دین میں سیاست کی اھمیت(2)

دین میں سیاست کی اھمیت(2)

جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ اس سلسلے میں تین طرح کے اعتراض کئے جاتے ھیں:

پھلا اعتراض:پھلا اعتراض یہ ھے کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نھیں ھے،اور ایک سیاسی لظام کسی بھی صورت میں دینی نھیں ھو سکتا ، گذشتہ جلسہ میں ھم نے اس اعتراض کا جواب دیا کہ اگرکوئی شخص چاھتا ھے کہ وہ یہ یکھے کہ اسلا م ایک دین اورمذھب ھونے کے عنوان سے کسی سیا ست سے منسلک ھے یا نھیں ؟ تو اس کے جواب کیلئے قر آن مجید کا اور اس میںبیان کئے گئے احکا م وقوانین کا ایک سطحی اور سر سر ی مطالطہ کا فی ھے اور حقیقت میں جوشخص مسلمان ھے اور قرآن پر اعتقاد رکھتا ھے اور اسی طرح وہ شخص جو مسلمان نھیں ھے ،لیکن اسلام کی شنا خت اور معرفت حاصل کر نا چاھتا ھے تو اس کو قرآن مجید کی طرف رجو ع کرنا چاھئے ،تب اس پر یہ حقیقت واضح ھو جا ئیگی کہ دین اور سیا ست کا ایک دوسرے سے جداھونا نا ممکن ھے ۔اور یہ بات بھی واضح ھے کہ اسلام کی پھچان کا صحیح طریقہ قرآن مجید ھے ،جس طرح اگر ھم چاھیں کہ کسی ایک موضوع کے بارے میں عیسا ئیت کا نظریہ معلوم کریں تو اس کیلئے ھمیں انجیل کا مطا لعہ کرنا پڑے گا ،البتہ ھم نے جو کچھ بیان کیا یہ ان لوگوں کیلئے ھے جو مسائل کو سمجھنے کیلئے صحیح اور منطقی طریقہ اپنا ئیں چاھے بحث وگفتگوھو چاھے مطالعہ تحقیق وبررسی ھو ،صحیح طریقے کا انتخاب کریں ،لیکن دشمن بحث وگفتگو کیلئے صحیح اور منطقی طریقوں سے دوربھاگتا ھے کیونکہ ان کا مقصد صرف مومن لوگوں میں اعتراضات اور شبھا ت پیدا کرنا ھوتا ھے ،تا کہ ان کے ایمان کو نا قص کردیں چو نکہ ان کی بحث وگفتگو منطقی نھیں ھوتی کہ ھم اس کا جواب دیں ،لیکن پھر بھی اپنا وظیفہ سمجھتے ھیں کہ ان کے اعتراضات اور شبھات کا متطقی جواب دیں ۔

2۔کیادین سیاست سے جدا ھے؟)مذھبی و غیرمذھبی لوگوں کا نظریہ)جن لوگوں نے دین کو سیا ست اور حکومت سے ھونے میں غیرمذھبی نظریہ کو انتحاب کیا ھے ،وہ لوگ کھتے ھیں ۔ھم کو قرآ ن سے کوئی مطلب نھیں اور اسلام پر غیرمذھبی نگا ہ سے دیکھتے ھیں ،اس سے پھلے کہ ھم اسلامی منابع وماخذ کی تحقیق وبررسی کریں یا یہ دیکھیں کہ قرآن سیاست سے متعلق کیا کھتا ھے ،یہ سوال کرتے ھیں کہ انسان کو دین کی کیا ضروت ھے ؟اور کن مسائل میں اس کو دین کی راھنمائی کی ضروت ھے ؟انھوں نے اس مسئلہ سے متعلق اپنے خیا ل خام میں دو نظریہ فرض کیئے ھیں ،پھلافرض یہ ھے کہ انسا ن تمام چیزوں میں اور زندگی کے تمام امور میں دین کی ضروت رکھتاھو ،مثلاًکس طریقہ سے غذا آمادہ کی جائے اور کس طرح سے کھائی جائے ،یا کسی طرح مکان بنایا جائے ،شادی بیاہ کے کیا طریقے ھیں اور حکومت اور جامعہ کی تشکیل کو ایک ھی صف میں رکھا ھے ،اور اس طرح کھتے ھیں ، کیا دین کیلئے ضروری ھے کہ ان تمام مسائل کو حل کرے ،اور انسان کو علمی اور دقیق مسائل کی تحقیق کرنے کی کوئی ضروت نھیں ھے ،اور ھم کو اکثر مسائل میں دین کا منتظر نھیں اپنا چائیے کہ ھر چیز کی وضاحت دین ھی سے طلب کریں۔ اس کا مطلب یہ ھے کہ اگر ھم کوئی لباس بنانا چائیں تو پھلے یہ معلوم کریں اسلام کا نظریہ کیا ھے، اور اگرکھانا کھانا چاھیں تو دیکھیں کہ اسلام نے کن کھا نوں کی اجازت دی ھے ،اور اگر بیمار ھوجائیں اور ڈاکڑکے پاس جانا پڑے تو دیکھیں کہ اسلام نے اس سلسلے میں کیا وصیت کی ھے ؟نیز اس طرح اسلام نے حکومت اور سیاست کے بارے میں کیا نظر یہ پیش کیا ھے ۔دوسرے فرض یہ ھے کہ دین فقط بعض چیزوں میں دخالت رکھتا ھے اور دین سے ھماری تو قعات حداقل در جہ پر ھونی چاھئے اور یہ بات طبیعی ھے کہ دین ھر اعتبار سے انسان کی ضروریات میں نظر نھیں رکھتا ، بلکہ کوئی بھی دین یہ دعویٰ نھیں کرسکتا کہ وہ انسان کی تمام ضروریات پوراکر سکتا ھے ۔اور جب ھم نے یہ مشاھدہ کرلیا کہ دین ھم کو کھانا بنانا ،علاج کرنا ،ھوائی جھاز اور کشتی بنانا وغیرہ نھیں سکھاتا تو اب ھم کو یہ دیکھنا ھوگا ،وہ مسائل کہ جن کو اپنے سے بیان کیا ھے ان کا دوسرے مسائل سے بھی کیا امتیازھے ،اور اصلا دین نے کس کس میدان میں وارد ھوا ھے ۔یہ لوگ اپنے خیال خام میں اس نتجہ پر پھونچے کہ ایک دوسری قسم کو لنتخا ب کریں اور وہ یہ ھے کہ دین فقط ان امور میں دنیاوی امور سے کوئی تعلق نھیں۔اور دین سے ھماری تو قعات کم سے کم ھونی چاھئے اور ھم کو چائیے کہ جن کے ذریعہ فقط ان چیزوں اور طریقوں کو پھچانیں کہ جن کے ذریعہ آخرت میںکا میابی ،جنت میں جانے، دوزخ سے نجات حاصل کی جاسکے ۔جیسے نماز پڑھنا ،روزہ ،رکھنا،حج کو انجام دینا اوردوسرے عبادی امورکو دین سے حاصل کریں ،ان لوگوں نے اپنے خیا ل خام میں دین وسیاست کے ربط کو اس طرح حاصل کیا ھے کہ دین سیاست سے جدا ھے اور یہ کھا کہ سیاست کا دین سے کو ئی ربط نھیں ھے اور یہ کہ سیا ست کا دائرہ ونیوی امور میں ھے ،اور دین کا دائرہ آخرت سے مربوط ھے ،نہ دین کو سیا ست میں دخالت کرنا چائیے اور نہ ھی سیاست کو دین میں دخالت کرنی چائیے ،لھٰذا وہ سیاست کہ جس کا تعلق دنیا اور علم سے ھے ،لھٰذا سیاست کو فقط علم اور انسا نی تر قی میں دخالت کا حق ھے چاھے وہ علم فیر کی ھو یا زیت شنا سی روا شناسی ھو یا جامعہ شناسی طب یا دوسرے علوم میں دین کی کوئی دخالت نھیں ھے،اور دین کی دخالت صرف اخروی امدر میں ھے ۔ان مسائل کا تا ریچہ چند صدی پھلے مغربی ممالک کی طرف پلٹتا ھے کہ جس وقت کلیسائی پا دریوں اور علم وسیاست کے لوگوں کے درمیان اختلاف اور تضاد پیدا ھوا ،اور آپس میں مدتوں تک اسی سلسلے میں جنگ جدال ھو تی رھی ،اور آخرمیں ان کی یہ جنگ وجدال ایک بے لکھی صلح پر تمام ھوئی ،جس میں یہ طے پایاکہ دین فقط آخرت سے تعلق رکھتا ھے دین بھی انسان کا خدا سے رابطہ ،اور دنیا دی کا موں میں دخالت کرنا اھل سیاست اور اصل علم افراد کے سپرد کیا گیا ۔یہ تمام نظریات مغربی ممالک کے تھے ،لیکن بعد میں جو لوگ ان کے تحت تاثیر قر ار پائے ان کا کھنا ھے کہ ھمارے اسلامی ممالک میں بھی اس طرح تقیم ھونا چاھئے مثا ل کے طورپر اس طرح ھونا چاھئے کہ دین کی باگ ڈورفقط دینی علماء کے ھاتھوں میں ھو اور ان کا نام صرف ضروری کا موں میں حق دخالت ھو ،اور دین یا دینی علماء دنیا وی کاموں کو بالکل دخالت نہ کر یں،لھٰذ ا سیاست کو اھل سیاست حضرات پر چھوڑدیا جائے اور دینی علماء اور فقھاء کو سیاست میں دخالت کا کوئی حق نھیں،اور اس سلسلے میں بھت سی تقرریں ھوئی ، مقالات لکھے گئے ،اور اپنے اس نظریہ کی تائید کیلئے ھر ممکن کوشش کی گئی تاکہ ھمارے جوانوں کے درمیان اس اعتراض کو رائج کریں اور اس نظر یہ کو تقویت پھونچائیں کہ دین سیاست سے جدا ھیں ۔افسوس کے ساتھ یہ کھنا پڑرھا ھے کہ بعض پڑھے لکھے افراد نا خواستہ طوران کے نظریہ کے تحت تاثیر قرار پا ئے ،اور آھستہ آھستہ یہ نظریہ لوگوں کے ذھن میں اپنا مقام بناتا جارھا ھے ،کہ دین ،دنیا کے مقابلہ میں ھے یعنی دین انسانی زندگی کے بعض مسائل کو حل کر سکتا ھے اور دنیاوی امور کا دین سے کوئی رابطہ نھیں،اور جب یہ اعتراضات اور شبھات ھمارے پڑھے لکھے اور مو لفین اور مقر رین حضرات کے ذریعہ بیان ھوتے ھیں تو واقعا ًیہ ھماری ملت اور جامعہ کیلئے ایک بھت بڑاخطرہ ھے ۔

3 ۔دنیا اور آخرت میں چولی دامن کا رابطہ ھےحقیقت یہ ھے کہ اگر چہ ھماری یہ ذندگی دو حصوں میں تقسیم ھوتی ھے دنیا وی ذندگی ،افروی زندگی ،یعنی دنیا میں ھماری زندگی کا ایک حصہ روز پیدائش سے شروع ھوتا ھے اور موت پر ختم ھوجاتا ھے اس کہ بعد دوسری زندگی عالم برزخ اور عالم قیامت میں شروع ھوتی ھے ،البتہ اس کے علاوہ بھی ایک دوسری زندگی فرض کی جاسکتی ھے اور وہ ھے عالم جنین )لیکن زندگی کی تقسیم کا ملاز مہ یہ نھیں ھے کہ ھماری چال چلن دو حصوں میں تقسیم ھوجائے اور دو نظریوں سے دیکھا جائے ،بھرحال اس وقت ھم دنیا میں ھیں اور اس دنیا میں دن بھر ھم بھت سے امور انجام دیتے رھتے ھیں دین اس وجہ سے آیا ھے تاکہ ھمارے امور کو سلیقہ عطا کرے ، اور اپنے دستوری اور تشریعی نظام کے ذریعہ ھماری رھنماکی کرے ،نہ یہ کہ دینی قوانین صرف مر نے کے بعد کیلئے ھیں ۔ایسا نھیں ھے کہ ھماری 50 یا 60 سال کی عمر کا بعض حصہ دنیا سے مربوط ھو اور بعض حصہ آخرت سے ، بلکہ ھماری نظرمیں دنیا کی کو ئی بھی چیز ایسی نھیںھے جو آخرت سے مربوط نہ ھو،بلکہ ھمارے تمام دنیاوی امور ایک طرح سے آخرت سے مربوط ھوسکتے ھیں یعنی دنیاوی امور اس طرح سے انجام پائیںکہ آخرت میں مفید ثابت ھوں ،اور ھو سکتا یھی اعمال ھمارے آخرت کے لئے مضراور نقصان دہ ثابت ھوں ،بھرحال گفتگو یہ ھے کہ ھمارے اعمال وافعال آخرت کیلئے موثر ھیں اور بنیاوی طور پر اسلامی نظریہ بھی یھی ھے کہ آخرت کی زندگی کو اسی دنیا میں سنوارا جاتا ھے :”الیوم عملٌ ولاحساب وغداً حسابٌ ولا عمل”(1)آج کا دن عمل کرنے کا دن ھے حساب کا نھیں اور روز قیامت حساب کا دن ھے وھاں عمل کی جگہ نھیں ھے۔”الد نیا مزرعة الا خرة”(2)دنیا آخرت کی کھیتی ھے (جیسا بوؤگے ویسا کا ٹو گے لھٰذا جوکام ھم دنیا میں کر یں گے آخرت میں اسی طرح بدلاملے گا ،اور ایسا نھیں ھے کہ دنیا وی زندگی کا اخردی زندگی سے کو ئی رابطہ نھیں ھے یا ھماری زندگی کا کچھ حصہ دنیاسے اور کچھ حصہ آخرت سے متعلق ھے، یعنیھماری زندگی کے الگ الگ شعبے نھیں ھیں ،بلکہ اس دنیا میں ھمارے کام اس طرح ھونا چاھئےے تاکہ ھمیں آخرت میں سعادت اور کا میابی نصیب ھو مثلاً ھمارا اٹھنا بیٹھنا، سانس لینا ،دیکھنا، سننا، گفتگو کرنا ،کھانا پینا،میاںبیوں کے تعلقات اور اجتماعی روابط اس طرح ھوں کہ ھماری آخرت سنور جائے ،اور ھو سکتا ھے ھمارے یھی کام آخرت میں مضر اور نقصان دہ ھوں،یہ بات مسلم ھے کہ کھانا پکانا اور کھانا کھانا دنیا سے مربو ط ھے لیکن ایسا بھی ھو سکتا ھے کہ کھانے کا یھی طریقہ جنت میں جانے کا با عث بنے اور ایسا بھی ھو سکتا ھے کہ ھما رے لیئے با عث عذاب ھو(اِنَّ الَّذِیْنَ یَا کُلُونَ اٴَمْوَالَ الْیَتَامٰی ظُلْماً إِنَّمَا یَاکُلُونَ فِی بُطُونِھِمْ نَاراً وَسَیَصْلُوْنَ سَعِیْراً)(3)”بے شک جولوگ یتیموں کا مال ناحق چٹ کر جایا کرتے ھیں وہ اپنے پیٹ میں بس انگارے بھرتے ھیں اور عنقریب واصل جھنم ھونگے”جوشخص اپنے پیٹ کویتیموں کے مال سے بھرتا ھے ا گر چہ وہ ظاھراً کھانا کھاتا ھے او اس سے لذت بھی اٹھاتا ھے لیکن یھی کھانا جو کھارھا ھے اس کے لئے جھنم کا عذاب بن جائے گا ، جس طرح اگر انسان خدا کی عبادت کرنے کے لئے کھانا کھاتا ھے تو ا سکا یھی کھانا آخرت میں ثواب واجر کا باعث ھے اسی طرح اگر انسان خدا کی خوشنودی کے لئے گفتگو کرتا ھے تو جنت میں اس کے لئے ایک درخت لگایا جاتا ھے ۔حضرت رسول اکرم (ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: جو شخص بھی تسبیحاتاربعہ پڑھے ، خداوندعالم اس کے لئے جنت میں ایک درخت اُگاتا ھے (یہ سننے کے بعد ) بعض لوگوں نے کھا: تب تو ھمارے لئے جنت میں بھت سے درخت موجود ھوں گے، کیونکہ ھم تسبیحات اربعہ کو مکرر پڑھتے رھتے ھیں،اس موقع پر حضرت رسول اکرم نے ارشاد فرمایا: ٹھیک ھے مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان کو جلانے کے لئے وھاں آگ نہ بھیجو۔لھٰذا اگر ھمارے اعمال وکردار خدا کی خوشنودی کے لئے ھوں تو آخرت کی سعادت وکامیابی کا سبب ھوں گے، اور اگر ھمارے یھی اعمال خدا کی مرضی کے خلاف ھوں تو آخرت میں بدبختی اور عذاب جھنم کے باعث بنتے ھیں، ایسا نھیں ھے کہ ھماری یہ زندگی دو مستقل حصوں پر مشتمل ھو جس کا ایک حصہ آخرت سے مربوط ھو اور مسجد وعبادتگاھوں میں گذارا جائے او ردوسرا حصہ ھماری دنیا سے مربوط ھو جس کا آخرت سے کوئی سروکار نہ ھو۔اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ یہ نظریہ (دین کے حدود صرف انفرادی، عبادی مسائل اور عبادتگاہ تک ھوں کہ جس کا ثمرہ آخرت میں ظاھر ھوگا او ردوسرے مسائل دین سے خارج ھیں) آخری چند صدی کے درمیان بعض مغربی لوگوں میںبعض ادیان کے ماننے والوں کی طرف سے رائج ھوا ھے اور اس نظریہ نے بھت سے لوگوں کے ذھن کو پراکندہ کردیا ھے ، اور نہ صرف یہ کہ اسلام میں یہ مطلب موجود نھیں ھے۔بلکہ کسی بھی آسمانی برحق دین میں یہ مطلب نھیںپایا جاتا ھے ،ھر برحق دین کا نظریہ یھی ھے کہ انسان کی تخلیق اس وجہ سے ھوئی ھے کہ انسان اپنے لئے سعادت یا شقاوت (بدبختی) کو معین کرے، او رانسان کی ھمیشگی سعادت یا ھمیشگی شقاوت اس دنیاوی زندگی کے زیر سایہ حاصل ھوتی ھے، یعنی اگر انسان کی رفتارو،گفتار الھٰی قوانین کے تحت ھو تو ھمیشگی سعادت اس کے شامل حال ھوگی، او راگر انسان کے کارنامے خدا کی مرضی کے خلاف ھوں تو ھمیشگی شقاوت وبدبختی اس کے دامن گیر ھوگی۔وہ لوگ جن کا نظریہ یہ ھے کہ دین سے ھماری توقعات کم سے کم ھونی چاھئے، انھوں نے انسانی رفتاروگفتار کو دو حصوں پر تقسیم کیا ھے جس کا ایک حصہ دین سے متعلق ھے اور اس کا دنیا سے کوئی رابطہ نھیں ھے او ر دوسرا حصہ دنیا سے متعلق ھے وہ دین سے خارح ھے، جیسے سیاسی اور اجتماعی مسائل، البتہ یہ نظریہ صرف ایک مغالطہ او رکج فھمی کا نتیجہ ھے، کیونکہ ان کا خیال یہ ھے کہ اگر دین سے ھماری توقعات حداکثر ھو تو پھر ھمارے تمام امور دین کے مطابق ھونا ضروری ھیں یھاں تک کہ کھانا پینا مکان بنانا وغیرہ وغیرہ ،چونکہ انھوں نے یہ سوچا کہ یہ نظریہ نہ تو صحیح ھے اور نہ ھی دین ان تمام چیزوں کو پورا کرسکتا ھے، لھٰذا یہ لوگ دین سے کم سے کم توقعات کے قائل ھوگئے۔ان کی یہ غلط فھمی اس وجہ سے ھوئی کہ انھوں نے اس مسئلہ کی صرف دوقسم تصور کی جب کہ تیسری قسم بھی موجود ھے اور یھی تیسری قسم صحیح ھے، اور وہ یہ ھے کہ ھم دین سے اتنی توقع نھیں رکھتے کہ تمام چیزوں کے بارے میں ھمیں بتائے یھاں تک کہ کھانا کھانے ، کپڑے پھننے او رمکان بنانے کا طریقہ بتائے ، کوئی بھی ایسا دعویٰ نھیں کرتا، اور یہ اس لئے ھے کہ دین نے بھت سے مسائل کے بیان کو سمجھنے کے لئے دنیاوی علوم پر چھوڑ دیا ھے۔لیکن پھر بھی یہ مسائل کسی نہ کسی اعتبار سے دین سے متعلق ھوتے ھیں ، اور یہ اس وقت ھوگا جب یہ مسائل خود ارزش مند او رپر اھمیت قرار پائیں۔یعنی ان کے اندر وہ پھلو بھی کار فرما ھوں جو دین سے متعلق ھیں مثلاً کھانا کھانا دینی مسئلہ نھیں ھے لیکن اگر کوئی مررھا ھے ،بھوکا ھے تو اس کو کھانا کھانا واجب ھے، تو اس صورت میں یہ مسئلہ دینی ھوجائے گا۔

4۔انسان کے دنیاوی اعمال و کردار کی اھمیتجب ھم یہ دیکھتے ھیں کہ ھماری دنیاوی زندگی آخرت کی زندگی سے ایک ربط رکھتی ھے اور ھمارا اعتقاد یہ ھے کہ انسانی اعمال وکردار اس کے کمال یا پستی کے باعث ھوتے ھیں، اور ھمارا کردار سعادت اخروی میں موثر ھوسکتا ھے تو پھر ھمارے یہ افعال واعمال پراھمیت اور باارزش ھوجاتے ھیں لھٰذا ھم اب یہ دین کو حق دیتے ھیں کہ وہ ھمارے افعال وکردار کے بارے میں قضاوت کرے یا بہ لفاظ دیگر یہ کھا جائے کہ دین ھمارے حلال وحرام افعال کو بیان کر تا ھو دین ان کو انجام دینے کی کیفیت بیان نھیں کرتا، دین تو یہ کھتا ھے کہ بعض چیزوں کا کھانا حرام او رگناہ ھے ۔مثلاً خنزیر کا گوشت اور نشیلی چیزوں کاکھانا حرام ھے لیکن شراب کیسے بنائی جاتی ھے خیزیز کیسے پالا جاتا ھے یہ دین کا کام نھیں ھے،البتہ اسلام نے خنزیر کے گوشت کو حرام اس لئے کیا ھے کہ دینی عبادات ومسائل میںیہ مانع ھے او ردینی احکام چاھے واجب ھوں یا حرام یہ سب وجوب وحرمت مثبت او رمنفی اثرات کی بنا پر جعل ھوئے ھیں یعنی احکام کے متعلقات میں انسان کی سعادت او رآخرت پائی جاتی ھے گویا احکام ایجابی وسلبی کے ذریعہ ھمارے افعال وکردار کی اھمیت پتہ چلتی ھے ۔بہ الفاظ دیگر اس طرح عرض کیا جائے کہ انسان کی ترقی او رتکامل کی راہ ایک نقطہ سے لامتناھی نقطے کی طرف شروع ھوتی ھے اس راہ میں جو چیز ھمارے لئے مفید ھے وہ یہ ھے کہ ھم خدا کی طرف متوجہ ھوں اور انسانی معنویت کی بلندی کا زمینہ ھموار کریں، درجات کے اعتبار سے چاھے وہ احکام واجب ھوںیا مستحب یا اس کے بعد مباح ، اور جو راھیں انسان کو تنزل او رپستی کی طرف لے جانے والی ھیں اور انسان کو راہ کمال اور خداوندعالم سے دور کرتی ھیں “حرام” ھیں اس کے بعد مکروھات ھیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ دین یہ نھیں کھتا کہ کون سا کھانا کھائیں کس طرح کھانا بنائیںکس طرح مکان بنائیں بلکہ دین اس بات کی تاکید کرتا ھے کہ مکان غصبی جگہ پر نہ بنایا جائے یا مکان کو اس طرح نہ بنائیں کہ جس سے دوسروں کے گھروں کی بے پردگی ھوتی ھو، دین یہ کھتا ھے کہ حلال پیسہ سے مکان بنائیں سود کے پیسہ سے مکان نہ بنائیں، درحقیت مکان کی اھمیت او راس کی کیفیت کو بیان کرتا ھے اسی طرح دین یہ کھتا ھے کہ ھمارا کھانا ایسا ھو جس سے ھماری ظاھری اور معنوی رُشد وترقی ھو او روہ غذا ئیں جو حرام ھیں یا “الکحل” نشہ آور چیزوں سے پرھیز کریں جو خود ھمارے لئے ضرررساں اورنقصان دہ ھیں۔قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے :(یَا اٴَیُّھا الَّذِیْنَ ءَ امَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالاٴَنْصَابُ وَ الاٴَزْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ إِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ اٴَنْ یُوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِیْ الخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدُّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہ…) (4)”اے ایمان دارو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے تو بس ناپاک (برے) شیطانی کام ھیں تو تم لوگ اس سے بچے رھں تاکہ تم فلاح پاؤ، شیطان کی تو بس یھی تمنا ھے کہ شراب او رجوے کے بدولت تم میں باھم عداوت ودشمنی ڈلوادے اور خدا کی یاد سے باز رکھے”نتیجہ یہ نکلا کہ دین کی حلال اور حرام کردہ چیزیں انسانی کردار کو بیان کرنے والی ھیں،یعنی ان کے ذریعہ معلوم ھوجاتا ھے کہ انسانی کردار مثبت پھلو رکھتا ھے یا منفی، اور کیا یہ چیز ھماری سعادت او رکامیابی میں موثر ھیں؟ اور کیا یہ چیزیں خدا تک پھونچنے کے لئے راہ ھموار کرتی ھیں؟ یا یہ چیزیں انسان کو بدبختی اور ھلاکت کی وادی میں پھونچادیتی ھیں؟ خلاصہ یہ کہ دین، دنیاوی کردار کے ماورای اس کردار پر توجہ کرتا ھے کہ جس کے ذریعہ انسان جنتی یا جھنمی ھوتا ھے۔

5۔انسان کے کردار کی اھمیت کو سمجھنے میں عقلی طاقت کی شعائیںھمارے افعال وکردار کی اھمیت ایجاب وسلب کے لحاظ سے (یعنی ھمارے افعال ورفتارو کردار کے لئے ارزش کا اثبات کرنا یا سلب کرنا) کبھی اتنا واضح وروشن ھوتا ھے کہ جس کو عقل بخوبی سمجھ لیتی ھے اور شارع مقدس کی طرف سے تعبدی بیان کی ضرورت نھیں بلکہ عقل خودھی خداوندعالم کے حکم کو مشخص کرلیتی ھے۔اسی وجہ سے فقھاء کرام مستقلات عقلیہ میں فرماتے ھیں: بعض مسائل میں عقل مستقل طور پر فیصلہ کرلیتی ھے اور افعال واعمال کے حُسن وقبح (اچھائی ،برائی) کو معین کرلیتی ھے اور ھم عقل کے ذریعہ سمجھ لیتے ھیں کہ خداوندعالم کا ارادہ فلاں کام کے انجام دینے یا ترک کرنے سے متعلق ھے، ھم عقل کے ذریعہ یہ پتا لگالیتے ھیں کہ خداوندعالم اس کام سے راضی ھے یا نھیں ، ھم سبھی کی عقل اس بات کو سمجھتی ھے کہ کسی یتیم کا مال کھا نابرا ھے،اور اس سلسلے میں شارع مقدس کی طرف تعبدی بیان آنا ضروری نھیں ھے ، عقل کی تشخیص کے بعد قرآن وحدیث میں بھی اس بارے میں تعبدی بیان آنایہ حکم عقل کی تاکید کے لئے ھے، لیکن اکثر مقامات پر ھماری عقل ھمارے افعال واعمال ورفتار و کردار کی اھمیت اور پھر ان افعال کی ھماری شقاوت وسعادت میں تاثیر کی مقدار کو درک کرنے سے قاصر ھے ، اس طرح کہ ھم اپنے اعمال کے وجوب وحرمت اور استحباب وکراھت کو عقل کے ذریعہ پھچانیں، لھٰذا ایسے مقامات پر دین کو دخالت کرنے کا حق ھے چنانچہ اس وقت دین کو ھمارے اعمال وافعال کے انجام دینے کے احکام بیان کرناھوںگے۔

6۔دین کے حدودجیسا کہ معلوم ھوچکا ھے کہ وہ چیزیں جو ھماری ھمیشگی سعادت یا شقاوت میں موثر ھیں صر ف ان مسائل میں منحصر نھیں جو براہ راست خداوندعالم سے مربوط ھیں، بلکہ دین ، عبادی مسائل کے علاوہ دنیاوی امور میں بھی حق دخالت رکھتا ھے اسی وجہ سے دین نے بعض کھانے پینے والی چیزوں کو حلال یا حرام ھونے کو بھی بیا ن کیا ھے۔اور جب ھم دینی احکامات کو ملاحظہ کرتے ھیں تو اس نتیجہ پرپھونچتے ھیں کہ دینی حدود انفرادی مسائل میں محدود نھیں ھیں بلکہ اجتماعی مسائل مثلاً گھریلو مسائل، شادی، طلاق اور تجارت وغیرہ جیسے مسائل کو بھی شامل ھیں، اور ان مسائل کا حلال وحرام ھونا ان کی اھمیت کو بیان کرتا ھے، درحقیقت دین ان امور کی حقیقت کو بیان کرکے ان کی حرکت کی جھت وسمت معین کرا ھے اور نشان دھی کررھا ھے کہ ان کے ذریعہ کس طرح سے خداوند عالم کی سمت انسان حرکت کرسکتا ھے اور کون سے امور شطان کی طرف مایل ھونے کے اسباب فراھم کرتے ھیں۔علم بعض چیزوں کے بیان کرنے سے قاصر ھے علم صرف یہ بیان کرتاھے کہ کس چیز کو بنانے کے لئے کن چیزوں کو کس مقدار میں ھونا ضروری ھے اورفیزیکی او ر شیمیائی چیزوں کو بیان کرتا ھے لیکن یہ بیان نھیں کرتا کہ ان چیزوں کو کس طرح استعمال کیا جائے تاکہ انسان حقیقی اور واقعی کمال اور سعادت تک پھونچ سکے، ایسے مقامات پر دین کو قضاوت او رفیصلہ کرنا ھوتا ھے لھٰذا جس طرح ھمارے اعمال ھماری سعادت وبدبختی میں موٴثر ھوتے ھیں اسی طرح سیاسی واجتماعی امور میںھمارے اعمال ھماری سعادت یا بدبختی میں موثر ھوتے ھیں، صرف یھی نھیں بلکہ اس حصے میں اور زیادہ موثر ھوتے ھیں۔اب رھی ھماری اصل گفتگو یعنی “اجتماعی امور” کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ معاشرہ اور ملت کا چلانا ھماری سعادت یا بدبختی میں کوئی اثر نھیں رکھتا؟، اوراس معاشرہ کے افراد جس طرح بھی چاھیںمعاشرہ کے ادارے کے لئے جس کو چنیں ،مختار ھیں او ران مسائل میں دین کوئی دخالت نھیں رکھتا؟ کون ھے جو نھیںجانتا کہ معاشرہ میں عدالت او رانصاف کی رعایت سے انسان کی سعادت او رکامیابی ھے اور عدالت وانصاف سے کام لینا ایک بھت مھم اور مثبت پھلو رکھتا ھے اس سلسلہ میں اگر کوئی آیت یا حدیث نہ ھوتی تب بھی ھماری عقل اس بات کو سمجھتی ھے کہ عدالت وانصاف کی رعایت کرنے سے انسانی کمال اور سرفرازی میں شایان شان تاثیر رکھتی ھے ،جوحضرات ان مسائل کو سمجھنے کے لئے عقل کو کافی نھیں سمجھتے،وہ قرآن واحادیث کی طرف رجوع کریں، البتہ ھمارا عقیدہ تو یہ ھے کہ سیاسی واجتماعی امور کے بھت سے مسائل کی اھمیت کو عقل سےسمجھ سکتے ھیں، لیکن اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ جو بھی عقل سمجھیں وہ دین کے دائرے سے خارج ھے۔جیسا کہ ھم نے بیان کیا کہ جو چیز مرضی خدا کو کشف کرتی ھے اور جو چیز خدا کی حکمت اور اس کے ارادہ کو بیان کرتی ھے اور ھم کو آگاہ کرتی ھے کہ خدا کی مرضی کیا ھے اس میں کوئی فرق نھیں ھے کہ اس امر کو کس راستہ کے ذریعہ کشف کریں ،بلکہ مھم یہ ھے کہ ھم خداوندعالم کے ارادہ تشریعی کو کشف کریں، چاھے یہ کشف قرآن وسنت کے ذریعہ ھو یا عقل کے ذریعھ، کیونکہ یہ تینوںدلیلیں خدا کے احکام او ردینی قوانین کو کشف کرتی ھیں اسی وجہ سے عقل کو احکام الھٰی کے منابع میں شمار کیا جاتا ھے اور فقھاء کرام نے عقل کو احکام شرعی کے اثبات کرنے والی دلیلوں میں شمار کیا ھے،چنانچہ شرعی مسائل کو ثابت کرنے کے لئے عقل سے بھی تمسک کرتے ھیں، لھٰذا ایسا نھیںھے کہ عقل ا ور شرع کے درمیان کوئی حد موجود ھو کہ کچھ چیزیں عقل سے مربوط ھوں اور کچھ چیزیں شرع سے، بلکہ عقل ایسا چراغ ھے کہ جس کی روشنی میںخدا کی مرضی اور اس کے ارادہ کو تلاش کیا جاسکتا ھے،لھٰذا جو چیز اس طرح عقل کے ذریعہ کشف ھوگی وہ دینی ھے ۔

7۔دین اور حکومت میں رابطہجو کچھ ھم نے اجتماعی اورسیاسی امور کے بارے میں دین کی دخالت کے سلسلے میں عرض کیا اس پر توجہ رکھتے ھوئے اور مختلف قسم کی حکومتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے جواب تک اس دنیا میں وجود پاچکی ھیں خصوصاً وہ حکومتیں جو اسلام کے نام سے یا اسلامی زمانے میں دوسرے ناموں سے جانی جاتی تھیں، یہ نھیں کھا جاسکتا کہ اسلام ان کے بارے میں مثبت یا منفی نظریہ نھیں رکھتا؟، اگر ھم معاویہ اور یزید کی فاسد اور ظالم حکومت کا حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی عدالت وانصاف ور حکومت سے مقابلہ کریں تو کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ اسلام ان دونوں حکومتوں کو ایک نگاہ سے دیکھتا ھے اور حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کی حکومت میں کوئی فرق نھیں ھے؟کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ ھر انسان آزاد ھے کہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی حکومت کے طریقہ کار کو اپنائے؟! اور اس میں دین کی کوئی دخالت نہ ھو، اور انسانی کردار اور اس کی سعادت یا بدبختی میں کوئی دخالت نھیں رکھتا، یعنی کیا یہ کھنا صحیح ھے کہ نہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت انسان کی آخرت میں کوئی تاثیر رکھتی ھے اور نہ ھی معاویہ کا کردار انسان کی آخرت میں کوئی اثر رکھتا ھے؟! کیونکہ حکومت کا طریقہ کار دنیا اور سیاست سے تعلق رکھتا ھے اور اس کا دین سے کوئی رابطہ نھیں ھے! کیا کوئی عقلمند انسان ان باتوں کو قبول کرسکتا ھے؟ کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ دین کی نظر میں یہ دونوںحکومتیں(حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کی حکومت) مساوی وبرابر ھیں؟ اور دین ان میں سے کسی ایک کی مدح یا مذمت نھیں کرتا؟ حقیقت یہ ھے کہ اجتماعی اور حکومتی جیسے مسائل میں دین کی دخالت ضروری ھے، دین کو چاھئے کہ حکومت کے لئے مناسب ڈھانچہ پیش کرے ، دین کو بیان کرنا چاھئے کہ حاکم وقت اپنی حکومت کے آغاز ھی سے کمزور اور غریب لوگوں کی فکر میں رھے نہ کہ اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کے چکر میں لگا رھے؟!نتیجہ یہ نکلا کہ دین میںبالخصوص دین اسلام میں سیاسی واجتماعی مسائل کی ایک بڑی اھمیت ھے اور ان کو دین کے دائرہ سے خارج نھیں کیا جاسکتا، اور اس بات کا اعتقاد صحیح نھیں کہ ان سیاسی اور اجتماعی مسائل کا انسان کی شقاوت اور سعادت میںنھیں اگرانسان کا آخرت، حساب وکتاب اور ثواب وعذاب پراعتقاد ھے تو کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ معاویہ اور یزید کی حکومت وہ تاثیر نھیں رکھتی! اگرچہ بعض اھل سنت برادران ، معاویہ کے مسئلہ کو ابھی تک حل نھیں کرسکے ھیں،لیکن تاریخ میں ایسے بھت سے ظالم وجابر افرادگذرے ھیں جنھوں نے تاریخ کے اوراق کو سیاہ کرکے رکھا ھے، کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ ان ظالم وجابر لوگوں کی حکومت، عدالت وانصاف ور افراد کی حکومت کے برابر ھیں؟ اسی زمانہ کو لے لیجئے جس میں ھم زندگی گذاررھے ھیں، کیا وہ حکومتیں جو عورتوں اور بچوں کو جن کو ھر مذھب وملت میں بے گناہ مانا جاتا ھے ان کے سروگردن میں جدائی کریں، ان پر بم گرائیںاور ان کو زندہ درگور کریں، ان حکومتوں کے برابر ھوسکتی ھیں کہ جن کی تمام تر کوشش کمزور او رمظلوم لوگوں کی نجات کے لئے ھوتی ھیں؟ کیایہ دونوں حکومتیں جنت میں جاسکتی ھیں؟ لھٰذا کس طرح سیاسی واجتماعی مسائل کو دین سے خارج مانا جاسکتا ھے؟ اگر یہ طے ھے کہ دین اسلام حلال وحرام ، ثواب وعذاب اور دوسرے دینی مسائل میں اپنی خاص نظر رکھتا ھو توبدرجہ اولیٰ سیاسی واجتماعی مسائل وہ واضح وروشن مسائل ھیں کہ جن میں دین کا نظریہ ضروری ھے۔پس نتیجہ یہ نکلا کہ وہ نظریہ جس میں دینی مسائل کو دنیاوی مسائل سے الگ کیا جاتا ھے او ردینی مسائل کو صرف خدا اورآخرت سے مخصوص کیا جاتا ھے، اور ان کو دنیاوی دائرہ سے خارج مانا جاتا ھے(یعنی انسان کے بعض امور،دانشمندوں اور سیاسی لوگوں پر چھوڑدئے گئے ھیں اور بعض امور، دینی علماء کرام پر چھوڑ دئے گئے ھیں) یہ نظریہ بالکل غلط اور باطل ھے اور کسی بھی طریقہ سے اسلامی نظریہ سے سازگار اور موافق نھیں ھے، اسلام انسان کیلئے جس زندگی کے بارے میں نظریہ رکھتا ھے اور اسلام جس طرز زندگی کو پیش کرتا ھے اور ھمیں اس کی طرف دعوت دیتا ھے اس (گذشتہ)نظریہ سے ھم آھنگ وموافق نھیں ھے۔چھوڑئے ان لوگوں کو جو اس طرح کا نظریہ رکھتے ھیں یہ لوگ نہ خدا پر اعتقاد رکھتے ھیں او رنہ ھی قیامت پر، ان کی یہ باتیں صرف اور صرف اس وجہ سے ھوتی ھیں تاکہ علماء دین کو اس میدان سے باھر نکال دیں، لیکن ھم کو ان کے ذاتی عقیدہ سے کوئی مطلب نھیں ھماری عرض تو صرف یہ ھے کہ دنیاوی مسائل کو دینی مسائل سے جدا کرنے کا نظریہ اور دنیاوی مسائل کو دینی حدود سے خارج کرنے کا نتیجہ اسلام کے انکار کاسبب بنتا ھے او راس کے علاوہ کوئی دوسرا نتیجہ نھیں رکھتا، اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ انسان کا کوئی بھی عمل ایسا نھیں ھے جو ھماری سعادت یا بدبختی میںموثر نہ ھو، لھٰذا ھمیں قبول کرنا پڑے گا کہ ھماری تمام زندگی میں دین اپنا نظریہ دے سکتا ھے اور اس کی اھمیت کو بیان کرسکتا ھے۔جیسا کہ حضرت رسول اکرم(ص) نے فرمایا ھے:”مامن شیٴ یقرّبکم الی الجنة ویباعدکم عن النار الاّٰ وقدامرتکم بہ ومامن شیٴ یقربکم من النار ویباعدکم من الجنّة الاّٰ وقدنھیتکم عنہ” (5)”نھیں ھے کوئی ایسی چیز کہ جو تمھیں جنت سے قریب کرے اور جھنم سے دور کرے مگر یہ کہ میں نے تم کو اس کے کرنے کا حکم دیا ھے او رنھیں ھے کوئی ایسی چیز کہ جو تمھیں جھنم سے قریب اور جنت سے دور کرے مگر یہ کہ میں نے تم کو اس سے منع کیا ھے”اسلامی نظریہ کے مطابق سعادت کے معنی جنتی ھونے کے علاوہ اور کچھ نھیں ھیں اور بدبختی کے معنی جھنمی ھونے کے علاوہ کوئی دوسرا نھیں ھے:(فَاٴَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوا فَفِی النَّارِ۔ وَاٴَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ۔)(6)” تو جو لوگ بدبخت ھیں وہ دوزخ میں ھوں گے اور جو لوگ نیک بخت ھیں وہ تو بھشت میں ھوںگے ”

8۔دین کی جامعیتپیغمبر اکرم کے فرمان کے مطابق ایک دوسرا نظریہ بھی باطل ھوجاتا ھے ، وہ یہ ھے کہاگر کوئی یہ کھے: ٹھیک ھے کہ دین حلال وحرام کو بیان کرسکتا ھے لیکن زندگی کے بعض امور کو خود پیغمبر اکرم نے بیان کردیا ھے اور بعض دوسرے امور کو لوگوں پر چھوڑدیا ھے بعض وہ چیزیں جو آنحضرت کے زمانے سے متعلق تھیں وہ بیان کردیں اور باقی چیزوں کو ھم لوگوں پر چھوڑدیا تاکہ زمان ومکان کے لحاظ سے ھم خود طے کرلیں کہ کون چیزیں حلال ھیں اور کون چیزیں حرام۔کیونکہ اس نظریہ کا نتیجہ یہ ھے کہ پیغمبر اکرم نے سعادت تک پھونچنے والی تمام چیزوں کو بیان نھیں فرمایا جبکہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ نھیں ھے کوئی ایسی چیز کہ جس کے ذریعہ تمھاری سعادت کی ضامن ھو مگر یہ کہ میں نے اس کو بیان کردیا، البتہ آنحضرت کے فرمان کے یہ معنی نھیں کہ آپ نے تمام چیزوں کی جزئیات بھی بیان کردیں ، بلکہ آپ نے کلّی چیزوں کو بیان کیا ھے تاکہ آئندہ زمانے میں ائمہ (ع) اور مجتھدین جو ایسی صلاحیت رکھتے ھیں کہ جزئی احکام ،اور حلال وحرام کو کلی عناوین پر منطبق او رمرتب کرکے ان کے احکام کو معلوم کرلیں، او ران کو عناوین اولیہ یا عناوین ثانویہ یا حکومتی احکام کے عنوان سے لوگوں کے سامنے پیش کریں، بے شک مصادیق کی تشخیص او رجزئی احکام، انھیں کلی احکام پر منطبق ھیں کہ جو قرآن ،سنت اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث میں ذکر ھوئے ھیں جن کو اصطلاحاً فتویٰ کھا جاتا ھے۔

حوالہ( (1)بحارالانوار ج 32ص 354(2)بحارالانوار ج 70 ص 225(3)سوہ نساء آیت 10(4)سورہ مائدہ آیت ۹0،۹1-(5)بحارالانوار ج 70ص۹6(6)سورہ ھود آیت 106،108

 

http://shiastudies.com/ur/2880/%d8%af%db%8c%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b3%db%8c%d8%a7%d8%b3%d8%aa-%da%a9%db%8c-%d8%a7%da%be%d9%85%db%8c%d8%aa2/

تبصرے
Loading...