موت کی قسمیں

خلاصہ: موت انسان کی زندگی کے ختم ہونے کا نام ہے، اور ہر انسان کو ایک جیسی موت نہیں آتی، جس طرح انسان کے اعمال ہوتے ہیں اسی طریقہ سے اسے موت آتی ہے، حضرت علی(علیہ السلام) نے موت کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں۔

موت کی قسمیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     موت ہر کسی کو آنے والی ہے اس دنیا سے سب کو جانا ہے۔ کس کو کس طریقہ سے کب موت آنے والی یہ کوئی بھی نہیں جانتا، ہر کسی کے ذھن میں یہی سوال ہے کہ مرنے کے بعد وہ جنت میں جائیگا یا جھنم میں، ایسے ہی کچھ سوالات کچھ لوگوں کے ذھنوں میں تھے جن کا جواب حاصل کرنے کے لئے بعض لوگ حضرت علی(علیہ السلام) کی خدمت میں آئے اور انھوں نے حضرت علی(علیہ السلام) سے موت کے بارے میں جو سوالات ان کے ذھنوں میں وہ حضرت علی(علیہ السلام) کے سامنے پیش کئے، امام(علیہ السلام) نے ان کے سوالات کو سننے کے بعد ان لوگوں سے فرمایا کہ مرنے کے بعد لوگوں کی تین قسمیں ہونگی:
۱۔ ہمیشہ نعمتوں میں رہینگے
۲۔ ہمیشہ عذاب میں رہنگے
۳۔ کبھی غم میں اور کبھی خوف میں، اس کا حکم معین نہیں ہے، 
     پھر حضرت علی(علیہ السلام) نے خود ہی ان تین قسموں کی اس طرح وضاحت فرمائی:
     پہلی موت مخصوص ہے اہل بیت(علیہم السلام) کے دوستوں اور چاہنے والوں سے، جو ان کے حکم کو پوری طریقہ سے بجالاتے ہیں۔
     دوسری موت مخصوص ہیں اہل بیت(علیہم السلام) کے دشمنوں اور ان کی مخالفت کرنے والوں کے لئے، موت ان کے جھنم میں جانے کا سبب بنتی ہے۔
     تیسری موت کے بارے میں امام(علیہ السلام) نے فرمایا: ایسے لوگوں کی موت جنھیں نہیں معلوم کہ ان کے حالات کیسے ہیں؟ ایسے مؤمنین جن لوگوں نے اپنے اوپر ظلم کیا اب انہیں نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، البتہ ان لوگوں کے بارے میں امام(علیہ السلام) نے فرمایا کہ: ان لوگوں کو عذاب کے بعد جنت میں داخل کردیا جائیگا البتہ امام(علیہ السلام) نے ان لوگوں ۳۰۰سال کے عذاب کے بارے میں ڈرایا  ہے[۱]۔
قرآن مجید میں ان تین گروہوں کے بارے میں اس طرح آیات نازل ہوئی ہیں:
     پہلی گروہ کے بارے میں قرآن نے اس طرح فرمایا ہے: «كَذَلِكَ يَجْزِي اللَّهُ الْمُتَّقِينَ الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ[سورۂ نحل، آیت:۳۱،۳۲]اللہ اسی طرح ان صاحبان تقوٰی کو جزا دیتا ہےجنہیں ملائکہ اس عالم میں اٹھاتے ہیں کہ وہ پاک و پاکیزہ ہوتے ہیں اور ان سے ملائکہ کہتے ہیں کہ تم پر سلام ہو اب تم اپنے نیک اعمال کی بنا پر جنّت میں داخل ہوجاؤ».
     دوسری گروہ کے بارے میں قرآن نے اس طرح فرمایا ہے: «وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ[سورۂ انفال، آیت:۵۰] کاش تم دیکھتے کہ جب فرشتے ان کی جان نکال رہے تھے اور ان کے منہ اور پیٹھ پر مارتے جاتے تھے کہ اب جہنّم کا مزہ چکھو».
     تیسری وہ گروہ ہے جو اہل بیت(علیہم السلام) کے چاہنے والا ہے مگر ان لوگوں نے ان کی نافرمانی کی اور گناہوں کے مرتکب ہوئے، ان لوگوں کے بارے میں قرآن نے اس طرح فرمایا ہے: «قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّه  اِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُِ[سورۂ زمر، آیت: ۵۳] پیغمبر آپ پیغام پہنچادیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے»، امام صادق(علیه‌السلام) اس گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں: «الْمَوْتُ‏ كَفَّارَةُ ذَنْبِ‏ كُلِ‏ مُؤْمِن‏[۲] موت، مؤمن کے گناہوں کا کفارہ ہے»، اور امام کاظم(علیه‌السلام) اس طرح فرماتے ہیں: «الْمَوْتُ‏ هُوَ الْمِصْفَاةُ يُصَفِّي الْمُؤْمِنِينَ مِنْ ذُنُوبِهِم‏[۳] موت، مؤمنین کے گناہوں سے پاک کردیتی ہے».
نتیجہ: 
     یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہےکہ اسے موت نہ آئے لیکن ہاں انسان کے ہاتھ میں یہ ضرور ہے کہ اس کو کونسی موت آئے، اب انسان کو جیسی موت چاہئے اس طریقہ سے اس دنیا میں اپنے اعمال اور کردار کو پیش کرے کیونکہ روایت میں وارد ہوا ہےکہ دنیا آخرت کی کہیتی ہے[۴] جو جس طرح سے اس دنیا میں زندگی گذاریگا اسے موت کے بعد ویسی ہی زندگی ملنی والی ہے۔
………………..
حوالے:
[۱] محمد باقرمجلسى، بحار الانوار، ج۶، ص۱۵۴، دار إحياء التراث العربي ،بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.
[۲]محمد بن على، ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، محقق: علی اکبر غفاری، ج۱، ص ۱۳۴، دفتر انتشارات اسلامی ، قم، ۱۴۱۳ق۔
[۳]محمد بن على، ابن بابويه، معاني الأخبار، ‏ص۲۸۹، دفتر انتشارات اسلامى، قم‏، ۱۴۰۳ ق۔
[۴] بحار الانوار، ج۶۷، ص۲۲۵۔

تبصرے
Loading...