آٹھواں درس: رمضان ہمراہِ قرآن(سورۂ حمد کی تفسیر)

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ۝ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ ۝ مَلِکِ یَوْمِ الدِّینِ ۝ إِیَّاکَ نَعْبُدُ و إِیَّاکَ نَسْتَعِینُ ۝ اِهدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ ۝ صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیهِمْ غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِمْ وَلَا الضَّالِّینَ {الفاتحة/۱-۷}

’’شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہان والوں کا پالنے والا ہے، جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، جو روزِ جزاء کا مالک ہے، (اے ہمارے پروردگار!) ہم فقط تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور فقط تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں، (پروردگارا!) ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرماتا رہ، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اپنی نعمتیں نازل کیں، نہ کہ اُن لوگوں کا راستہ، جن پر تیرا غضب نازل ہوا یا جو بھٹکے ہوئے ہیں۔‘‘

«اَلْحَمْدُ لِلّهِ» خداوند عالَم کے تشکّر اورسپاسگذاری کی بہترین اور عمدہ ترین قسم ہے۔ ہر شخص، ہر مکان اور ہر زبان سے، کسی بھی کمال اور خوبصورتی کی جو بھی تعریف و ستائش کرتا ہے، درحقیقت وہ اس کے سرچشمۂ فیض کی تعریف و ستائش کرتا ہے۔ لہٰذا خداوند متعال کی حمد و ثناء، کسی مخلوق کی سپاسگذاری اور تشکّر سے منافات نہیں رکھتی، البتہ اِس شرط کے ساتھ کہ وہ سپاسگذاری، خداوند متعال کے حکم سے اور اسی کے راستے میں ہو۔

خداوندِ عالَم نے اپنے اُوپر رحمت کو واجب قرار دیا ہے: «کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ» اور اُس کی رحمت ہر چیز پر سایہ فگن ہے: «وَ رَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ» نیز اسی طرح پیغمبراکرمﷺاور ان کی (جاودانی) کتاب، رحمت کا باعث ہیں: «رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ» پروردگارِ عالم کی خلقت اور پرورش (ربوبیّت) بھی رحمت کی بنیاد پر استوار ہے اور اگر عقوبت و عذاب دیتا ہے تو یہ بھی اس کے لطف و احسان کی وجہ سے ہے۔

گناہوں کی بخشش، بندوں کی توبہ کی قبولیت، ان کے عیوب سے پردہ پوشی اور انہیں غلطیوں کے جبران و تدارُک کی مہلت دینا، یہ سب اُس کی رحمت و مہربانی کے مظاہر ہیں۔

باوجود اِس کے کہ خداوندِ عالَم تمام اشیاء کا ہر زمانے (اور ہر جگہ پر) مالکِ حقیقی و واقعی ہے، لیکن اس کی مالکیت روزِ قیامت اور معاد میں ایک علیٰحدہ جلوے کی حامل ہو گی۔

جملۂ ’’نَعْبُدُ‘‘ کا اشارہ اِس چیز کی طرف بھی ہے کہ نماز، جماعت کے ساتھ پڑھی جائے اور یہ جملہ اِس مطلب کو بھی بیان کر رہا ہے کہ تمام مسلمان (ایک دوسرے کے) بھائی اور ایک ہی خط اور راستے پرگامزن ہیں، نماز میں گویا نماز پڑھنے والا شخص تمام خدا پرستوں اور موحّدین کی نمائندگی کرتے ہوئے کہتا ہے: خدایا! نہ فقط میں، بلکہ ہم سب تیرے ہی بندے ہیں اور نہ فقط میں، بلکہ ہم سب تیرے ہی لطف و کرم کے محتاج ہیں۔

سورۂ حمد ’’صراطِ مستقیم‘‘ کو اُن کوگوں کا راستہ بیان کرتی ہے جو نعمتِ الہٰی کا مصداق قرار پائے، جیسے: انبیاءؑ، صدّیقین، شہداء اور صالحین۔ اِن بزرگوار ہستیوں کے راستے کی طرف توجّہ، اسے طے کرنے کی آرزو اور اپنے آپ کو اِس آرزو کی تلقین، ہمیں انحراف اور کجروی کے خطرے سے محفوظ رکھتی ہے۔ بندہ اِس درخواست کے بعد، خداوندِ عالَم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اسے غضب شدہ اور گمراہ لوگوں کے راستے پر قرار نہ دے۔

’’أَنعَمتَ عَلَیهِمْ‘‘ میں نعمت سے مراد، نعمتِ ہدایت ہے، کیونکہ ماقبل آیتِ کریمہ میں محورِ گفتگو ہدایت ہے۔ اِس کےعلاوہ (پروردگارِ عالَم کی) مادی نعمتوں سے تو کفّار، منحرفین (رُخ پھیرنے والے) اور دوسرے لوگ بھی بہرہ مند ہیں۔

ہدایت یافتہ افراد بھی ہمیشہ خطرے میں ہیں اور ضروری ہے کہ ہمیشہ خداوند سے چاہیں کہ ہمارا راستہ، غضب اور گمراہی کی طرف ٹیڑھا نہ ہو۔

سورۂ حمد کے تربیتی دروس

۱۔ انسان «بِسْمِ اللّهِ» کہنے کے ساتھ، غیرِ خدا سے اپنی اُمید منقطع کر لیتا ہے۔

۲۔ «رَبِّ الْعَالَمِینَ» اور «مَلِکِ یَوْمِ الدِّینِ» کے ساتھ، یہ احساس کرتا ہے کہ خداوندِ عالَم کا پرورش یافتہ اور مملوک (بندہ) ہے اور اِس لحاظ سے اُسے خود پسندی اور غرور و تکبُّر چھوڑ دینا چاہیے۔

۳۔ «عَالَمِینَ» کے کلمے کے ساتھ، خود کو نظامِ ہستی کے ساتھ مربوط دیکھتا ہے اور انفرادیت و گوشہ نشینی سے دُوری اختیار کرتا ہے۔

۴۔ «اَلرَّحْمنِ الرَّحِیمِ» کہنے کے ساتھ، خود کو پروردگارِ عالَم کے سایۂ لطف و رحمت میں دیکھتا ہے۔

۵۔ «مَلِکِ یَوْمِ الدِّینِ» کہنے کے ساتھ، اُس کی آئندہ کی نسبت غفلت دُور ہو جاتی ہے۔

۶۔ «إِیَّاکَ نَعْبُدُ» کہنے کے ساتھ، اپنی ریاء کاری اور شہرت طلبی کو زائل کرتا ہے۔

۷۔ «إِیَّاکَ نَسْتَعِینُ» کہنے کے ساتھ، غیرِ خدا کسی بھی قدرت و طاقت سے پناہ اور مدد نہیں چاہتا۔

۸۔ «أَنعَمتَ» کہنے کے ساتھ، تمام نعمتوں کو اُسی کی طرف سے قرار دیتا ہے۔

۹۔ «اِهدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ» کہنے کے ساتھ، راہِ حق اور صراطِ مستقیم کی ہدایت و راہنمائی کی درخواست کرتا ہے۔

۱۰۔ «صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیهِمْ» کہنے کے ساتھ، حق کے پیروکاروں کے ساتھ  اپنی ہمبستگی اور ہماہنگی کا اعلان کرتا ہے۔

۱۱۔ «غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِمْ» اور «وَ لَا الضَّالِّینَ» کہنے کے ساتھ، باطل اور اہلِ باطل سے اپنی برائت و بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔

’’بسم اللہ‘‘ کی اہمیت

«بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ» نہ فقط قرآنِ کریم کے آغاز میں، بلکہ تمام آسمانی کتابوں کے آغاز میں موجود رہا ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے کام اور عمل کی بنیاد «بِسْمِ اللَّهِ» رہا ہے۔ حضرتِ سلیمان علیہ السلام نے بھی جب ملکۂ سباء کو ایمان کی دعوت دی، تو اپنے دعوتنامے کا آغاز «بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ» کے جملے کے ساتھ ہی فرمایا۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «بِسْمِ اللَّهِ» ہر کام میں برکت کا باعث ہے اور اس کا ترک کرنا، بُرے انجام کا موجب ہے۔ ہر کام شروع کرنے سے پہلے زبان پر «بِسْمِ اللَّهِ» کا جاری کرنا، موردِ تاکید واقع ہوا ہے؛ کھانے پینے، سونے، لکھنے، سوار ہونے، سفر پر جانے اور بہت سے دوسرے کاموں کے وقت؛ حتی کہ اگر کسی حیوان کو اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کیا جائے، تو (وہ نجس ہے اور) اس کا گوشت کھانا حرام ہے۔

«بِسْمِ اللَّهِ» مسلمان ہونے کی علامت و نشانی ہے اور ضروری ہے کہ ایک مسلمان کے تمام کام الہٰی رنگ رکھتے ہوں۔ جس طرح کہ ایک کارخانے کی بنی ہوئی تمام مصنوعات ایک (خاص) لیبل اور اس کارخانے کی علامت و مارک رکھتی ہیں؛ خواہ وہ جزئ صورت میں ہوں یا کلّی صورت میں۔ یا جیسے ہر ملک کا جھنڈا (پرچم) اس ملک کے تمام اداروں، دفاتر، اسکولوں اور فوجی چھاونیوں پر لہراتا ہے اور نیز اُس ملک کی کشتیوں اور سمندروں میں بحری جہازوں پر لہراتا ہے اور مینیجروں اور افسروں کی دفتری میز پر موجود ہوتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «بِسْمِ اللَّهِ» تمام سورتوں کا تاج ہے۔ قرآنِ کریم میں فقط، سورۂ برائت کے شروع میں «بِسْمِ اللَّهِ» نہیں ہے اور یہ حضرت علی علیہ السلام کی فرمائش کے مطابق، اس وجہ سے ہے کہ «بِسْمِ اللَّهِ» أمن و امان اور رحمت پر مشتمل کلمہ ہے اور کفّار و مشرکین سے برائت کا اعلان و اظہار، محبت کے اظہار کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔

«بِسْمِ اللَّهِ» شیطان کے فرار کا باعث ہے، کیونکہ جو شخص خدا کو اپنے ساتھ رکھتا ہو، شیطان اُس میں اثر نہیں کرتا۔

صراطِ مستقیم

«صراط» دوزخ پر واقع ایک پُل کا نام ہے جس پر سے روزِ قیامت تمام لوگ عبور کریں گے۔

صراطِ مستقیم پر ہونا، ایسی تنہا خواہش اور آرزو ہے کہ جسے ہر مسلمان، ہر نماز میں خداوندِ عالَم سے طلب کرتا ہے؛ حتی کہ رسولِ خداﷺ اور ائمۂ اطہار علیہم السلام، خداوند متعال سے صراطِ مستقیم پر ثابت و برقرار رہنے کو طلب کرتے ہیں۔

صراطِ مستقیم کے مختلف مراتب اور درجات ہیں: «وَ الَّذِینَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى» حتی کہ وہ لوگ جو حق کے راستے پر گامزن ہیں، جیسے خداوند کے اولیاء، ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ راہِ حق پر باقی رہنے اور نورِ ہدایت کے زیادہ ہونے کے لیے دعا کریں۔

صراطِ مستقیم یعنی؛ میانہ روی و اعتدال اور ہر قسم کی افراط و تفریط سے اجتناب، چاہے وہ عقیدے میں ہو یا عمل میں۔

ائمۂ معصومین علیہم السلام روایات میں فرماتے ہیں: ’’صراطِ مستقیم اور سیدھا راستہ ہم (اہلِ بیتؑ) ہیں۔‘‘ یعنی صراطِ مستقیم کا آشکارا و عملی نمونہ اور اِس راستے میں قدم اُٹھانے کے لیے اُسوۂ حسنہ، آسمانی پیشوا اور رہبر ہیں، جنہوں نے اپنے فرامین پر عمل پیرا ہونے کے لیے زندگی کے تمام مسائل جیسے: کام کاج، تفریح، علم حاصل کرنے، کھانے پینے، انفاق کرنے، نقد و اعتراض کرنے، غیظ و غضب، مصالحت اور اولاد سے محبت وغیرہ کے بارے میں اپنی نظر دی ہے اور ہمیں اعتدال اور میانہ روی کی وصیت و سفارش کی ہے۔ قابلِ توجّہ یہ ہے کہ ابلیس بھی اسی صراطِ مستقیم پر کمین لگائے بیٹھا ہے: «لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیمَ»

قرآنِ کریم اور روایات میں، بہت زیادہ ایسے نمونے بیان کیے گئے ہیں جن میں اعتدال اور میانہ روی کا پہلو، کہ جو وہی صراطِ مستقیم ہے، اختیار کرنے کی تاکید اور افراط و تفریط کا شکار ہونے سےمنع کیا گیا ہے۔ جی ہاں! اسلام ایک پہلو رکھنے والا دین نہیں ہے کہ جو فقط ایک پہلو پرتوجّہ دے اور دوسرے پہلوؤں سے آنکھیں بند کرلے؛ بلکہ اسلام ہر کام میں اعتدال و میانہ روی اور صراطِ مستقیم کی تاکید کرتا ہے۔

قرآن میں غضب شدہ افراد

قرآنِ کریم میں کچھ افراد، جیسے: فرعون، قارون اور ابولہب اور کچھ اُمّتیں جیسے: قومِ عاد، قومِ ثمود اور بنی اسرائیل، غضب شدہ افراد اور اُمّتوں کے عنوان سے بیان کیے گئے ہیں اور بعض کا نام گمراہ کرنے والوں کے عنوان سے ذکر ہوا ہے، جیسے: ابلیس، فرعون، سامری، بُرا دوست اور منحرف رؤساء و سردار اور خاندان کے بزرگوں۔ بہت سی آیات میں گمراہ اور غضب شدہ افراد کی خصوصیات اور ان کے مصادیق بیان ہوئے ہیں۔

ہم ہر نماز میں، خداوند متعال سے چاہتے ہیں کہ ہم غضب شدہ افراد کی مانند نہ ہوں؛ یعنی نہ آیاتِ الہٰی کی تحریف کرنے والے ہوں، نہ ربا خور ہوں اور نہ (راہِ خدا میں) جہاد سے فرار کرنے والے ہوں۔ اسی طرح گمراہ لوگوں میں سے بھی نہ ہوں، وہ جو حق کو چھوڑ کر باطل کے پیچھے چلے جاتے ہیں اور اپنے دین و عقیدے میں غلو اور افراط سے کام لیتے ہیں یا اپنی اور دوسروں کی خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کرتے ہیں۔

قرآنِ کریم میں انحراف اور کجروی کے اسباب درج ذیل بیان ہوئے ہیں:

۱۔ ہوا و ہوس اور نفسانی خواہشات: «اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَ أَضَلَّهُ اللَّهُ»

۲۔ بُت پرستی اور شرک: «وَ جَعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً لِّیُضِلُّواْ عَن سَبِیلِهِ»

۳۔ گناہ اور فسق و فجور: «وَ مَا یُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِینَ»

۴۔ باطل کی ولایت و سرپرستی قبول کرنا: «أَنَّهُ مَن تَوَلَّاهُ فَأَنَّهُ یُضِلُّهُ»

۵۔ جہل و نادانی: «وَ إِن کُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّآلِّینَ»

انسان اِس سورۂ حمد میں، انبیاءؑ، شہداء اور صالحین سے اور اُن کی راہ سے اپنے عشق و محبّت اور ولایت پذیری کا اظہار اور اعلان کرتا ہے اور تاریخ کے غضب شدہ و گمراہ افراد سے برائت و بیزاری بھی اختیار کرتا ہے اور یہ چیز تولّا اور تبرّأ کا (کامل) مصداق ہے۔

ماخذ:

سورۂ انعام، آیت۵۴

سورۂ اعراف، آیت۱۵۶

سورۂ انبیاء، آیت۱۰۷

سورۂ نساء، آیت۶۹

تفسیرِ قرطبی اور تفسیر مجمع البیان

سورۂ محمدؐ، آیت۱۷؛ ’’اور وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی خداوند متعال نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا ۔‘‘

بحار الانوار، ج۸۷، ص۳

کافی، باب الاقتصاد فی العبادات

سورۂ اعراف، آیت۱۶؛ ’’میں ضرور ان کے (گمراہ کرنے کے) لیے تیرے سیدھے راستے میں بیٹھوں گا۔‘‘

سورۂ جاثیہ، آیت۲۳

سورۂ ابراہیم، آیت۳۰

سورۂ بقرہ، آیت۲۶

سورۂ حج، آیت۴

سورۂ بقرہ، آیت۱۹۸

تبصرے
Loading...