خطبہ فدکیہ کی تشریح سے پہلے چند غورطلب نکات

خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدک ارشاد فرما کر صرف فدک کا مطالبہ نہیں بلکہ خلافت کا بھی مطالبہ کیا ہے اور غاصبوں کے چہرہ سے نقاب ہٹا دیا تا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ جو خلافت چھین کر منبر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بیٹھے ہیں، یہ وہی ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی کا فدک غصب کیا ہے، کیسے فدک کا غاصب خلافت کے لائق ہے؟!

خطبہ فدکیہ کی تشریح سے پہلے چند غورطلب نکات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خطبہ فدکیہ وہ خطبہ ہے جو حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) نے مسجد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں مقبوضہ فدک اور مقبوضہ خلافت کو واپس لینے کے لئے ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کی تشریح (جو اگلے مضامین میں بیان ہوگی) سے پہلے چند اہم نکات پر توجہ رکھنا ضروری ہے:
پہلا نکتہ: فصیح، بلیغ، واضح، بیدار کرنے والا، متنبہ کرنے والا اور دل کی گہرائی میں اتر جانے والا حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا یہ خطبہ ایسا خطبہ ہے جس کے الفاظ اور معانی کی خوبصورتی واضح ہے اور فی البداہہ طور پر بیان کیا گیا ہے جو برسوں اور سدیوں کے سینوں میں محفوظ رہتے ہوئے اسلامی مآخذ کے ذریعے خصوصاً اہل سنت کے مآخذ سے ہم تک پہنچا ہے۔ اس عظیم خطبہ کے الفاظ و معانی میں پائے جانے والے وقار و استحکام اور معارف الہیہ کو خوبصورت ترین انداز میں بیان کرنا ہی خود اس کی سند پر بولتا ہوا ثبوت ہے۔ دوسرے لفظوں میں “دل علی ذاتہ بذاتہ” اس خطبہ کی ذات ہی دلیل ہے کہ یہ حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) کا کلام ہے۔
دوسرا نکتہ: کس وجہ سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باعظمت بیٹی نے ساری تاریخ میں قائم و دائم رہنے والا یہ خطبہ ارشاد فرمایا؟ اکثر تاریخی تجزہ نگاروں اور محققین جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد اور حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی شہادت سے پہلے رونما ہونے والے واقعات کی تاریخی تحلیل کی ہے، اس اہم اور دردناک تاریخی سوال کا یہ دکھ بھرا جواب دیا ہے کہ جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) کا فدک غصب کرلیا گیا تھا۔ جب دو آدمیوں میں سے ایک نے دوسرے کو پیشکش کی کہ فدک کو غصب کرلیا جائے تو خلیفہ وقت نے اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے حکم دیا کہ فدک سے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے عملہ کو نکال دیا جائے اور اس قبضہ کی وجہ سے فدک نہ صرف حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے چھِن گیا، بلکہ مدینہ کے غریبوں سے بھی چھِن گیا، اور نیز کیونکہ جناب بتول عذرا (سلام اللہ علیہا) کی خلیفہ سے حق طلبی کرنے سے فدک واپس نہ ملا تو آپؑ ہم خیال اور حامی خواتین کے جھرمٹ میں اچانک مسجد میں تشریف لائیں اور اہل بیت (علیہم السلام) کے شرعی اور قانونی حق کے مطالبہ کے لئے یہ دردبھرا خطبہ ارشاد فرمایا۔
تیسرا نکتہ: اگرچہ فدک پر یہ غم انگیز غاصبانہ قبضہ باعث بنا کہ بنت رسولؐ شکوہ کرتی ہوئیں فدک کے مطالبہ کے لئے خطبہ ارشاد فرمائیں، لیکن جناب سیدہ کونین (سلام اللہ علیہا) کا رنج و الم صرف فدک پر قبضہ کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ اس معصومہ خاتون کی حق طلب، مظلومانہ اور متنبہ کرنے والی فریادوں کے بیچوں بیچ اور دوران گفتگو میں سے جو پیغام ملتا ہے وہ اس غصبِ فدک سے زیادہ تلخ، دردناک اور تکلیف دہ ہے وہ ہے وصی پیغمبرؐ علی مرتضی (علیہ السلام) کی خلافت کا غصب ہونا۔ صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) نے جو خطابت کے اعلی درجہ پر فائز تھیں اور مظلوموں کے حق کی پہلی دفاع کرنے والی تھیں، شجاعانہ اور عالمانہ طریقہ سے غاصبینِ خلافت کی، خلافت و حکومت کے لئے نااہلی اور عدم صلاحیت کو روز روشن کی طرح ثابت اور واضح کردیا، حق و باطل کی صفوں کو الگ تھلگ کردیا اور حق کا مطالبہ کرتے ہوئے مظلوموں کی دلخراش آواز کو صفحہ دہر پر درج کروا دیا۔ کیونکہ اگر جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) اس غاصبانہ قبضوں پر ردعمل نہ دکھاتیں اور خاموشی اختیار کرتیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ آپؑ (نعوذباللہ) عملی طور پر نئی حکومت کے لئے قانونی جواز کی قائل ہیں اور نیز جو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے خلیفہ وقت سے بیعت نہیں کی، اس بیعت نہ کرنے کی شرعی اور الہی حیثیت بھی داغدار ہوجاتی۔
چوتھا نکتہ: خطبہ کے مطالب کو گہری نظر سے دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خطبہ جو جناب ام ابیہا (سلام اللہ علیہا) کے غم انگیز دکھوں کی ترجمانی کرتا ہے، نہ صرف فدک کی کھیت کے غصب ہونے کی تشریح بیان کررہا ہے، بلکہ ان غاصبین کے چہرے سے پردہ ہٹا رہا ہے جن کا اصل مقصد اسلام کے کھیت کو تاراج کرنا تھا، ان غاصبوں کی حقیقت کی نقاب کشائی کردی جنہوں نے اسلام کا لباس پہن کر شرک کی بنیادیں ڈال دیں، ایمان کے لبادہ میں منافقت کو پروان چڑھایا اور اسلامی معاشرہ پر سب سے بڑا معاشرتی ظلم کیا کہ لوگوں کو بالکل حق کے راستے سے گمراہ کرکے جہنم کی طرف دھکیل دیا، دوسری طرف سے جناب ام المصائب نے ان خاموش لوگوں کی مذمت کی جنہوں نے خاموشی سے اس گمراہی کو اختیار کرلیا، ایسے نازک حالات میں باب مدینہ العلم کے دفاع کے لئے سیدۃ نساء العالمین (سلام اللہ علیہا) نے آواز حق بلند کی تاکہ خلافت، اسی کو مل جائے جس کی ولایت، امامت اور خلافت کا اعلان سیدالانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غدیر خم میں طویل خطبہ دیتے ہوئے من كنت مولاه فعلي مولاه[1] سے کیا تھا۔
پانچواں نکتہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے یہ خطبہ اس زمانے میں ارشاد فرمایا جب اسلامی سماج کے حالات اتنے ناگفتہ بہ ہوگئے تھے کہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:إِذَا قَبَضَ اللهُ رَسُولَهُ)صلى الله عليه وآله وسلم(، رَجَعَ قَوْمٌ عَلَى الاَْعْقَابِ، وَغَالَتْهُمُ السُّبُلُ، وَاتَّكَلُوا عَلَى الْوَلاَئِجِ، وَوَصَلُوا غَيْرَ الرَّحِمِ، وَهَجَرُوا السَّبَبَ الَّذِي أُمِرُوا بِمَوَدَّتِهِ، وَنَقَلُوا الْبِنَاءَ عَنْ رَصِّ أَسَاسِهِ، فَبَنَوْهُ فِي غَيْرِ مَوْضِعِهِ. مَعَادِنُ كُلِّ خَطِيئَة، وَأَبْوَابُ كُلِّ ضَارِب فِي غَمْرَة. قَدْ مَارُوا فِي الْحَيْرَةِ، وَذَهَلُوا فِي السَّكْرَةِ، عَلَى سُنَّة مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ: مِنْ مُنْقَطِع إِلَى الدُّنْيَا رَاكِن، أَوْ مُفَارِق لِلدِّينِ مُبَايِن[2]، ” جب اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیاسے اٹھایا تو ایک گروہ الٹے پاؤں پلٹ گیا اور گمراہی کی راہوں نے اسے تباہ و برباد کر دیا اور وہ اپنے غلط سلط عقیدوں پر بھروسا کر بیٹھا (قریبیوں کو چھوڑ کر) بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے لگا اور جن (ہدایت کے) وسیلوں سے اسے مودت کا حکم دیا گیا تھا، انہیں چھوڑ بیٹھا اور (خلافت کو) اس کی مضبوط بنیادوں سے ہٹا کر وہاں نصب کر دیا جو اس کی جگہ نہ تھی یہی تو گناہوں کے مخزن اور گمراہی میں بھٹکنے والوں کا دروازہ ہیں۔ وہ حیرت و پریشانی میں سرگرداں اور آل فرعون کی طرح گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑے تھے۔ کچھ تو آخرت سے کٹ کر دنیا کی طرف متوجہ تھے اور کچھ حق سے منہ موڑ کر دین چھوڑ چکے تھے”۔[3]
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کے بعد کا یہ منظر پیش کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خاتم المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کس قدر طاق نسیان پر رکھ دی گئیں اور ایسے ناگوار حادثات وقوع پذیر ہوئے کہ اس میں غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے اس خطبہ کی بالکل ضرورت تھی اور آنحضرتؑ کی یہ تحریک بالکل بجا تھی۔ کیونکہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے مذکورہ بالا خطبہ سے کئی نکات حاصل ہوتے ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
۱۔ ایک گروہ الٹے پاؤں پلٹ گیا: وہ مسلمان لوگ جو ابھی اپنے سخت تعصب اور قومیت کی دیواروں میں جکڑے ہوئے اور ایمان ان کے دل کی گہرائی میں نہیں اترا تھا، اور انہوں نے جاہلیت کے منافق افراد کے آسرے پر اور مال و مقام کے حصول کے مقصد سے اسلام کو قبول کیا تھا، جونہی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوا تو وہ لوگ تیزی سے آنحضرتؐ کے راستہ سے الٹے پاوں پلٹ گئے اور جاہلیت کی اقدار کو زندہ کرنے والی حکومت کے اسباب فراہم کردیئے۔
۲۔ اور جن (ہدایت کے) وسیلوں سے اسے مودت کا حکم دیا گیا تھا، انہیں چھوڑ بیٹھا: اس زمانہ کے مسلمانوں نے اسلام کے دشمنوں سے دوستی لگا لی اور جن سے مودت کا ان کو اللہ تعالی نے حکم دیا تھا، ان سے دوری اختیار کرلی۔
۳۔ (خلافت کو) اس کی مضبوط بنیادوں سے ہٹا کر وہاں نصب کر دیا جو اس کی جگہ نہ تھی: حضرتؑ کے فرمان کے اس فقرہ سے واضح ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے خالص دین کے حقائق کی تحریف کردیا اور پیغمبرؐ کی نص اور وصیت کی خلاف ورزی کی، حقیقی خلیفہ کے بارے میں حکم پروردگار کو پامال کردیا، فدک کو غصب کرلیا اور اہل بیت (علیہم السلام) کے حقوق کو نظرانداز کردیا۔
۴۔ وہ حیرت و پریشانی میں سرگرداں اور آل فرعون کی طرح گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑے تھے۔ کچھ تو آخرت سے کٹ کر دنیا کی طرف متوجہ تھے اور کچھ حق سے منہ موڑ کر دین چھوڑ چکے تھے: انہوں نے نوبنیاد اسلامی معاشرے کو گناہ و عصیان کی طرف دھکیل دیا اور ہر طرح کے مالی، اخلاقی اور سیاسی فساد کے اسباب فراہم کردیئے۔ دھوکہ باز لوگوں نے کیسا کھیل کھیلا کہ غفلت زدہ دلوں کو اپنے تابع اور تسخیر کرلیا، ابہام اور جہالت کا ایسا ماحول بنادیا اور خوشامدگوئی کا ایسا جذبہ پیدا کردیا کہ بے جا تعریفوں کا بازار گرم ہوگیا اور جاہل لوگ بےشمار اور طرح طرح کی خوشامدانہ تعریفیں کرنے لگ گئے۔
نتیجہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے جو فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا، صرف فدک کے مطالبہ کے لئے نہیں تھا، بلکہ اس مطالبہ کے پیچھے ایک اور حقیقت پائی تھی جو امیرالمومنین (علیہ السلام) کی خلافت ہے۔ فدک کے غاصبوں سے فدک کا مطالبہ کیا تا کہ لوگوں کے لئے ان غاصبوں کا حقیقی چہرہ واضح ہوجائے، لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی کا حق غصب کرلیا ہے، یہ خلافت کے حقدار نہیں، نیز خطبہ فدکیہ گویا خطبہ غدیر کی یاددہانی تھی، خطبہ فدکیہ کے اکثر سامعین وہ بے جان، بے روح اور خاموش لوگ تھے جو کل غدیر خم میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی بیعت کرچکے تھے، مگر فدک اور خلافت کے غاصبوں کے سامنے خاموشی اختیار کرگئے تو ایسے نازک حالات میں سیدالانبیاءؑ کی مظومہ بیٹی سیدۃ نساء العالمینؑ کو خطبہ دینا پڑا تا کہ حق واضح ہوجائے اور غاصبوں اور خاموش رہنے والوں پر حجت تمام ہوجائے کہ کل قیامت کے دن کوئی عذر و بہانہ پیش نہ کرپائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] البداية والنهاية، ابن کثیر، ج۵، ص۲۳۱۔
[2] نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۸۔
[3] ترجمہ نہج البلاغہ علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ)۔

تبصرے
Loading...