اللہ کی طرف اشارہ، جہالت کا نتیجہ

خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی تشریح کرتے ہوئے چند فقروں کی مختصر وضاحت کی جارہی ہے۔

اللہ کی طرف اشارہ، جہالت کا نتیجہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: وَ مَنْ جَهِلَهُ فَقَدْ أَشَارَ إِلَيْهِ، وَمَنْ أَشَارَ إلَيْهِ فَقَدْ حَدَّهُ، وَمَنْ حَدَّهُ فَقَدْ عَدَّهُ”، “اور جو اس (اللہ) سے بے خبر رہا تو یقیناً اس نے اس کی طرف اشارہ کردیا، اور جس نے اس کی طرف اشارہ کیا تو یقیناً اس نے اسے محدود سمجھ لیا، اور جس نے اسے محدود سمجھا تو یقیناً اس نے اسے (گنتی کا ایک) شمار کرلیا “۔

تشریح:
یہاں اشارہ سے مراد کیا ہے؟ دو احتمال ہیں: ہوسکتا ہے کہ عقلی اشارہ مراد ہو اور ہوسکتا ہے کہ عقلی اشارہ اور محسوس اشارہ دونوں مراد ہوں۔
وضاحت یہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کو لامحدود اور لامتناہی ذات نہ سمجھے تو اپنے ذہن میں اس کے لئے محدود اور خاص مفہوم کا تصور کرلیتا ہے، یعنی عقلی اشارہ سے اس کی طرف اشارہ کرتا ہے، اگر ایسا کرے تو یقیناً اس نے اللہ تعالیٰ کو محدود سمجھ لیا ہے، کیونکہ انسان جو خود محدود ہے وہ لامحدود ذات کا ادراک اور تصور نہیں کرسکتا۔ انسان اسی چیز کا ادراک کرسکتا ہے جس چیز پر اس کا احاطہ ہو اور وہ چیز اس کی محدود سوچ میں آسکے تو ایسی چیز یقیناً محدود ہے۔
اگر کسی نے اللہ کو محدود سمجھ لیا تو اس نے شمار کی جانے والی چیزوں کی قطار میں اللہ کو شمار کردیا، کیونکہ محدود ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ اس جیسی چیز کسی اور جگہ پر تصور کی جاسکے۔ ہر لحاظ سے لامحدود ہی ہے جس کا ثانی نہیں ہے اور وہ عدد اور شمار میں نہیں آتا۔
اس طرح سے مولی الموحّدین (علیہ السلام) توحید کی حقیقت کو ان مختصر فقروں میں بیان فرماتے ہیں اور خیال، قیاس، گمان اور وہم سے بالاتر اللہ تعالیٰ کا تعارف کراتے ہیں۔
یہ احتمال بھی ہے کہ عقلی اشارہ اور محسوس اشارہ دونوں مراد ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی جسمانیّت کا عقیدہ بھی جہالت سے جنم لیتا ہے اور اس کا نتیجہ اللہ کی پاک ذات کو محدود کرنا، شمار کرنا، اس کے لئے شریک ٹھہرانا اور اس کی مانند سمجھنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[اصل مطالب ماخوذ از: پیام امام، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی]

تبصرے
Loading...