سیف کی روایات و احادیث کی نوعیت

سیف کی روایات و احادیث کی نوعیت

 
 
 
 
 
 

سیف کی روایات و احادیث کی نوعیت

 
 
 
 
 
 
 

سیف نے اپنی روایات میں ایک سو پچاس سے زیادہ خود ساختہ اور جعلی اصحاب کا ذکر کیا ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ”ایک سو پچاس جعلی اصحاب“ کی پہلی اور دوسری جلد میں ان میں سے ۹۳ خود ساختہ شخصیتوں کا مفصل اور تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔ سیف نے ان میں سے انیس کو قبیلہ تمیم سے منسوب کیا ہے۔ سیف نے ان کے نام سے فتوحات سے متعلق روایات گھڑی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سارے خود ساختہ معجزات، اشعار اور احادیث کی روایت کو ان سے منسوب کیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے نہ ان افراد کو خلق کیا ہے اور نہ ان کی روایات کو بلکہ یہ سب سیف ہی کی تخلیق ہیں۔ علاوہ ازیں اس نے بیسیوں فرضی راوی خود بنائے اور ان سے اپنی خودساختہ روایات نقل کیں۔ ہم نے ”عبداللہ بن سبا“ اور ”ایک سو پچاس جعلی اصحاب“ نامی اپنی ان کتابوں میں ان خیالی راویوں میں سے ستر سے زیادہ پر روشنی ڈالی ہے اور سیف نے ان سے جو روایات نقل کی ہیں ان کا حتی الوسع تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس نے ان میں سے ایک ہی راوی جس کا نام اس نے محمد بن سواد بن نویرہ رکھا ہے سے ۲۱۶ روایات نقل کی ہیں۔ بعض راوی ایسے ہیں جن سے مذکورہ مقدار سے کم روایات نقل کی ہیں۔ اسی طرح موصوف نے بہت سے خود ساختہ افراد کو شعراء نیز ایران، روم اور مسلمان علاقوں کے قائدین کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ سیف نے تاریخی واقعات کے سالوں اور اسلامی تاریخ میں مذکورافراد کے ناموں میں تحریف کی ہے۔ اس نے خود ساختہ احادیث کے ذریعے مسلمانوں کے اندر خرافات کی ترویج کی ہے۔ اس نے مرتدین اور فتوحات کے بارے میں ایسی خود ساختہ جنگوں کا تذکرہ کیا ہے جو کبھی نہیں ہوئیں اور ان فرضی جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں شرمناک طریقے سے قتل ہونے والے لاکھوں لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اس نے اپنی خود ساختہ روایات کے ذریعے اس بات کی ترویج کی ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

ہم نے اپنی کتاب ”عبد اللہ ابن سبا“ کی دوسری جلد کی ابتدا میں اس بات کا بطلان کیا ہے۔ یاد رہے کہ سیف کی من گھڑت روایات ستر سے زیادہ ماخذ میں سرایت کی گئی ہیں۔ ان ماخذ میں حدیث، تاریخ، ادب اور مکتب خلفاء سے مربوط اسلامی تعلیمات کے دیگر شعبون کی کتابیں شامل ہیں۔ ان کتابوں میں عصر رسول(ص) سے لے کر عہد معاویہ تک کے بارے میں سیف کی خود ساختہ روایات خود اس سے منقول ہیں۔ اس کی روایات کو سب سے زیادہ ابن جریر طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔ طبری نے سیف سے جو روایات نقل کی ہیں ان کے بعض نمونے ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں۔

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

۱۔ فوج کے سپاہی ساحال سے لے کر ”وارین“ تک بحری جہازوں کے ذریعے بحری سفر کی مسافت ایک دن اور رات میں طے کر سکتے ہیں اورا نہیں ریگزار جیسی چیز سے گزرنا پڑتا ہے جس کے اوپر اتنا پانی ہے کہ اونٹوں کے سم اس میں ڈوب جائیں۔

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

۲۔ جنگ قادسیہ میں سیف کے جعلی صحابی عاصم بن عمرو تمیمی سے چوپایوں نے فصیح عربی زبان میں گفتگو کی نیز بکیر نے اپنے گھوڑے اطلال سے ایک دریا کو پار کرتے وقت کہا:

 
 
 
 
 
 

 

اطلال چھلانگ لگاؤ۔
پس گھوڑا بول اٹھا:
وثباً و سورة البقرة
یعنی اس نے سورہ بقرہ کی قسم کھائی اور چھلانگ لگا دی۔
 
 
 
 
 
 
 

۳۔ جنوں نے جنگ قادسیہ میں فتح کی مناسبت سے اشعار کہے اور جنگ میں بنی تمیم کی کارکردگی کو سراہا۔

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

۴۔ سوس کی فتح تب ہوئی جب سوس کے دروازے پر دجال نے ٹھوکر ماری اور کہا:

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

انفتح بظار (یہ ایک قسم کی گالی ہے جو عفت کلام کے منافی ہے یعنی کھل جاؤ)

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

۵۔ بہر سیر کی فتح پر فرشتوں نے اسود بن قطبہ کی زبان سے گفتگو کی۔

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

تاریخ طبری کے بعد سے اب تک لکھی جانے والی اسلامی تاریخ کی کتابوں میں سیف کی خودساختہ اور جھوٹی روایات تاریخ طبری کے ذریعے پھیل گئیں۔ یہاں ہم ان میں سے بعض کا ذکر کریں گے۔

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

سیف کی احادیث تاریخ طبری کے ذریعےدیگر تاریخی کتابوں میں کس طرح سرایت کر گئیں؟

 
 
 
 
 
 
 

ابن اثیر نے اپنی تاریخ الکامل کے مقدمے میں لکھا:میں نے اس کتاب میں وہ چیزیں بیان کی ہیں جو کسی دوسری کتاب میں بیان نہیں ہوئیں۔ میں نے اسکی ابتداء امام ابن جریر طبری کی تاریخ کبیر سے کی کیونکہ سب اسی کتاب پر بھروسہ کرتے ہیں اور اختلاف کی صورت میں اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس کتاب سے فارغ ہونے کے بعد میں نے دیگر مشہور تواریخ کا مطالعہ کیا اور تاریخ طبری سے جو باتیں مجھے نہیں مل سکیں انہیں ان تواریخ سے لے کر طبری سے حاصل شدہ معلومات پر ان کا اضافہ کیا سوائے اصحاب رسول(ص) کے درمیان پیش آنے والے واقعات کے کیونکہ ان کے معاملے میں میں نے ابن جریر طبری کے بیانات پر اکتفا کیا ہے سوائے اس صورت کے کہ الفاظ یا کسی انسان کے نام میں کمی بیشی ہوئی ہو یا اس بات کے نقل کرنے سے ان میں سے کسی کی رسوائی لازم نہ آتی ہو۔ اس کے علاوہ میں نے مذکورہ تواریخ اور مشہور کتابوں سے صرف ان لوگوں کی روایتوں کو نقل کیا ہے جن کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ اپنی روایت میں سچے ہیں او ر ان کی کتابیں صحیح ہیں

 
 
 
 
 
 

 

ارتداد، فتوحات اور فتنوں کے معاملے میں اصحاب کے حالات کا ذکر کرنے کے بعد ابن کثیر کہتا ہے کہ یہ خلاصہ ہے ابن جریر طبریکے بیانات کا جنہیں اس نے اس فن کے اماموں سے نقل کیا ہے۔ ۱
ابن خلدون نے کہا ہے کہ اسلامی خلافت اس کے دوران پیش آنے والے ارتداد، فتوحات اور جنگون کے واقعات اور پھر اتفاق و اتحاد کا تذکرہ یہی ختم ہوتا ہے۔ میں نے ان موضوعات کی چیدہ چیدہ اور سب کے ہاں مسلمہ باتوں کا خلاصہ محمد بن جریر طبری کی کتاب تاریخ کبیر سے اخذ کیا ہے کیونکہ اس موضوع پر ہم نے اس سے زیادہ قابل اعتماد کتاب نہیں دیکھی۔ صحابہو تابعینمیں سے امت کی برگزیدہ، عادل اور عظیم شخصیات پر تنقید اور ان کے عیوب کے تذکرے کے معاملے میں بھی یہ کتاب تمام کتابوں سے زیادہ منزہ اور پاک ہے۔ ۲
 
 
 
 
 
 
 

اکثر علماء نے صدر اسلام کی تاریخمیں سیف کی روایات کو کیوں قبول کیا؟

 
 
 
 
 
 
 

طبری نے حضرت ابوذر غفاریاور معاویہ بن ابی سفیان کے واقعہ کے بارے میں لکھا ہے: اس واقعہ کے بارے میں اکثر اقوال کا ذکر مجھے ناپسند ہے۔ ہاں اس بارے میں معاویہ کی صفائی پیش کرنے والے یہاں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جو سیف سے منقول ہے۔ ابن اثیر کہتے ہیں :

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

معاویہ کا انہیں (ابوذرکو) گالی دینا، قتل کی دھمکی دینا، بغیر زین پوش کی سواری پر شام سے مدینہ بھیجنا اور شرمناک طریقے سے مدینے سے نکال دئیے جانے کے واقعات کا نقل کرنا مناسب نہیں ہوتا۔

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

اس کے بعد وہ سیف کا واقعہ نقل کرتے ہیں اور انہیں اسی طرح معاویہ کی صفائی پیش کرنے والوں میں سے قرار دیتے ہیں۔

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

ان دو بڑے علماء نے سیف کے علاوہ دیگر راویوں کی روایات کو ان پر عدم اعتماد کی بنا پر ترک نہیں کیا بلکہ اس لئے ترک کیا کیونکہ ان دونوں کو ان روایات میں حکمران طبقے کی صفائی پیش کرنے کے لئے کوئی مواد نظر نہیں آیا۔ انہیں یہ مواد امیر معاویہ کی وکالت کرنے والوں کے ہاں نظر آیا یعنی سیف جیسے لادین انسان اور اس کے خود ساختہ راویوں کے پاس۔ یہی وجہ ہے کہ طبری نے اپنی تاریخ کو سیف کی روایات سے زینت بخشی۔ اسی بنا پر ہی ابن اثیر نے بھی طبری سے سیف کی روایات کو اخذ کیا۔ نیز ابن کثیر نے بھی یہی کیاہے۔ چنانچہ وہ ۳۶ ئھ کے واقعات میں سیف سے نقل شدہ روایات کی روشنی میں جنگ جمل کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بحث کے آخر میں کہتے ہیں۔

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

”یہ ہیں ابن جریر طبری رحمة اللہ کے بیان کا خلاصہ جو انہوں نے اس فن کے ماہرین سے نقل کیا ہے۔ اس فن کے ماہرین سے ان کی مراد وہی لوگ ہیں جن سے ابن جریر طبری نے یہ روایت نقل کی ہے: یعنی زندیق سیف اور اس کے خودساختہ راویان حدیث“۔

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

علامہ ابن خلدون نے ان حضرات سے بھی زیادہ واضح الفاظ میں خلفاء کی بیعت، مسئلہ ارتداد، اسلامی فتوحات اور جماعت (یعنی معاویہ کی بیعت پر اتفاق) کے بارے میں تاریخ طبری میں بکھری ہوئی سیف کی روایات کو نقل کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے:

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

ہم نے اسے اس مسئلے میں سب سے زیادہ قابل اطمینان پایا۔ امت کے بزرگوں کی عیب جوئی اور ان پر اعتراضات کے معاملے میں بھی یہ کتاب سب سے زیادہ محفوظ ہے۔

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

بنابریں مذکورہ امور کے بارے میں تاریخ طبری میں موجود سیف کی روایات ان کے نزدیک زیادہ قابل اطمینان ہیں کیونکہ یہ روایات بڑے بڑے خلفاء، امراء اور ان کے رشتہ داروں کی عیب جوئی اور ان پر اعتراضات کے معاملے میں سب سے زیادہ محفوظ ہیں۔ یہاں ہم ایک اور دلیل پیش کرتے ہیں جس کی رو سے ان لوگوں کے ہاں بزرگوں پر تنقید کی حامل روایات کا ذکر کرنا معیوب کام ہے، لہذا انہیں تنقید کا نشانہ بنانے والی روایات کی تاویل ڈھونڈنے کی کوشش ضروری ہے خواہ وہ جس طریقے سے بھی ہو۔ اس بات کی دلیل ہمیں حضرت سعد  بن ابی وقاص اور ابو محجن کے واقعہ میں مکتب خلفاء کی طرف سے عذر تلاش کرنے کی کوشش میں ملتی ہے۔ سعدبن ابی وقاص نے ابو محجن کو شرعی حد سے بری کر دیا تھا۔

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

الاستیعاب، اسد الغابہ اور الاصابہ میں ابومحجن کے حالات زندگی میں مذکور بیانات کے مطابق وہ شراب نوشی کرتا تھا۔ حضرت عمرنے سات بار اس پر حد جاری کرنے کے بعد آخر کار اسے شہر سے نکال دیا تھا۔ قادسیہ کی جنگ میں وہ سعدبن ابی وقاص سے جا ملا۔ سعد نے اسے شراب پینے کے جرم میں قید کیا لیکن سعد کی بیوی نے اسے چھوڑ دیا۔ جنگ میں اس نے مشہور کارنامے انجام دئیے تھے اس لئے سعدنے اسے شرعی حد سے بری کر دیا اور کہا:

 
 
 
 
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 

و اللہ ہم تجھے شراب خوری پر کبھی تازیانے نہیں ماریں گے۔

 
 
 
 
 
 

 

ابو محجن نے کہا:
پس میں کبھی شراب نہیں پیوں گا۔
 
 
 
 
 
 
 

یہ تھا سعدکی طرب سے ابو محجن کی حد معاف کرنے کی داستان۔ اس سلسلے میں ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب الاصابہ میں ابن فتحون (متوفی ۵۱۹ ھ) کی کتاب ”التذییل علی استیعاب ابی عمر بن عبدالبر“ سے نقل کرتے ہوئے ابن محجن کے حالات میں لکھا ہے:

 
 
 
 
 
 

 

ابن فتحون نے ابو عمر کو ابو محجن کے واقعے میں یہ کہنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ شراب پی رہا تھا۔ (مگر آگے چل کر کہتے ہیں) ابن فتحون نے اس بات کو رد کیا ہے کہ سعدنے اس سے حد ساقط کر دی تھی اور کہا ہے کہ سعد  کے بارے میں یہ گمان غلط ہے۔ پھر کہتا ہے: اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ لیکن اسے ذکر نہیں کیا۔ شاید اس نے سعدکے اس قول سے کہ وہ اسے تازیانہ نہیں مارے گا، یہ مراد لیا ہے کہ اور یہ ثابت ہو جائے کہ وہ شراب پیتا ہے اور اس کے بعد وہ توبہ نصوح کرے اور دوبارہ اسے انجام نہ دے تو  ۳
 
 
 
 
 
 
 

یوں مکتب خلفاء کے پیروکار اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ بزرگوں یعنی خلفاء، ان کے گورنروں اور ان کے رشتہ داروں پر ہونے والے اعتراضات کا جواب تلاش کریں۔ ان بزرگوں میں پہلے خلفاء سے لے کر معاویہ، مروان بن الحکم، یزید بن معاویہ اور ان کے امراء شامل ہیں۔ بزرگان اور بڑے بڑے صحابہ و تابعین سے ان کی مراد یہی لوگ ہیں۔ چونکہ سیف بن عمر منافق کو ان کی کمزور رگ کا علم تھا اور چونکہ اس نے مکتب خلفاء کے تمام طبقات کی صدیوں پر محیط خواہشات کے عین مطابق روایات گھڑی ہیں نیز اپنی روایات پر خلفاء اور ان کے رشتہ داروں کی حمایت کا رنگ بھی چڑھایا اور یہ تاثر دیا کہ وہ ان کے فضائل کی ترویج کرنا چاہتا ہے لہذا ان چالوں کے دبیز پردوں کے پیچھے رہ کر وہ اسلام کو بدنام کرنے، اسے نقصان پہنچانے، مسلمانوں کے عقائد کے لئے نقصان دہ خرافات کو پھیلانے اور لوگوں کے درمیان اس بات کی ترویج کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ یوں وہ اپنی خود ساختہ روایات کے ذریعے اپنے لادینی اہداف و مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ان عرائض کی مثالیں ہم آئندہ سطور میں پیش کریں گے۔ اس نے اسلامی عقائد کے لئے نقصان دہ جن خرافات کی تبلیغ و اشاعت کی اس کی مثال مدعی نبوت اسود عنسی کے بارے میں خود سیف کی روایت، اللہ تعالیٰ کے حضور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کسری کے درمیان راز کی باتوں کے بارے میں اس کی روایات ہیں۔

 
 
 
 
 
 

 

حوالہ جات
۱ تاریخ کامل ابن اثیر ج۱ صفحہ ۵ مطبوعہ مصر ۱۳۴۸ئھ  
۲ تاریخ ابن خلدون ج۲ صفحہ ۴۵۷
۳ الاصابہ ج۴ صفحہ ۱۷۳، ۱۷۵
 
 
 
 
 
 
 

 

http://shiastudies.com/ur/365/%d8%b3%db%8c%d9%81-%da%a9%db%8c-%d8%b1%d9%88%d8%a7%db%8c%d8%a7%d8%aa-%d9%88-%d8%a7%d8%ad%d8%a7%d8%af%db%8c%d8%ab-%da%a9%db%8c-%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c%d8%aa/

تبصرے
Loading...