شب عاشوراسیدحسن نصراللہ کاخطاب؛ کوئی چیز ہم اور حسین(ع) کے درمیان حائل نہيں ہوسکتی

شب عاشوراسیدحسن نصراللہ کاخطاب؛ کوئی چیز ہم اور حسین(ع) کے درمیان حائل نہيں ہوسکتی

رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے بدھ کی شب کو شب عاشورا کی مناسبت سے عزاداران حسینی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اچ اسرائیل عرب اور اسلامی ممالک کی صورت حال اور جنگوں اور فتنوں کی وجہ سے بہت خوش ہے اور ان جنگوں اور تناؤ کی صورت حال کی حمایت کرتا ہے۔

سید حسن نصر اللہ کے خطاب کے اہم نکات:

٭ آج صہیونی ریاست کا وزير اعظم نیتن یاہو اہل تشیع اور اہل سنت کے امور کا ماہر بنا ہوا ہے اور وہ ان کے اعتقادات کے بارے میں اظہار خیال کرتا ہے اور ان کے درمیان اختلافات کو اہمیت اور ہوا دیتا ہے۔

٭ اسرائیل کی ابدی اور دائمی پالیسی علاقے کے ممالک میں تقسیم اور تفرقے پر مبنی ہے اور وہ اپنی بقاء کی خاطر قوموں، قبائل اور فرقوں کی بنیاد پر ان ممالک کی تقسیم کے درپے ہے، تاکہ یہ غاصب ریاست واحد مستحکم قوت کے طور پر اس علاقے میں باقی رہے اور اپنی شرطوں کو خطے پر مسلط کردے۔

٭ صہیونی ریاست مستقبل سے خوفزدہ ہے اور اسی لئے خطے کو مسلسل جنگ میں دھکیل رہی ہے اور وہ کسی صورت میں بھی علاقے کے لئے صلح و امن اور سکون و سلامتی نہیں چاہتی۔

٭ گیارہ ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد اسرائیل اور امریکہ میں یہودی ـ صہیونی لابی نے امریکہ کے تمام تر وسائل اس علاقے پر جارحیت اور اس پر قبضہ کرنے کے لئے استعمال کئے۔ اسرائیلیوں نے امریکہ کو اپنی قوت سے عراق پر حملہ کرنے پر مجبور کیا اور ان کا کردار اس سلسلے میں فیصلہ کن تھا۔ اس ریاست نے اپنا تمام تر اثر و رسوخ استعمال کرکے امریکہ کو شام پر حملہ کرنے کے لئے اکسایا لیکن ناکام ہوئی۔

٭ صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو جب ایران اور 1 + 5 گروپ کے درمیان مذاکرات کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مغربی ممالک اور ایران کے درمیان اختلافات سفارتکاری کے ذریعے حل ہونے کے آثار نمودار ہورہے ہیں تو وہ غصے سے آگ بگولا ہوجاتا ہے۔

٭ ہر قسم کی مفاہمت خطے میں جنگ کے راستے میں رکاوٹ ہے اور صہیونی ریاست اس مفاہمت کے خلاف ہے’ اسرائیل ایک جنگ کے درپے ہے تاکہ اپنی سالمیت کی ضمانت حاصل کرے؛ یہ ریاست چاہتی ہے کہ امریکہ عراق پر قبضہ کرے، شام پر حملہ کرے اور ایران کے خلاف اقدام کرے اور اس کو نابود کرے تاکہ اسرائیل اپنی طاقت کا تحفظ کرسکے۔

٭ امریکہ نے کہا ہے کہ سیاسی راہ حل کا متبادل جنگ ہے لیکن امریکی عوام جنگ نہیں چاہتے۔

بعض عرب ممالک صہیونیوں کے مہلک منصوبوں کے حامی

٭ صہیونی ریاست علاقے میں جنگ، فتنہ انگیزي اور تقسیم و تباہی اور ویرانی چاہتی ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ بعض عرب ممالک کے حکمران بھی اسی اسرائیلی منصوبے کی حمایت کررہے ہیں۔ اور اسی ریاست کی طرح وہ بھی شام میں سیاسی راہ حل کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور ایران اور دنیا کے ممالک کے درمیان مفاہمت کی شدید مخالفت کررہے ہیں۔

٭ یہ ممالک مفاہمت کے خلاف ہیں لیکن مفاہمت کا متبادل کیا ہے؟

٭ خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں پر مسلط بیرونی ایجنٹو! بتاؤ ایران اور دنیا کے ممالک کے درمیان مفاہمت کا متبادل کیا ہے؟ جان لو کہ اس مفاہمت کا متبادل اس خطے میں جنگ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے؛ لیکن کیا تم جانتے ہو کہ یہ جنگ کہاں تک پھیلے گی؟ اسرائیلی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ جنگ شروع تو کرسکتے ہیں لیکن وہ کسی بھی جنگ کو اس خطے میں محدود رکھنے سے عاجز ہونگے۔

نیتن یاہو بعض عرب حکومتوں کا ترجمان!!!

٭ وہ اس علاقے کو منہدم کرنا چاہتے ہیں اور افسوس ہے کہ نیتن یاہو بعض عرب حکومتوں کا ترجمان بنتا ہے اور افسوس ہے کہ زیپی لیونی کہتی ہے کہ اس کی حکومت کو بعض عرب ممالک نے خطوط اور مراسلے بھجوائے ہیں اور اسرائیل سے درخواست کی ہے کہ وہ ایران کے جوہری مسئلے میں اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے۔۔۔ کیا یہ بات شرمناک نہیں ہے؟

٭ ہمیں 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 33 روزہ جنگ میں ایسی ہی باتیں سننے کو ملیں جب اسرائیلیوں نے کہا کہ انہیں بعض عرب ممالک نے رابطہ کرکے، کہا ہے کہ لبنان میں اپنی جنگ بند نہ کرو۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ساز باز کرنے والے یہ عرب حکمران حزب اللہ کی فتح کی صورت میں گھٹن، دباؤ اور مزاحمت کا شکار ہونگے۔

٭ ہمیں عرب حکمرانوں کی یہی منطق غزہ کی جنگ میں دیکھنے کو ملی کیونکہ وہ صہیونی ریاست کے مقابلے میں محاذ مزاحمت کی کامیابی نہیں چاہتے۔

اور یاد رکھو، امریکہ صرف اپنے مفاد کے درپے ہے

٭ امریکہ اسرائیل اور خطے میں اپنے دوسرے آلہ کاروں کے خاطر کچھ بھی نہيں کرتا؛ امریکہ صرف اپنے مفادات کے لئے کام کرتا ہے؛ اسرائیل بھی امریکہ کے لئے کام کرتا ہے اور ہم نے دیکھا کہ امریکہ نے اپنے مفادات اور اپنے مفادات کو درپیش خطرات کے پیش نظر شام پر حملہ نہيں کیا۔

٭ لبنانی عوام اور علاقے کی تمام قوموں کو جان لینا چاہئے کہ جو لوگ علاقے کو جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں وہ شکست کھائیں گے اور کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کرسکیں گے۔

لبنان میں محاذ مزاحمت صہیونیوں کی جاسوسی کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار

٭ لبنانی عوام کو معاشی اور علاقائی مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے متحد ہوجائیں؛ لبنانی حکومت صہیونی ریاست کی جاسوسی کا سد باب کرنے کی ذمہ دار ہے؛ پارلیمان کے سربراہ نبیہ بری نے اس سلسلے میں اقدام کیا اور اس سلسلے میں بعض اجلاس بھی منعقد ہورہے ہیں؛ ہم بھی محاذ مزاحمت کی حیثیت سے اس سلسلے میں یا کسی بھی مسئلے میں حکومت کی خواہشات کو عملی جامی پہنانے کے لئے تیار ہیں؛ حکومت کو اپنے فرائض منصبی کے مطابق عمل کرکے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاہم اگر حکومت کچھ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو تحریک مزاحمت اسرائیلی جاسوسی کا سد باب کرنے کے لئے بہت کچھ کرنے کے لئے تیار ہے؛ لیکن ہم لبنان کی موجودہ صورت حال کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری قبول کرکے، لیکن اگر حکومت کچھ نہ کرسکی تو تحریک مزاحمت اس ذمہ داری سے پہلی تہی نہیں کرے گی۔

٭ حزب اللہ کا مواصلاتی نظام بہت اہم ہے۔۔۔ کیا ہم عوکر میں واقع امریکی سفارتخانے کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں جو تمام لبنانیوں کی جاسوسی کررہا ہے اور جاسوسی کا گھونسلا بنا ہوا ہے؟ ہمارا مواصلاتی نظام ملک کے اندر فعال نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد اسرائیل کا مقابلہ کرنا ہے اور ہمارا مواصلاتی نظام مزاحمت تحریک کا ہتھیار ہے اور اسرئیل کی فنی ترقی کے پیش نظر ہمارے اس نیٹ ورک کی اہمیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔

لبنان کے بارے میں جان کیری کا موقف غیر اہم ہے

٭ جان کیری نے حال ہی سعودی عرب کے دورے میں کہا ہے کہ انھوں نے سعودی حکومت کے ساتھ اتفاق کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے مستقبل میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گی۔ کیری کے اس موقف نے لبنان میں بعض لوگوں کی خوشی کے اسباب فراہم کئے۔۔۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ حزب اللہ اس رات سے اب تک چین کی نیند نہیں سو سکی ہوگی!! حالانکہ کیری کے موقف کی کوئی اہمیت نہيں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کیری کا یہ موقف ضمنی اعتراف ہے کہ ان کا حامی دھڑا لبنان میں سیاسی کردار ادا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

٭ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا دھڑا ـ جو لبنان کی اکثریت کی ترجمانی کررہا ہے ـ اس ملک کے مستقبل میں کوئی کردار ادا کرنے کا حق نہيں رکھتا!! ۔۔ کیری کے موقف کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے؛ ۔۔ سنہ 2006 میں پوری دنیا نے اسرائیل کی حمایت کی ۔۔۔ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کانڈولیزا رائس نے [مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی حکام کے ساتھ بیٹھ کر] کہا کہ “جدید مشرق وسطی کی پیدائش کا وقت آن پہنچا ہے”، وہ کون تھا جس نے اس “خبیث جنین (Embryo)” کو گرا دیا جس کو امریکہ اور اسرائیل اس خطے میں پیدا کرنے چاہتے تھے؟ کیا یہ تحریک مزاحمت، آپ لبنانی عوام اور لبنانی افواج کی کوششوں کا نتیجہ نہ تھا؟

لبنان میں کابینہ کی تشکیل کا شام کی صورت حال سے ناطہ نہیں ہونا چاہئے

٭ امریکی اور صہیونی اور بعض عرب ممالک کو لبنان کے معاملات پر اثر انداز ہونے کا حق نہيں پہنچتا، کسی کو بھی ایک دھڑے کو حذف کرنے کا حق نہيں ہے اور ہم بھی کسی کو حذف کرنے کے درپے نہیں ہیں؛ لبنان کا اصل ضابطہ یہ ہے کہ شراکت، تعاون اور رابطے کو تسلیم کیا جائے۔

٭ حقیقت یہ ہے کہ لبنان میں دو دھڑے پائے جاتے ہیں جن کے پاس، لبنان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے، باہمی تعاون کے بغیر کوئی اور متبادل نہيں ہے؛ کوئی بھی لبنان سے باہر، اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔

٭ لبنان میں حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں تمام دھڑوں اور جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے؛ عبوری حکومت خلا کو پر کرتی ہے لیکن مشکلات کو حل نہیں کرتی؛ نئی حکومت برسراقتدار آنی چاہئے۔ اب چھ مہینوں کے بعد یا ایک سال یا دو سال کے بعد، جو منصوبہ سب کو مطمئن کرسکتا ہے وہ 9-9-6 کا منصوبہ ہے۔ لیکن اب تک تاخیر کا سبب کیا ہے؟ سبب یہ ہے کہ 14 مارچ کے دھڑے کے لئے سعودی عرب کی طرف سے ایک علاقائی فیصلہ سنایا گیا ہے، اور فطری امر ہے کہ یہ دھڑا اور سعودی حکومت اس فیصلے کو حتمی شکل دینے کے درپے ہیں اور وہ فیصلہ یہ ہے کہ حکومت دوسرے دھڑے کے بغیر تشکیل دی جائے حالانکہ وہ ایسا کرنے سے عاجز ہیں۔

٭ بعض لوگ حکومت کی تشکیل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ لبنان کے حالات میں تبدیلی کے منتظر ہیں؛ وہ انتظار کررہے ہیں کہ اگلے چند ہفتوں میں شام کے اندر حلب، غوطہ غربی اور غوطہ شرقی وغیرہ میں میدان جنگ کی صورت حال بدل جائے گی؛ لیکن ہفتے گذرتے رہے اور حالات ان حضرات کی توقعات کے خلاف ہوئے اور اب بھی صورت حال ان کی توقعات کے خلاف جارہی ہے۔ لہذا اگر کوئی لبنان میں یا خطے میں، لبنان کی حکومت کی تشکیل کے لئے شام میں کامیابیوں کی توقع لئے بیٹھا ہے تو ہم اس سے کہتے ہیں: تم شام میں کامیاب نہیں ہوسکوگے۔

٭ اب ان سے کہا گیا ہے کہ دیکھو بھئی! ایران کے جوہری پروگرام کے سلسلے میں مذاکرات کئے جارہے ہیں اور ان مذاکرات کا نتیجہ یہ ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کا کام تمام کیا جائے چنانچہ حزب اللہ کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل نہ دو! کیا انہیں توقع ہے کہ ایران کے بین الاقوامی مذاکرات کا نتیجہ یہ ہو کہ ایران حزب اللہ سے کہہ دے کہ “مزاحمت ترک کرو”؟ یہ سب توہمات ہیں اور کبھی بھی ایسا نہيں ہوگا۔

٭ چاہے ایران کے جوہری مذاکرات کا نتیجہ مفاہمت ہو چاہے اختلاف ہو، اور حتی اگر خدا نخواستہ یہ اختلاف جنگ کی طرف چلے جائیں، سب کو اس مسئلے سے فکرمند ہونا چاہئے لیکن فریق مخالف کو ہم سے بھی زيادہ فکرمند ہونا چاہئے۔

حزب اللہ کو اپنے حلیفوں پر پورا اعتماد ہے

٭ بےشک اگر جوہری پروگرام کے حوالے سے ایران اور دنیا کے ممالک کے درمیان مفاہمت حاصل ہوجائے تو ہماری ٹیم عالمی اور علاقائی سطح پر مزید مستحکم اور طاقتور ہو جائے گی۔

٭ ہم اپنے حلیفوں کی جانب سے بالکل فکرمند نہيں ہیں؛ ہمارے اس خطے میں دو بنیادی حلیف ہیں “ایران اور شام”، کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ہم نے اپنے حلیفوں کو دوسروں کے ہاتھ بیچ دیں یا انہیں پشت سے خنجر ماریں؟

٭ ہم اپنے حلیفوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بالکل مطمئن ہیں؛ چاہو تو میں گن کر بتا دوں کہ تمہارے حلیفوں نے کتنی مرتبہ تمہیں تنہا چھوڑا؟ چنانچہ شام کی صورت حال اور ایران کے جوہری مسئلے کے حل کا انتظار نہ کرو؛ اب ہمیں اٹھ کر کچھ کرنا چاہئے کیونکہ ہر دن کی تاخیر لبنانی قوم کا ایک دن ضائع ہونے کے مترادف ہے۔

٭ لبنانی ذمہ داری قبول کریں اور علاقائی اور بین الاقوامی حالات کی تبدیلی کا انتظار نہ کریں، انہيں اپنا کام انجام دینا چاہئے۔

سید حسن نصر اللہ نے عاشورائے حسینی کے پرجوش انداز سے انعقاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری سیکورٹی فورسز نیز تحریک مزاحمت کی فورسز عزاداروں کا تحفظ کریں گی اور اس سال عاشورائے حسینی کی عزاداری مختلف حالات میں بپا ہو رہی ہے۔

انھوں نے کہا: عاشورا کے دن کوئی بھی خطرہ، کوئی بھی دھماکہ اور کوئی بھی کار بم، ہمارے امور حسین(ع) کے درمیان جدائی نہيں ڈال سکے گا۔

انھوں نے کہا کہا کہ پورے لبنان میں ابا عبداللہ الحسین اور ابالفضل العباس علیہما السلام کی عزاداری کی مجالس اور جلوس عوام کی بھرپور شرکت سے منعقد ہونگے۔

تبصرے
Loading...