انتیسواں درس: رمضان ہمراہِ قرآن(خاندان)

خاندان

نوجوانوں کی شادی کرانے کی نسبت  ہماری ذمہ داری

وَ أَنکِحُوا الْأَیَامَى مِنکُمْ وَ الصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَ إِمَائِکُمْ إِن یَکُونُوا فُقَرَاء یُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَ اللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ {النور/۳۲}

’’اور اپنے غیر شادی شدہ لڑکے لڑکیوں اور اپنے نیک و صالح غلاموں و کنیزوں کے نکاح کا اہتمام کرو (اور فقر و تنگدستی سے نہ ڈرو) کہ اگر وہ فقیر ہوں گے تو خداوندِ متعال اپنے فضل و کرم سے انہیں بےنیاز کر دے گا اور خدا تو بڑی وسعت والا اور علیم و دانا ہے۔‘‘

«أَیَامَی»، «أیِّم»کی جمع اور «قَیِّم» کے وزن پر ’’کنوارے اور غیرشادی شدہ‘‘ کے معنی میں ہے، خواہ مرد ہو یا عورت، باکرہ ہو یا بیوہ۔

اسلام میں ازدواج، ایک مقدّس اور تاکید شدہ اَمر رہا ہے اور خاندان ومعاشرہ، غیرشادی شدہ افراد کے ازدواج کا مسئول اور ذمہ دار ہے اور ضروری نہیں ہے کہ خواستگاری، کسی ایک خاص طرف سے ہی ہو، بلکہ مرد اور عورت میں سے ہر ایک پیشقدمی کر سکتا ہے۔ البتہ خداوند متعال نے دُلہن اور دولہا کی ازدواجی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کا وعدہ کیا ہے اور ازدواج کو زندگی کی وُسعت و برکت کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

اسلام ازدواج کو ایک مقدّس اَمر سمجھتا ہے، مسیحیت کے برخلافکہ جو مجرد اور غیرشادی شدہ رہنے کو قابلِ ارزش سمجھتا ہے، اس لیے پوپ اور مسیحی علماء کو ازدواج نہیں کرتے۔

ہم روایات میں پڑھتے ہیں: ازدواج نصف دین محفوظ ہو جانے کا سبب ہے۔ شادی شدہ شخص کی دو رکعت نماز، غیرشادی شدہ افراد کی ستّر رکعت نماز سے بہتر ہے۔ متاہل اور شادی شدہ افراد کا سونا، غیرشادی شدہ افراد کے روزے کی حالت میں بیداری سے بہتر ہے۔

اُن لوگوں کے خلاف جو ازدواج کو فقر و تنگدستی کا موجب خیال کرتے ہیں، رسولِ خدا(ص) فرماتے ہیں: ’’ازدواج رزق و روزی کو زیادہ کرتا ہے۔‘‘ نیز حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’زندگی کی گشائش اور وُسعت، ازدواج کے سائے میں ہے۔‘‘ اِسی طرح فرماتے ہیں: ’’جو شخص فقر و تنگدستی کے خوف سے ازدواج کو ترک کر دے، وہ ہم (مسلمانوں) سے نہیں ہے اور اُس نے خداوند متعال کی نسبت سوءِ ظن کیا ہے۔‘‘

ازدواج آرام و سکون کا ذریعہ ہے۔ ازدواج میں رشتہ دار آپس میں نزدیک آجاتے ہیں اور دل ایک دوسرے کی نسبت مہربان ہو جاتے ہیں اور پاک و پاکیزہ نسل کی تربیت اور باہمی تعاون کی فضا کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔

وہ والدین جو امکانات اور وسائل زندگی رکھنے کے باوجود، اپنی اولاد کی شادی کا اہتمام اور انہیں شریکِ حیات فراہم نہیں کرتے، اگر اُن کی اولاد کسی گناہ کی مرتکب ہو، تو والدین اُس کے گناہ میں شریک ہوں گے۔

ہم روایات میں پڑھتے ہیں: ’’ازدواج میں جلدی کرو اور وہ لڑکی جس کی شادی کا وقت پہنچ گیا ہو، ایسے پکے ہوئے پھل کی مانند ہے جسے اگر درخت سے نہ توڑا جائے تو وہ فاسد و خراب ہو جائے گا۔‘‘

بہترین واسطہ اور وسیلہ بننا، اَمرِ ازدواج میں طرفین کے درمیان واسطہ اور وسیلہ بننا ہے؛ جیسا کہ روایت میں منقول ہے: ’’جو شخص کسی لڑکے یا لڑکی کی شادی کا اہتمام کرے، وہ عرشِ خدا کے سائے میں ہے۔‘‘

ہم روایات میں پڑھتے ہیں: ’’جو شخص اپنے دینی و ایمانی بھائیوں کے ازدواج کے لیے کوشش و اہتمام کرتا ہے، وہ روزِ قیامت خداوند متعال کے خاص لطف و انعام کا مستحق قرار پائے گا۔‘‘

البتہ اِس آیتِ کریمہ کے بعد والی آیت میں خداوندِ عالَم فرماتا ہے: «وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِینَ لَا یَجِدُونَ نِکَاحاً حَتَّى یُغْنِیَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ . . . » ؛ ’’اور وہ لوگ جو نکاح اور شادی کے لیے وسیلہ فراہم نہیں پاتے، وہ عفت و پاکدامنی کی رعایت کریں، یہاں تک کہ خداوند اپنے فضل و کرم سے انہیں غنی و بےنیاز کر دے۔‘‘

جی ہاں! عفّت و پاکدامنی کی وسیع اور عمومی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان خود بھی اِس کی رعایت کریں: «وَ لْیَسْتَعْفِف»؛ خاندان اور حکومت بھی اِس کے لیے قیام کریں: «وَ أَنکِحُوا الْأَیَامَى مِنکُمْ»؛ اور معاشرے کے غنی و ثروتمند افراد بھی (اِس اَمرِ خیر میں خداوند عالَم کے دیئے ہوئے) مال خرچ کریں: «وَ آتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ»

البتہ شریکِ حیات کے انتخاب میں احساسات و جذبات غلبہ نہ کریں، عجلت اور جلدبازی سے کام نہ لیں اور فکر، مشورے اور گفتگو و شنید کے بعد اقدام کریں۔ اس لیے کہ خاندانی جھگڑوں اور اختلافات میں سے زیادہ تر کی بنیاد، صحیح شریکِ حیات کے انتخاب میں دِقّت اور غور و فکر نہ کرنا ہی ہوتا ہے۔ شریکِ حیات کی تاثیر انسان کی زندگی میں آخرِ عمر تک، بلکہ چہ بسا قیامت تک ہوتی ہے۔ غالباً وہ سطحی اور عدمِ دِقّت کے بغیر شادیاں، جو بس، ٹرین اور پارک وغیرہ میں معمولی ملاقات اور آشنائی کی وجہ سے انجام پاتی ہیں، اُن کا انجام کوئی زیادہ اچھا نہیں ہوتا ہے۔

 

قرآن میں خاندان کی اقسام

قرآنِ کریم میں خاندان کی چار انواع و اقسام بیان ہوئی ہیں:

۱۔ وہ میاں بیوی جو کسی بھی نیک کام کے انجام دینے میں، مکمل ہم فکری اور ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ (جیسے حضرتِ علی اور حضرتِ زہراء سلام اللہ علیہما، جن کی ہم فکری اور ہمکاری کا نمونہ سورۂ مبارکہ دھر میں پےدرپے چند آیات میں ذکر ہوا ہے، اِس طرح سے کہ انہوں نے مسلسل تین روز افطار کے وقت، اپنا کھانا، مسکین، یتیم اور اسیر کو دے دیا): «وَ یُطْعِمُونَ الطَّعَامَ»

۲۔ وہ میاں بیوی جو خباثتوں اور بُرے کاموں میں ہم فکر اور ایک ساتھ ہوتے ہیں، (جیسے: ابولہب اور اُس کی بیوی): «تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَهَبٍ وَتَبَّ . . . وَ امْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ» ؛ (ابولہب باوجود اِس کے کہ پیغمبرِ اکرم(ص) کا چچا تھا، اُ س نے آنحضرتؐ کو بہت ستایا اور اُس کی بیوی آپؐ کے راستے میں کانٹے اور لکڑیاں ڈال کر، آپؐ کو اذیت و آزار دیتی تھی۔)

۳۔ وہ خاندان جس میں شوہر اچھا اور بیوی بُری تھی، (جیسے: حضرتِ لوطؑ اور حضرتِ نوحؑ اور ان کی بیویاں): «کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ . . . فَخَانَتَاهُمَا»

۴۔ وہ خاندان جس میں شوہر بدکردار، لیکن بیوی اچھی (اور نیک) تھی، (جیسے: فرعون اور اس کی بیوی): «وَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِّلَّذِینَ آمَنُوا اِمْرَأَةَ فِرْعَوْنَ …»

 

خاندان کی نسبت   ذمہ داری

قرآنِ کریم کی متعدّد آیات میں، انسان کی اپنے خاندان کی نسبت رسالت اور ذمہ داریوں کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ یہ ہیں:

– «قُوا أَنفُسَکُمْ وَ أَهْلِیکُمْ نَاراً» ؛ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔

– «وَ أْمُرْ أَهْلَکَ بِالصَّلَاةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَا» ؛ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اِس کی پابندی کرو۔

– «وَ أَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ» ؛ اپنے نزدیک ترین قرابتداروں اور خاندان والوں کو (جہنم کی آگ سے) ڈراؤ۔

– «یَا بُنَیَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَ أْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ» ؛ اے میرے بیٹے! نماز قائم کر اور امر بالمعروف انجام دے۔

– «إِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِی أَهْلِنَا مُشْفِقِینَ» ؛ الہٰی لوگ اپنے خاندان کی نسبت فکرمند ہوتے ہیں اور لاپرواہی و بےتوجہی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔

– «وَ کَانَ یَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ» ؛ پیغمبر(ص) ہمیشہ اپنے خاندان والوں کو نماز کا حکم دیتے تھے۔

روایات میں بھی اِس موضوع پر بہت زیادہ توجّہ دی گئی ہے، جیسے:

– پیغمبراکرم(ص)فرماتے ہیں: تم سب اپنے ماتحت اور زیرِ کفالت لوگوں کی نسبت ذمہ دار ہو؛ مرد، اپنے خاندان والوں کی نسبت مسئول ہے اور عورت اپنے شوہر اور اولاد کی نسبت مسئول ہے۔

– حضرتِ علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «عَلِّمُوا أَنْفُسَکُم وَ أَهْلِیْکُمُ الْخَیْرَ وَ أَدِّبُوهُمْ» ؛ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان والوں کو نیکی کی تعلیم دو اور انہیں ادب سکھاؤ۔

 

ماخذ:

رمضان ہمراہِ قرآن:تیس دن، تیس درس،تفسیرِ نور کی بنیاد پر

حجۃ الاسلام و المسلمین محسن قرائتی

تبصرے
Loading...