اٹھائیسواں درس: رمضان ہمراہِ قرآن(اجتماعی آداب)

دوست کے انتخابِ کے آداب

وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى یَدَیْهِ یَقُولُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلاً ۝ یَا وَیْلَتَى لَیْتَنِی لَمْ أَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیلاً ۝ لَقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءنِی وَ کَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولاً {الفرقان/۲۷-۲۹}

’’اور اُس (قیامت کے) دن (شرک کرنے والا) ظالم اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹے گا اور کہے گا: اے کاش! میں نے پیغمبرؐ کے ساتھ ہی (ہدایت کا) رستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے افسوس، اے کاش! میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ اُس (میرے دوست) نے (خداوند متعال کی طرف سے) ذکر آ جانے کے بعد، مجھے گمراہ کردیا اور شیطان تو انسان کو رُسوا و خوار کرنے والا ہی ہے۔‘‘

اسلام، دوستی، دوست کے انتخاب، دوست کی شناخت و پہچان کے طریقوں، دوستی کی حدود و قیود، آدابِ معاشرت اور دوستوں کے حقوق کے بارے میں، بہت زیادہ سفارشیں اور تاکیدیں بیان کرتا ہے اور کچھ افراد کے ساتھ دوستی و رفاقت کی تشویق اور کچھ افراد کے ساتھ دوستی سے منع کرتا ہے، منجملہ:

* اگر کسی شخص کی شناخت میں شک و تردید پیدا ہو جائے، تو اُس کے دوستوں کو دیکھیں کہ کیسے افراد ہیں: «فَانْظُرُوا اِلَی خُلَطَائِهِ»

* تنہائی، بُرے رفیق اور ساتھی سے بہتر ہے۔

* پیغمبراکرمﷺ سے پوچھا گیا: بہترین دوست کونسا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ جس کی ملاقات تمہیں خدا کی یاد دِلائے، جس کی گفتار تمہارے علم و دانش میں اضافہ کرے اور جس کا کردار تمہارے اندر قیامت کی یاد کو زندہ کرے۔

* حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جس وقت تیری قدرت و طاقت ختم ہو جائے گی،اُس وقت تیرے حقیقی اور واقعی دوستوں اور دشمنوں پتہ چل جائے گا۔

* حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اچھا دوست ہی، بہترین رشتہ دار ہے۔

* حدیث میں وارد ہوا ہے: اپنے دوست اور رفیق کا غیظ و غضباورپیسوں ومسافرت کے ذریعے امتحان لو، اگر وہ اِن امتحانوں میں کامیاب ہو جائے، تو اچھا دوست ہے۔

تا توانی می گریز از یارِ بد     یارِ بد بدتر بوَد از مارِ بد

مارِ بد تنها تو را بر جان زند    یارِ بد بر جان و بر ایمان زند

 

اُخوّت اور برادری

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ{الحجرات/۱۰}

’’بےشک مومنین تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے بھائیوں کے درمیان (اختلاف اور نزاع کی صورت میں) صُلح کرا دیا کرو اور اللہ کی پروا کرو،شاید کہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘

اسلام کے امتیازات اور خصوصیات میں سے ہے کہ اصلاحات کو اصل اور جڑ سے شروع کرتا ہے؛ مثلاً اِس آیتِ کریمہ میں فرماتا ہے: فرد اور معاشرے کی راہ و رفتار دُرست کرنے کے لیے، ضروری ہے کہ اُن کی فکری و اعتقادی بنیادوں کی اصلاح کی جائے۔ تمام مومنین آپس میں بھائی ہیں، اب جبکہ سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں، تو نزاع اور لڑائی جھگڑا کیسا؟

برادری اور اُخوّت کی منصوبہ بندی اور لفظ کا استعمال، اسلام کے ابتکارات اور ایجادات میں سے ہے۔

صدرِ اسلام میں، پیغمبراکرمﷺ سات سو چالیس (۷۴۰) افراد کے ہمراہ «نُخَیْله» کے مقام پر موجود تھے کہ حضرتِ جبرائیلؑ نازل ہوئے اور فرمایا: خداوند متعال نے فرشتوں کے درمیان عقدِ اُخوّت باندھا ہے، آنحضرتؐ نے بھی اپنے اصحاب کے درمیان عقدِ اُخوّت باندھا اور ہر  شخص دوسرے شخص کا بھائی بن گیا؛ مثلاً: ابوبکر عمر کے ساتھ، سلمان ابوذر کے ساتھ، طلحہ زبیر کے ساتھ، مقداد عمّار کے ساتھ، عائشہ حفصہ کے ساتھ اور اُمّ سلمہ صفیّہ کے ساتھ رشتہ اُخوّت میں بندھ گئے اور پیغمبرﷺ نے اپنا عقدِ اُخوّت، حضرتِ علی علیہ السلام کے ساتھ باندھا۔

اُخوّت و برادری کا تعلّق، فقط مردوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے، بلکہ یہ تعبیر خواتین کے لیے بھی استعمال ہوئی ہے: «وَ إِن کَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَ نِسَاءً»

بھائی بنانے سے زیادہ اہم جو چیز ہے، وہ برادری اور برادرانہ تعلقات کا تحفُّظ ہے۔ روایات میں اُن لوگوں پر جو اپنے دینی بھائیوں کو چھوڑ دیتے اور اُن سے قطع تعلّق کر لیتے ہیں، سختی کے ساتھ تنقید کی گئی ہے اور یہ سفارش کی گئی ہے کہ اگر بھائی تجھ سے دُور ہو جائیں، تو اُن کے ساتھ رفت و آمد کو باقی رکھ: «صِلْ مَنْ قَطَعَک»

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’مومن، مومن کا بھائی ہے، جیسے ایک بدن کہ اگر اُس کا ایک حصّہ بیمار ہو جائے، تو تمام بدن ناراحت ہو جاتا اور درد کرتا ہے۔‘‘

اُخوّت و برادری کے حقوق

رسولِ خداﷺ فرماتے ہیں: ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر تیس (۳۰) حق رکھتا ہے اور اُن میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ دوسرے کے حقوق کو ادا کرے، منجملہ حقوق یہ ہیں:

’’۱۔ عفو و درگذر اور اس کے ساتھ مہربانی؛ ۲۔ اُس کے اسرار کا چھپانا؛ ۳۔ اُس کی غلطیوں کا جُبران؛ ۴۔ اُس کا عُذر قبول کرنا؛ ۵۔ اُس کے بدخواہوں کے سامنے اُس کا دفاع؛ ۶۔ اُس کی نسبت خیرخواہی اور بھلائی؛ ۷۔ اُس سے کیے ہوئے وعدوں پر عمل؛ ۸۔ بیماری کے وقت اُس کی عیادت و احوال پرسی؛ ۹۔ اُس کی تشییع جنازہ میں شرکت؛ ۱۰۔ اُس کی دعوت اور تحفے کو قبول کرنا؛ ۱۱۔ جزا و عوض میں اُسے بھی تحائف دینا؛ ۱۲۔ اُس کی خدمات و زحمات پر شکریہ ادا کرنا؛ ۱۳۔ اُس کی مدد کرنے کی پوری کوشش کرنا؛ ۱۴۔ اُس کی ناموس کی حفاظت کرنا؛ ۱۵۔ اُس کی حاجت و ضرورت پوری کرنا؛ ۱۶۔ اُس کی مشکلات حل کرنے کے لیے واسطہ بننا؛ ۱۷۔ اُس کے گمشدہ کی راہنمائی کرے؛ ۱۸۔ اُس کی چھینک کے وقت تہنیت کہے اور دعا دے؛ ۱۹۔ اُس کے سلام کا جواب دے؛ ۲۰۔ اُس کی بات کا احترام کرے؛ ۲۱۔ اُس کے تحفے کو اچھا مہیّا کرے؛ ۲۲۔ اُس کی قسم کو قبول کرے؛ ۲۳۔ اُس کے دوست کو دوست رکھے اور اس کے ساتھ دشمنی نہ کرے؛ ۲۴۔ حادثات و مشکلات میں اُسے تنہا نہ چھوڑے؛ ۲۵۔ جو کچھ اپنے لیے پسند کرے، اُس کے لیے بھی وہی پسند کرے؛ و۔۔۔‘‘

 

صُلح اور میل میلاپ

اسلام صُلح و صفا اور مسالمت آمیز و شیرین زندگی پر توجّہ دیتا ہے، وہ الہٰی نعمتیں جن کا قرآنِ کریم میں ذکر ہوا ہے، اُن میں سے ایک نعمت، مسلمانوں کے دلوں میں (ایک دوسرے کی نسبت) اُلفت و محبت ہے۔ جیسا کہ خداوند متعال مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے: «کُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ» ؛ یاد کرو اُس وقت کو جب تم اسلام سے پہلے ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر خداوند متعال نے تمہارے دلوں میں اُلفت و محبت پیدا کر دی۔

صُلح اور باہمی تصفیہ کرانا، خداوند متعال کی طرف سے بخشش اور رحمت حاصل کرنے کا سبب شمار کیا گیا ہے: «وَ إِنْ تُصْلِحُواْ وَ تَتَّقُواْ فَإِنَّ اللَّهَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیماً» ؛ اور جو شخص مسلمانوں کے درمیان عمدہ وساطت کرے اور اچھا وسیلہ بنے، وہ اپنی شان کے مطابق پاداش حاصل کرے گا: «مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَکُن لَّهُ نَصِیبٌ مِّنْهَا»

اسلام نے لوگوں کے درمیان صُلح و صفائی کے لیے، مخصوص احکام قرار دیئے ہیں؛ منجملہ یہ ہیں:

۱۔ جھوٹ اور دروغ گوئی جو گناہانِ کبیرہ میں سے ہے، اگرجھوٹ صُلح و صفائی اور مصالحت کے لیے بولا جائے، تو کوئی جرم اور گناہ نہیں ہے: «لَا کِذْبَ عَلَی الْمُصْلِحِ»

۲۔ نجوا اور کاناپھوسی کرنا (یعنی کسی کے کان میں آہستہ سے کچھ کہنا) جو شیطانی اعمال سے اور موردِ نہی ہے، اگر صُلح و صفائی اور مصالحت کرانے کے لیے ہو، تو کوئی حرج نہیں ہے: «لَا خَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَیْنَ النَّاسِ»

۳۔ باوجود اِس کے کہ قَسَم پر عمل کرنا، واجب اور اُسے توڑنا حرام ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص قسَم کھائے کہ وہ دو افراد کے درمیان رنجش دُور کرنے اور مصالحت کرانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کرے گا، تو اسلام اِس قسَم کے توڑنے کو جائز سمجھتا ہے: «وَ لاَ تَجْعَلُواْ اللَّهَ عُرْضَةً لِّأَیْمَانِکُمْ أَن تَبَرُّواْ وَ تَتَّقُواْ وَ تُصْلِحُواْ بَیْنَ النَّاسِ»

۴۔ باوجود اِس کے کہ وصیّت کے مطابق عمل کرنا، واجب اور اُس کا ترک کرنا حرام ہے؛ لیکن اگر وصیّت پر عمل کرنا، لوگوں کے درمیان فتنہ و فساد اور کدورت پیدا کرتا ہے، تو اسلام اجازت دیتا ہے کہ وصیّت کو چھوڑ دیا جائے تاکہ لوگوں کے درمیان صُلح و صفا اور امن و آشتی حاکم رہے: «فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفاً أَوْ إِثْماً فَأَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَیْهِ»

 

دینی تعلقات اور ارتباط

سورۂ رعد  کی آیت نمبر ۲۱ میں، عقلمندوں کی ایک نشانی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اُن چیزوں کے ساتھ اپنا تعلق اور ارتباط قائم کرتے ہیں جن کے ساتھ خداوند متعال نے تعلق برقرار کرنے کا حکم دیا ہے: «وَ الَّذِینَ یَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ یُوصَلَ» روایات میں آیا ہے کہ جس چیز کے ساتھ خداوند متعال نے تعلقات برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے، وہ صلہ رحمی، یعنی خاندانی تعلقات کو محفوظ رکھنا اور اسی طرح مکتبی تعلقات کا تحفُّظ، یعنی آسمانی رہبروں اور پیشواؤں کے ساتھ دائمی اور عمیق تعلق و ارتباط اور  ولایت کے راستے کی پیروی ہے۔

وہ تعلقات جن کے بارے میں خداوند متعال نے حکم دیا ہے، وہ مختلف اور بہت سے ہیں؛ منجملہ یہ ہیں:

۱۔ علماء اور دانشمندوں کے ساتھ ثقافتی تعلق: «فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ»

۲۔ لوگوں کے ساتھ اجتماعی اور معاشرتی تعلق: «اصْبِرُواْ وَ صَابِرُواْ وَ رَابِطُواْ»

۳۔ والدین کے ساتھ عاطفی اور محبت آمیز تعلق: «وَ بِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً»

۴۔ ضرورتمندوں اور ناداروں کے ساتھ مالی تعلق: «مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً»

۵۔ معاشرے کی تدبیر اور ادارہ کرنے میں فکری تعلق: «وَ شَاوِرْهُمْ فِی الأَمْرِ»

۶۔ ولایت کے ساتھ سیاسی تعلق: «وَ أَطِیعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلِی الأَمْرِ مِنکُمْ»

۷۔ زندگی کے تمام  شعبوں میں مومنین کے ساتھ  تعلق: «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ»

۸۔ اولیائے خدا کے ساتھ معنوی تعلق: «لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ»

 

ماخذ:

رمضان ہمراہِ قرآن:تیس دن، تیس درس،تفسیرِ نور کی بنیاد پر

حجۃ الاسلام و المسلمین محسن قرائتی

تبصرے
Loading...