وقت کا نظم مولائے کائنات کی نگاہ میں

خلاصه:وقت کا نظم مولائے کائنات کی نگاہ میں 

وقت کا نظم مولائے کائنات کی نگاہ میں

 امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے نورانی کلمات سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان ایک کامیاب زندگی گزارنا چاہتا ہے اور اپنے مقصد اعلی تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے وقت کو منظم کرے اور نظم کے ساتھ زندگی گزارے ،میں یہاں پر وقت کے نظم کو چند عنوان کے ساتھ ذکر کروں گا تاکہ مطلب واضح ہو جائے :
1-ہر کام کو انجام دینے کے لیے وقت کو معین کرنا
ہر کام کے لیے وقت کا معین کرنا ضروری ہے یعنی پورے دن کا نظام الاوقات مشخص ہو کہ اس دن میں کون کون سے کام کرنے ہیں اور کس وقت کرنے ہیں۔[1] بہت سارے ایسے کام ہیں کہ جن کا نتیجہ صحیح نہیں ہوتا اور اسکی اصلی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پہلے سے ان کے لیے کوئی وقت معین نہیں ہوتا یعنی جب تک وقت معین نہیں ہوگا تو اس کا نتیجہ بھی صحیح نہیں ہو سکتا پس ضروری ہے کہ ہر کام سے پہلے اس کے انجام دینے کا وقت معین ہو.[2]
2- وقت کی پہچان
ہر کام کے لیے ایک خاص وقت ہوتا ہے، اس لیے وقت کی پہچان بھی ضروری ہے یعنی ایک نظم کے ساتھ کام کرنا ہو گا مثلا ً کس وقت آرام کرے کس وقت کام کرے اور اسی طرح  جن کاموں کا کوئی نتیجہ نہیں ہے ان سے پرہیز کرے، اپنے قیمتی وقت کا خیال کرے اور زندگی کو منظم کرے۔ [3] بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ انسان اپنے بدن کی پہچان کے بعد ہی انہیں منظم کر سکتا ہے مثال کے طور پر انسان اگر صبح کے وقت کو مطالعہ کے لیے مشخص کرے اور عصر کے وقت کو ورزش کے لیے تو یہ اس کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا اسی طرح ہر انسان اپنے بارے میں جانتا ہے کہ کس وقت وہ کون سا کام کرے تو اس میں کامیاب ہوگا اس لیے وقت کی پہچان بھی ضروری ہے۔ [4]جیسا کہ امیر کائنات کا فرمان ہے :
«ان للقلوب شهوه و اقبالاً و ادباراً، فاتوها من قبل شهوتها و اقبالها، فان القلب اذا اكره عمي.»[5]
بتحقیق دل کی شہوت آنے جانے والی ہے اس لیے دلوں سے اس وقت کام لو کہ جب وہ کام کے لیے تیار ہوں پس دل  کو جب مجبور کیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے۔
3- وقت کو غنیمت جاننا
امام علي (عليه السلام) وقت کی اہمیت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں : «الفرصة تمر مر السحاب فانتهزوا فرص الخير»؛[6]
فرصت بادلوں کی طرح گزر جاتی ہے پس اسے غنیمت سمجھو۔
امام علي (عليه السلام) فرماتے ہیں کہ فرصت نیک جگہ استعمال کرنا اور با لخصوص اسے آخرت کے لیے استفادہ کرنا عقل کی نشانی ہے۔ [7] اور اسی طرح فرصت کا چلا جانا اور اس سے کوئی استفادہ نہ کرنا بے عقل کی نشانی ہے۔ [8]اسی طرح فرمایا کہ فرصت کو موت کے لیے تیاری اور کوشش کرنے والے پر خدا کی رحمت ہے  [9] اور ہاتھ سے گئی ہوئی فرصت پر غمگین ہونے والے پر بھی رحمت خدا ہے۔ [10] اور فرمایا کہ وقت کو غنیمت جانو[11]  کیوں کہ گزرا وقت پھر کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ [12] یا پھر بہت دیر کے بعد آئے گا۔ [13]
اسی لیے امام وصیت کرتے ہیں کہ اپنی ہر فرصت کو اطاعت خدا میں گزارو۔[14]
 4- فرصت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش
امام علي (عليه السلام) اپنے صحابہ کو شوق دلاتے ہیں کہ آخرت کے لیے فرصت سے فائدہ اٹھاؤ۔
«فليعمل العامل منكم في ايام مهله قبل ارهاق اجله و في فراغه قبل او ان شغله و في متنفسه قبل ان يوخذ بكظمه و ليمهد لنفسه و قدمه و ليتزود من دار ظعنه لدار اقامته»[15]
پس عمل کرنے والے بنو ان دنوں میں کہ جن میں تمہیں فرصت ملی ہے اس سے پہلے کہ موت تمہیں موقع نہ دے اور اس سے پہلے کہ جس میں تمہارا دل مشغول ہو اور اس سے پہلے کہ سانس اور پاؤں تمہارا ساتھ نہ دیں اپنے آپ کو تیار کرو اس جہان سے اس جہان کے لیے کہ جہاں ہمیشہ رہنا ہے۔  [16]
اميرالمؤمنين (عليه السلام) اس آیہ کریمہ کے متعلق  «و لا تنس نصيبك من الدنيا»[17] فرماتے ہیں :
«لا تنس نصيبك من الدنيا اي لا تنس صحتك و قوتك و فراغك و شبابك و نشاطك و غناك ان تطلب به الاخرة»[18]
دنیا میں اپنی سلامتی کی نعمت کو نہ بھولو ،اپنی صحت و سلامتی اور جوانی کو آخرت کے لیے غنیمت سمجھو ۔
5. جواني کی فرصت
ہر انسان  کے لیے اس کی زندگی میں جوانی کی فرصت ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اسے اسکی قدر کرنی چاہیے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بھی ہمیں اس کی طرف متوجہ کیا ہے جیسے ہمیں مولائے کائنات  کے کلمات میں ملتا ہے کہ انہوں نے بھی تاکید کی ہے کہ اس جوانی کی فرصت سے استفادہ کرو کیونکہ تمہارے پاس دو عظیم فرصت ہیں ایک جوانی اور دوسری سلامتی، ان کی قدر کرو۔ [19]
حضرت امام علي (عليه السلام) اس کے بارے میں اشارہ کیا ہے جوانی کی فرصت کو تحصیل علم میں صرف کرو ۔ [20]اصل میں جوانی کا زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ جس میں انسان کا ذہن ہر مطلب کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے  امام علي (عليه السلام) نهج البلاغه میں اپنے بیٹے  امام حسن (عليه السلام) کو فرماتے ہیں :
«انما قلب الحدث كالارض الخاليه ما القي فيها من شيء قبلته فبادرتك بالادب قبل ان يقسو قلبك و يشتغل لبك»[21]
جوان کا دل خالی زمین کی طرح ہوتا ہے جو بھی اس میں کاشت کرو گے اسے قبول کرے گا پس اسے ادب سکھاؤ اس سے پہلے کہ اس کا دل سخت ہو جائے اور اس کی فکر آزاد ہو جائے ۔ [22]
6. صحت و سلامتي کی فرصت
سلامتی کی فرصت بھی انسان کے لیے ایک اہم فرصت ہے کہ جو خداوند متعال نے انسان کو عطا کی ہے۔ امام علي (عليه السلام) فرماتے اکثر لوگوں کو اس فرصت کی اہمیت نہیں ہوتی اور جب یہ ہاتھ سے نکل جائے تب وہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.[23]آپ نے فرمایا کہ سلامتی کی نعمت کو اطاعت اور بندگی خدا میں گزارو، اس سے پہلے کہ مریض ہوں اس کو غنیمت سمجھیں ۔ [24] اور پھر فرمایا:
«فالله الله معشر العباد و انتم سالمون في الصحه قبل السقم و في الفسحه قبل الضيق فاسعوا في فكاك رقابكم من قبل ان تغلق رهائنها»[25]
پس خدا کے لیے ،خدا کے لیے جب تک تندرست اور سالم ہو مشکلات میں مبتلا ہونے سے پہلے کمزور ہونے سے پہلے اپنی گردن کو جھکاؤ(یعنی عبادت میں گذارو)اس سے پہلے کہ تم سے یہ نعمت لے لی جائے۔
…………………………………….

حوالے جات
[1] به پژوه، سروش و شفيع پور مطلق
[2] نك: آقا تهراني.
[3] نهج البلاغه، نامه 53.
[4] نك: فرهي.
[5] سيد رضي/ حكمت 184و304.
[6] سيد رضي/ حكمت 20.
[7] آمدي/ 5777؛ برازش 2/ 1498.
[8] آمدي/ 9325؛ برازش 1/ 790.
[9] سيد رضي/ خطبه 75.
[10] آمدي/ 4362 و سيد رضي/ حكمت 114 و نامه 31.
[11] سيد رضي/ خ 232.
[12] الآمدي/ 6443؛ برازش 3/ 2128.
[13] مجلسي، بحارالانوار 75/ 113.
[14] سيد رضي/ خ 82 و 221؛ آمدي/ 4381؛ محمودي 3/ 222و223.
[15] سيد رضي/ خطبه 85.
[16] شهيدي.
[17] قصص/77.
[18] صدوق، معاني الاخبار/ 325.
[19] آمدي/ 5764.
[20] ابن ابي الحديد 20/ 267؛ و نيز ري شهري، العلم و الحكمه في الكتاب و السنه/ 253.
[21] سيدرضي/ نامه 31.
[22] شهيدي.
[23] الامين 16/ 231.
[24] محمودي3 /222-223 و الامين 231/16.
[25] سيد رضي/ خطبه 182.

تبصرے
Loading...