علامہ سید ساجد علی نقوی: برداشت اور بھائی چارے کے ذریعے شرپسند عناصر کو کامیاب نہ ہونے دیں

علامہ سید ساجد علی نقوی: برداشت اور بھائی چارے کے ذریعے شرپسند عناصر کو کامیاب نہ ہونے دیں

شیعہ علماء کونسل کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ روز عاشور راولپنڈی کے مرکزی ماتمی جلوس کے دوران ہونے والے ناخوشگوار سانحے کے حقائق جاننے کے لئے فوری طور پر عدالتی کمیشن قائم کرکے جوڈیشل انکوائری (عدالتی تحقیقات) کرائی جائے اور تمام پہلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلٰی پیمانے پر تحقیقات کرا کے سانحہ کے ظاہری اور پس پردہ عوامل اور ذمہ داران کا تعین کرکے عوام کو حقائق سے آگاہ کیا جائے، ہمارے نزدیک تمام مذاہب، مسالک اور مکاتب کے مقدسات، مساجد، مدارس، امام بارگاہیں، جلوس ہائے عزاء امام حسین علیہ السلام، عوام کی جان و مال و املاک محترم ہیں۔ اُن کا احترام اور حفاظت ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ علامہ سید ساجد علی نقوی نے مزید کہا کہ ہم اشتعال انگیزی، سادہ عوام کے جذبات سے کھیلنے، جلاؤ، گھیراو اور فائرنگ کی شدید مذمت اور نفی کرتے ہیں۔ عوام سے بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ باہمی اتحاد و اتفاق، رواداری، صبر، حوصلہ، تحمل و برداشت اور بھائی چارے کے ذریعہ شرپسند عناصر کے مذموم مقاصد کو کامیاب نہ ہونے دیں۔

علامہ ساجد نقوی کا کہنا تھا کہ ہم یہاں پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ روز عاشور کا مرکزی ماتمی جلوس سال ہا سال سے جاری ہے اور اسی مقررہ راستہ پر گامزن رہتا ہے۔ اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء، تجار، عمائدین اور عوام شریک ہوتے ہیں اور اس جلوس کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس بازار کی تاجر برادری نواسہ رسول (ص) سے محبت اور باہمی رواداری کے اعلٰی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور عزاداران سیدالشہداء بھی سال ہا سال اسی بازار سے نواسہ رسول (ص) کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پُرامن انداز میں گذر جاتے ہیں۔ اس طویل ترین عرصہ کے دوران کئی بار عاشور جمعہ المبارک کے روز آیا اور پُرامن گذر گیا۔ روز عاشور کے حساس ماحول میں نہ اختلافی خطبہ دیا گیا۔ نہ پتھراو، نہ فائرنگ ہوئی نہ ہی جلاو گھیراو اور قتل و غارت گری کا کوئی واقعہ رونما ہوا۔ لیکن اس سال انتہائی سنگین سانحہ پیش آیا، جسمیں کئی انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ کاروبار اور املاک کا بڑا نقصان ہوا،

شیعہ علماء کونسل کے سربراہ نے کہا کہ محسوس ایسے ہوتا ہے کہ یہ سانحہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی اور مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے کرایا گیا ہے۔ جو اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گیا ہے۔ مثال کے طور پر کس کے ایماء پر اشتعال انگیزی ہوئی۔؟ پتھراو اور فائرنگ کس نے کی؟ اوپر سے پٹرول کس نے گرایا؟ آناً فاناً مارکیٹ میں آگ کیسے لگی؟ آگ لگانے کے وسائل کہاں سے آئے؟ مسجد اور مدرسہ روٹ سے تھوڑا ہٹ کر ہونے کے باوجود کیسے جلے؟ انسانی جانوں کا ضیاع کیسے ہوا؟ واقعہ کے بعد مسلح دستوں کو کیوں کنٹرول نہ کیا گیا؟ ان تمام حالات میں انتظامیہ، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کا کردار کیا رہا؟ اس کے علاوہ بہت سے سوالات ہیں جن کے صحیح جوابات عوام جاننا چاہتے ہیں۔

لگتا ایسا ہی ہے کہ یہ سانحہ عاشور کراچی کی طرح ایک پہلے سے طے شدہ سانحہ تھا۔ اس لئے اعلٰی عدالتی تحقیقات کے ذریعہ حقائق منظر عام پر لائے جائیں اور قانون کو حرکت میں لاکر امن کے قیام کو یقینی بنایا جائے، اسی طرح چشتیاں، بہاولنگر، ملتان، شہداد کوٹ اور دیگر مقامات پر ہونے والی اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراو کے ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لاتے ہوئے شرپسندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، تاکہ عوام کی بے چینی ختم ہوسکے۔

تبصرے
Loading...