امام جعفر صادق اور امام علی رضا (علیہماالسلام) کا قرآن کی طرف رغبت دلانا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام جعفر صادق اور امام علی رضا (علیہماالسلام) کا قرآن کی طرف ہدایت کرنا

اہل بیت (علیہم السلام) اور قرآن کریم دو ایسی چیزیں ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گی یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس پہنچے، ان دو قیمتی چیزوں کا باہمی تعلق اتنا گہرا اور مکمل ہے کہ ان دونوں کے درمیان ہرگز کسی قسم کا تضاد، اختلاف اور جدائی پیدا نہیں ہوسکتی یہاں تک کہ اہل بیت (علیہم السلام) جو کچھ فرماتے ہیں یا عمل انجام دیتے ہیں، عین قرآن کے مطابق ہے اور وہ کیونکر قرآن سے ہٹ کر کوئی کام کریں جبکہ قرآن، اللہ کا کلام ہے اور اگر اہل بیت (علیہم السلام) قرآن سے ہٹ کر کچھ کریں تو درحقیقت ان کا وہ کام اللہ کے کلام اور حکم کے مخالف ہوگا جبکہ وہ اللہ کے حقیقی عبد اور فرمانبردار ہوتے ہوئے درجہ عصمت کی عظیم ترین بلندی پر فائز ہیں، لہذا ان کے اقوال، اعمال و کردار قرآن کے عین مطابق ہیں، اور دوسرے لوگ چونکہ قرآن کا بخوبی علم نہیں رکھتے تو غیرمعصوم، گناہ کے شکار اور غلطیوں کی زد میں ہیں، اسی لیے لوگوں کو ان حضرات کی طرف جانا پڑے گا اور اپنی دنیاوی اور دینی ضروریات اہل بیت (علیہم السلام) کے سامنے پیش کرنی پڑیں گی تا کہ وہ کتاب لاریب کے مطابق سائل کو بے عیب فیصلہ اور حکم بتائیں اور سائل اپنی آخرت کے سفر کا زاد راہ اسی دنیا میں اس طرح سے اکٹھا کرتا ہوا آگے بھیج دے اور قیامت کے دن اللہ تعالی کی رحمت کے سائے میں قرار پائے۔

یہاں تک واضح ہوگیا کہ کیونکہ قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) حجت، مضبوط دلیل اور لوگوں کے اعمال کے معتبر پشت پناہ ہیں تو ہر انسان کو چاہیے کہ اپنی زندگی کو ان کے فرامین کے مطابق بسر کرے اور ہر عمل کو ان کے حکم سے موازنہ کرتے ہوئے انجام دے یا چھوڑ دے۔ اسی لیے ایسا مطالعہ درکار ہے جس کے ذریعہ ان احکام کی انسان معرفت حاصل کرلے، اس معرفت کے حصول کے لئے قرآن کی تلاوت کرنا اور قرآن سے مانوس ہونا ضروری ہے، مگر کیونکہ غیرمعصوم کی سوچ بلند نہیں اور اکثر کے مقاصد دنیاوی اور مادی چیزوں تک محدود ہیں اور انہی چیزوں کو پسند کرتے ہیں اور حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں جن کا تعلق مادیت اور دنیا سے ہو، اور جو مادیت سے بڑھ کر معنویت اور آخرت سے متعلق ہو اس سے غافل رہتے ہیں کیونکہ معنوی امور کے خوبصورت فائدوں اور دلچسپ لذتوں سے بے خبر ہیں، لیکن کیونکہ دنیا سے آخرت کی طرف سفر کرنے کے لئے اللہ تعالی نے اہل بیت (علیہم السلام) کو ہادی و راہنما کے طور پر قرار دیا ہے جنہوں نے قرآن کریم کے احکام کے مطابق راہنمائی اور ہدایت کرتے ہوئے عالم انسانیت کو منزل مقصود اور وادی توحید تک پہنچانا ہے، لہذا اہل بیت (علیہم السلام) سے ہی تعلیم حاصل کرنی پڑے گی کہ اس لاریب کلام الہی کا مقام، عظمت اور رتبہ کتنا بلند ہے اور اس سے فیضیاب ہونے کا طریقہ کار کیا ہے اور کیسے اس کے بلند معارف سے باریاب ہوتے ہوئے کمال حقیقی اور سعادت ابدی تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اسی بات کو واضح کرنے کے لئے ہم امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے ان فرامین کا یہاں پر تذکرہ کرتے ہیں جو آپ نے قرآن کریم کے سلسلے میں ارشاد فرمائے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ چھٹے تاجدار امامت و ولایت نے قرآن کے احکام کی تبلیغ اور اسلامی ثقافت سے معاشرے کو بیدار کرنے کے لئے کیسی محنت کی اور کتنے پیارے بیانات کے ذریعے حیوانی اغراض کا انسانی بلند کمالات کی طرف رخ موڑ دیا:

قرآن اللہ کی تجلی: قرآن کریم اللہ تعالی کی قدرت، علم اور حکمت کا جلوہ ہے اور قرآن کریم کی ہر آیت عظمت پروردگار کی نشانی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: “لقد تجلی الله لخلقه فی کلامه و لکنهم لایبصرون”[1]، “یقیناً اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے اپنے کلام میں تجلی کی لیکن وہ نہیں دیکھتے”۔

قرآن اللہ کا معاہدہ: قرآن، اللہ تعالی اور لوگوں کے درمیان مضبوط معاہدہ ہے، انسان کو چاہیے کہ اس معاہدے پر غور کرے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ” القرآن عهدالله الی خلقه، فقد ینبغی للمرء المسلم ان ینظرفی عهده و ان یقراء منه فی کل یوم خمسین آیة”[2]، “قرآن اللہ کا اس کی مخلوق سے عہد ہے، مسلمان آدمی کے لئے مناسب ہے کہ اس کے عہد میں غور سے دیکھے اور یہ کہ اس میں سے روزانہ پچاس آیات پڑھے”۔ واضح ہے کہ معاہدہ کو پڑھنا اس پر عمل درآمد کرنے کی یاددہانی کا باعث ہے۔

قرآن کا حفظ، تعلیم اور عمل: اگرچہ قرآن کریم کی تلاوت اور حفظ کرنے کا ثواب ہے اور یہ کام اہمیت کا حامل ہے، لیکن مسلمانوں کی ذمہ داری یہیں تک نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور نیز قرآن کی تعلیم لینی اور دینی چاہیے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “الحافظ للقرآن، العامل به، مع السفرة الکرام البررة”[3]، “قرآن کا حافظ اور اس پر عمل کرنے والا محترم اور نیک کردار سفیروں (فرشتوں) کے ساتھ ہے”۔

قرآن سیکھنے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ امام جعفرصادق (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں: “ینبغی للمؤمن ان لایموت حتی یتعلم القرآن او یکون فی تعلمه”[4]، “مناسب ہے کہ مومن اپنی موت سے پہلے قرآن کو سیکھ لے یا قرآن کو سیکھ رہا ہو”۔ نیز اس کے احکام پر عمل کرنا اتنا اہم ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “واحذر أن تقع من إقامتك حروفه في إضاعة حدوده”[5]، “اور پرہیز کرو کہ حروف کو قائم کرتے ہوئے حدود کو ضائع کرنے میں پڑجاو”۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ ظاہری طور پر قرآن کریم کی شکل اور ظاہر پر توجہ کرتے ہیں، لیکن ظاہر کا خیال رکھنے کے علاوہ عمل نہیں کیا جاتا۔

ادب و احترام: قرآن کے ظاہری آداب کا بھی خیال رکھنا چاہیے، جیسے مسواک، وضو، ترتیل، حسین آواز کے ساتھ تلاوت، قبلہ رخ ہونا، تلاوت ہوتے ہوئے خاموشی اختیار کرنا اور سننا، ظاہری آداب کے ساتھ باطنی آداب بھی ہیں جن کو مدنظر رکھنا چاہیے جیسے قلبی طور پر خاشع ہونا اور متاثر ہونا۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) تلاوت ہوتے ہوئے خاموشی اختیار کرنے اور سننے کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں: “اذا قرء عندک القرآن وجب علیک الانصات و الاستماع”[6]، “جب تمہارے پاس قرآن کی قرائت کی جائے تو تم پر خاموشی اور سننا واجب ہے”۔ یہ وہی قرآنی نکتہ ہے جو اللہ تعالی نے سورہ اعراف کی آیت ۲۰۴ میں ارشاد فرمایا ہے: “وَإِذَا قُرِء الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ”، ” اور جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو خاموش ہوکر غور سے سنو کہ شاید تم پر رحمت نازل ہوجائے”۔

جوان اور قرآن کی تلاوت: حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ” من قرء القرآن و هو شاب مؤمن، اختلط القرآن بلحمه و دمه، وجعله الله مع السفرة الکرام البررة و کان القرآن حجیزا عنه یوم القیامة”[7]، “جو شخص قرآن کی قرائت کرے جبکہ وہ جوان مومن ہو تو قرآن اس کے گوشت اور خون میں مل جاتا ہے اور اللہ اسے محترم اور نیک کردار سفیروں (فرشتوں) کے ساتھ رکھتا ہے اور قرآن قیامت کے دن اسے (دوزخ سے) بچانے والا ہوگا۔

حضرت امام رضا ­(علیہ السلام) اور قرآن
قرآن میں غور کرنے کی اہمیت: امام رضا (علیہ السلام) قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے، تین دن میں ختمِ قرآن کرتے تھے اور فرماتے تھے: لَوْ أَرَدْتُ أَنْ أَخْتِمَهُ فِي أَقْرَبَ مِنْ ثَلَاثَةٍ لَخَتَمْتُ، وَلَكِنِّي مَا مَرَرْتُ بِآيَةٍ قَطُّ إِلَّا فَكَّرْتُ فِيهَا وَفِي أَيِّ شَيْءٍ أُنْزِلَتْ وَفِي أَيِّ وَقْتٍ، فَلِذَلِكَ صِرْتُ أَخْتِمُ فِي كُلِّ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ[8]، “اگر میں چاہوں تو قرآن کو تین سے پہلے ختم کردوں لیکن میں کسی آیت سے نہیں گزرتا مگر اس میں غور کرتا ہوں (کہ اس کا مطلب کیا ہے) اور کس سلسلہ میں نازل ہوئی اور کس وقت میں نازل ہوئی، اسی لیے میں ہر تین دن میں ختم قرآن کرتا ہوں”.

گھر میں قرآن کی قرائت: امام رضا (علیہ السلام) رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا: اجعلوا لبيوتكم نصيبا من القرآن فإن البيت إذا قرأ فيه القرآن تيسر على أهله وكثر خيره وكان سكانه في زيادة وإذا لم يقرأ فيه القرآن ضيق على أهله وقل خيره وكان سكانه في نقصان”[9]، “اپنے گھروں کے لئے کچھ حصہ قرآن میں سے قرار دو، کیونکہ جس گھر میں قرآن کی قرائت کی جائے، اس گھروالوں کے لئے آسانی فراہم ہوتی ہے اور اس میں خیر بڑھ جاتا ہے اور اس میں رہنے والوں کے لئے سکون فراہم ہوتا ہے اور جب اس میں قرآن کی قرائت نہ کی جائے تو گھروالوں کے لئے دشواری ہوتی ہے اور گھر کا خیر کم ہوجاتا ہے اور گھر کے رہنے والے نقصان میں پڑجاتے ہیں”۔

نتیجہ: اہل بیت (علیہم السلام) سے زیادہ بہتر قرآن کریم کی عظمت اور اہمیت کو کوئی شخص نہیں پہچان سکتا، لہذا ان حضرات جن میں سے، حضرت امام جعفر صادق اور امام علی رضا(علیہما السلام) ہیں، جو قرآن کی عظمت، شرائط اور آداب تلاوت کو بیان فرماتے ہیں، ان فرامین پر عالم انسانیت کو عمل پیرا ہونا چاہیے، نیز توجہ رہے کہ ہر معصوم کے زمانے میں قرآن کے احکام کو طاق نسیان پر رکھنے کی دشمنوں نے حد درجہ کوشش کی اور ہر معصوم نے وقت کے تقاضوں اور مصلحت الہی کے مطابق کوشش کی کہ قرآن کے معارف و احکام کو لوگوں تک پہنچاتے ہوئے ان کو زندہ کریں، حضرت صادق آل محمد (ص) اور عالم آل محمد (ص) یعنی حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے ثقافتی جد و جہد کرتے ہوئے قرآن کے احکام کو عملی جامہ پہنانے کی انتھک محنت کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ غور کریں کہ جس چیز کا قرآن نے حکم دیا ہے اس پر عمل کریں اور جس چیز سے منع کیا ہے اس سے پرہیز کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:
[1] بحارالانوار، مطبوعہ بیروت، ج 89، ص 107۔
[2] وسایل الشیعه، ج 4، ص 849۔
[3] الحیاه، ج 2، ص ص 152۔
[4] الحیاه، ج 2، ص ص 15۵۔
[5] بحار الأنوار، 85، 44۔
[6] وسائل الشیعه، ج 4، ص 861۔
[7] الحیاه، ج 2، ص 164۔
[۸] الإمام الرضا عليه السلام: قدوة و أسوة، السيد محمد تقي المدرسي، ج1، ص17۔
[۹] وسائل الشيعة، ج4، ص850۔

 

تبصرے
Loading...