حضرت علی (ع) کا ماہ رمضان کی فضیلت میں طویل خطبہ

خلاصہ: اس خطبہ میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے ماہ رمضان کے مختلف فضائل بیان فرمائے، ماہ رمضان کو دیگر مہینوں کا سرور مہینہ بتایا ہے، نیز اپنی شہادت کا اس مہینہ میں رسول اللہ (ص) کی زبانی خبر دی ہے

حضرت علی (ع) کا ماہ رمضان کی فضیلت میں طویل خطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الإمام الباقر عن آبائه عليهم السلام :

حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہیں:

خَطَبَ أميرُ المُؤمِنينَ عليه السلام في أوَّلِ يَومٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ في مَسجِدِ الكوفَةِ ، فَحَمِدَ اللّه َ بِأَفضَلِ الحَمدِ وأشرَفِها وأبلَغِها ، وأثنى عَلَيهِ بِأَحسَنِ الثَّناءِ ، وصَلّى عَلى مُحَمَّدٍ نَبِيِّهِ صلى الله عليه و آله ، ثُمَّ قالَ : «أيُّهَا النّاسُ ، إنَّ هذَا الشَّهرَ شَهرٌ فَضَّلَهُ اللّه ُ عَلى سائِرِ الشُّهورِ كَفَضلِنا أهلَ البَيتِ عَلى سائِرِ النّاسِ ؛ وهُوَ شَهرٌ يُفَتَّحُ فيهِ أبوابُ السَّماءِ وأبوابُ الرَّحمَةِ ، ويُغَلَّقُ فيهِ أبوابُ النِّيرانِ ؛ وهُوَ شَهرٌ يُسمَعُ فيهِ النِّداءُ ، ويُستَجابُ فيهِ الدُّعاءُ ، ويُرحَمُ فيهِ البُكاءُ ؛ وهُوَ شَهرٌ فيهِ لَيلَةٌ نَزَلَتِ المَلائِكَةُ فيها مِنَ السَّماءِ ؛ فَتُسَلِّمُ عَلَى الصّائِمينَ وَالصّائِماتِ بِإِذنِ رَبِّهِم إلى مَطلَعِ الفَجرِ ، وهِيَ لَيلَةُ القَدرِ ؛ قُدِّرَ فيها وِلايَتي قَبلَ أن خُلِقَ آدَمُ عليه السلام بِأَلفَي عامٍ ، صِيامُ يَومِها أفضَلُ مِن صِيامِ ألفِ شَهرٍ ، وَالعَمَلُ فيها أفضَلُ مِنَ العَمَلِ في ألفِ شَهرٍ . أيُّهَا النّاسُ ، إنَّ شُموسَ شَهرِ رَمَضانَ لَتَطلُعُ عَلَى الصّائِمينَ وَالصّائِماتِ ، وإنَّ أقمارَهُ لَيَطلُعُ عَلَيهِم بِالرَّحمَةِ ، وما مِن يَومٍ ولَيلَةٍ مِنَ الشَّهرِ إلاّ وَالبِرُّ مِنَ اللّه ِ تَعالى يَتَناثَرُ مِنَ السَّماءِ عَلى هذِهِ الاُمَّةِ ، فَمَن ظَفِرَ مِن نِثارِ اللّه ِ بِدُرَّةٍ كَرُمَ عَلَى اللّه ِ يَومَ يَلقاها ، وما كَرُمَ عَبدٌ عَلَى اللّه ِ إلاّ جَعَلَ الجَنَّةَ مَثواهُ . عِبادَ اللّه ِ ، إنَّ شَهرَكُم لَيسَ كَالشُّهورِ ؛ أيّامُهُ أفضَلُ الأَيّامِ ، ولَياليهِ أفضَلُ اللَّيالي ، وساعاتُهُ أفضَلُ السّاعاتِ ؛ هُوَ شَهرٌ الشَّياطينُ فيهِ مَغلولَةٌ مَحبوسَةٌ ؛ هُوَ شَهرٌ يَزيدُ اللّه ُ فيهِ الأَرزاقَ وَالآجالَ ، ويَكتُبُ فيهِ وَفدَ بَيتِهِ ؛ وهُوَ شَهرٌ يُقبَلُ أهلُ الإِيمانِ بِالمَغفِرَةِ وَالرِّضوانِ ، وَالرَّوحِ وَالرَّيحانِ ، ومَرضاةِ المَلِكِ الدَّيّانِ . أيُّهَا الصّائِمُ ، تَدَبَّر أمرَكَ ؛ فَإِنَّكَ في شَهرِكَ هذا ضَيفُ رَبِّكَ ، اُنظُر كَيفَ تَكونُ في لَيلِكَ ونَهارِكَ؟ وكَيفَ تَحفَظُ جَوارِحَكَ عَن مَعاصي رَبِّكَ؟ اُنظُر ألاّ تَكونَ بِاللَّيلِ نائِما وبِالنَّهارِ غافِلاً ؛ فَيَنقَضِيَ شَهرُكَ وقَد بَقِيَ عَلَيكَ وِزرُكَ ؛ فَتَكونَ عِندَ استيفاءِ الصّائِمينَ اُجورَهُم مِنَ الخاسِرينَ ، وعِندَ فَوزِهِم بِكَرامَةِ مَليكِهِم مِنَ المَحرومينَ ، وعِندَ سَعادَتِهِم بِمُجاوَرَةِ رَبِّهِم مِنَ المَطرودينَ . أيُّهَا الصّائِمُ ، إن طُرِدتَ عَن بابِ مَليكِكَ فَأَيَ بابٍ تَقصِدُ؟ وإن حَرَمَكَ رَبُّكَ فَمَن ذَا الَّذي يَرزُقُكَ؟ وإن أهانَكَ فَمَن ذَا الَّذي يُكرِمُكَ؟ وإن أذَلَّكَ فَمَن ذَا الَّذي يُعِزُّكَ؟ وإن خَذَلَكَ فَمَن ذَا الَّذي يَنصُرُكَ؟ وإن لَم يَقبَلكَ في زُمرَةِ عَبيدِهِ فَإِلى مَن تَرجِعُ بِعُبودِيَّتِكَ؟ وإن لَم يُقِلكَ عَثرَتَكَ فَمَن تَرجو لِغُفرانِ ذُنوبِكَ؟ وإن طالَبَكَ بِحَقِّهِ فَماذا يَكونُ حُجَّتُكَ؟ أيُّهَا الصّائِمُ ، تَقَرَّب إلَى اللّه ِ بِتِلاوَةِ كِتابِهِ في لَيلِكَ ونَهارِكَ ؛ فَإِنَّ كِتابَ اللّه ِ شافِعٌ مُشَفَّعٌ يَشفَعُ يَومَ القِيامَةِ لِأَهلِ تِلاوَتِهِ ، فَيَعلونَ دَرَجاتِ الجَنَّةِ بِقِراءَةِ آياتِهِ . بَشِّر أيُّهَا الصّائِمُ ! فَإِنَّكَ في شَهرٍ صِيامُكَ فيهِ مَفروضٌ ، ونَفَسُكَ فيهِ تَسبيحٌ ، ونَومُكَ فيهِ عِبادَةٌ ، وطاعَتُكَ فيهِ مَقبولَةٌ ، وذُنوبُكَ فيهِ مَغفورَةٌ ، وأصواتُكَ فيهِ مَسموعَةٌ ، ومُناجاتُكَ فيهِ مَرحومَةٌ . ولَقَد سَمِعتُ حَبيبي رَسولَ اللّه ِ صلى الله عليه و آله يَقولُ : «إنَّ للّه ِِ ـ تَبارَكَ وتَعالى ـ عِندَ فِطرِ كُلِّ لَيلَةٍ مِن شَهرِ رَمَضانَ عُتَقاءَ مِنَ النّارِ لا يَعلَمُ عَدَدَهُم إلاَّ اللّه ُ هُوَ في عِلمِ الغَيبِ عِندَهُ ، فَإِذا كانَ آخِرُ لَيلَةٍ مِنهُ أعتَقَ فيها مِثلَ ما أعتَقَ في جَميعِهِ» . فَقامَ إلَيهِ رَجُلٌ مِن هَمدانَ فَقالَ : يا أميرَ المُؤمِنينَ ، زِدنا مِمّا حَدَّثَك بِهِ حَبيبُكَ في شَهرِ رَمَضانَ . فَقالَ : «نَعَم ، سَمِعتُ أخي وَابنَ عَمّي رَسولَ اللّه ِ صلى الله عليه و آله يَقولُ : مَن صامَ شَهرَ رَمَضانَ فَحَفِظَ فيهِ نَفسَهُ مِنَ المَحارِمِ دَخَلَ الجَنَّةَ» . قالَ الهَمدانِيُ : يا أميرَ المُؤمِنينَ ، زِدنا مِمّا حَدَّثَكَ بِهِ أخوكَ وَابنُ عَمِّكَ في شَهرِ رَمَضانَ . قالَ : «نَعَم ، سَمِعتُ خَليلي رَسولَ اللّه ِ صلى الله عليه و آله يَقولُ : مَن صامَ رَمَضانَ إيمانا وَاحتِسابا دَخَلَ الجَنَّةَ» . قالَ الهَمدانِيُّ : يا أميرَ المُؤمِنينَ ، زِدنا مِمّا حَدَّثَكَ بِهِ خَليلُكَ في هذَا الشَّهرِ . فَقالَ : «نَعَم ، سَمِعتُ سَيِّدَ الأَوَّلينَ وَالآخِرينَ رَسولَ اللّه ِ صلى الله عليه و آله يَقولُ : مَن صامَ رَمَضانَ فَلَم يُفطِر في شَيءٍ مِن لَياليهِ عَلى حَرامٍ دَخَلَ الجَنَّةَ» . فَقالَ الهَمدانِيُّ : يا أميرَ المُؤمِنينَ ، زِدنا مِمّا حَدَّثَكَ بِهِ سَيِّدُ الأَوَّلينَ وَالآخِرينَ في هذَا الشَّهرِ . فَقالَ : «نَعَم ، سَمِعتُ أفضَلَ الأَنبِياءِ وَالمُرسَلينَ وَالمَلائِكَةِ المُقَرَّبينَ يَقولُ : إنَّ سَيِّدَ الوَصِيِّينَ يُقتَلُ في سَيِّدِ الشُّهورِ . فَقُلتُ : يا رَسولَ اللّه ِ ، وما سَيِّدُ الشُّهورِ ، ومَن سَيِّدُ الوَصِيِّينَ؟ قالَ : أمّا سَيِّدُ الشُّهورِ فَشَهرُ رَمَضانَ ، وأمّا سَيِّدُ الوَصِيِّينَ فَأَنتَ يا عَلِيُّ . فَقُلتُ : يا رَسولَ اللّه ِ ، فَإِنَّ ذلِكَ لَكائِنٌ؟ قالَ : إي ورَبّي ، إنَّهُ يَنبَعِثُ أشقى اُمَّتي شَقيقُ عاقِرِ ناقَةِ ثَمودَ ، ثُمَّ يَضرِبُكَ ضَربَةً عَلى فَرقِكَ تُخضَبُ مِنها لِحيَتُكَ» . فَأَخَذَ النّاسُ بِالبُكاءِ وَالنَّحيبِ . فَقَطَعَ عليه السلام خُطبَتَهُ ونَزَلَ .[1]
حضرت علی (علیہ السلام) نے ماہ رمضان کے پہلے دن مسجد کوفہ میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ پس اللہ کی افضل ترین اور شریف ترین اور بلیغ ترین حمد کی اور بہترین ثنا کے ذریعہ اللہ کی ثنا کی، اور اس کے نبی محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر صلوات بھیجی۔ پھر فرمایا:
“اے لوگو! بیشک یہ مہینہ، ایسا مہینہ ہے جسے اللہ نے دوسرے مہینوں پر فضیلت دی ہے، جیسے ہم اہل بیت کی دیگر لوگوں پر فضیلت ہے
اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں آسمان کے دروازے اور رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس میں آگ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں
اور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں ندا سنی جاتی ہے
اور اس میں دعا مستجاب ہوتی ہے
اور اس میں گریہ پر رحم کیا جاتا ہے
اور یہ ایسا مہینہ ہے جس میں ایسی رات ہے جس رات میں فرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں، پس روزہ دار مردوں اور عورتوں پر اپنے پروردگار کے اذن سے فجر کے طلوع تک سلام بھیجتے ہیں اور وہ ، شب قدر ہے۔ میری ولایت کو آدم (علیہ السلام) کے خلق ہونے سے دو ہزار سال پہلے، اس رات میں مقدر کیا گیا
اس کے دن میں روزہ رکھنا ہزار مہینوں کی روزہ داری سے افضل ہے
اور اس میں عمل کرنا، ہزار مہینوں کے عمل سے افضل ہے
اے لوگو! ماہ رمضان کا سورج روزہ دار مردوں اور عورتوں پر طلوع کرتا ہے اور اس کا چاند ان پر رحمت کے ساتھ طلوع کرتا ہے
اور اس مہینہ کا کوئی دن اور رات نہیں ہے، مگر نیکی اللہ تعالی کی طرف سے اس امت پر آسمان سے نچھاور ہوتی ہے۔ پس جو شخص نعمت الہی کے نچھاور ہونے سے ذرہ [2]بھر بھی بہرہ مند ہوجائے، اللہ سے اپنی ملاقات کے دن، اللہ کی بارگاہ میں گرامی ہوگا اور کوئی بندہ اللہ کی بارگاہ میں گرامی نہیں ہوتا، مگر اللہ جنت کو اس کا ٹھکانہ بنادیتا ہے۔
خدا کے بندو! تمہارا یہ مہینہ، دوسرے مہینوں کی طرح نہیں ہے
اس کے دن سب دنوں سے افضل ہیں
اور اس کی راتیں سب راتوں سے افضل ہیں
اور اس کی گھڑیاں سب گھڑیوں سے افضل ہیں
وہ ایسا مہینہ ہے جس میں شیاطین جکڑے ہوئے اور زندانی ہیں
وہ ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ اپنی روزیوں اور اجلوں (زندگیوں) کو بڑھا دیتا ہے
اور اپنے گھر کے مہمانوں کو لکھتا ہے
اور وہ ایسا مہینہ ہے کہ اہل ایمان مغفرت اور رضائے الہی سے اور خوشی اور اللہ کی نعمتوں سے اور مَلِكِ دَّيّان (اللہ) کی رضامندی سے قبول کیے جاتے ہیں۔
اے روزہ دار! اپنے کام میں غور کر کہ تم اپنے اس مہینہ میں اپنے پروردگار کے مہمان ہو
غور کر کہ اپنے رات دن میں کیسے ہو
اور کیسے اپنے اعضا کو اپنے پروردگار کی نافرمانیوں سے محفوظ کرتے ہو
غور کر کہ ایسا نہ ہو کہ رات کو نیند میں رہو اور دن کو غفلت میں، پس تمہارا مہینہ گزر جائے اور تمہارا (گناہ کا) بوجھ تمہارے ذمہ رہ جائے
پس جب روزہ دار اپنے ثواب لیں گے تو تم گھاٹا میں پڑنے والوں میں سے ہوگے
اور جب وہ اپنی کرامت کی حکمرانی پر فائز ہوں گے تو تم محروموں میں سے ہوگے
اور جب وہ اپنے پروردگار کی ہمسائگی میں سعادتمند ہوں گے تو تم نکال دیئے جانے والوں میں سے ہوگے!
اے روزہ دار! اگر تم اپنے مالک کے دروازے سے دور کردیا گیا تو کس دروازے پر جاوگے؟
اور اگر تمہارے پروردگار نے تمہیں محروم کردیا تو کون ہے جو تمہیں رزق دے؟
اور اگر اس نے تمہیں خوار کردیا تو کون ہے جو تمہارا اکرام کرے؟
اور اگر اس نے تمہیں ذلیل کردیا تو کون ہے جو تمہیں عزت عطا کرے؟
اور اگر اس نے تمہیں چھوڑدیا تو کون ہے جو تمہاری مدد کرے؟
اور اگر اس نے تمہیں اپنے بندوں کے زمرے میں قبول نہ کیا تو تم اپنی بندگی کو کس کے پاس لے جاوگے؟
اور اگر اس نے تمہاری خطا کو معاف نہ کیا تو تم اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے کس پر امید رکھوگے؟
اور اگر اس نے اپنا حق تم سے مانگا تو تمہاری حجت کیا ہوگی؟
اے روزہ دار! اپنے رات دن میں اللہ کی قربت اس کی کتاب کی تلاوت کے ذریعے حاصل کر کہ بیشک اللہ کی کتاب ایسی شفاعت کرنے والی ہے جس کی شفاعت قیامت کے دن اس کی تلاوت کرنے والوں کے لئے قبول ہوگی پس تلاوت کرنے والے اس کی آیات کو پڑھنے سے جنت کے درجات پر اوپر جائیں گے۔
اے روزہ دار تمہیں خوشخبری ہو کہ تم ایسے مہینہ میں ہو کہ جس میں تمہاری روزہ داری واجب ہے
اور اس میں تمہارا سانس لینا، تسبیح ہے
اور اس میں تمہاری نیند، عبادت ہے
اور اس میں تمہاری طاعت قبول ہے
اور اس میں تمہارے گناہ معاف ہیں
اور تمہاری آوازیں اس میں سنی جاتی ہیں
اور تمہاری مناجات پر اس میں رحم کیا جاتا ہے
اور یقینا میں نے اپنے حبیب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا کہ آپ فرماتے تھے: بیشک افطار کے وقت ماہ رمضان کی ہر رات کو اللہ تبارک و تعالی کے آگ سے کچھ آزاد کیے گئے (افراد) ہیں جن کی تعداد کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ ان کی تعداد، اس کی بارگاہ میں علم غیب میں ہے۔
پس جب اس مہینہ کی آخری رات ہو تو اللہ اس رات میں اس سارے مہینہ میں آزاد کی ہوئی تعداد کے برابر، آزاد کرے گا۔
پس قبیلہ ہمدان میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا تو اس نے کہا: یا امیرالمومنین! جو آپ کے حبیب نے آپ کو ماہ رمضان کے بارے میں فرمایا، اس میں سے ہمیں مزید بتائیں، تو فرمایا: “اچھا! میں نے اپنے بھائی اور چچازاد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا کہ آپ فرماتے تھے: جو شخص ماہ رمضان میں روزہ رکھے پھر اپنے آپ کو اس مہینہ میں حراموں سے بچائے تو وہ جنت میں داخل ہوگا”۔
اس ہمدانی نے کہا: یا امیرالمومنین! جو آپ کے بھائی اور چچازاد نے ماہ رمضان کے بارے میں فرمایا، اس میں سے مزید ہمیں بتائیں، تو فرمایا: “اچھا! میں نے اپنے خلیل (دوست) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا کہ آپ فرماتے تھے: جو شخص ایمان کے ساتھ اور (اللہ کے) اجر کی خاطر، (ماہ) رمضان کو روزہ رکھے تو جنت میں داخل ہوگا”۔
اس ہمدانی نے کہا: یاامیرالمومنین! جو آپ کے خلیل (دوست) نے اس مہینہ کے بارے میں فرمایا، اس میں سے مزید ہمیں بتائیں، تو فرمایا: “اچھا! میں نے سید الاولین و الآخرین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا کہ آپ فرماتے تھے: جو شخص (ماہ) رمضان کو روزہ رکھے اور اس کی راتوں میں حرام نہ کھائے تو جنت میں داخل ہوگا”۔
پس اس ہمدانی نے کہا: یاامیرالمومنین! جو سید الاولین و الآخرین نے آپ سے اس مہینہ کے بارے میں فرمایا، اس میں سے مزید ہمیں بتائیں، تو فرمایا: “اچھا! میں نے سنا کہ افضل الانبیاء و المرسلین والملائکۃ المقربین فرماتے تھے: بیشک اوصیاء کا سرور، مہینوں کے سرور میں شہید کیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مہینوں کا سرور کون سا ہے اور اوصیاء کا سرور کون ہے؟ فرمایا: مہینوں کا سرور، ماہ رمضان ہے اور اوصیاء کے سرور آپ ہیں یا علی!
پس میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ایسا ہوگا؟ فرمایا: ہاں میرے پروردگار کی قسم! بیشک میری امت کا بدبخت ترین شخص، ثمود کی اونٹنی(کی کوچیں) کاٹنے والے کا بھائی اٹھ کھڑا ہوگا، پھر آپ کے فرق (سر) پر ایسی ضربت مارے گا جس سے آپ کی ریش رنگین ہوجائے گی”۔
پس لوگ گریہ زاری کرنے لگے تو حضرت علی (علیہ السلام) نے اپنا خطبہ روکا اور نیچے تشریف لے آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] ماہ خدا، محمدی ری شہری، ج۱، ص۱۷۶ بنقل از: فضائل الأشهر الثلاثة : 107 / 101 عن مسعدة الربعي عن الإمام الصادق عليه السلام.
[2] حدیث کے متن میں ” درّة ” آیا ہے، لیکن لگتا ہے کہ اصل میں ” ذرّة ” تھا اور اس کا نقطہ مٹ گیا ہے، کیونکہ لفظ ” درّة ” کا یہاں پر مناسب معنی نہیں ہیں۔ (ماہ خدا، ج۱، ص۱۷۷).

تبصرے
Loading...