دین میں سیاست کی اھمیت

دین میں سیاست کی اھمیت

اسلام نے انسانی زندگی کے اجتماعی وانفرادی مختلف مسائل میں نظریات بیان کئے ھیں جس کا مطلب یہ ھے کہ اسلام دنیاوی زندگی میں دخالت رکھتا ھے، اور ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ مختلف نظریات رکھنے والوں سے بحث کا طور وطریقہ بھی مختلف ھونا چاھئے ،جو لوگ ھمارے ساتھ بعض عقیدوں میں شریک ھیں ان سے بحث کا طریقہ الگ ھے لیکن جو لوگ ھمارے اعتقادات کے مخالف ھیں ان سے بحث کا طریقہ الگ ھے اور ھم نے یہ بھی عرض کیا کہ مدمقابل کو قانع کرنے کے لئے کبھی برھانی اصولوں کوبنیاد بنایا جاتا ھے او رکبھی جَدَلی طریقہ اپنانا پڑتا ھے اور ھم اس کتاب میں دونوں طریقوں سے استفادہ کریں گے، او رھم نے یہ بھی عرض کیا کہ اسلام سیاست کے بارے میں ایک خاص نظریہ رکھتا ھے اور ھمارے لئے ضروری ھے کہ اس نظریہ کو پھچانیں اور اس کو عملی جامہ پھنائیں، انقلاب اسلامی کے ارکان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اسلام سیاسی مسائل میں دخالت رکھتاھے، اسی وجہ سے ھمارا یہ انقلاب “اسلامی انقلاب” کے نام سے مشھور ھوا۔اسی طرح ھم نے گذشتہ بحث میں بیان کیا کہ اسلام کے سیاسی نظریہ اور اس کے سیاسی پھلو سے دفاع کرنے میںھمارے مقابل دوگروہ ھیں:پھلا گروہ: ان لوگوں کا ھے کہ جو اسلام کو نھیں مانتے یا یہ کہ کسی بھی دین کو نھیں مانتے ، ان لوگوں کے جواب کے لئے آیات و روایات سے دلیل پیش کرنا بے فائدہ ھے بلکہ ان سے مناظرہ کرنے کے لئے عقلی طریقہ اپنا نا پڑے گا، اور سب سے پھلے اسلام کو ثابت کرنا پڑے گاتاکہ ثابت ھوسکے کہ خدا، دین، پیغمبر اور قیامت ھے، اور یہ مسلم ھے کہ اس گروہ سے(جو دین سے بےگانہ ھے) بحث کرنا صرف اعتقادی بحث ھوگی۔دوسرا گروہ: ان لوگوں کا ھے کہ جو مسلمان ھیں اور دین کو قبول کرتے ھیں یا اگر اسلام پر اعتقاد نھیں ھے ،مگر مسلمان ھونے کا دعوی کرتے ھیں اور یہ کھتے ھیںکہ مسلمانوں کا اسلام، سیاست سے بےگانہ ھے او راسلام کا سیاست سے کوئی ربط نھیں ھے، اس گروہ کے مقابلہ میں ھم کو چاھئے کہ اس اسلام کی تحقیق وبررسی کریں جس کے مسلمان معتقد ھیں او ردیکھیں کہ یہ اسلام سیاسی نظریہ رکھتا ھے یا نھیں؟ اس گروہ کے مقابلے میں ھمیں صرف عقلی روش سے استفادہ نھیں کرنا چاھئے بلکہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی شناخت کے لئے اسلامی اصولوں پر توجہ کریں جن پر اسلام کی بنیاد قائم ھے او راس کے بعد اسلامی منابع؛ یعنی قرآن، سنت او رعقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کریں کہ قرآن،سنت اور سیرت رسول اور ائمہ کی سیرت او ران کے فرمان کے مطابق اسلام کا سیاسی نظریہ کیا ھے یہ کہ اسلام کی سیاسی دخالت پر بزرگان دین کی سییرت موجود ھے یا نھیں؟
2۔ سیاست کی تعریف اور اسلام میں تین طاقتوں کی اھمیتھم پھلے سیاست کی واضح وروشن تعریف کرتے ھیںتاکہ واضح وروشن ھوجائے کہ قرآن مجید میں سیاست کے بارے میں گفتگو موجود ھے یا نھیں؟سیاست یعنی قوم وملت کو ادارہ کرنے کا طور وطریقھ، یامعاشرہ کو اس طرح تنظیم کیا جائے کہ اس کی ترقی اور پیشرفت ھوسکے،اور اس کے تمام مصالح اور ضروریات کو پورا کرسکے، یابہ الفاظ دیگر : سیاست یعنی ملکی نظام چلانے کا قانون۔البتھسیاست سے ھماری مراد یہ نھیں ھے کہ جس کے اثرات منفی ھوںیعنی جس میںفریب کاری، حیلہ بازی اور دوسروں کو دھوکہ دینا پایا جائے۔سیاست او رملکی نظام کے سلسلے میں “مانٹسکیو” کے زمانے سے حاکم گروپ کو تین طاقتوں میں تقسیم کیا گیا ھے:1۔”قوة مقننہ، قانون گذار پاور(پارلیمینٹ)2۔ “قوہ مجریہ”،قانون کو جاری کرنے والی طاقت (صدر یا وزیر اعظم)3۔”قوہ قضائیہ “، (عدالت یا کورٹ پاور)قانون گذر پاور کی ذمہ داری یہ ھے کہ ملت کو ادارہ کرنے، او ران کی مناسب وبھتر زندگی کے لئے قانون بنائے تاکہ عدل وانصاف برقرار رھے اور معاشرے پر نظام حکومت کرسکے، اور کوئی ایک دوسرے کے حقوق کو پامال نہ کرسکے، پوری قوم ترقی او رکامیابی کی طرف قدم بڑھاتی ھوئی نظرآئے،اور قوہ مجریہ کا وظیفہ یہ ھے کہ پارلیمینٹ میں بنائے گئے قوانین کو نافذ کرے اور یھی گروہ حکومت کی شکل پاتا ھے، قوہ قضائیہ کا کام یہ ھے کہ کلی قوانین کے تحت لوگوں کے درمیان موجودہ اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرے۔مذکورہ تقسیم بندی کے تحت جو وظائف تینوں طاقتوں کے لئے شمار کئے گئے ھیں ان کے بارے میں قرآن کے نظریات کیا ھیں او رشرعی لحاظ سے ان کی اھمیت کس قدر ھے اور کیااس سلسلے میں قرآن ا ور اسلام نے کچھ خاص قوانین ودستورات بیان کئے ھیں؟ البتہ توجہ رھے کہ قوانین سے ھماری مراد اجتماعی قوانین ھیں نہ کہ انفرادی احکام وقوانین کہ جو دین میں مسلم ھیں۔اجتماعی قوانین میں مدنی (شھری) قوانین، عدالتی قوانین، تجارتی قوانین اور حکومت کا لوگوں سے روابط کے ضوابط نیز بین الاقوامی قوانین شامل ھیں، اگر ھم صحیح معنوں میں قرآن پر ایک نظر ڈالیں تو ھمیں مذکورہ تمام قوانین مل جائیںگے قرآن مجید میں شھر ی قوانین، نکاح وطلاق کے احکام، تجارت ومعاملات کے قوانین، قرض ورھن او رعدالت کے مسائل ( یہ تمام چیزیں اس چیز کی حکایت کرتی ھیں کہ اسلام نے معاشرہ کو ادارہ کرنے کے لئے یہ احکامات پیش کئے ھیں) کے علاوہ قرآن مجید میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے خاص حقوق بیان کئے ھیں تاکہ خاص مواقع پر زمان ومکان کے پیش نظر کچھ احکام وضع کریں او رمومنین کو بھی حکم ھوا ھے تاکہ آنحضرت کی اطاعت وپیروی کریں ، ارشاد ھوتا ھے:(وَمَا کَانَ لِمُوٴْمِنٍ وَلاٰمُوٴْمِنَةٍ إِذَا قَضٰی اللّٰہ وَرَسُوْلُہ اٴَمْراً اٴَنْ یَکُونَ لَھمُ الْخِیْرَةُ مِنْ اٴَمْرِھمْ…) (1)” اور نہ کسی ایماندار مرد کو یہ مناسب ھے او رنہ کسی ایماندار عورت کو کہ جب خدا اور اس کے رسول کسی کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کام(کے کرنے یا نہ کرنے )کا اختیار ھو”اس آیہ کریمہ میں یہ بیان کیا گیا ھے کہ مومنین کو یہ حق نھیں ھے کہ خدا اور اس کے رسول کی تصمیم وارادہ پر اعتراض کریں ، پس معلوم یہ ھوا کہ خدا کے مسلم قوانین کے علاوہ اسلامی حکومت میں زندگی بسر کرنے والوں کے لئے پیغمبر اسلام کے بنائے ھوئے قوانین بھی لازم الاجراء ھیں،یعنی رسول اکرم کے بنائے ھوئے قوانین پر عمل کرنا ضروری ھے اور کسی کو بھی یہ حق نھیں کہ آنحضرت کی نافرمانی کرے، کیونکہ جو شخص آنحضرت کے قوانین کی مخالفت کرے وہ دوحالتوں سے خالی نھیں ھے :1۔ یا تو وہ پیغمبر کو خدا کا رسول نھیں مانتا، ایسے شخص سے ھمارا کو ئی مطلب نھیں ھے ، ھم تو اس سے گفتگو کرتے ھیں جو آنحضرت کو خدا کا رسول مانتا ھو اور اس چیز کا بھی قائل ھو کہ آنحضرت کو خدا کی طرف سے قانون بنانے کا حق دیا گیا ھے، اسی وجہ سے خدا نے یہ نھیں فرمایا (وَمَاکَانَ لِکٰافِرٍ وَلاٰ کَافِرَةٍ)بلکہ خدا وندعالم کا ارشاد تو یہ ھے (وَمَاکَانَ لِمُوٴمِنٍ وَلاٰمُوٴْمِنَةٍ )(2)2۔یا یہ کہ آنحضرت کی نبوت کا اعتقاد رکھتا ھے لیکن رسول اسلام کو اس طرح کا حق ملنے کے بارے میں بحث کرتا ھے؛ ایسے شخص کے لئے ھم قرآن مجید سے دلائل پیش کرتے ھیں کہ جس طرح اسلامی حکومت میں رھنے والے ھر مومن اور رسول اکرم کی نبوت کا معتقد انسان خدا کے احکامات کو لازم الاطاعة جانتا ھے بالکل اسی طرح سے رسول اسلام کے بنائے ھوئے قوانین کو بھی لازم الاطاعة ماننا ضروری ھے اور تمام مومنین پر آنحضرت کی اطاعت وولایت ثابت شدہ ھے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:(اَلنَّبِیُّ اٴَوْلیٰ بِالْمُوٴْمِنِیْنَ مِنْ اٴَنْفُسِھمْ ) (3)”نبی تو مومنین سے خود ان کی جانوں سے بھی بڑہ کر حق رکھتے ھیں”پس قرآن کی نظر سے رسول اسلام کے لئے قانون کا بنانا اور اس کو اجراء کرنے کا حق مسلم الثبوت ھے،، لیکن یھاں پر یہ سوال ھوتا ھے کہ کیا یھی مرتبہ رسول اسلام کے بعد کسی دوسرے کے لئے بھی ثابت ھے یا نھیں ؟ البتہ اس بحث کو کسی دوسر ی جگہ پر کیا جائے گا اس وقت ھماری بحث اسلام کے بارے میں ھے کہ اسلام سیاسی نظریہ رکھتا ھے یا نھیں؟

3۔عدالتی احکام قرآن کی نگاہ میںقضاوت اور عدالتی احکام یعنی خدا کے کلی احکام کو اختلافی اور جھگڑے وغیرہ جیسے مسائل پر منطبق کرنا، اس سلسلے میں خدا وند عالم ارشاد فرمایتا ھے:(فَلاَ وَرَبُّکَ لاَ یُوٴْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھمْ لاَیَجِدُوْا فِیْ اٴَنْفُسِھمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیْماً)(4)” پس (اے رسول) تمھارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ھوں گے تاوقتیکہ اپنے باھمی جھگڑوں میں تم کو اپنا حاکم (نہ) بنائیں پھر (یھی نھیں بلکہ ) جو کچھ تم فیصلہ کرو اس سے کسی طرح دل تنگ بھی نہ ھوںبلکہ خوش خوش ان کو مان لیں “آیہ مذکورہ میں نہ صرف یہ کہ حضرت رسول اکرم کے لئے قضاوت ثابت ھے بلکہ آنحضرت کی قضاوت وداوری کو قبول کرنا شرط ایمان ھے، چونکہ آیت کے شروع میں قسم کھائی گئی ھے لھٰذا اس مطلب کی مزید تاکید ھوجاتی ھے کہ مومنین کو چاھئے کہ اختلافی مسائل میں آپ کے فیصلے اور حکم کو دل وجان سے قبول کریں، اور آپ کے دئے ھوئے فیصلہ پر ناراض نہ ھوں، اور اگر آنحضرت کے فیصلہ پر اعتراض کیا اور ا س کو دل وجان سے قبول نہ کیا تو پھر وہ حقیقی مومن نھیں ھے۔جی ھاں حقیقی مومن وہ ھے کہ اگر اسلامی حکومت اس کے برخلاف کوئی فیصلہ دے تو اس کو دل وجان سے قبول کرے اگرچہ یہ احتمال بھی ھو کہ اس کا حق ضایع ھوا ھے کیونکہ قاضی گواھوں او ردوسرے شواھد کی وجہ سے ظاھری حکم کرتا ھے جیسا کہ رسول اکرم نے بھی فرمایا:”انما اقضی بینکم بالبینات والایمان” (5)میں تمھارے درمیان قسم اور دوسرے شواھد کی بناپر قضاوت اور فیصلہ کرتا ھوں، ممکن ھے کہ کوئی گواہ ظاھراً عادل اور معتبر ھو اور اس کی گواھی قبول ھو؛ اگر اس کی گواھی جھوٹ پر مشتمل ھو یا گواہ سے کوئی بھول چوک یا غلطی واقع ھوئی ھو لیکن اگریہ طے قرارپائے کہ قاضی کے فیصلہ کو قبول نہ کیا جائے اگرچہ خلاف واقع بھی ھو تو پھر بھت سی مشکلات پیدا ھوجائیں گی او راسلامی حکومت نھیں چل پائے گی۔قرآ ن سے جو نتائج نکلتے ھیں اور قرآن مجید کا جزائی امورجیسے دیت، قصاص اورتعزیرات (سزا دینا) وغیرہ کا بیان اس بات پر گواہ ھے کہ اسلام سیاست و حکومت میں سب سے بڑی دخالت رکھتا ھے اور حدتو یہ ھے کہ اسلام نے مجرم اور مفسد کے لئے “حد” (اسلامی سزا) معین کی ھے اور قاضی کو اس حدتک اجازت دی ھے کہ مفسد اور مجرم پر حد جاری کرے اگرچہ کوئی مخصوص شکایت کرنے والا نہ ھو ، چونکہ ایسی صورت میں گویا حقوق الھٰی کو پامال کیا گیا ھے (لھٰذا اس کو سزا دی گئی ھے)بعض مقامات پر تو اسلام نے بھت سنگین اور سخت سزا معین کی ھیں کہ جس کی بناپر بعض لوگوں کے لئے ان کا قبول کرنا مشکل ھوجاتاھے، مثلاً قرآن مجید میں حکم ھوا کہ اگر اسلامی معاشرے میں کسی نے زنا کیا او ر قاضی کے نزدیک چار عادل گواھوں نے گواھی دی اور وہ جرم قاضی کے نزدیک ثابت ھوچکا ھے تو زانی اور زانیہ میں سے ھر ایک سوسو تازیانے لگائے جائیں، اور قرآن نے اس سلسلہ میں خصوصی طور پر تاکید کی ھے تاکہ قاضی عواطف ومحبت سے متاٴثر نہ ھو، او ران کے ساتھ مھربانی ومحبت سے پیش نہ آئے، ارشاد ھوتا ھے:(اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کَلَّ وَاحِدٍ مِنْھمَا مِاٴئَةَ جَلْدَةٍ وَلاَتاَخُذُکُمْ بِھمَارَافَةٌ فِیْدِیْنِ اللّٰہ )(6)”زنا کرنے والی عورت او رزنا کرنے والے مرد ان دونوں میں سے ھر ایک کو سو(سو) کوڑے مارو او راگرتم خدا او ر روز آخرت پر ایمان رکھتے ھو تو حکم خدا کے نافذ کرنے میں تم کو ان کے بارے میں کسی طرح کا رحم کا لحاظ نہ ھونے پائے “اس میں کوئی شک نھیں کہ اگر کسی پر ایسی “حد” جاری ھوگئی تو اس کی عزت وآبرو ختم ھوجاتی ھے لیکن معاشرہ اور سماج ان تمام برائیوں سے پاک ھوجاتا ھے۔چوری کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے:(اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا اٴَیْدِیْھمَا جَزَاءً بِمَا کَسَبَا نِکَالاً مِنَ اللّٰہ وَاللّٰہ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ )(7)”چور خواہ مرد ھو یا عورت تم ا ن کے کرتوت کی سزا میں ان کا (داھنا )ھاتہ کاٹ ڈالو،یہ (ان کی سزا) خدا کی طرف سے ھے اور خدا تو بڑا زبردست حکمت والاھے”پس نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن مجید نے رسول خدا کے لئے مقام قضاوت ، قوم ومعاشرے کی فلاح و بھبودی کے لئے حق قانون گذاری اور حد وسزا دینے کا حق معین فرمایا ھے ، اگر کوئی شخص واقعاًَ انصاف رکھتا ھو اور قرآ ن او رمعصومین (ع) کی معتبر روایت پر ایمان رکھتا ھو اس پر یہ بات واضح وروشن ھوجاتی ھے کہ اسلام سیاسی واجتماعی مسائل میں دخالت رکھتا ھے، لیکن اگر کوئی بغض وعناد کی وجہ سے ان حقائق سے چشم پوشی اور ان کا انکار کرے تو اس کی مثال ایسی ھے جیسے کوئی چمکتے ھوئے سورج کا منکر ھو۔

4۔ سلام کا ھمہ گیر ھونا اور اسلامی حاکم کی اھمیتقرآن مجید نے وسیع سیاسی مسائل ، حکومتی قوانین، قانون گذاری اور اس کو خاص موارد پر منطبق کرنا اور قوانین کے اجراء کرنے کے علاوہ فرعی اور جزئی قوانین کے بارے میںبھی وضاحت کی ھے مثلاً سال کے مھینوں کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے:(إِنَّ عِدَّةَ الشَّھوْرِ عِنْدَ اللّٰہ إِثْنَا عَشَرَ شَھراً فِیْ کِتَابِ اللّٰہ یَومَ خَلَقَ السَّمٰواتِ وَالاٴَرْضَ مِنْھا اٴَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذٰالِکَ الدِّیْنُالقَّیِّمُ )(8)”اس میں تو شک ھی نھیں کہ خدا نے جس دن آسمان وزمین کو پیدا کیا(اسی دن سے) خدا کے نزدیک خدا کی کتاب (لوح مخفوظ) میں مھینوں کی گنتی بارہ مھینے ھے ان میں سے چار مھینے (ادب و) حرمت کے ھیں یھی دین سیدھی راہ ھے”مذکورہ آیت میں سال کے بارہ مھینوں کی تقسیم تکوینی لحاظ سے اور خلقت کے نظام پر منطبق ھیں، اور اس طرح کے مطالب دین میںذکر ھونا، دین کے صحیح اور مستحکم ھونے کی نشانی ھے، اسی طرح قرآن مجید میں چاند کو دیکھنے کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے:(یَسْئَلُونَکَ عَنِ الاٴھلَّةِ قُلْ ھیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ) (9)”(اے رسول ) تم سے لوگ چاند کے بارے میں پوچھتے ھیں (کہ کیوں گھٹتا بڑھتا ھے) تم کھہ دو کہ اس سے لوگوں کے (دینوی امور اور حج کے اوقات معلوم ھوتے ھیں “اس وجہ سے اجتماعی وعبادی احکام تکوینی نظام پر منطبق ھوتے ھیں اس کے علاوہ بھت سے حقوقی احکام ماہ رمضان کا آغاز، حج کا زمانہ اور دوسری عبادی احکام چاند دیکھنے پر متوقف ھیں اور اس کی وجہ یہ ھے کہ قرآن مجید دین کو فطرت اور نظام خلقت سے ھم آھنگ اور منطبق بتاتا ھے:(فَاٴَقِمْ وَجْھکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطَرَةَ اللّٰہ الَّتِی فَطَرَ النّٰاسَ عَلَیْھا لاَتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہ) (10)”تو(اے رسول) تم باطل سے کترا کے اپنا رخ دین کی طرف کئے رھو، یھی خدا کی بناوٹ ھے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ھے خدا کی (درست کی ھوئی )بناوٹ میں (تغیر)تبدل نھیں ھوسکتا”اور چونکہ الھٰی قوانین فطرت الھٰی کی بنیاد پر بنائے گئے ھیں لھٰذا یہ قوانین مسلم ھیں او ران میں تبدیلی نھیں آسکتی، البتہ یھاں توجہ رکھنی چاھئے کہ اسلام کے بعض احکام وقوانین ایسے ھیں جو کسی خاص زمان ومکان کے لحاظ سے تبدیل ھوسکتے ھیں لیکن ان مسائل کو طے کرنا یا ان کو معین کرنا حاکم شرع کی ذمہ داری ھے، وہ حاکم شرع کہ جس کی مشروعیت اور طاقت خدا کی طرف سے ھے، قرآن مجید نے اس باعظمت منصب کو رسول اکرم کے لئے مقرر فرمایا ھے اور شیعہ عقائد کے لحاظط سے ائمہ معصومین علیھم السلام کے لئے بھی یہ منصب ھے (جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے ) او ران کے بعد یہ مقام ولی فقیہ کے لئے معین ھوا ھے (ولی فقیہ کے بارے میں دوسرے موقع پر تفصیل سے بحث کریں گے،انشاء اللہ)لھٰذا یہ اعتراض کہ دین کا اجتماعی مسائل سے کوئی مطلب نھیں، اور یہ کہ دین صرف آخرت سے مربوط ھے ،یعنیانسان کے خداسے رابطہ کا نام ھے یہ اعتراض بالکل ختم ھوجاتا ھے، اور نہ یہ اعتراض دین سے مربوط ھے، البتہ اس دنیا میں کوئی ایسابھی دین ھوسکتا ھے کہ جس پر مذکورہ اعتراض وارد ھوسکتا ھو، لیکن ھماری بحث اس دین سے نھیں ھے ،بلکہ ھماری گفتگو اس دین کے بارے میں ھے جس میں سال کے مھینوں تک کو بیان کردیا گیا ھو جس میں معاملات اور مالی روابط کے بارے میں اس طرح تاکید کی گئی ھو کہ اگر کوئی شخص ایک دوسرے کو قرض دے تو اس کو لکہ لیا جائے یا دو گواھوں کے سامنے قرض دیا جائے،اور اگر لکھنا یا گواہ لینا ممکن نہ ھو تو کوئی چیز گروی رکہ لی جائے، (قرآن مجید میں رھن کے جواز کے بارے میں جو بیان ھوا ھے وہ ایسے ھی مقامات کے لئے کہ اگر کوئی شخص کسی کو قرض دے اور اس سے کوئی نوشتہ یا سند نہ لے سکے تو اس سے کوئی قیمتی چیز بعنوان گروی لے کر اس کو قرض دے دیا جائے)لھٰذا ھم معتقد ھیں کہ دین اسلام سیاست، حکومت اور لوگوں کی مادی اور معنوی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پروگرام رکھتا ھے۔ھم نے گذشتہ جلسہ میں دین کی اس تعریف کو جس میں دین کو فقط انسان کے خدا سے رابطہ میں منحصر کیا گیا تھا اس کی ردّ کرتے ھوئے حقیقی دین کی تعریف کی تھی اور ھم نے عرض کیا تھا کہ دین کے صحیح معنی یہ ھیں کہ انسانی زندگی پر الھٰی جلوہ ھو جو انسان کے تکامل کا راستہ بیان کرے اور اس کو مبداٴ ومعاد کی طرف متوجہ رکھے پس دین انھیں راستوں کے اختیار کرنے کانام ھے او ربغیر کسی شک وشبہ کے ایسا دین زندگی کے کسی ایک حصہ مثلاً عبادت اور دوسرے عبادی کامو ں میں منحصر نھیں ھوسکتا، بلکہ انسانی زندگی کے تمام پھلوٴوں پرنظر رکھتا ھے کیونکہ انسان کی تخلیق کی وجہ یہ ھے کہ انسان ابدی اور ھمیشگی سعادت کو حاصل کرسکے اسی بناپر اپنی زندگی کے تمام پھلوٴوں کو الھٰی احکامات سے ھم آھنگ کرے، لھٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا کی براہ راست عبادت اور اصطلاحی عبادت دین کا بعض حصہ ھے اور ھماری زندگی کے دوسرے فکری وعملی پھلو خدا کی مرضی کے مطابق ھونا چاھئے، اور جب ھمارے سارے کام مرضی معبود کے مطابق ھوجائیں گے تو یہ تمام کام بھی عبادت بن جائیں گے اور انسان اس طرح زندگی کے بلند ترین مرتبہ پر پھونچ جائے گا:(مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالاِنْسَ إِلاّٰلِیَعْبُدُوْنَ) (11)”او رمیں نے جنوں او رانسانوں کو اسی غرض سے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں”اس آیت کا مطلب یہ کہ انسان خدا کی عبادت وپرستش کی بناپر کمال کی منزل تک پھونچ سکتا ھے۔لھٰذا نسان کے تمام اعمال وافعال اسی قاعدے او رقانون کے تحت ھونا چاھئے، یھاں تک کہ اس کا سانس لینا بھی اسی قاعدہ کے تحت ھونا چاھئے اور اگر انسانی زندگی نے الھٰی رنگ کو اپنا لیا ھے اور اسی سانچہ میں ڈھل گیا، تو وہ انسان واقعاً دیندار ھے او راگر خدا کی عبادت او راس کی پرستش کے دائرے سے خارج ھوگیا تو وہ شخص بے دین او رمرتد ھوجائے گا، وہ لوگ جن کی زندگی کا بعض حصہ خدا کی مرضی کے خلاف ھو اور خدا کی عبادت سے بے خبر رھتے ھیں، وہ لوگ واقعی دیندار نھیں ھیں بلکہ وہ لوگ ارتداد کی سرحد پر رھتے ھیں ان لوگوں کا دین ناقص ھے ،کیونکہ دین کے ناقص ھونے کے بھی درجات ھیں لھٰذا ھم کو یہ یقین رکھنا چاھئے کہ جو حضرات واقعاً دیندار ھیں اور زندگی کے تمام پھلوٴوں میں احکامات الھٰی کی رعایت کرتے ھیں،پس وہ لوگ جو زندگی کے بعض حصوں میں احکام الھٰی کی رعایت کرتے ھیں وہ ان کے مرتبہ کے برابر نھیں ھیں، اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ ایمان اور دینداری کے بھی بھت سے مراتب اور درجات ھیں او رانسان ان میں ترقی کرسکتا ھے جیسا کہ خدا وندعالم ارشاد فرماتاھے:(وَالَّذِیْنَ اھتَدُوْا زَادَھمْ ھدیً وَآتَاھمْ تَقْوَاھمْ )(12)”اور جو لوگ ھدایت یافتہ ھیں ا ن کو خدا (قرآن کے ذریعہ) مزید ھدایت کرتا ھے او ران کو پرھیزگاری عطا کرتا ھے”جو لوگ ھدایت پاچکے ھیں خداوندعالم ان کی ھدایت اور تقوے میں اضافہ کرتا ھے۔دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے:(إِنَّمَا المُوٴمِنُوْنَ الَّذِیْنَ إذَا ذُکِرَ اللّٰہ وَجَلَتْ قُلُوبُھمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھمْ آیَاتُہزَادَتْھمْ إِیْمَاناً )(13)”سچے ایماندار تو بس وھی لوگ ھیں کہ جب (ان کے سامنے) خدا کا ذکر کیا جاتا ھے تو انکے دل ھل جاتے ھیں او رجب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ھیں تو ان کے ایمان کو اور بھی زیادہ کردیتی ھیں “جی ھاں ایسے بعض حضرات موجود ھیں جن کے ایمان میں اضافہ ھوتا رھتا ھے اور تکامل کی طرف بڑھتے رھتے ھیں تاکہ ایمان کی بلند منزلوں تک پھونچ سکیں او راولیاء الھٰی میں شمار ھونے لگیں، ان کے مقابلہ میں وہ لوگ ھیں جو پستی کی طرف جاتے رھتے ھیں اور دینداری میں پیچھے ھٹتے چلے جاتے ھیں او رکبھی کبھی اغیار وبے گانوں کے اعتراضات واشکالات کو سن کر نامناسب ماحول کی طرف بڑہ جاتے ھیں اور جس دین کو ماں باپ یا کسی استاد سے سیکھا تھا اس کو کھوبیٹھتے ھیں ، کیونکہ جن لوگوں میں اتنی صلاحیت نھیں ھے کہ مسائل کو اچھے طریقہ سے سمجھ سکیں اگر وہ اعتراضات واشکالات میں وارد ھوتے ھیں تو منحرف ھوجاتے ھیں ، قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ھے:(وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الکِتَابِ اٴَنْ إذَا سَمِعْتُمْ آیَاتِ اللّٰہ یُکْفَرُبِھا وَیُسْتَھزَاٴُ بِھا فَلاَ تَقْعُدُوا مَعَھمْ حَتّٰی یَخُوضُوا فِی حَدِیْثٍ غَیْرِہ إِنَّکُمْ إِذاً مِثْلُھمْ…)(14)”(مسلمانو!) حالانکہ خدا تم پر اپنی کتاب قرآن میں حکم نازل کرچکاھے کہ جب تم سن لو کہ خدا کی آیتوں کا انکا رکیا جاتا ھے او راس سے مسخرا پن کیا جاتا ھے تو تم ان (کفار) کے ساتھ مت بیٹھو یھاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میںغور کرنے لگیںا ورتم بھی اس وقت ان کے برابر ھوجاؤ گے”انسان کو چاھیئے کہ پھلے اپنے علم او رعقلی وفکری بنیادوں میں اضافہ کرے اوراعتراضوں کے جوابات او ران کا تجزیہ وتحقیق کرنے کی صلاحیت اپنے اندرپیدا کرے، اس کے بعد کسی کے اعتراضات وشبھات پر کان دھرے، او ردوسرے کے اعتراض کو سن کر خود کو انحرافات کے خطرے میں نہ ڈالے، اسلام یہ نھیں کھتا کہ کسی سے کشتی نہ لڑو، بلکہ اسلام کی نظر تو یہ ھے کہ پھلے کشتی کے فن سے واقف ھوجاؤ بعد میں کشتی لڑو، اور اگر چاھو کہ کسی بھاری پھلوان سے کشتی لڑو تو پھلے اپنے وزن اور پرکٹس میں اضافہ کرو اسی طرح اسلام یہ نھیں کھتا کہ دوسروں کے اعتراضات کو نہ سنو بلکہ اسلام کا کھنا یہ ھے کہ جس قدر اشکالات واعتراضات کی تجزیہ وتحقیق او رتشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتے ھو، وھاں تک اشکالات کو سنو، یعنی پھلے معارف الھٰی حاصل کرو پھر شبھات کے جوابات دینے کا طریقہ سیکھو اس کے بعددوسروں سے بحث ومناظرہ کرو تاکہ دشمن تم کو شکست نہ دے سکے او راپنے عقائد کو تم پر تحمیل نہ کرسکے۔

5۔مذکورہ بحث کا خلاصہھماری بحث وگفتگو کا خلاصہ یہ ھوا کہ اسلام، تمام سیاسی پھلوٴوںپر شامل ھوتا ھے لھٰذا ھماری تمام زندگی دین کے مطابق ھونا چاھئے، زندگی کاکوئی بھی گوشہ دین سے خارج نہ ھو؛ چاھے وہ انفرادی زندگی ھو یا اجتماعی زندگی، خاندانی زندگی ھو یا ازدواجی مشترکہ زندگی، ماں باپ سے اولاد کے روابط ھوں یا امت او رامام کا رابطہ، یھاں تک کہ دوسرے مذاھب سے رابطہ کیسا ھونا چاھئے کن افراد سے رابطہ رکھنا صحیح ھے او رکن لوگوں سے رابطہ رکھنا صحیح نھیں ھے، او راگر ھم قرآنِ مجید کی آیات پر ایک نظر ڈالیں (درحالیکہ روایات کی طرف رجوع بھی نہ کریں)توجو شخص تھوڑا بھی انصاف رکھتا ھو اس کے لئے واضح وروشن ھوجائے گا کہ سیاست اسلام کا متن (اصلی رکن) ھے او رھم بغیر سیاست کے اسلام نھیں رکھتے ، اور کچھ لوگ اسلام کو سیاست سے جدا تصور کریں تو گویا ان کا دین دوسرا ھے اور اس کو اسلام کا نام دے دیا ھے وہ اسلام کہ جس کی اصل قرآن وسنت ھے اس کا سیاست سے جدا ھونا ممکن نھیں ھے۔
حوالے:(1) سورہ احزاب آیت 36(2) سورہ احزاب آیت 36(3) سورہ احزاب آیت 6(4)نساء آیت 65(5) وسائل الشیعہ ج27ص232(6) سورہ نور آیت 2(7) سورہ مائدہ آیت 38(8) سورہ توبہ آیت 36(9) سورہ بقرہ آیت 189(10 (سورہ روم آیت 30(11)سورہ الذاریات آیت 56(12) سورہ محمد آیت 17(13) سورہ انفال آیت 2(14)سورہ نساء آیت 140

 

http://shiastudies.com/ur/2878/%d8%af%db%8c%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%b3%db%8c%d8%a7%d8%b3%d8%aa-%da%a9%db%8c-%d8%a7%da%be%d9%85%db%8c%d8%aa/

تبصرے
Loading...