بدعت كیا ہے ؟

بدعت كیا ہے ؟

بدعت كیا ہے اور كن چیزوں كو بدعت میں شمار كیا جاتا ہے؟

توحید ابراہیمی تمام آسمانی شریعتوں كی بنیاد ہے اور اس كے كئی درجہ اور مراتب ہیں۔ مسلمان متكلمین نے وسیع پیمانے پر اس كے بارے میں بحث كی ہے اور كئی كتابیں اور رسالے اس سلسلے میں لكھے جا چكے ہیں۔
ان ہی مراتب میں سے ایك قانون گذاری اورتوحید میں تشریع ہےجس كا معنی یہ ہے كہ قانون بنانے كا حق صرف خدا كو ہے اور كسی كو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے كہ ایك فرد یا معاشرے كیلئے قانون بنائے،اور اس پر عمل كرنے كیلئے لوگوں كو مجبور كرے اور اس طرح لوگوں كو ان كے حق آزادی سے محروم كرے۔ بلكہ ہر خدا پرست، قلبی اور عملی طور پہ مان لے كہ قانون بنانا اور لوگوں كو اس پہ عمل كرنے كیلئے مجبور كرنا اور ان كے حق آزادی كو محدود كرنافقط خدا كا حق ہے اور صرف اس كی ذات ہے جو تشریع و تقنین كے ذریعہ لوگوں كے جان ومال میں تصرف كرسكتا ہے یعنی امر ونہی كرسكتا ہے۔ اس مطلب كو دو طریقوں “عقل اور نقل” سے ثابت كیا جاسكتا ہے لیكن پہلے ہم عقل كے ذریعہ اس كے بارے میں بحث كریں گے۔ قانون بنانے كا حق خدا كی ذات كیلئے منحصركرناكسی تنگ نظری كا نتیجہ نہیں ہے بلكہ صحیح طریقے سے قانون جعل كرنے كے شرائط ہیں جو خدا كی ذات كے علاوہ كسی اور میں نہیں پائے جاتے۔ وہ شرطیں یہ ہیں۔

1۔ قانون گذار پوری طرح سے انسان كی ضرورتوں سے آشنا ہو ۔

2۔ قانون گذار كیلئے قانون بنانے میں كوئی فائدہ نہ ہو۔

3۔ كسی پارٹی وغیرہ كا طرف دار نہ ہو اور طاقتور لوگوں سے ڈرتا نہ ہو
یہ تین شرطیں صرف خدا كی ذات میں ہی پائی جاتی ہیں اور بس كیونكہ :

الف) قانون بنانے والا انسان كی ہر لحاظ سے شناخت ركھتا ہو، اس كے غرائز، عواطف، احساسات وغیرہ سے آگاہ ہو، خلاصہ یہ كہ اس كے میل و رغبت كو دقیق طریقے سے كنٹرول كر كے اس كی ہدایت اور رہنمائی كرے۔

قانون گذار سوشیالوجسٹ اور جامعہ شناس ہو تا كہ معاشرے میں انسانوں كی ذمہ داریوں، ان كے اعمال كے مصالح و مفاسد، ان كے عمل و رد عمل اور آپسی روابط سے اچھی طرح سے آگاہ ہو اور ایسی شخصیت خالق اور پیدا كرنے والے كے علاوہ نہیں ہو سكتی۔ وہی ہے كہ جس نے انسانوں كو پیدا كیا ہے اور وہی اپنی مخلوق كی حقیقت سے آگاہ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: “ألا یعلم من خلق و ھو اللطیف الخبیر” (سورہ ملك:۱۴) كیا خدا اپنی مخلوق كو اچھی طرح نہیں جانتا جب كہ وہ اپنی خلقت كے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہ ہے۔

وہ خدا كہ جو ایٹم، بے شمار سل، اور انسانوں كے بدن كے مختلف قطعات كومركب بناتا ہے، قطعاً اس كی آشكار اور مخفی ضروریات اور مخلوق كے مصالح اور مفاسد سے آگاہ اور دانا ہے اور سب بہتر جانتا ہے۔

وہ اپنے وسیع اور نامحدود علم كے ذریعہ افراد كے آپسی روابط اور اس كے رد عمل اور وہ فرائض جو ایك معاشرے میں نظم و انضباط كا سبب بنتے ہیں اور وہ حقوق جو ہر انسانكےلئے شایان شان ہیں ،سے پوری طرح آگاہی ركھتا ہے۔

ب) واقعیت بینی اور انسانوں كے مصالح كی حفاظت كا تقاضا یہ ہے كہ قانون گذار، قانون بناتے وقت حُبّ ذات اور ہر طرح كے سود اور نفع كمانے سے پاك و صاف ہو اور اس میں كسی قسم كی خود غرضی نہ پائی جاتی ہو۔ كیونكہ خود غرضی اور لالچ قانون گذار اور حقیقت كے درمیان ایك حجاب وجود میں لاتا ہےاور قانون بنانے والا كتنا ہی عادل، منصف اور حقیقت پسند كیوں نہ ہو بلا اختیارخود غرضی كے تحت تاثیر آ ہی جاتی ہے۔

ج) كسی طاقتور شخص، گروہ، پارٹی وغیر ہ سے ڈرنا یا ان كا لحاظ كرنا، یہ بھی ان اسباب میں سے ہے جو قانون بنانے والے كو غیر جانبدارانہ قانون بنانے، اس كے اصولوں كی رعایت كرنے اور اس كے جامع ومانع ہونے سے روكتے ہیں، اور اس كیلئے ركاوٹیں كھڑی كرتے ہیں تا كہ وہ عمومی مصلحتوں كیلئے فكر نہ كرسكے اور جس میں لوگوں كی بھلائی ہے اسے مادہ اور تبصرے كے طور پہ قانون كی كتاب میں درج كر سكے۔

قدرت اور طاقت سے خوف چاہے وہ انفرادی صورت میں ہو یا گروہی یا كسی پارٹی كی شكل میں ہو، یہ دموكلس كی تلوار كی مانند ہمیشہ قانون بنانے والے كے سر پر لٹكتی رہتی ہے اور مقناطیسی قوت كی طرح اس كے احساسات، میل ورغبت حتی اس كی نگاہ كے زاویوں پر تاثیر ركھتی ہے۔ خاص كر جب اجتماعی بحران سے موجیں متلاطم ہوں تو قانون گذار كیلئے ضروری ہے كہ زمانے كی ان طاقت ور فكری اور سیاسی امواج كی مرضی كے مطابق آگے بڑھے اور ان كے افكار اور مرضی كے سامنے سر تسلیم خم كرے ورنہ اپنے آپ كو تنہائی اور اكیلے پن (بلكہ بعض اوقات جیل) كیلئے تیار ركھے اور قانون گذاری كے مسئلے كو دوسرے كے سپرد كر دے كیونكہ اگر ان كا لحاظ نہ كرے تو ان قدرتوں اور مشكلات كا مقابلہ كرنے اور ان لہروں كو روكنے كی طاقت بھی نہیں ركھتا۔

اس مقام پر بھی فقط خدا وند متعال ہی ہے جو كسی سے نہیں ڈرتا، اسے كسی كا خوف وہراس نہیں اور كسی كے نقصان اور فائدے كی پرواہ كئے بغیر بشریت كے تقاضوں كے مطابق قانون جعل كرتا ہے۔

خوش قسمتی سے بعض یورپی دانشوروں نے مذكورہ شرطوں پہ توجہ كی ہے؛ ژان ژاك روسو اپنی كتاب “قرار داد اجتماعی” میں اس طرح كہتا ہے:

ایسے قوانین جو تمام ملتوں كے كام آئیں كو كشف كرنے كیلئے ایك عقل كل كی ضرورت ہےجسے انسان كی تمام شہوتوں كا علم ہو لیكن خود شہوت كا احساس نہ كرے، طبیعت سے كسی طرح كا رابطہ نہ ہو لیكن اس كی پوری طرح شناخت ہو۔ اس كی سعادت ہم سے مربوط نہ ہو لیكن ہمیں سعادت اور كمال تك پہنچنے میں مدد كرے اور ایسے افتخارات پہ اكتفا كرے كہ جس كا نتیجہ تدریجاً سامنے آئے اور آشكار ہو۔ یعنی ایك صدی میں خدمت كرے اور دوسری صدی میں اس كا نتیجہ سامنے آئے۔ 1

آپ سمجھ گئے ہوں گے كہ قانون گذاری كا حق فقط خدا كو حاصل ہے، اب اس كے بارے میں كیا فیصلہ ہے؟ قرآن كریم بھی اس سلسلے میں حكم عقل كی تائید كرتا ہے اور ہر طرح كی قانون گذاری كو خدا كیلئے مخصوص سمجھتا ہے۔ بہت ساری آیات اس حقیقت كو بیان كرتی ہیں لیكن مختصر طور پہ یہاں صرف دو آیتوں كو ذكر كریں گے۔

1۔ “ان الحكم الا للہ امر الاّ تعبدوا الا ایاہ ذلك الدین القیم” (یوسف: ۴۰) حكم صرف خدا كیلئے مخصوص ہے، لہٰذاخدا نے حكم دیا ہے كہ اس كے علاوہ ور كی عبادت نہ كریں، یہ ہے مكم دین۔

جملہ “ان الحكم الا للہ” سے معلوم ہوتا ہے كہ ہر قسم كا حكم اور دستور خدا سے مخصوص ہے اور چونكہ یہ مقام صرف اسی كی ذات كیلئے ہے اس لئے حكم دیتا ہے كہ صرف اسی كی عبادت كرو۔

2۔ “اتخذوا احبار ھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ والمسیح بن مریم۔۔۔” (توبہ:۳۱) ہل كتاب نے خدا كو چھوڑ كر اپنے علماء اور راہبوں اور حضرت عیسی بن مریم(ع) كو اپنا رب اور صاحب اختیار قرار دیا۔

اس آیت سے پتہ چلتا ہے كہ اہل كتاب نے خدا كے مخصوص حق كو اپنے دانشوروں اور راہبوں كے سپرد كر دیا اور بجائے اس كے كہ احكام الٰہی كے اخذ كرنے كیلئے آسمانی كتابوں كی طرف رجوع كرتے، اپنے غیر صالح دانشوروں اور راہبوں كی طرف رجوع كرتے تھے جب كہ وہ لوگ مختلف اسباب كی بنا پر حلال خدا كو حرام اور حرام خدا كو حلال قرار دیتے تھے اور اس لحاظ سے توحید تشریعی میں وحدانیت كے قائل نہیں تھے یعنی موحد نہیں تھے۔

حاتم عیسائی كہتا ہے: میں ایك دن پیغمبر (ص) كی خدمت میں حاضرہوا اور وہ اس آیت كی تلاوت كر رہے تھے كہ جس كا مفہوم یہ تھا كہ یہودیوں اور عیسائیوں نے علماء دین كو اپنا رب ،صاحب اختیار بنا لیا ہے، میں نے ان سے كہا: یہ صحیح نہیں ہے۔آپ نے فرمایا: وہ خدا كے حلال كو حرام كرتے ہیں جب كہ تم ان كی پیروی كرتے ہو۔ كیا ایسا نہیں ہے؟ میں نے كہا: یاں ایسا ہی ہے، تو آپ نے فرمایا: اتنا ہی یہ كہنے كے لئے كافی ہے ،كہ تم نے انھیں اپنا رب اور ولی نعمت قرار دے ركھا ہے۔ 2

اس بحث سے یہ نتیجہ نكلتا ہے كہ قانون بنانا یا تشریع كرنا فقط خدا كے ہاتھ میں ہے اور انبیاء و ائمہ (ع) كا صرف یہ كام ہے كہ خدا كی شریعت اور قوانین كو بیان كریں اور وہ ہر گز الٰہی قوانین میں دخل اندازی نہیں كرتے۔ 3

سوال: اب سوال ییدا ہوتا ہے كہ اگر قانون بنانا فقط خدا كا حق ہے تو اس صورت میں ایك اسلامی ملك كی قوۂ مقننہ كہ جسے مجلس شوراے اسلامی (پارلیمنٹ) كہتے ہیں كا كیا مطلب ہے اور اس پارلیمنٹ كا كیا رول ہے؟

جواب: پارلیمنٹ ممبروں كا كام منصوبہ بندی ہے (وہ بھی اسلامی قوانین اور اصولوں كے تحت) نہ كہ خدا كے قوانین كے مقابلے میں قانون بنانا؛ كوئی بھی ملك چاہے كتنا ہی ترقی یافتہ كیوں نہ ہو، منصوبہ بندی اور پروگرام كے بغیر نہیں چل سكتا۔ حقیقت میں پارلیمنٹ كے قانون، اسلامی قوانین كے اجرا كیلئے طریقۂ كار اور انسانی زندگی اور جزئیات كی تطبیق اور مصادیق كو معین كرتے ہیں۔

شریعت میں تصرف یا دین میں بدعت

جس طرح سے قانون بنانا فقط خدا كا حق ہے اور كوئی فرد یا اجتماع كیلئے قانون نہیں بنا سكتا اسی طرح كسی كو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے كہ الٰہی قوانین جو وحی كے ذریعہ لوگوں تك پہنچیں، میں دخل اندازی یا تصرف كرے۔ خدا كے قوانین میں دخل اور تصرف چاہے كمی یا زیادتی كی صورت میں ہو ” بدعت” كہلاتا ہے۔اور ایك بدعت گذار انسان توحید شرعی سے منحرف ہو كر غیر موحد ہو جاتا ہے۔

الٰہی قوانین میں دخل اور تصرف كی بنا پر مفاسد وجود میں آسكتے ہیں، اس بنا پر بدعت حرام ہے اور اسے گناہان كبیرہ میں شماركیا گیا ہے۔ اس مقالے كا مقصد بھی یہی ہے كہ بدعت كی دقیق طریقے سے تعریف كی جائے اور اس كا معنی بیان كیا جائے جو كہ مہم ترین اور اصلی موضوعات میں سے ہے۔

لغت میں بدعت “ایك بے سابقہ عمل” كو كہا جاتا ہے یعنی ایك ایسا نیا كام جو پہلے انجام نہ دیا گیا ہو، بدعت كہلاتا ہے۔ 4

اكثر انسانوں كے اندر جدید اور نئی چیزیں بنانے یا لانے كا جوش وجذبہ حكمفرما ہوتا ہے اور ایسے لوگ عام طور پہ معمول كی زندگی سے تنگ آجاتے ہیں۔ لہٰذا انجینئر، ہنر مند، نقاش وغیرہ ہر دن مكانوں، دكانوں ، كپڑوں، لباس وغیرہ كے نقشہ اور نگار میں تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں اور لغت میں ان سب كا یہ عمل “بدعت” یا بدیع كہلاتا ہے۔ اسی وجہ سے خدا كوقرآن كریم میں بدیع كی صفت سے یاد كیا گیا ہے “بدیع السماوات والارض” (بقرۃ:۱۱۷) كیونكہ اس نے آسمانوں اور زمین كو پہلے سے كسی نقشے كے بغیر بنایا ہے اور دنیا كی خلقت كاملاً بدیع اور جدید عمل ہے۔

روشن اور واضح ہے كہ نہ اس معنی میں بدعت، ہماری بحث میں شامل ہے اور نہ ہی حرام ہے، كیونكہ اسلام اس طرح كی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جدید اور نئی چیزوں كا مخالف نہیں ہے اور نہ ہی نو آوری كی مذمت كرتا ہے۔ آج كل كی دنیا میں گھر، لباس وغیرہ كے لحاظ سے زندگی كی راہ و روش بالكل بے سابقہ اور جدید ہے اور اگر چہ یہ امور لغت میں بدیع شمار كئے جاتے ہیں لیكن نہ ہی اصطلاحی لحاظ سے بدعت ہیں اور نہ ہی گناہ كبیرہ۔

مؤرخین لكھتے ہیں: پیغمبر اسلام (ص) كی رحلت كے بعد صحابہ كی زندگی كے دوران سب سے پہلی بدعت، ایك قسم كی نئی مشین كی ایجاد كہہ سكتے ہیں كہ جس كے ذریعہ آٹے كو چھلكے سے جدا كیا جاتا تھا۔ یہ ایك فنی اور دنیا میں ترقی یافتہ واقعہ تھا جو بدیع اور بے سابقہ تھا، لیكن اصطلاحی لحاظ سے اور فقہاء كی نظر میں بدعت اور حرام نہیں ہے۔ لہٰذا وہ بدعت جو حكم شرعی كا موضوع ہے كی دقیق اور جامع و مانع تعریف اور شناخت كی ضرورت ہے۔

علم كلام اور فقہ كی اصطلاح میں بدعت جو حرام اور گناہ كبیرہ ہے؛ ایك ایسے نئے اور جدید عمل كو كہا جاتا ہے كہ جس سے خدا كے دین كو نشانہ بنایا جائے اور اس میں زیادتی یا كمی كی جائے، مثلاً اذان كے جملوں میں كوئی چیز كم یا زیادہ كی جائے یا واجب روزے كے وقت جو اسلام كی نظر میں طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے اور غروب تك باقی رہتا ہے میں كمی یا زیادتی كرے۔

محققین بدعت كی اس طرح تعریف كرتے ہیں:

الف) بدعت یہ ہے كہ دین میں كوئی چیز اضافہ كی جائے یا كوئی چیز اس سے كم كی جائے اور اس عمل كو دین كی طرف نسبت دی جائے۔ 5

ب) بدعت یعنی دین میں كسی نئی چیز كا اضافہ كرنا جب كہ شرعاً اس كے جائز ہونے پر كوئی دلیل نہ ہو، لیكن اگر یہ نو آوری بنیادی طور پر پہلے سے دین میں موجود ہو تو بدعت نہیں ہے۔ 6

ج) ایك نئے عمل كو دین میں ایجاد كرنا بدعت كہلاتا ہے بشرطیكہ دین میں اس كے جواز پر كوئی دلیل نہ ہو۔ اسے شریعت كے عرف میں بدعت كہتے ہیں، ہم ان تین تعریفوں پر اكتفا كریں گے۔ ان تعاریف كی بنا پر بدعت میں تین ایسے عنصر پائے جاتے ہیں جو اسے سنت سے جدا كرتے ہیں۔

1۔ دین میں تصرف اور دخل اندازی

دین میں تصرف كرنا یعنی كسی چیز كا اس میں اضافہ یا كمی كرنا اور دوسرے الفاظ میں ہر قسم كا تصرف جو دین كو اپنا نشانہ بنائے اور اس میں تغییر و تحول ایجاد كرے اور یہ تحول ایجاد كرنے والا اپنے اس عمل كو خدا اور رسول(ص) كی طرف نسبت بھی دے۔

لیكن ایك ایسا نیا پن یا فعل كہ جس سے دین كو نشانہ نہ بنایا جائے بلكہ روح كیلئے جو نئے پن كو پسند كرے ایك جواب كی شكل و صورت اختیار كرے تو یہ بدعت نہیں ہوگی۔ ہاں ممكن ہے كہ جائز نہ ہو لیكن پھر بھی اصطلاح میں “بدعت” نہیں ہے۔

اس سے یہ نتیجہ نكلتا ہے كہ ہمارے بعض افعال چاہے جائز ہوں یا حرام كو بدعت نہیں كہا جاتا جیسے فوٹبال، بیسكٹبال وغیرہ۔ اس طرح كے زندگی میں جدید اور نئے حوادث اور افعال جن كا دائرہ نہایت ہی وسیع ہے لیكن دین میں تصرف نہیں ہے، كو اصطلاح میں بدعت نہیں كہا جاتا ہے۔

آج كے دور میں مغربی دنیا میں عورتیں مرد ایك ساتھ مل كر زندگی گزارتے ہیں اور یہ ایك معمولی اور عام سی چیز ہے لیكن چونكہ وہ اس ہوسناك فعل كو خدا اور رسول(ص) كی طرف نسبت نہیں دیتے بدعت نہیں كہہ سكتے اگر چہ اسلام میں یہ فعل حرام اور ناجائز ہے۔

پس لفظ بدعت میں “دین میں تصرف اور دخل اندازی” پوشیدہ ہے۔ اگر ایك نئےعمل یا حادثے سے دین كو نشانہ نہ بنایا جائے یعنی اس نئے اور جدید عمل كے موجد اپنے فعل كوخدا اور رسول كی طرف نسبت نہ دیں تو ان كا یہ فعل بدعت نہیں ہوگا چاہے وہ عمل شرعاً جائز ہو جیسے فوٹبال یا حرام ہو جیسے نامحرم مرد اور عورت كا ایك ساتھ رہنا۔

2۔ پہلے سے كتاب و سنت میں موجود نہ ہو

اصطلاحی طور پہ بدعت كیلئے دوسری شرط یہ ہے كہ اصالتاً اور بنیادی طور پر، یہ نو آوری اور ابتكار اسلامی منابع میں نہ ہو كہ جسے یہ لوگ اپنی سند قرار دیں كیونكہ اسصورت میں دین میں تصرف نہیں ہے بلكہ ایك طرح سے اصول كو مجسم كیا گیا ہے اور عمل میں لایا گیا ہے جس سے لوگ غافل ہو گئے تھے اور اس فرد نے اس اصول كو ظاہراور كشف كیا ہے جب كہ یہ عمل پہلے سے دین میں موجود تھا۔

مذكورہ شرط كی بدعت كی تعریف میں صراحت كی گئی ہے اور اس كا لحاظ كیا گیا ہے اور علماء نے اس شرط كی تاكید كی ہے۔ پس ان كے بقول بدعت یہ ہے كہ “جوچیز اصولی اور بنیادی طور پہ دین میں نہ پائی جائے”ورنہ اسے بدعت نہیں كہیں گے یا اس كے وجود پر كوئی دلیل بھی موجود نہ ہو۔

اس شرط كی بنیاد پر ہماری زندگی مں یہ نئی چیزیں اور ایجادات بدعت نہیں ہیں اگر چہ اسے دین كی طرف نسبت دیں كیونكہ ان كی جڑ اور اصل دین میں پہلے سے موجود ہے اور ان كی مشروعیت كو خاص یا كلی طور پہ كتاب و سنت سے استنباط كیا جا سكتا ہے۔

مثلاً آج كے دور میں اسلامی جمہوریہ ایران كی فوج كے پاس بالكل جدید اور ترقی یافتہ ٹكنیك اور سامان ہے۔ یہ عمل ایك ملك كی دفاعی طاقت كو دشمن كے مقابلے میں قوی بناتی ہے تو دوسری طرف سے اسلام كے مقدس آئین كا ایك جزو اور حكم ہے۔ خدا وند متعال فرماتا ہے:”واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدو اللہ و عدوكم” (انفال:۶۰) خدا كے دشمنوں كے مقابلے میں جتنا كر سكتے ہو طاقت اور قوت اور چابك و تیز سوار گھوڑے تیار ركھو تا كہ اس كے ذریعہ خدا كے اور اپنے دشمن كو ڈراؤ۔

اس آیت میں دو حكم ذكر كئے گئے ہیں: ایك عام اور ایك خاص۔

1۔ عام: واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ”:یعنی جہاں تك ہو سكے طاقت اور قوت فراہم كرو۔

2۔ خاص: ومن رباط الخیل” میدان جنگ كیلئے چابك، تیز اورتازہ نفس گھوڑے فراہم كرو۔

لہٰذا جدید ترین اور ترقی یافتہ ترین ٹیكنالوجی والے ہتھیاروں كا خریدنا پہلے حكم كی پیروی اور اطاعت یعنی قوت اور قدرت فراہم كرنا ہے اور اس كا نتیجہ یہ ہے كہ اپنی فوج كو جدید ترین ٹیكنالوجی سے مجہز كرو اور یہ “و اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ” كے حكم كے تابع ہے۔ اس آیت كو مدنظر ركھ كر ہم اپنی فوج اور ٹیكنالوجی و جنگی پیشرفت كو شریعت كی طرف نسبت دے سكتے ہہیں در حالیكہ یہ بدعت كا مصداق بھی نہیں ہے۔ اگر چہ یہ صحیح ہے كہ ان چیزوں كا شریعت میں نام ذكر نہیں ہوا ہے لیكن آیت كا پہلا حصہ اس قسم كے عمل پر شامل ہوتا ہے اور اس طرح كے ایك كلی اصول كا شریعت میں ثابت ہونا اس كے جواز كیلئے كافی ہے۔

مثلاً روایات میں آیا ہے كہ بدعت اور بدعت گذار كا مقابلہ كیا جائے۔ بے شك یہ امر اسی بات كی طرف اشارہ كرتا ہے كہ بدعت گذار افراد اس عمل كو رائج كرنے اور پھیلانے كی كوشش كرتے ہیں۔

پیغمبر اسلام(ص) فرماتے ہیں: اگر كوئی دین میں بدعت انجام دے تو گمراہ افراد كا گناہ اس كے ذمہ ہوگا۔ 7

اس روایت اور ایسی ہی دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے كہ تصرف كی فكر كو جب تك عملی جامہ نہ پہنایا جائے اور یہ فكر خود اس انسان سے تجاوز نہ كرے حرام تو ہے لیكن بدعت نہیں ہے۔ ان تین قسم كی قیود كو مدنظر ركھ كر بدعت كو بیان كر سكتے ہیں۔

كتاب و سنت میں بدعت كی حرمت

بدعت ایك طرح سے خدا كے كاموں میں مداخلت ہے كیونكہ ہم نے ذكر كیا؛ قانون سازی یا قانون گذاری خدا كا كام ہے اور بدعت یعنی خدا كے حقوق اور كاموں میں دخل اندازی ہے جو تعدی شمار كی جاتی ہے۔ نتیجہ میں بدعت حرام ہے۔ اس كے علاوہ ایك ایسے كام كی خدا یا انبیاء(ع) كی طرف نسبت دینا كہ جس كی كوئی اصالت اور حقیقت نہ ہو ایك قسم كا افترا اور بہتان ہے۔

اسی لئے قرآن دو لحاظ سے بدعت كی مذمت كرتا ہے، مثلاً مشركوں كے بارے میں جو كسی دلیل كے بغیر خدا كے رزق كو دو حصوں میں تقسیم كرتے، ایك حصے كو حلال اور ایك كو حرام قرار دیتے اور ان دونوں كو خدا سے منسوب كرتے تھے۔ قرآن فرماتا ہے: “ءاللہ اذن لكم ام علی اللہ تفترون” (یونس:۵۹) كیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یا تم خدا پر افترا باندھتے ہو۔

اور فرماتا ہے: “ولا تقولوا لما تصف السنتكم الكذب ھذا حلال و ھذا حرام لتفتروا علی اللہ الكذب ان الذین یفترون علی اللہ الكذب لایفلحون” (نحل:۱۱۶) اس چیز كو كہ جسے تمہاری زبان جھوٹ بیان كرتی ہے نہ كہو كہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے اور خدا كی طرف جھوٹ كی نسبت نہ دو اور افترا نہ باندھو۔ بے شك وہ لوگ جو خدا كی طرف جھوٹ كی نسبت دیتے ہیں كامیاب نہیں ہوں گے۔

اس آیت میں بدعت گذار كی اس لئے مذمت كی گئی ہے كیونكہ بدعت گذار تشریع اور قانون گذاری میں مداخلت كرتا ہے اور خدا پر جھوٹی تہمت لگاتا ہے ۔ وہ بھی اس طرح سے كہ خود ہی، خدا كی اجازت كے بغیر ایك چیز كو حلال یا حرام قرار دیتا ہے اور پھر اسے خدا كی طرف منسوب كرتا ہے۔

خدا وند متعال یہودیوں اور عیسائیوں كی مذمت كرتا ہے كیونكہ ان كا جرم یہ تھا كہ انھوں نے آسمانی كتابوں میں دخل اندازی اور ہیرا پھیری كی اور اس ہیرا پھیری كو خدا سے منسوب كردیا تا كہ اپنے پست مادی مقاصد تك پہنچ سكیں۔ خداوند متعال فرماتا ہے: “ویل للذین یكتبون بأیدیھم ثم یقولون ھذا من عند اللہ لیشتروا بہ ثمناً قلیلاً فویل لھم مما كسبت ایدیھم و ویل لھم مما یكسبون” (بقرۃ:۷۹) ان لوگوں پر وائے ہو جو اپنے ہاتھ سے كتاب لكھتے ہیں اور پھر جھوٹ كہتے ہیں: یہ خدا كی جانب سے ہے تا كہ تھوڑی سی قیمت كے بدلے اسے بیچ دیں، پس وائے ہو ان لوگوں پر جو اسے اپنے ہاتھوں سے لكھتے ہیں اور وائے ہو ان لوگوں پر جو اس كے ذریعہ كماتے ہیں۔

قرآن مجید كا رویہ ان لوگوں كے ساتھ جو تحریف كرتے ہیں یا دین میں بدعت انجام دیتے ہیں، كا ہم نے مشاہدہ كیال۔ روایات كا بھی یہی طور طریقہ اور رو یہ ہے اور پیغمبر اسلام(ص) اور ائمہ اطہار(ع) نے بدعت گذار افراد كی سخت مذمت كی ہے۔ بہتر ہے كہ بدعت كے بارے میں ایك حدیث نقل كی جائے۔ علماء اسلام نے پیغمبر اكرم(ص) سے اس حدیث كو نقل كیا ہے اور عام طور پہ یہ حدیث نماز جمعہ كے خطبوں میں بیان كی جاتی ہے۔

پیغمبر اسلام(ص) اپنے ایك خطبے میں اس طرح فرماتے ہیں: “اما بعد فان خیر الامور كتاب اللہ و خیر الھدی ھُدی محمد و شر الامور محدثاتھا و كل بدعۃ ضلالۃ” 8 بہترین چیز خدا كی كتاب اور بہترین ہدایت، محمد(ص) كی ہدایت اور رہنمائی اور بد ترین امور میں سے بدعت اور گمراہی ہے۔

آیات اور روایات كے علاوہ عقل بھی بدعت اور بدعت گذار كی مذمت كرتی ہے كیونكہ دین میں دخل اندازی، ایك قسم كا خدا كے مخصوص حقوق میں تجاوز اور ظلم ہے اور وہ بھی ایسا تجاوز اور ظلم كہ جس میں افتراء وبہتان، تہمت، جھوٹ، پستی اور حرمت واضح ہے اور اسے بیان كرنے كی ضرورت بھی نہیں۔

خلاصہ

گزشتہ بحث سے یہ نتیجہ نكلتا ہے كہ:

1۔ قانون بنانا فقط خدا كا حق ہے اور عقل كی نظر میں اس میں ہر قسم كی مداخلت ناپسند اور شرعاً ممنوع اور حرام ہے۔

2۔ قانون گذاری اس لئے فقط خدا كا حق ہے كیونكہ صحیح طرح سے قانون بنانے كیلئے تین خصوصیتوں:

1/2۔ انسان كی شناخت،

2/2۔ قانون بنانے میں سود اور فائدے كا نہ ہونا

3/2۔ سپر پاور یا كسی شخص یا پارٹی سے نہ ڈرنا، كا ہونا ضروری ہے اور یہ خصوصیتیں یا شرطیں صرف خدا میں پائی جاتی ہیں۔ پارلیمنٹ كے ممبر در حقیقت شریعت اسلام اور اسلامی قوانین كے تحت آئندہ كیلئے منصوبہ بناتے ہیں نہ كہ قانون۔

3۔ شریعت كی حدود میں ہر قسم كا تجاوز ممنوع ہے اگر چہ اس كا نتیجہ تحریف كی صورت میں نكل آئے، لہٰذا خدا كے دین میں كسی چیز كی زیادتی یا كمی حرام ہے اور بدعت شمار كی جاتی ہے۔

4۔ اصطلاحی لحاظ سے بدعت ایسی چیز كو كہا جاتا ہے جس میں مندرجہ ذیل شرطیں پائی جاتی ہوں۔

الف) ایك ایسا نیا اور بے سابقہ عمل كہ جس كے ذریعہ دین كو نشانہ بنایا جائے اور اس نئی چیز كو دین كا جزء قرار دیا جائے۔

ب) اس نئی چیز كے وجود پر خاص یا كلی طور پر شریعت اور اسلامی منابع میں كوئی دلیل نہ ہو۔

ج) اس نئی اور جدید چیز كو لوگوں میں رائج كیا جائے۔

5۔ قرآن كریم نے بدعت كو افترا كے نام سے یاد كیا ہے اور مشركین كی حلال كو حرام اور حرام كو حلال قرار دینے كی وجہ سے مذمت كی ہے اور اسی طرح اہل كتاب كی بھی آسمانی كتابوں میں تحریف اور دخل اندازی كے جرم میں مذمت كی ہے۔

پیغمبر اسلام (ص) كی حدیث سے پتہ چلتاہے كہ بدعت بد ترین شے ہے اور گمراہی، ذلت اور جہنم میں جانے اور خدا كے غیظ و غضب كا سبب بنتی ہے۔ عقل بھی شرعی حكم كی تائید كرتے ہوئے بدعت كی مذمت كرتی ہے۔

اب تك ہم بدعت كے لغوی اور اصطلاحی معنی اور اس كے اقسام سے آشنا ہوئے اور اس كے علاوہ عقلی اور نقلی دلیلوں كی روشنی میں بھی اس سے بحث كی۔ اب اسی سلسلے میں چند نكتے قابل توجہ ہیں۔

بدعت كی دو قسمیں ہیں: زیبا اور نایبا؛ بعض كتابوں میں بدعت كو دو قسموں میں تقسیم كیا گیا ہے جو رائج بھی ہے۔ وہ دو قسمیں یہ ہیں:بدعت زیبا، بدعت نازیبا یا دوسرے الفاظ میں “بدعۃ حسنۃ وبدعۃ سیئۃ ” بھی كہا جاتا ہے۔ اس تقسیم كی بنیاد خلیفہ ثانی كے زمانے میں ڈالی گئی كیونكہ لوگ ۱۴ھ تك ماہ رمضان كی مستحبی نماز فرادیٰ پڑھا كرتے تھے۔ پھر كسی سبب كی بنا پر ابی بن كعب كی امامت میں یہ نماز جماعت سے (تراویح) پڑھی گئی۔ خلیفہ نے جب یہ دیكھا تو كہا : “نِعَمتِ البدعۃ” 9 كتنی اچھی بدعت ہے۔

مستحبی اور سنتی نمازوں كا جماعت سے یا فرادیٰ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ فی الحال یہ بحث ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ در اصل ہماری بحث یہی تقسیم ہے جو خلیفہ كے زمانے سے وجود میں آئی ہے۔

ہم نے ذكر كیا كہ بدعت یعنی دین میں ایك نئی چیز كا اضافہ كرنا جسے اسلام نے جعل نہیں كیا ہے اور كتاب و سنت میں بھی اس كا كوئی ریشہ نہیں پایا جاتا ہے۔ اس صورت میں بدعت كی ایك ہی صورت (قبیح اور سیئ) ہو سكتی ہے اور اس كے علاوہ اور كوئی قسم تصور بھی نہیں كی جا سكتی۔ اس بنا پر اس كا زیبا ونازیبا یا حسن اور سیئ میں تقسیم كرنا اصل موضوع سے خارج ہے۔

ہاں، اگر لوگ روز مرہ كی زندگی میں نئی چیزیں وجود میں لائیں یا انجام دیں لیكن اسے خدا و رسول(ص) كی طرف نسبت نہ دیں تو اس صورت میں لغوی اعتبار سے بدعت ہونے كے ساتھ اس كی دو قسمیں بھی صحیح ہو سكتی ہیں (اور یہ بدعت حرام بھی نہیں ہے) اصولی طور پر مختلف قوموں كے درمیان جدید طرح كے آداب و رسوم وجود میں آتے ہیں۔ ان آداب و رسوم كو حسن یا سیئ؛ زیبا یا نازیبا كہا جا سكتا ہے كیو نكہ ممكن ہے كہ ان میں سے بعض آداب مفید ہوں اور بعض غیر مفید لیكن شرعی اعتبار سے بدعت كی ایك ہی قسم ہے جو ممنوع اور حرام ہے۔

دین میں تحریف كے اسباب

اسلام یعنی خدا وند متعال كے سامنے مطلق طور پہ سر تسلیم خم كرنا۔ عقائد اور احكام كے بعض مسائل كا اصلی منبع اور سرچشمہ یہی “تسلیم و رضا” ہے ۔ پس ایك مسلمان كیسے تحریف كا مرتكب ہو سكتا ہے اور اس كا تحریف سےكیا مقصد ہو سكتا ہے؟

ذیل میں بعض ایسے اہداف ذكر كئے گئے ہیں جن كے تحت انسان بدعت یا تحریف كا مرتكب ہوتا ہے اور اسے نص كے مقابلے میں اجتہاد كے موضوع كے تحت انجام دیتا ہے۔

1۔ تقدس مآبی

ممكن ہے كچھ لوگ شخصی معیار كے تحت دینی امور میں دخل اندازی كو تقدس یا پاكدامنی كا نام دیں۔ مثلاً دین اسلام میں روزہ مسافر پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ ماہ رمضان میں مكہ كو فتح كرنے كی غرض سے پیغمبر(ص) نے جب حركت كی تو بالآخرہ ایسے مقام پر پہنچے جہاں سے روزہ افطار كیا جانا چاہیے۔ تھا آپ نے پانی منگوایا اور افطار كیا لیكن كچھ مقدس نما اور فكر و عقل سے عاری لوگوں نے آنحضرت كی مخالفت كی اور روزہ نہیں توڑا۔ ان كے گمان میں یہ تھا كہ اگر روزہ كی حالت میں جہاد كیا جائے تو زیادہ ثواب ملے گا۔ جب ان كی نافرمانی كی خبر آنحضرت(ص) كو ملی تو آپ نے انھیں عاصی اور گنہگار كہا۔ 10

2. ذاتی سلیقہ كی پیروی

شریعت میں ہر موضوع كیلئے صرف ایك حكم یا قانون ہے۔ مسلمانوں كے درمیان اكثر احكام میں اختلاف كا مہم ترین سبب ہویٰ وہوس كی پیروی اور اطاعت ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ لوگ شخصی سلیقہ اور روش كی پیروی كرتے ہیں جو اختلاف كا سبب بنتا ہے۔ حضرت امیر المومنین (ع) اپنے كلام میں اس نكتے كی طرف اشارہ كرتے ہیں۔

اے لوگو! یہ فتنے ہمیشہ ہویٰ و ہوس كی پیروی اور قرآن كے مقابلے میں احكام جعل كرنے سے شروع ہوتے ہیں۔ 11 تاریخ میں اس قسم كی بدعتیں دیكھنے كو بہت زیادہ ملتی ہیں لیكن ہم صرف دو نمونے ذكر كریں گے۔

الف) حج كی كچھ قسمیں ہیں جن میں سے ایك حج تمتع ہے اور یہ حج ہر اس مسلمان پر واجب ہے جو مكہ سے ۴۸ میل یا اس سے زیادہ فاصلے پر رہتا ہے۔ جس شخص پر حج تمتع واجب ہےاسے چاہیے كہ فریضۂ عمرہ كے بعد احرام كی حالت سے باہر آئے اور اس صورت میں اس پر شكار كے علاوہ احرام كے باقی محرمات حلال ہو جاتے ہیں۔ پھر نو ذی الحجہ سے دوبارہ حج تمتع كی نیت سے محرم ہو جاتا ہے۔

تاریخ میں درج ہے: رسول خدا (ص) كے زمانے میں ایك صحابی نے اس قسم كے حج كو انجام نہیں دیا، كیونكہ اسے یہ اچھا نہیں لگا كہ ایك حاجی احرام عمرہ اور احرام حج كے درمیان جنسی لذات سے فائدہ اٹھائے یا غسل كا پانی اس كے سر و صورت سے اس حالت میں محرم بن جائے۔ سرا زیر ہو، اس وجہ سے جب اس صحابی كوخلافت ملی تو اس نے مسلمانوں كو اس فریضے كے انجام دینے سے روكا۔ 12

جب كہ خلیفہ كا یہ عمل حكم خدا و رسول (ص) كے خلاف اور بدعت محسوب ہوتا تھا اور فقط اپنی مرضی، چاہت اور میل و رغبت كی اطاعت تھی۔ خوش قسمتی سے اس حرمت كا اثر دیر پا نہیں رہا اور اب اہل سنت بھی شیعوں كی طرح حج تمتع انجام دیتے ہیں۔

ب) مالكی مذہب كے امام نقل كرتے ہیں: ایك دن مؤذن عمر بن خطاب كے پاس آیا تا كہ اسے نماز صبح كیلئے بلائے۔ جب خلیفہ ہی كو سوئے ہوئے دیكھا تو اس كو بیدار كرنے كیلئے ایك تركیب سوجھی، اس نے یہ جملہ كہا:”الصلاۃ خیر من النوم” نماز نیند سے بہتر ہے۔ خلیفہ كو یہ جملہ پسند آیا اور اس نے كہا: اس جملے كو صبح كی اذان میں قرار دو۔ 13

3۔ بے جا تعصب

بدعت گذاری كی ایك اور علت یہ بھی ہے كہ انسان اپنے آباء واجداد كے رسومات سے متعلق یا اپنے ماحول اور معاشرے كی نسبت كافی متعصب ہوتا ہے اور اپنی ان رسوم، اپنے آباء و اجداد یا معاشرے یا قوم وغیرہ كے مختلف امور سے شدید محبت كرتا ہے جس كی وجہ سے بعض اوقات حقیقی اسلام كو نہیں سمجھ پاتا اور بلكہ كبھی كبھار تو اس كی جگہ باطل كو اپنے لئے منتخب كر لیتا ہے۔

تاریخ میں آیا ہے: طائف كے باشندوں نے پیغمبر اسلام (ص) كی خدمت میں اپنے نمائندے بھیجے تا كہ اپنے اسلام لانے كا اعلان كریں لیكن اس كے ساتھ ہی انھوں نے مسلمان بننے كیلئے تین شرطیں بھی پیش كیں۔

1۔ ان پر ربا كو حلال قرار دیا جائے۔

2۔فاحشہ عورتوں كے ساتھ مقاربت حلا ل قرار دی جائے ۔

3۔ ان كے بت خانے تین سال تك اپنی جگہ قائم رہیں۔ پیغمبر اسلام (ص) نے جب ان كی یہ شرطیں سنیں تو غضبناك ہوئے اور ان كی تمام شرطوں كو رد كر دیا۔ 14

اگر طائف كے لوگ حقیقی مسلمان ہوتے تو خدا كے حكم كے مقابلے میں سر تسلیم خم كرتے اور اپنے مادی فائدے یا ہوائے نفس كو شریعت پر مقدم نہ كرتے۔ ظاہر ہے كہ ان كے شرائط میں مختلف اہداف یا جذبے كارفرما تھے جن میں سے ایك تعصب تھا جس كی وجہ سے وہ بت خانے كو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ پس یہ شرائط اور اسی طرح باقی چیزوں كی وجہ سے ایك معاشرے میں بدعت وجود میں آتی ہے اور اس سلسلے میں اور بھی علل و اسباب ہیں جنھیں بیان كرنے سے گریز كیا جاتا ہے۔

بدعت كے مقابلے میں دین كی حفاظت

علماء، فقہاء اور متكلمین كا فریضہ یہ ہے كہ دین كی حفاظت كریں اور ہر طرح كی بدعت كو جڑ سے اكھاڑ پھینكیں اور ان كا دینی فریضہ ہے كہ بے دین اور غیر متعہد لوگوں كی تقریروں یا تحریروں پہ غور كریں تا كہ ان كے اس ظاہر میں خوبصورت اور شیرین لیكن حقیقت میں سم قاتل كے مانند افكار سے لوگوں كو آگاہ كریں۔ ہر مسلمان كیلئے بدعت سے بچنے كا ایك ہی راستہ ہے كہ اپنے دین، شریعت اور احكام الٰہی كو كتاب و عترت(ع) كے سرچشمہ سے حاصل كرے۔ شیعہ وسنی متواتر حدیث كے مطابق پیغمبر اسلام(ص) نے خدا كی كتاب اور اہل بیت(ع) كی تعلیمات كی طرف رجوع كرنے كا حكم دیا ہے اور یاد دہانی بھی كی ہے كہ اگر امت ان دو سے تمسك ركھے گی تو روز قیامت تك گمراہی سے بچ جائے گی ۔ “انی تارك فیكم الثقلین كتاب اللہ و اہل بیتی و انھما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض” 15 لوگو! میں تمہارے درمیان دو سنگین اور قیمتی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، خدا كی كتاب اور میرے اہل بیت(ع) یہ دو نوں ایك دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تك كہ حوض كوثر پر مجھ پہ واردہوں گے۔

دوسری حدیث میں، خاندان رسالت كو نوح(ع) كی كشتی سے تشبیہ دی گئی ہے كہ جو اس میں سوار ہوا نجات پا گیا اور جس نے اس سے رو گردانی كی ہلاك ہو گیا۔

نتیجہ: اگر امت مسلمہ اپنے اصول اور فروع كو خاندان رسالت سے اخذ كرے، قدرتی طور پہ صحیح اور بھرپور طریقے سے الٰہی ہدایت اور رہنمائی سے فیضیاب ہوگی اور ہر طرح كی بدعت یا بدعت گذاری كی پیروی اور اطاعت سے بچ جائے۔

1. قرار داد اجتماعی: ص۸۱

2. كافی: ج۲،ص۵۳

3. كافی: ج۱، ص۲۰۹۔۲۱۰

4. مفردات راغب:ص۲۸

5. رسائل: ج۳، ص۸۳

6. فتح الباری: ج۵، ص۱۵۶

7. صحیح مسلم: ج، ص۶۲

8. سنن ابن ماجہ: ۱،۱۷، باب ۷، ج۴۵

9. فتح الباری:۴،۲۰۳؛ عمدۃ القاری:۶، ۱۲۵

10. كافی: ج۴،ص۱۲۷؛ صحیح مسلم:ج۷،ص۲۳۲

11. كافی:ج۱،ص۵۴

12. سنن ابی داؤد:ج۲،ص۱۵۲، ح۱۷۹۸

13. موطأ مالك: ص۷۸،ح۸

14. اسد الغابۃ: ج۱،ص۲۱۹

15. مسند احمد:ج۵، ص۱۲۸

http://shiastudies.com/ur/349/%d8%a8%d8%af%d8%b9%d8%aa-%d9%83%db%8c%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%9f/

تبصرے
Loading...