قانون کے سلسلے میں اسلام اور یورپ کے درمیان بنیادی فرق

قانون کے سلسلے میں اسلام اور یورپ کے درمیان بنیادی فرق

1۔ انسان کی اجتماعی زندگی بغیر قانون کے مکمل نھیں ھوسکتی، یعنی انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے قانون کی سخت ضرورت ھے۔2۔قانون کو قانون گذاری کی ضرورت ھوتی ھے کہ جس کی وجہ سے مناسب قوانین کو وضع کر کے قانون کے اغراض و مقاصد کو مکمل کیا جاسکے۔3۔قانون کو بنائے جانے کے بعد اس پر عمل درآمد کرانے کے لئے ایک طاقت کا ھونا ضروری ھے کہ اگر کوئی قانون کی مخالفت کر نا چاھے تو اس کو قانون کا پابند بنانے کےلئے اس طاقت کا استعمال کیا جائے۔ھر ایک معاشرہ کیلئے قانون کا ھونا ضروری ھے اس موضوع کے بارے میں ھم پھلے بیان کر چکے ھیں کہ ھر زمانہ میں تقریباً تمام انسانوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ھے اور شاید بھت کم ھی ایسے اسلامی محقق ھوں گے جو معاشرہ کیلئے قانون کے قائل نہ ھوئے ھوں، البتہ کچھ گنے چنے افراد کا یہ عقیدہ ھے کہ اخلاقی قدر وقیمت کا ھونا ھی معاشرہ کو قوانین حقوقی سے بے نیاز کردیتا ھے۔لیکن یہ ایک نمونہ آئیڈیل اور آرزو ھی ھے اور ھرگز تاریخ میں کوئی ایسا اتفاق پیش نھیں آیا کہ تمام افراد اخلاقیات پر ھی گامزن ھوگئے ھوں اور مستقبل میں بھی کسی ایسے وقت کا امیدوار نھیں رھا جاسکتاکہ تمام افراد ااخلاقی اصولوں کی اس طرح رعایت کریں کہ پھر ان کو حقوقی قوانین کی ضرورت نہ رھے، لھٰذا ھم یہ فرض کرتے ھیں کہ وہ تمام محققین جو اسلام کے سیاسی نظریہ کو بیان کرنے کا قصد رکھتے ھیں ان سب نے قانون کی اصل ضرورت کو تسلیم کیا ھے اور ھم اس بارے میں جس مسئلہ پر بحث کرکے ایک دوسرے کی موافقت چاھتے ھیں وہ مسئلہ یہ ھے کہ جس قانون کو ھم معاشرہ میں رائج کرنا چاھتے ھیں اس قانون کی کیا خصوصیات ھیں؟یعنی ھم یہ تسلیم کر چکے ھیں کہ اصل قانون کی ضرورت ھے لیکن کیا معاشرہ میں بیان ھونے والے ھر قانون کا ھونا کافی ھے اور وہ معاشرہ کو فلاح و بھبود تک پھونچاسکتا ھے یا ایسا نھیں ھے، بلکہ بھتر قانون کو خاص خصوصیات کا متحمل ھونا چاھیے؟ ھم اس بارے میں مختلف نظریات کو بیان کر چکے ھیں:کچھ افراد کا کھنا ھے کہ قانون کو عادلانہ ھونا چاھئیے اس صورت میں قانون کی خاصیت اس کا اصول عدالت پر مبنی ھونا چاھئیے، کچھ دوسرے افراد کھتے ھیں کہ قانون کو مصالح اجتماعی کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ھونا چاھئیے، اور آخر میں تیسرے گروہ کا کھنا ھے کھ: قانون صرف معاشرہ کے نظم و امنیت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ھوتا ھے، یورپ میں ان تین نظریوں کو سب سے مشھور و معروف نظریے ماناجاتا ھے۔اس کے برخلاف خدا پرستوں کے نظریہ مخصوصاً ا سلام کے ماننے والوں کے نظریے، جو کھتے ھیں کہ قانون کو انسانوں کی دنیوی اور اخروی مصالح کا حامل ھونا چاھئیے، صرف لوگوں کی خواھش، نظم اور امنیت کا خواھاں نھیں ھونا چاھئیے بلکہ قانون کو ایسا ھونا چاھئیے جو دنیا اور آخرت میں انسانوں کی مصلحتوں کو مدّ نظر قرار رکھتا ھو، قانون ایسا نہ ھو کہ جس سے معاشرہ کی تمام مصلحتیں چاھے و ہ مادی اعتبار سے ھوں یا معنوی اعتبار سے چاھے دنیوی اعتبار سے ھوں یا اخروی اعتبار سے یہ سب خطرہ میں پڑ جائیں، یعنی اگر قانون ان مصلحتوں میں سے کسی ایک مصلحت کے لئے خلل بن رھا ھو ، تو وہ قانون بے کار ھے، اور وہ انسان اور معاشرہ کی ضروتوں کو پورا نھیں کرسکتا، اس بارے میں بھت زیادہ بحث کی جا چکی ھےں، لیکن اب بھی کچھ تحصیل کرنے والے گروہ اور صاحب نظر افراد کے اذھان عالیہ میں شبھات باقی رہ گئے ھیں لھٰذا اس مسئلہ کوخصوصی توضیح دینا ضروری و لازم ھے۔

2: فردی آزادی اور قانون کے درمیان رابطہآجکل ریڈیو، ٹیلیویژن، اخباروں اور تقریروں میں اس نکتہ پر بھت زیادہ تاکید کی جارھی ھے کہ فردی آزادی اتنی اھم ھے کہ جس کو کوئی قانون محدود نھیں کر سکتا، اور ان آزادیوں میں کسی شخص کو رخنہ ڈالنے کا کوئی حق نھیں ھوتا یعنی فردی آزادیوں کی حفاظت کرنا یہ قانون سے بالاتر ھے اور جو قانون فردی آزادیوں میں مانع ھوتو ایسے قانون کا کوئی اعتبار نھیں ھے، اب ھمارے لئے اس نظریہ کی تحقیق و جستجو کرنا لازمی ھوگیا ھے تاکہ ھم اس کی تحقیق و جستجو کے بعد اس سے منطقی اور علمی نتیجہ حاصل کر سکیں درحقیقت یہ طرز فکر یورپی ثقافت کی پیداوار ھے جسکو ھم بالکل پسند نھیں کرتے، اور اس سے اجتناب کرتے ھیں اور ھمارے حکومتی ذمہ دار حضرات نے معاشرہ میں اس طرح کی ثقافت کے رائج ھونے سے خبر دار کیا ھے، ھم اصلی بحث کو بیان کرنے سے پھلے مقدمہ کے طور پر کچھ موضوعات کو بیان کر رھے ھیں تاکہ ان کے ذریعہ اسلام کے نظریات آسانی سے مل جائیں گے۔یورپی ثقافت کی بنیادکچھ عناصر پر ھے اور انسان مداری یا انسان محوری کی طرف جھکاؤ کو اس ثقافت کا سب سے پھلا،اور اصلی وبنیادی عنصر مانا جاتا ھے، یورپ میں “ھیومانیزم”(Humanism) درمیانی صدیوںکے آخری زمانہ کے مشھور و معروف رائیٹر اور ادباء جیسے اٹلی کے “ڈانٹا” کے ذریعہ ایجاد ھوئی، درحقیقت یہ نظریہ مسیحیت سے پھلے موجود تھا۔جیسا کہ ھم جانتے ھیں کہ عیسائیت مشرقی ممالک اور فلسطین میں پھیلی ، قبل اس کے کہ عیسائیت یورپ میں پھونچے ، یورپی معاشرہ بت پرست تھا، اور اس زمانہ کے سب سے اھم امپراطور (روم کے پادشاھوں کے القاب) رومی تھے جس میں شرقی روم (موجودہ ترکی) اور غربی روم (اٹلی) شامل تھے،ان ممالک میں یھودیوں کو چھوڑ کر بقیہ سب کے سب افراد بت پرست تھے ان کے معاشرہ میں مسیحیت کے داخل ھوجانے اور اس کے حاکم ھونے کی وجہ سے مسیحیت میں تحریفات ھونا شروع ھوگئیں اور بت پرستی کی کچھ چیزیں اس میں داخل ھوگئیں، اور یورپی معاشرہ نے اس طرح کی مسیحیت کے سامنے سر تسلیم خم کردیا، ان تحریفات کے نمونے مسئلہٴ تثلیث اور اس کے بعد کلیساؤں میں حضرت مریم اور فرشتوں کے مجسموں کو نصب کرنا ھے، لھٰذا یہ کلیسا بھی پھلے بت خانوں کی طرح ھوگئے۔جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ یورپ میں تحریف شدہ عیسائیت رائج ھوگئی، اور اس نے شرک کی جگہ لے لی، در حقیقت وہ شرک کی بنیاد پر قائم ھونے والی دنیاوی حکومت تھی جس میں معنویت نھیں پائی جاتی تھی جو یورپ پر عیسائی حکومت یا الھٰی حکومت اور آسمان و ملکوت کی طرف دعوت دینے والی حکومت کے نام سے حاکم ھوئی اوران حکومتوں کے نام سے لوگوں پر ظلم وستم کیا۔یھاں تک کہ لوگ آھستہ آھستہ ان ظلم وستم سے تنگ آگئے اور مسیحیت سے پھلے والی زندگی کی طرف پلٹ گئے ، درحقیقت اومانیزم نظریہ کا خلاصہ یہ ھے کہ خدا کی جگہ انسان اور آسمان کی جگہ زمین اور آخرت کی زندگی کی جگہ دنیاوی زندگی کو ترجیح دی جائے۔یہ اومانسٹی نظریہ کا ماحصل ھے جو انسان کو خدا کی جگہ قرار دیتا ھے ،اور یہ نظریہ آھستہ آھستہ اس زمانہ کے محنتی محققین جیسے اٹلی کے مشھور ومعروف شاعر و محقق “ڈانٹا”کے ذریعہ یورپ کے تمام ممالک میں اس کا رواج پیدا ھو گیا، اور اس طرح سے بیان کیا گیا ھے جس کے اندر ھر طرح کی چیز موجود ھو، اس بنا پر اوما نیزم تمام نظریات کی ماں سمجھی جانے لگی کہ جن کی بنیاد پر یورپی ثقافت وجودیائی ھے، اور جب ھم یورپی ثقافت کا تذکرہ کرتے ھیں تو اس سے ھماری مراد نہ تو یورپی جغرافیائی ثقافت ھے اور نہ وہ لوگ مراد ھیں جو مغرب (یورپ) میں زندگی بسر کرتے ھیں چونکہ وھاں پر دوسرے مذھبوں کو ماننے والے افراد بھی رھتے ھیں، کچھ اچھے عقائد والے اور دوسرے مذاھب کے افراد بھی زندگی بسر کرتے ھیں اور ھم جس ثقافت کو یورپی ثقافت کھتے ھیں وہ ایک جامع ثقافت ھے جو انسانوں کو غیر الٰھی راستہ بلکہ کفر کی طرف لے جاتی ھے، لھٰذا بھت سے مشرقی ممالک جیسے جاپان وغیرہ میں بھی ممکن ھے یھی ثقافت موجود ھو،لھٰذا ھم یورپی ثقافت کو جغرافیائی لحاظ یے نھیں مانتے۔

3۔اومانیرم اور لیبرالیزم کا قانون میں داخل ھوناقارئین کرام ھماری بحث اور گفتگوکا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپی ثقافت کفر و الحاد کی ثقافت ھے جس میں کوشش یہ کی گئی ھے کہ انسان کے تصور سے خدا کو غائب کردیا گیا ھے اور خود انسان کو خدا کی جگہ رکہ دیا گیاھے ،یعنی انسان ھی تمام اقتدار اور قدرت کا محور ھے. اس نظریہ کے تحت انسان ھی تمام ارزش اور اھمیت کو پیدا کرتا ھے، اور انسانوں کی تفکر سے زیادہ ان کی کوئی واقعیت نھیں ھوتی، انسان قانون وضع کرتا ھے اور انسان کے علاوہ کسی اور کو قانون بنانے کا کوئی حق نھیں ھوتا، انسان انسانوں کی سرنوشت کو خود معین و مشخص کرتے ھیں خدا نھیں، یہ تمام تفکراومانیستی کے اصلی عناصر ھیںکہ جن کے پیچھے پیچھے دوسرے مذاھب بھی وجود میں آگئے اور وہ طول زمان میں آھستہ آھستہ اسی ریشہ سے اُگے اور اسکے دو بھت اھم مذاھب (جو آجکل یورپی ثقافت میں اسلامی ثقافت کے مقابل بیان کیے گئے ھیں) سیکولریزم اور لیبرالیزم ھیں۔اور ظاھر ھے کہ اگر انسان کی زندگی سے خدا کاتصور ختم کردیا جائے تو انسانی زندگی کے اھم مسائل کی دین کی کوئی اھمیت باقی نہ رھے گی، اور اس لحاظ سے دین کو اجتماعی ، سیاسی اور حقوقی مسائل سے الگ رکھنا ھوگا، اس نظریہ کی بنیادپر اگر کچھ افراد دین کے نام پر کچھ ارزشیں اور اھمتیں ایجاد کرنا چاھیں تو وہ ان ارزشوں کو صرف معابد اور اپنی فردی زندگی کے لحاظ سے تصور کریں،یعنی در حقیقت دین اقدار کی قرار گاہ خاص طور سے افراد کی فردی زندگی ھے اجتماعی زندگی نھیں ھے یہ وھی تفکر ھے جو دین کو سیاست اور اجتماعی زندگی کے جدّی مسائل سے جدا کرتا ھے جسکو سکولاریزم کھا جاتا ھے، اور آخر کار یورپی ثقافت کا دوسرا ثمرہ لیبرالیزم ھے۔جب تمام اقدار کا محور انسان ھو اور اس کے علاوہ دوسری کوئی اور چیز اسکی سرنوشت پر حاکم نہ ھو، تو یہ کھنا چاھیے کہ ھر وہ کام جسکو انسان کا دل چاھے اسکو انجام دے اور یہ وھی مطلق آزادی یا لیبرالیزم ھے لیکن اگر ھر انسان مطلق طور پر آزاد رھنا چاھتا ھو تو عسر وحرج لازم آئیگااور قانون کا کوئی مقام باقی نہ رھے گا اور ظاھر سی بات ھے کہ اس طرح کی شرطوں کو برداشت نھیں کیا جاسکتا اور واضح طور پر معاشرہ میں قانون کی ضرورت کا احساس ھوگا، کہ ایسا قانون ھونا چاھیے جو عسر وحرج کو روک دے اور جب نظم برقرار ھوجائے اورعسرو ھرج ختم ھوجائے تو پھر قانون کی ضرورت بھی ختم ھوجائے گی، تو پھر ھر فرد کا دل جو چاھے گا وہ آزادانہ طورپر اس کو انجام دے گا۔

4۔یورپی ثقافت کے اصول اور اسلامی ثقافت سے ان کا موازنہقارئین کرام آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اومانیزم نظریہ کا خلاصہ سیکولریزم اور لیبرالیزم پر ھوتا ھے۔اور انھیں دو عناصر سے اصلی یورپی ثقافت وجود پاتی ھے اورر بار بار یہ جو یاد آوری کی جاتی ھے کہ تم اپنی حفاظت کرتے رھنا کہ کھیں تم پر یورپی ثقافت حملہ کرکے تمھاری ثقافت کا جنازہ نہ نکال دے ان سے ھماری مراد یھی ثقافت ھے جسکا لازمہ لیبرالیزم اور سیکولریزم ھے، یہ ثقافت یورپ میں رائج ھوئی اور اس نے صنعت اور ٹیکنالوجی کی پیشرفت کے ساتھ ساتھ معاشرہ بشری میں مختلف پرکشش چیزوں کو ایجاد کیا اور دوسرے ممالک بھی کم و بیش اس ثقافت سے متاثر ھوئے اس لئے کہ معاشرہ کی معرفت رکھنے والے محققین کا یہ عقیدہ ھے کہ یورپی ٹیکنالوجی کے صادر ھونے کے ساتھ ساتھ یورپی ثقافت بھی صاد رھونے لگی، یہ وہ واقعیت ھے جس پر موجودہ دور میںترقی کرنے والے ممالک کو غور و فکر کرنا لازمی ھے۔اس مقام پر یہ سوال پیش آتا ھے کہ کیا یورپی ثقافت کو قبول کئے بغیر ٹیکنالوجی کو تسلیم کیا جا سکتا ھے؟ البتہ اسی موضوع کے بارے میں دوسرے مقام پر بحث کی جائیگی لیکن ھم یھاں پر مختصر طور پر یہ بتا دیں کہ اب تک تو یورپی ٹیکنالوجی کے صادر ھونے کے ساتھ ساتھ یورپی ثقافت بھی تمام ممالک میں صادر کی گئی ھے، اور تمام انسان کم و بیش اس ثقافت سے متاثرھوئے ھیں یھاں تک کہ ھمارے اسلامی معاشرہ اور اسلامی ممالک بھی اس ثقافت سے استفادہ کئے بغیر نہ رہ سکے (البتہ یہ سب اس لئے ھوا کہ اسلامی اقدار کی حفاظت کرنے میں لاپرواھی سے کام لیا گیا، یہ نھیں کہ ان دونوں ثقافتوں کو جدا کرنا ممکن نہ تھا)۔افسوس کہ آج یہ مشاھد ہ کرتے ھیں کہ بھترین فکر رکھنے والے افراد کے مختلف طبقوں میں التقاط و اختلاط(مختلف نظریوں کا آپس میں مل جانا) پیدا ھوگیا ھے کہ اسلامی ثقافت کے التقاطی تفکر کو یورپی الحادی ثقافت سے ملا دیا ھے،البتہ مختلف سطح (طبقہ) کے اعتبار سے یہ اختلاط فرق کرتا ھے :بعض موارد میں یورپی ثقافت کا بول بالا ھے جبکہ ان موارد میں اسلام کا اتنا بول بالا نھیں ھے اور دوسرے موارد میں اسلام نے جلوہ دکھلایا ھے لیکن افسوس کا مقام ھے کہ یورپی ثقافت نے غبار آلود اور اور تاریک فضا ایجاد کردی ھے اور اسلام ناب محمدی کی صاف وشفاف فضا دنیا کے کسی کونے میں بھی واضح طور پر دکھائی نھیں دیتی ھے، ھمارے اعتقاد کے مطابق جو سب سے اھم فضا اسلامی ثقافت کو صاف وشفاف کر سکتی ھے اور اس سے دوسری ثقافتوں کے غبار کو صاف کیا جاسکتاھے وہ جمھوری اسلامی ٴ ایران کی فضا ھے اور جب اس نظام میں اس طرح کی طاقت و قدرت موجود ھے اور عوام الناس اسلام اور اسلامی ثقافت کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ھیں اس بنا پر انقلاب اسلامی یورپی ثقافت کے لئے سب سے بڑے خطرہ کے عنوان سے بن کر ابھرا ھے۔جیسا کہ کچھ دن پھلے واشنگٹن کے نزدیک ایک یورپی سیاست کی تحقیق کرنے والے ادارہ کے ایک رئیس نے کھا تھا کہ جمھوری اسلامی ایران دنیا کے لئے سب بڑا خطرہ ھے، ظاھر ھے کہ جس چیز سے وہ ڈرتے ھیں اور اپنے لئے ایک اھم خطرہ سمجھتے ھیں وہ اقتصادی خطرہ نھیں ھے اس لئے کہ ان کا اقتصاد ھم سے کھیں بھت زیادہ اچھا ھے، اسی طرح ان کو نظامی خطرہ بھی نھیں ھے اس لئے کہ ان کے پاس ایسے خطرناک اسلحے موجود ھیں کہ دوسرے ممالک میں ان جیسے نمونے نھیں ملتے ،ان کے پاس ایسی فوج موجود ھے کہ دنیا کے تمام ممالک میں نہ کمیت کے اعتبار سے اور نہ کیفیت کے اعتبار سے ایسی فوج موجود نھیں ھے، بلکہ وہ تو جمھوری اسلامی ایران کی فکری، عقیدتی اور ثقافتی توانائی سے خوف کھائے ھوئے ھیں اور صاف لفظوں میں کھتے ھیں :جمھوری اسلامی ایران ایسا خطرہ ھے جو زمین کے اعتبار سے نامحدود اور منحصر بہ فرد ھے ، یھی چیز ان کے یورپی معاشرہ کے لئے سب سے بڑے خطرہ کا باعث ھوئی ھے، اسی وجہ سے وہ اس نظام کو ضعیف کرنے کی مسلسل جستجو میں لگے ھوئے ھیں اور صاف لفظوں میں کھتے ھیں کہ نظام ولایت فقیہ ایسا نظام ھے اور جب تک محور نظام ولایت کو سرنگوں نہ کر دیا جائے اس میں نفوذ نھیں کیا جاسکتا۔

5۔علماء اور اسلامی تالیفات کی ذمہ داریاںجو چیز اسلامی ثقافت کے جوھر کو مجسم کرتی ھے انسان محوری کے مقابل میں خدا محوری ھے اس اساس و بنیاد پر یھاں پر ایک سوال پیش آتا ھے کیا اقدار و ارزش و اھمیت کا ملاک و معیار خدا کوقرار دیا جائے یا انسانی خواھشات کو؟ کیا واقعی حاکمیت خدا سے مخصوص ھے یا انسانوں سے؟ کیا ھماری اصلی فکر اندیشھ، حقوق اور زندگی کے تمام دوسرے لوازمات خدا سے مربوط ھیں یا انسانی خواھشات سے ؟اگرچہ ھم یہ جانتے ھیں کہ ان مطالب کا بیان کرنا ھمارے لئے ناگوار واقعات کا سبب ھیں لیکن عصر حاضر میں علماء کا سب سے بڑی ذمہ داری موجودہ غبارآلود فضا کو اسلام کے صاف وشفاف مطالب بیان کر کے دھو ڈالنا ھے، تاکہ لوگ کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ کر کے مختلف نظریوں کی تحقیق و جستجو کریں اسلام اور منابع اسلامی کے نظریہ دوسروں کے نظریوں سے جدا کریں تاکہ اسکے ذریعہ اسلام اور کفر وشرک کی حد واضح ھو اجائے اور کفر و الحاد و التقاط کا نظریہ رکھنے والوں کو اسلامی محققین سے الگ کیاجاسکے، علماء کی بنیادی اور اصلی ذمہ داری یھی ھے اور قرآن بھی خاص طور سے اس بارے میں فرماتا ھے کھ: اگرعلماء اور اھل علم بدعتوں کو پھیلائیں اور حقائق کو واضح نہ کریں تو ان پر خدا، فرشتے اور تمام مخلوق لعنت کرتی ھے ، ارشاد ھوتا ھے:(اُوْلٰئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہ وَیَلْعَنُھُمُ الْلّٰاعِنُونَ …)(1)”یھی لوگ ھیں جن پر خدا (بھی) لعنت کرتا ھے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ھیں۔”ھمارا اصلی فریضہ یہ ھے کہ ھم فضا کی وضاحت کریں تاکہ مفاھیم اور اسلام و کفر کے مابین کی حدود معین و واضح ھو جائیں اور یہ بھی معین و مشخص ھوجائے کہ کن افکار میں اختلاط و التقاط پایا جاتا ھے؟ چونکہ انھیں التقاط و اختلاط کی وجہ سے حق و باطل کے مابین عاشورا جیسا واقعہ رونما ھوا اور واقعہ عاشورا سے پھلے مسلمانوں اور حضرت امیرالمومنین علھیم السلام کی نسل پاک سے ایک شخص نے قیام کیا اور بھت سے اسلامی حقائق کی وضاحت فرمائی، لوگوں نے بھی اسلامی حقائق کو درک کیا اور سمجھداری سے کام لیا اور امام کی آواز پر لبیک کھا اور ایران میں ایک عظیم اسلامی انقلاب برپا ھوگیا۔یہ بدیھی ھے کہ جب تک دین اسلام کے لئے اپنی تمام چیزوں کو قربان کرنے والے غیرتمند جوان موجود رھیں گے اس وقت تک دین اسلام پر ذرہ برابر بھی آنچ نھیں آنے دیں گے، اور الحمد اللہ ھمارے برادران سیاسی اور اجتماعی کافی معلومات رکھتے ھیں، اور اپنے فرائض سے بھت اچھی طرح سے جانتے ھیں اور وہ جانتے ھیں کہ ان پر کیسے عمل کرنا چاھئے، ھم ان کے عملی فریضہ کو معین و مشخص کرنا نھیں چاھتے ھیں بلکہ ھمارا کام تو صرف فکری اور عقیدتی مسائل کو بیان کرنا ھے، ھم تو صرف اسلام کے عملی اور نظری اصولوں کو بتانا چاھتے ھیںکہ وہ کیا ھیں؟ھم تو یہ بتلانا چاھتے ھیں کہ اسلامی ثقافت کیا ھے اور یورپی اور کفر و الحادی ثقافت کیا ھے، ھم تو لوگوں کو یہ بتانا چاھتے ھیں کہ کفر والحاد ثقافت کے اصلی عناصر اومانیزم وسیکولریزم اور لیبرلیزم ھیں اور ان کے مقابل میں اسلامی نظریہ کے اصلی عناصر خدا محوری، اصالت دین و ولایت فقیہ اور خدا کی اطاعت کے دائر ہ میں محدود رہ کر انسان کا فعالیت کرنا ھیں، یہ دونوں ثقافتیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں ھیں: پھلی ثقافت انسان کی مطلق آزادی یھانتک کہ خدا کی اطاعت سے بھی آزاد رھنے کی دعوت دیتی ھے اور دوسری ثقافت ھم کو صرف اور صرف خداوندعالم کی اطاعت کی دعوت دیتی ھے پھلی ثقافت انسان کے تفکر اور اسکی زندگی سے خدا کو حذف کرنے اور انسان کو خود ھمت باندھنے کی دعوت دیتی ھے، اور دوسری ثقافت پرچم توحید کو بلند کرنے اور انسانی زندگی میں یکتا پرستی کی فکر کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتی ھے اور یھی ھمارا نظریہ اور انقلاب کا محور ھے۔

6۔قانون کی حقیقت اور اسلام اور لیبرالیزم میں اس کی اھمیتجس طرح ھم نے پھلی تقریروں میں بیان کیا ھے کہ اسلام کے نقطہٴ نظر سے قانون ایسا ھونا چاھیے جو انسان کو اسکے مصالح او رمعنوی مقصود تک پھونچائے اور صرف نظم و ضبط اور اجتماعی امنیت کو پورا کرنا ھی قانون کا خاص کام نھیں ھے لیبرالی نقطہ نظر سے انسان کا صرف اور صرف دنیا سے لذت حاصل کرنا ھے، جبکہ قانون کا کام صرف اسباب لذت فراھم کرنا نھیں ھے جو چیز انسانوں کی زندگی میں ان کو لذت حاصل کرنے اور ان کا اپنی قدرت سے استفادہ کرنے میں مخل ھوتی ھے وہ دوسروں کیلئے مزاحمت ایجاد کرنا ھے، اگرقدرت اور لذتوں سے اس طرح استفادہ کیا جائے کہ اس سے دوسروں کی آزادی میں کوئی مزاحمت نہ ھو تو قانون اس سے کوئی سروکار نھیں رکھتاتو اس کا مطلب یہ ھوا کہ قانون کا کام صرف دوسروں کی آزادی کی حفاظت کرنا اور ان کی خواھشات نفسانی کو مکمل کرنا ھے، قانون کا یہ ھدف یورپ کی اومانیرم اور لیبرلیزم کے نظریہ کا نتیجہ ھے،اور اس بنیاد پر قانون کا دائرہ بھت محدود ھوجائے گا۔اور لوگوں کی زندگی سے حکومت کو بھت کم سروکار رکھنا ھوگا چونکہ اصل یہ ھے کہ لوگ آزاد رھیں اور جس کام کو ان کا دل چاھے اس کو انجام دیں اور اس اساس و بنیاد پر تو اس جملہ کا یہ مطلب ھوگا کہ قانون سے بالاتر آزادی کی حفاظت کرنا ھے، لیکن اسلام کی نظر میں قانون اس کو کھا جاتا ھے جو انسانوںکو صحیح زندگی بسر کرنے کے صحیح راستہ کی ھدایت کرے اور معاشرہ کی مادی اور معنوی مصالح کی طرف ھدایت کرے، اسلامی حاکم بھی وھی شخص ھو سکتا ھے جو ان مصالح کو معاشرہ میں جامہٴ عمل پھنائے اور ان مصالح میں رخنہ ڈالنے والوں کو روکے، لھٰذا اسلامی حاکم اور ڈیموکریٹک اور لیبرل حاکم کے درمیان بھت زیادہ فرق پایا جاتا ھے اس لئے کہ اس کو اجازت دیں تاکہ وہ موقع آئے اور لوگ اپنی خواھشات اور ھوئی و ھوس کے مطابق عمل کریں اور وہ صرف بے نظمی اور ھرج ومرج سے روکیں اور ان کو اسکے علاوہ کسی مانع کے ایجاد کرنے کا کوئی حق نھیں ھے، جو لوگ یہ کھتے ھیں کہ آزادی قانون سے بھی بلند وبالا ھے وہ خاص طور سے اھل علم و تحصیل اور محققین ھیں اور وہ جو لوگ اپنے کو صاحب نظر سمجھتے ھیں ان کو زیادہ دقت اور مطالب کی دقیق تحقیق وبررسی کرنا چاھیے۔اصولی طور پر ماھیت قانون کا مطلب یہ ھے کہ کسی شخص کیلئے کوئی حق اور دوسروں کیلئے کسی تکلیف کو معین کرنا، قانون آزادی کو روکنے والا ابزار ھے، اگر یہ بنا قرار دیدی جائے کہ شخص جو اس کا دل چاھے وہ کام انجام دے تو پھر قانون کی کوئی ضرورت ھی نھیں ھوگی، قانون اس مقام پر بنایا جاتا ھے جھاں پر افراد اپنی بعض خواھشوں سے صرف نظر کریں ورنہ قانون کا کوئی فائدہ نہ ھوگا، اگر یہ بنا قرار دیدی جائے کہ ھر شخص جو کچھ چاھے وہ انجام دے تو پھر ھم کو قانون کی کیا ضرورت ھے؟ نتیجہ کے طور پر ماھیت قانون کا مطلب یہ ھے کہ کسی شخص کے لئے حق اور دوسروں کیلئے کچھ وظایف معین کئے جائیں، اگر ھمارے پاس کوئی ایسا قانون ھو جو کسی حق کو تمام انسانوں کیلئے ثابت کرے تو پھر بھی وہ کسی وظیفہ فریضہ کا متضمن ھوگا، مثال کے طور پر اگر ایک بین الاقوامی یہ قانون ھو اور وہ قانون یہ حکم صادر کرے کہ ھر انسان آزاد ھے اور اس کو یہ حق ھے کہ وہ دنیا کے کسی گوشے میں اپنے رھنے کے لئے جگہ کا انتخاب ھے تو اس قانون کا مفاد تمام انسانوں کیلئے حق کا اثبات کرنا ھے۔لیکن وظیفہ معین کئے بغیر دوسروں کیلئے حق ثابت کرنا نھیں ھے ورنہ ایسے قانون کا مطلب یہ ھوگا کہ ھر شخص کسی بھی جگہ رھنے کا حق رکھتا ھے اور دوسروں کو اس حق کا احترام کرنا چاھیے اور اسکی مزاحمت نھیں کرنا چاھیے، نتیجہ کے طور پر قانون یا تو تصریحی طور پر اور یا اشارہ کے طور پر کن امور کو انجام دینا چاھیے اور کن امور کو انجام نھیں دینا چاھیے کا متضمن ھے، یھاں تک کہ اگر ھر فرد کیلئے بھی حق کو ثابت کرتا ھے تو اس کا مفاد یہ ھے کہ دوسرے اس حق کی رعایت کریں اور اس کا احترام کریں۔جو قانون یہ کھتا ھے کہ ھم کو ایسا کرنا چاھیے یعنی اسکے علاوہ عمل نھیں کرنا چاھیے اور اس سے مراد یہ ھے کہ آزادی محدودھے یعنی کن افعال کو انجام دینا چاھیے اور کن افعال کو انجام نھیں دینا چاھئےے کی معرفت ھے ،نتیجتاً جو قانون آزادی کے محدود ھونے کو ناپسند کرتا ھو وہ قانون تناقض رکھتا ھے، اور قانون یعنی وہ چیز جو آزادی کو محدود کردے تو اس بنا پر قانون سے اوپر کوئی آزادی نھیں ھے مگر کچھ مقامات پر کچھ خاص آزادیاں ھیں اور ھم یہ کھتے ھیں کہ ان آزادیوں کی رعایت ھونا چاھیے، تو یہ بھی کچھ دوسرے قوانین کے اوپر ایک قانون ھو جائیگا۔ لیکن اگر کوئی قانون آزادی کیلئے کسی طرح کی محدودیت کا قائل نہ ھو تو وہ بھی لغو اور تناقض کا متضمن ھوگا۔اور کوئی بھی عاقل اس طرح کی باتیں نھیں کر سکتا ، اس لئے کہ اصل میں قانون کی شان ھی آزادی کو محدود کرنا ھے لیکن اگر اس شعار سے کہ قانون کو آزادی کے محدود کرنے کا کوئی حق نھیں ھے بلکہ مطلق آزادی ھونا چاھیے یہ مراد ھو تو یہ تناقض ھے اور اگر ان کی مراد شرعی آزادیاں ھیں تو ھم ان سے یہ عرض کرتے ھیں کہ شرعی آزادی کونسی ھے؟ اور کون شخص یہ معین کرے گا کہ مشروع آزادیاں کونسی ھیں اور نامشروع آزادیاں کونسی ھیں؟

7۔مشروع آزادی کا نسبی ھوناھر نظام اپنی خاص ثقافت کی بنیاد پر کچھ امور کو جائز اور معقول سمجھتا ھے اگرچہ دوسرے افراد ان کو کتنے ھی نامشروع کیوں نہ سمجھتے ھوں، تو پھرمطلق آزادی کا کیا مطلب؟ یعنی کوئی بھی قانون مطلق آزادی کی ضمانت نھیں لے سکتا، جب کسی قانون میں یہ لکھا جائے کہ قانون کو مشروع آزادیوں کو پورا کرنے کا ذمہ دارھے، تو ایک ایسی میزان ھو جویہ بتائے کہ مشروع آزادیاں کونسی ھیں؟ یعنی مشروع، معقول اور مفید آزادیوں کوکس معیار کے ذریعہ معین کیا جائے؟ اس مقام پر یہ کھا جاتا ھے کہ مشروع آزادیوں کومعین کرنے کا ذمہ دار قانون ھوتا ھے۔بھرحال ھم پھر اپنے اصلی مطلب کی طرف پلٹتے ھیں کہ اگر کوئی شخص یہ کھے کہ معاشرہ میں ھر طرح کی آزادی جائز ھے تو اس کا مطلب تو یہ ھوا کہ معاشرہ کیلئے کسی قانون کا ھونا لازمی نھیں ھے،!! لیکن کوئی عاقل انسان اس طرح کی باتیں نھیں کرتا مگر وہ انسان جو اپنی باتوں کی طرف متوجہ ھی نہ ھو اور پس جو شخص بھی آزادی کا دم بھرتا ھے یقینا اس کی مراد محدود آزادی ھے، اب یھاں پر یہ سوال ذھن میں آتا ھے کہ آزادی کی حدود کو کون شخص اور کس معیار سے معین کرے گا؟ اگر افراد اپنی دلخواہ مرضی کے مطابق آزادی کی حدوں کو معین کریں گے تو بھی ھرج ومرج لازم آتا ھے، اس لئے کہ اس صورت میں ھر انسان اپنے منافع کو پورا کرنے کی کوشش کریگا۔لھٰذا آزادی کی حدوں کو معین کرنے والا کوئی شخص ھونا چاھئےے، اب قانون کو کس قانونگذار کے ذریعہ مشخص ومعین ھونا چاھیے، بدیھی ھے اگر قانون گذار کا ارادہ لوگوں کی خواھشات کے مطابق ھو اور قانون کا معیار و ملاک لوگوں کی خواھشات ھوں تو عملی طور پر ھوسباز افراد غالب ھوں گے یعنی وھی چیز جو اومانیرم اور لیبرالیزم نظریہ کا بنیادی پھلو ھے، اس نظریہ میں قانون کا کردار عسر وحرج کو روکنا ھے اور لوگوں کی مرضی کے مطابق ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا ھے، لیکن اسلامی نقطہٴ نظر سے یہ موضوع قابل قبول نھیں ھے ، کیونکہ بنیادی اشکال رکھتا ھے۔

8۔اسلام کا لیبرالیزم سے ٹکراؤیہ طے ھے کہ ھم اسلام کو تسلیم کر لینے کے بعد لیبرالیزم کو قبول نھیں کر سکتے ھیں اگر ھم یہ تسلیم کر لیںکہ قانون یعنی جو انسانوں کے مصالح کو پورا کرے تو پھر ھم یہ نھیں کھہ سکتے کہ ھر انسان جو اس کا دل چاھے وہ فعل انجام دے چونکہ یہ دونوں آپس میں سازگار نھیں ھیں، یا محور خدا ھو یا انسان، دوسرے لفظوں میں! یا ھم اللہ کو مانیں یا اومانیزم کو مانیں، اب یہ نھیں ھو سکتا کہ انسان کو بھی ملاک قرار دیں اور خدا کو بھی ، اس طرح کی دو اصل کو قبول کرنا تعارض اور تضا د کے ساتھ ساتھ ایک قسم کا شرک بھی ھے، اور اگر خدا کو نہ مانے تو یہ کفر و الحاد ھے، اس لئے کہ اسلام اور کفر و الحاد آپس میں ایک دوسرے کے متناقض ھیں، اور یہ آپس میں ایک بنیادی جنگ رکھتے ھیں اور اسی دلیل کی وجہ سے امریکا کے بڑے بڑے سیاست دانوں کا یہ عقیدہ ھے کہ جب تک ایران میں اسلامی نظام حاکم رھےگا، ھم ایران سے سازش نھیں کرسکتے چونکہ یہ دونوں متناقض نظریے ھیں اور ان کے نظام بھی ایک دوسرے کے سازگار نھیں ھےں۔اصل مسئلہ یہ ھے کہ مختلف نظریات میںبھتر قانون کی کیا کیاخصوصیتیں ھیں؟کیا قانون کو معاشرہ میں صرف نظم برقرار کرنا چاھیے فردی خواھشات اور آزادیوں کو اگر وہ ایک دوسرے کی مزاحمت نہ کریں تو ان کو پورا کرنا چاھیے،یا قانون کو انسان کے واقعی مصالح کو پورا کرنا چاھیے چاھے اکثر افراد اس کو چاھتے ھوں یا نہ چاھتے ھوں، البتہ اگر لوگوں نے اسکو تسلیم کرلیاتو اسکو عملی جامہ پھنا دیا جائیگا اور اگر تسلیم نہ کیا تو اسی طرح عالم انشاٴ میں باقی رھیگا۔پس اصل افراد ھیں لیکن یہ دیکھنا چاھیے کہ مشروعیت قانون کیا ھے؟ کیا مطلوب قانون صرف وہ قانون ھے جو لوگوں کے دل خواہ ھو اور ان کی خواھشوں کو پورا کرتا ھو یا قانون مطلوب وہ قانون ھے جو لوگوں کی مصلحت کو پورا کرتا ھو؟ یہ دونظریے آپس میں ایک دوسرے سے صلح نھیں کر سکتے ھیں اور ان کو ایک دوسرے سے ملادینا ایک تاریک فضا کو ایجاد کرنا ھے تاکہ جو افراد غلط طریقہ سے استفادہ کرنے کے چکر میں ھیں وہ گندے پانی سے مچھلی کا شکار کرلیں، ھماری ذمہ داری یہ ھے کہ فضا کوصاف و شفاف کریں تاکہ یہ معلوم ھو سکے کہ اسلام کیا ھے اور کفر کیاھے او ر پھر انسان جس کو چاھے انتخاب کرے،جیسا کہ ارشاد خداوندی ھے :(فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوٴمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ.) (2)
شاعر کھتا ھے:متاع کفر و دین بی مشتری نیستگروھی این گروھی آن پسندند
“دین او رکفر ایسی دو چیزیں ھیں کہ جس خریدار بھت ھیں ، کچھ لوگ اسلام کے اور کچھ لوگ کفر کے خریدار بن گئے”ھر حال میں لوگوں کو یہ جاننا چاھیے کہ کونسا متاع (مال) متاع دین ھے اور کونسا متاع متاعِ کفر ھے، تاکہ دونوں میں سے ایک کو منتخب کرلے، ھمار وظیفہ دینی مفاھیم کو صاف وشفاف کرنا ھے اور اس سے ھر طرح کے غبار کو دور کرنا ھے تاکہ لوگ آگاہ طور پر انتخاب کریں، اور کچھ لوگوں نے ایسی فضا بنائی ھے اور چاھتے ھیں کہ دین کی جگہ ڈیموکریسی اور آزادی کو حاکم کردیں،، لیکن ھمیں ھر حال میں ان لوگوں سے ھوشیار ھونا چاھئے اور توجہ رکھنا چاھئے کہ کیا کھیں او رکیا کریں۔

9۔اسلام اور ڈیموکراسی میں قانون گذاریھم اس سے پھلے اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ھیں کہ اسلام اور ڈیموکراسی کے درمیان کبھی صلح نھیں ھوسکتی ھے، ڈیموکراسی یعنی مردم سالاری یا لوگوں کی حکومت، دوسرے الفاظ میں لوگوں کی رائے اور نظریہ کو معتبر سمجھنا، اب اس اعتبار کو محدود ھونا چاھیے یا لا محدود؟ کیا جب ھم یہ کھتے ھیں کہ اصالت و میزان لوگوں کی رائے کے ساتھ ھے یعنی چاھے وہ کتنا ھی خدا کی مرضی کے خلاف کیوں نہ ھو یا لوگوں کی رائے اس حد تک معتبر ھے کہ حکم خدا اور ارادہٴ خدا کے متضاد نہ ھو؟ یورپ میں اس چیز کا یہ مطلب لیا جاتا ھے کہ اصلی ملاک لوگوں کا نظریہ ھے اور آسمان و زمین میں کسی دوسری طاقت کو لوگوں کی سرنوشت اور قانون گذاری میں لوگوں کے مابین دخالت کرنے کا کوئی حق نھیں قانون وھی ھے جسکو لوگ چاھتے ھیں۔یھاں پر ایک یہ سوال پیش آتا ھے کہ قانون کے معتبر ھونے کا ملاک و معیار تمام افراد کا ایک نظریہ پر متفق ھونا ھے یا اکثر افراد کا متفق ھوجانا ھی کافی ھے؟ عملی میدان میں تو تمام افراد متفق نھیں ھو سکتے ھیں، اور اگر اکثر افراد کا متفق ھونا کافی ھے تو تمام افراد کا وظیفہ کیا ھوگا اور اکثر افراد کی رائے ان کیلئے کتنی معتبر ھوگی؟ درحقیقت آجکل کی ڈیموکراسی، ڈیموکراسی اور نخبہ گرائی (منتخب کی ھوئی چیز ) سے بنتی ھے۔یعنی لوگ قانون بنانے کے لئے نمائندوں کو انتخاب کرتے ھیں، اب اگر اکثر افراد کی نظر چنیدہ افراد کے نظریہ سے مختلف ھو، تو دونوں میں سے کس کا نظریہ معتبر ھوگا؟ البتہ عام طور سے چنیدہ افراد لوگوں کی خواھش کے مطابق قانون بناتے ھیں اس لئے اگر وہ ایسا نہ کریں تو اگلے الیکشن میں کوئی ان کو ووٹ نھیں دے گا اور وہ منتخب نھیں ھو سکیں گے۔ اس لئے لوگوں کی خواھش کو پورا کرتے ھیں اور انھیں کی مرضی کے مطابق قانون بناتے ھیں، لیکن بعض موقعوں پر لوگوں کے نظریہ اور اکثر چنیدہ افراد کے نظریہ میں اختلاف پایا جاتا ھے۔کچھ لوگوں کا ھدف یہ ھے کہ ایران میں حکومت علماء، ولایت فقیہ اور حکومت اسلامی کے مقام پر ڈیموکریٹک حکومت قائم ھونی چاھیے، ڈیموکریٹک کا مطلب یہ ھے کہ لوگوں کی خواھش کے علاوہ کوئی دوسری چیز قانون کو معین کرنے میں دخالت نھیں رکھتی ھے کیا مسلمان اس کو تسلیم کر سکتے ھیں یا نھیں؟اسلام ڈیموکراسی کے ساتھ سازگار ھونے کا دعوی کرنے والے افرادکے بارے میں یہ سوال پیش آتا ھے کہ لوگوں کی رائے اگر وہ خدا کے قطعی حکم کے بر خلاف ھو تو کیا وہ پھر بھی معتبر ھے یا نھیں؟ اگر معتبر نہ ھو تو ڈیموکراسی ایجاد نھیں ھوئی ھے اور اگر ملاک اعتبار لوگوں کی رائے ھے اور خدا کے قطعی حکم کے خلاف ھو تو اس صورت میں ڈیموکراسی اسلام کے ساتھ سازگار نہ ھوگی، کیا اسلام خدا ورسول کی اطاعت کے علاوہ کوئی اور چیز ھے؟کیا اس کے علاوہ بھی کوئی دوسرا اسلام ھے؟ آجکل یہ کھا جاتا ھے کہ اسلام میں متعدد قرائت ھیں لیکن جس قرائت کی بناپر انقلاب برپا ھوا وہ یہ ھے کہ احکام خدا اور الٰھی اقدار کو معاشرہ میں حاکم ھونا چاھئے، اورجن افراد نے اس انقلاب کو برپا کیا اور اپنے خون کے آخری قطرہ تک اس کی حمایت کی اور آیندہ بھی حمایت کرتے رھیں گے ان کا ھدف اسکے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔اب اگر قانون گذاری کے مسئلہ میں ڈیموکریٹک کا مطلب انسانوں کی رائے کو اصل قرار دینا ھے یھاں تک کہ اگرچہ ان کی رائے حکم خداوندی کے خلاف ھی کیوں نہ ھو تو اسلام کے نقطہ نظر سے ایسی ڈیموکریٹک مردود ھے، لیکن اگر ڈیموکریٹک کا مطلب دوسرا ھو اور لوگ مبانی اور اصول اور اسلامی اقدار کی محافظت کرتے ھوئے اپنے اجتماعی معاشرہ اور قانونی مسائل میں اپنے چنے ھوئے افراد کے ساتھ حق دخالت رکھتے ھوں اور اپنے منتخب کئے ھوئے افراد کے ساتھ زمان و مکان کی خاص شرطوں کا خیال رکھتے ھوئے قوانین بنائیں تو یھی چیز ھمارے اسلامی ملک ایران میں پائی جاتی ھے، اور پارلیمنٹ کے ممبران بھی اس لائحہ کے بارے میں بحث اور مشورہ کر کے اسکو تصویب کر سکتے ھیں، لیکن پارلیمنٹ کے تصویب کئے ھوئے قوانین اس وقت معتبر ھوں گے جب وہ اسلامی احکام کے مخالف نہ ھوں۔بھرحال یہ جو لوگوں کو زمان و مکان کی خاص شرائط کے ساتھ متغیر مقررات (قوانین) کو معین کرنے کی خاطر افراد کو منتخب کرنا پڑتا ھے، یھی چیز ھمارے ملک میں رائج ھے اور امام خمینی(رہ) نے بھی اسی روش کی تائید فرمائی ھے، اور ھمارے اساسی (بنیادی) قوانین نے بھی اس کی تائید کی ھے اگر قانون گذاری میں ڈیموکریٹک کایھی مطلب ھے تو ایسی ڈیموکریٹک کاکوئی مخالف نھیں ھے۔

10۔اسلامی حکومت میں معتبر قانونجامع مسئلہ کی یہ اھمیت ھوتی ھے کہ جب لوگوں کے نمائندے اسلامی پارلیمنٹ میں کسی قانون کو تصویب کرتے ھیں تو کیا یہ قانون اس لئے معتبر ھے کہ لوگوں کے نمائندوں نے اس کو ووٹ دے کر منتخب کیاھے اور اصل میں لوگوں کے نمائندوں کو اسی کام کیلئے منتخب کیا ھے یا اس لئے معتبر ھے کہ ولی فقیہ نے اسکی تائید فرمائی ھے؟ ھمارے نقطہ نظر سے انسان کو اپنی زندگی میں سب سے پھلے جس حق کی رعایت کرنا چاھیے وہ حق خدا ھے، اور اگر یہ بنا ھے کہ ھم حقوق کی رعایت کریں تو خداوندعالم کا حق سب سے پھلے مقدم ھے اور انسانوں پر خداوندعالم کا سب سے بلند وبالا حق، حق ربوبیت ھے اور یہ ربوبیت دوشعبہ رکھتی ھے:1۔ ربوبیت تکوینی ۔2۔ربوبیت تشریعیربوبیت تشریعی کا مطلب یہ ھے کہ خداوندعالم جو دستور دے وہ انسانوں کیلئے واجب الاجرا ھے، اب اگر خداوندعالم کسی چیز کی نھی فرمائے تو اس کو انجام نھیں دینا چاھیے اور خداوندعالم کے قوانین واحکام سے سرپیچی کرنا ربوبیت الٰھی کے حق کو ضائع کرنا ھے اور اس قانون کا انکار کرنا اور اسکو معتبر نہ جاننا ایک قسم کا شرک ھے، اس بنیاد پر اسلامی معاشرہ میں وہ قانون معتبر ھوگا جو خداوندعالم کی رضا کے مطابق ھوگا اگر خدا کسی قانون کی نھی فرمائے تو وہ قانون معتبر نھیں ھوگا، چونکہ حق خدا ضائع ھوا ھے اور جب حق خدا ضائع ھوگیا تو اسی کے زیر اثر انسانوں کا حق بھی ضائع ھو جائے گا، لیکن قانون گذاری کے مسئلہ میں خدا نفع کو اپنے سے مخصوص کرتا ھے؟ مگر خداوندعالم تشریعی احکام اور ھم کو امر و نھی کرنے میں انسان کی مصلحت کے علاوہ اور کیا چاھتا ھے؟ اب اگر کسی مقام پرھم سے خدا کی مرضی کے خلاف رفتار ھوئی ھے توگویا وہ انسانوں کی مصلحت کے خلاف رفتا ر ھوئی ھے۔نتیجہ کے طور پر انسانوں کے مصالح کی حفاظت جو قانون کے معتبر ھونے کا اصلی رکن ھے وہ خطرہ میں پڑ جائےگا، تو پھر ایسا قانون معتبر نہ ھوگا، اسی وجہ سے نمائندوں کے ذریعہ کسی قانون کے تصویب ھوجانے کے بعد ایک اور چیز یہ معین کی گئی ھے کہ کچھ قانون اور دین کی معرفت رکھنے والے افراد اس قانون کی شرع سے مطابقت کرتے ھیں اور دیکھتے ھیں کہ یہ قانون خداوندعالم کے حکم کے خلاف ھے یا نھیں؟ اس کو شورائے نگھبان کھا جاتا ھے۔اگر صرف قانون کے معتبر ھونے میں لوگوں کی رائے کا ھی کافی ھوتی توفقھاء شورائے نگھبان کس لئے؟چنانچہ لوگ اپنے نمائندوں کو رائے (ووٹ) دیتے ھیں اور ان کے نمائندے بھی لوگوں کی درخواست پر ایک قانون تصویب کرکے وضع کردیتے ھیں اور وھی قانون معتبر ھوتا ھے!لھٰذا جمھوری اسلامی نظام میں شورائے نگھبان کا پھلا اور بالذات مقام یہ ھے کہ پارلیمنٹ کے وضع کئے ھوئے قوانین یعنی جس کو لوگوں نے نمائندوں کے ذریعہ ووٹ دیا ھے اسکی احکام شرع سے مطابقت کریں کہ کھیں وہ قانون حکم خداوندی کے خلاف تو نھیں ھیں؟ یورپی ثقافت سے متاثر افراد اور جو لوگ دشمن کی مدد کرتے ھیں شوارئے نگھبان کو حذف کرنے کا دم بھرتے ھیں اسکی وجہ یھی ھے کہ وہ چاھتے ھیں کہ کوئی ایسا فلٹر نہ ھو جو قوانین اسلام کو غیر اسلامی قوانین سے الگ کرے۔حقیر صرف آپ حضرات کی اطلاع کے لئے یہ عرض کررھاھے (شاید آپ کو یقین نہ آئے اور انشاء اللہ وہ دن نہ آئے کہ اسکا حقیقی مصداق وجود میں آجائے) کہ یورپی ثقافت اور لیبرال کے سارے افراد اسلام اور ولایت فقیہ کو اساسی قانون سے حذف کرنے کے چکر میں ھیں، خدا دشمنان اسلام اور نظام اسلامی کے دشمنوں کو کبھی ایسا موقع نھیں دے گا۔ انشاء اللہ۔

حوالہ1۔سورہ بقرہ آیت1592۔سورہ کھف آیت 29

 

http://shiastudies.com/ur/2895/%d9%82%d8%a7%d9%86%d9%88%d9%86-%da%a9%db%92-%d8%b3%d9%84%d8%b3%d9%84%db%92-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%db%8c%d9%88%d8%b1%d9%be-%da%a9%db%92-%d8%af%d8%b1%d9%85/

تبصرے
Loading...