ساری تعریف اللہ کے لئے ہے، کیونکہ جو کچھ موجود ہے وہ مخلوق ہے اور ہر مخلوق کا خالق، اللہ ہے اور ہر چیز کو اس نے اچھا اور خوبصورت بنایا ہے اور کسی کے جبر کی وجہ سے نہیں، بلکہ اپنے مکمل اختیار کے ساتھ خلق کیا ہے، لہذا جتنی حمد و تعریف ہے، وہ اللہ کے لئے ہے، لہذا چاہے انسان جس چیز یا کسی شخص کی مدح کرے درحقیقت اس نے اللہ ہی کی مدح کی ہے اس لیے کہ وہ چیز یا وہ شخص جس وجہ سے لائق مدح بنا ہے،اسے وہ صفت اللہ نے عطا کی ہے۔ مدح غیراختیاری خوبصورتی پر بھی کی جاتی ہے، لیکن حمد اختیاری خوبصورت چیز کی وجہ سے کی جاتی ہے، لہذا صرف اللہ کی حمد جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] احتجاج، طبرسی، ج1، ص131، 132۔
[2] احمد بن علی بیهقی، تاج‌المصادر، ج1، ص260۔
[3] خلیل‌ بن احمد، کتاب‌العین۔ نیز: اسماعیل‌ بن حماد جوهری، الصحاح: تاج‌اللغة و صحاح العربیة۔
[4] المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم، محمدفؤاد عبدالباقی، لفظ حمد کے ذیل میں۔
[5] محمدفؤاد عبدالباقی، المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم۔
[6] سورہ قصص، آیت 70۔
[7] سورہ روم، آیت 18۔
[8] سورہ اسراء، آیت 44۔
[9] دیکھیے تفسیر المیزان، حمد کی بحث میں۔
[10] الميزان في تفسير القرآن، ج‏1، ص1۔
[11] سورہ غافر، آیت 62۔
[12] سورہ سجدہ، آیت 7۔
[13] سورہ زمر، آیت 4۔
[14] سورہ طہ، آیت 111۔
[15] ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی (اعلی اللہ مقامہ)۔
[16] سورہ طہ، آیت 8۔
[17] سورہ اعراف، آیت 180۔

تبصرے
Loading...