آزادی کے حدود

آزادی کے حدود

 
1-اسلام کا سیاسی نظریہ اور آزادی کو محدود کرنے کا شبہچونکہ ھمارا اسلامی سماج،اسلامی قوانین اور ان متغیر قوانین پر کہ جو اسلامی دائرے میں وضع کئے جاتے ھیں، ادارہ ھوتا ھے لھٰذا ھماری حکومت بھی اسلامی قوانین پر ھونی چاھیے اور قانون کو جاری کرنے والے حضرات اسلامی دائرے سے خارج نھیں ھونے چاھیے اور ھم لوگوں کی بھی ذمہ داری ھے کہ اسلامی قوانین پر عمل کریں-اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا یہ نظریہ انسان کی آزادی سے ھم آھنگ بھی ھے یا نھیں؟ انسان اپنی زندگی کے قوانین اور ان کی کیفیت کوطے کرنے میں آزاد ھے، اگر اس سے کھا جائے کہ تمھیں اس دائرے میں چلناھے اور ان قوانین کی رعایت کرنی چاھے توکیا یہ انسان کی اصل آزادی جوانسان کی مسلمہ حقوق میں سے ھے،اس سے منافات تو نھیں رکھتا؟ھم مندرجہ بالا سوال کو بیان کرنے سے پھلے مقدمہ کے طور پر اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ھیں، اور اس نکتہ سے ھم کو بعد کی گفتگو میں اس سے استفادہ کرنا ھے، اور یہ نکتہ غور طلب ھے: جس وقت عینی اور انضمامی چیزوں سے ھمارا واسطہ ھوتا ھے،تو ان کو سمجھنا کوئی مشکل نھیں ھوتا مثال کے طور پر جب ھم طبیعی علوم میں عینی چیز یں جیسے پانی، بجلی، اٹھنا، بیٹھنا، اسی طرح ڈاکٹری امور میں آنکھ، کان، ھاتھ، پیر، معدھ،دل، جگر کا مشاھدہ کرتے ھیں، تو ان چیزوں کو سمجھنا آسان ھے کیونکہ ھم تمام لوگ سمجھتے ھیں کہ ان الفاظ کے کیا معنی ھیں؟ ھاں بھت کم ایسے مسائل مبھم ھوتے ھیں جن کا سمجھنا مشکل ھوتا ھے جیسے اگر پانی میں مٹی ملی ھو تو کیا پھر بھی پانی ھے یا نھیں؟لیکن عینی او رانضمامی چیزوں کو سمجھنے میں غالباً کوئی خاص مشکل نھیں ھوتی، لیکن اگر ھمارے سامنے انتزاعی اور کسبی چیزیں ھوں(مثلاً فلسفی مفاھیم یا انسانی علوم مثلاً علم نفسیات،جامعہ شناسی، حقوق اور علوم سیاسی وغیرہ جیسی چیزیں) تو ان کا سمجھنا مشکل ھوتا ھے،اور کبھی کبھی کسی لفظ کے مختلف معنی ھوتے ھیں اور ایک لفظ کے متعدد معنی ھونے کی وجہ سے ان کو سمجھنے میں مشکل ھوتی ھے غالباً ایسے الفاظ کے بارے بحث کے بعد بھی انسان کسی یقینی نتیجہ پر نھیں پھونچتا-مثال کے طورپر ھم سبھی لفظ، فرھنگ(کلچر) سے آشنا ھیں اور یہ لفظ مدارس کی مختلف کلاسوں میں استعمال ھوتا ھے، اسی طرح اشعار، ادبیات اور روز مرہ کی گفتگو میں استعمال ھوتاھے، اس کے بعد بھی اگر کسی سے سوال کیا جائے کہ فرھنگ کے کیا معنی ھیں؟ تو شاید ھزاروں میںایک بھی ایسا شخص بھی نہ ملے جو فرھنگ کے معنی کرتے وقت کھے کہ اس لفظ کے 5۰ سے 5۰۰ تک معنی ھیں! اور یہ مسلم ھے کہ جب اس مشھور اصطلاح میں اتنا ابھام پایا جاتا ھے تو ظاھر ھے کہ اس ابھام کی وجہ سے بھت سے اجتماعی مسائل بھی تحت تاثیر قرار پائیں گے، اور جب توسعھٴ فرھنگی (کلچر کی وسعت) کی بات کی جائے گی تو سوال کیا جائے گا توسعہ فرھنگی یعنی چیست؟ اور اس کے مصادیق کیا ھیں؟ اور کس صورت میں اور کس طرح فرھنگ میں توسعہ ھوتا ھے اور اگر پارلیمنٹ میں توسعہ فرھنگی کیلئے بجٹ پاس کیا جاتا ھے اور اس کو خرچ کرنے کیلئے جگھیں معین کی جاتی ھےں، ھروز اتخا نہ میںاس لفظ کے معنی بیان کئے جاتے ھیں اور اس کے خاص موارد مشخص کئے جاتے ھین اور بعض لوگوں کو اس سے غلط فائدہ اٹھانے کا موقعہ مل جاتا ھے-
2-آزادی کے بارے میں مختلف نظریاتھم نے جو کچھ انتزاعی اور کسبی الفاظ کے بارے میں عرض کیا کہ جن کے خاص مصادیق بھی نھیں ھیں اور ان کی تعریف و حدو حدود بھی مشکل ھے اس کی وجہ یہ ھے کہ آزادی ایک انتزاعی مفھوم ھے جس کے بارے میں ھمیں بحث کرنا ھے، مثلاً اگر کوئی کھے “آزادی” تو سننے والے کو اچھا لگتا ھے، اور آزادی کیلئے تمام ھی مذاھب ، ملت خاص احترام کے قائل ھیں، کیونکہ انسان فطری طور پر آزادی چاھتا ھے، اور بعینہ آزادی کی تلاش میں رھتا ھے-اگر کسی انسان سے سوال کیا جائے کہ آپ آذاد رھنا پسند کرتے ھیں یا غلام؟ لا محالہ سبھی حضرات جواب دیں گے: آزاد رھنا، اور کوئی بھی شخص یہ نھیں چاھے گا کہ کسی کا غلام بن کر رھنا پسند نھیں کرےگا، لیکن چونکہ آزادی کے کوئی واضح معنی بیان نھیں ھوتے ھیں، جس کی بنا پر آزادی کا نعرہ لگانے والے افراد جو دینی اختلافات کا شکار ھوجاتے ھیں کوئی کچھ معنی کرتا ھے تو دوسرا کچھ معنی مراد لیتا ھے، ایک شخص جب آزادی کا مطلب بیان کرتا ھے تو دوسرا کھتا ھے ھماری نظر میں آزادی کا مطلب یہ نھیں ھے جو آپ نے بیان کیا بلکہ اس کے معنی یہ ھیں جو ھم کرتے ھیں، اسی طرح دوسرا شخص بھی یھی کھتا ھوا نظر آتا ھے کہ اس بارے میں جو کچھ اب ھماری طرف نسبت دیتے ھیں، وہ ھماری مراد نھیں ھے-بلکہ ھماری مراد اس کے علاوہ ھے اگر ھم آزادی کے بارے لکھی ھونی کتابوں، مضامین اور رسالوںکا مطالعہ کریں خصوصاًوہ کتابیں جو آخری سالوں میں لکھی گئی ھیں تو ھمیں اندازہ ھو جائے گا کہ مولفین اور صاحب نظر حضرات کے دھیان آزادی کا کوئی مشخص و معین معنی نھیں ھے، ایک شخص آزادی کا کچھ معنی کرتا ھے اور اسی کا دفاع بھی کرتا ھے، تو دوسرا شخص اس نظریہ کی تنقید کرتا ھوا ایک دوسرا معنی کرتا ھے، اور ظاھر میں بات ھے کہ اس قدر اختلاف کے باوجود آپس میں کوئی سمجھوتا نھیں ھوسکتا-لھٰذا تفاھم اور سمجھوتے کیلئے آزادی کی ایک مشترک تعریف کی جانا ضروری ھے، تاکہ بحث کسی نتیجہ پر پھونچ سکے، اگر ھم سے کوئی سوال کرے کہ آزادی اور اسلام میں سازگاری ھے یا نھیں تو ھم اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ پھلے ھمیں آزادی کو سمجھنا پڑے گا، کہ آزادی کے معنی کیا ھیں، (اور جیسا کہ مغربی مولفین نے آزادی کے بارے میں حدوداً 2۰۰ تعریف بیان کی ھیں اگرچہ ان میں سے بھت سی تعریفیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ھیں،صرف ایک یا دو الفاظ کی وجہ سے اختلاف پایا جاتا ھے، لیکن ان مقامات پر یہ تعریفیں ایک دوسرے کے منافی(اپوزٹ) ھیںتو اس طرح کے اختلافی موارد میں کس طرح یہ فیصلہ کیا جا سکتا ھے کہ آزادی اسلام سے سازگار ھے یا نھیں؟آزادی کی طرح “ڈیمو کراسی” (جمھوریت) بھی ھے یہ ایک مغربی اصطلاح ھے جس کے معنی مردم سالاری، حکومت یا لوگوں کی حکومت کئے جاتے ھیں، لیکن پھر بھی اس کے کوئی خاص اور معین معنی موجود نھیں ھیں، اس میں یہ معین نھیں ھے کہ ڈیمو کراسی ایک حکومت ھے یا اجتماعی زندگی کا ایک طریقہ ھے؟ کیا اس کا تعلق حکومتی اور سیاسی مسائل سے ھے ؟ معاشرہ شناسی یا مدیریت سے اس کا ربط ھے؟ یہ جامعہ شناسی سے مربوط ھے یا اس کا ربط مدیریت سے ھے، اس سلسلے میں بھی بھت بحثیں ھوچکی ھیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کردیا جائے کہ ایسے الفاظ کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا بھی مشکل میں اضافہ کرتا ھے-اس طرح لفظ “لیبرالیسم” بھی ھے کہ جس کا ترجمہ پھلے “آزادی خواھی” ھوتاتھا اور آزادی خواھی لفظ آزادی کی وجہ سے بھت جذّاب اور خاص اھمیت کا حامل تھا اور اس بنیاد پر آخری دھائیوں میں شاہ کی پھلوی حکومت “آزادی خواہ پارٹی” کا نام اپنائے ھوئے تھی-لھٰذاچونکہ اس طرح کے انتزاعی مفاھیم اچھی طرح واضح نھیں ھوتے ان سے بحث کرنا مشکل ھوتا ھے، کیونکہ واضح نہ ھونے کی بنا پر مطلب مشکل ھوجاتا ھے،اور قطعی طور پر ان کے معنی کی حد بیان کرنا مشکل ھوتا ھے اس طرح کے الفاظ کی کوئی خاص حد نھیں ھوتی، کبھی ان الفاظ کی حد کم ھوجاتی ھے اور کبھی بڑہ جاتی ھے اور ظاھر سی بات ھے کہ ان مشکلات کی وجہ سے بحث بھی پیچیدہ ھوجاتی ھے-لفظِ آزادی کے بارے میں ان مشکلات، ابھامات اور مختلف نظریات (جیسا کہ 2۰۰ سے زائد تعریفیں بیان کی گئی ھیں) کے پیش ِ نظر اگر ھم اسلامی لحاظ سے آزادی کو سمجھیں اور الگ الگ تعریفوں کو اسلام کے ساتھ مقایسہ کریں تو واقعاً یہ ایک مشکل و پیچیدہ کام ھے، عمومی اور مختلف لوگوں کیلئے اس بحث کو بیان کرنا تو دور کی بات ھے، لھٰذا ضروری ھے کہ بحث کو تطبیقی لحاظ سے آگے بڑھایا جائے اور دیکھیں کہ آزادی کے طرفدار حضرات آزادی سے کون سے معنی مراد لیتے ھیں؟ اور آزادی سے کیا چاھتے ھیں،اس وقت دیکھا جائے گا کہ جو وہ لوگ چاھتے ھیں وہ اسلامی نقطھٴ نظر سے ٹھیک ھے یا نھیں؟ وہ لوگ جو آزادی چاھتے ھیں اور آزادی کی طرفداری بھی کرتے ھیںاور یہ دعویٰ کرتے ھیں کہ اس ملک میں آزادی نھیں ھے ،آزادی کا کیا مطلب مراد لیتے ھیں؟ کیا میڈیا آزاد نھیں ھے؟ کیا لوگ انفرادی آزادی نھیں رکھتے؟ یا سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی آزادی نھیں رکھتے؟ آزادی کا نعرہ لگانے والے لوگوں کو کس صورت میں آزاد سمجھتے ھیں؟اگر مصادیق کے بارے میں تھوڑی بحث کی جائے تو ایک واضح نتیجہ پر پھونچنا ممکن ھے ، کیونکہ ھم جانتے ھیں کہ ھمارا مد مقابل کیا کھتا ھے اور کیا چاھتا ھے، اس صورت میں گفتگو کی روش مبھم نہ رھے اور دوسرے افراد بھی اس سے غلط استفادہ نہ کرسکیں گے-
3- آزادی، مطلق نھیں ھے،اور آزادی کے دین پر مقدم ھونے کا جوابمعمولاً خود عرض اور دھوکہ باز افراد آزادی جیسی انتزاعی اور مشکل چیزوں سے اپنے اھداف و مقاصد تک پھونچنے کیلئے آزادی جیسے الفاظ سے سوء استفادہ کرتے ھیں، اور اس طرح بیان کرتے ھیں کہ سننے والے کچھ سمجھتے ھیں جبکہ حقیقت میں ان کے کھنے کا مقصد فی کچھ اور ھی ھوتا ھے، مغالطہ آمیزاور دھوکہ دینے والے الفاظ کے ذریعہ لوگوں کو فریب دیتے ھیں، مثال کے طور پر تقریروں، مقالوں اور اخباروں میںیہ سوال بیان کیا جاتا ھے کہ دین آزادی پر مقدم ھے یا آزادی دین پر مقدم ھے؟ کیا اصل، آزادی ھے اور دین آزادی کے تابع ھے یا اصل دین ھے اور آزادی اس کے تابع ھے؟معلوم ھوتا ھے کہ حقیقت میں یہ سوال ایک علمی اور دقیق سوال ھے اور یہ سمجھنا واقعاً جذّاب ھے کہ آ زادی اصل ھے یا دین اصل ھے؟ اس کا درک کرنا بڑی اھمیت کا حامل ھے، لیکن جب ھم بحث کرتے ھیں اور کھتے ھیں کہ دین اصل ھے تو جواب دیتے ھیں کہ اگر کوئی آزاد نہ ھو تو کوئی پھر کس طرح دین کا انتخاب کر سکتا ھے؟ لھٰذا انسان کو دین قبول کرنے میں آزاد ھونا چاھئے،، پس نتیجہ یہ ھوا کہ آزادی دین پر مقدم ھے اور جب یہ طے ھوجائے کہ آزادی دین پر مقدم ھے تو پھر یہ نتیجہ بھی آسانی سے نکل آئے گا کہ دین آزادی کو محدود نھیں کر سکتا، کیونکہ آزادی دین سے بالاتر ھے اوردین پر مقدم ھونے کا حق رکھتی ھے-قارئین کرام جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ یہ مغالطہ آمیز استدلال ظاھراًتو ٹھیک دکھائی دیتا ھے، کیونکہ اگر کوئی انسان آزاد نہ ھوتو کس طرح دین کو انتخاب کر سکتا ھے، اس لئے انسان کو آزاد ھونا چاھیے، تاکہ اسلام کو دل سے قبول کرسکے، لھٰذا معلوم ھوتا ھے کہ آزادی دین پر مقدم ھے، اور یھی اصل ھے یھی دین کو معتبر بناتی ھے، اور بنیادی طور پر دین کی علت وجودی ھے لھٰذا اپنی پیدا کی ھوئی چیز کے ذریعہ خود ختم یا محدود نھیں ھو سکتی،آخر میں ھم یہ نتیجہ اخذ کرتے ھیں کہ ھر انسان کا دینی ماحول بالکل آزادی کے ساتھ ھو گا-بعض دوسرے افراد یہ استدلال کرتے ھیں کہ جب انسان پیدا ھوتا ھے تو کسی کا غلام نھیںھوتا بلکہ آزادھوتاھے، لھٰذا زندگی اس کو میں آزاد ھونا چاھئے-اس طرح یہ بھی استدلال کرتے ھیں کہ اختیار اور آزاد ارادہ رکھنا ایک بھت اھم چیز ھے، اس بنیاد پر اگر انسان اس دنیا میں آئے اور اس کے ھاتہ پیر مفلوج ھوجائیں اور زبان سے گونگا ھوجائے تو اس کی کیا قیمت ھے؟ انسان کی قدرو قیمت اس وقت ھے جب وہ آزاد ھو جھاں چاھے جائے جو کرنا چاھے اس کو انجام دے سکے، جو چاھے اپنی زبان سے کھے اور چونکہ انسان تکوینی طورپر آزاد خلق ھوا ھے تو پھر قانونی طور پربھی انسان کو آزاد ھونا چاھئیے!یہ وھی طبیعت گرانہ مغالطہ ھے کہ جس میں “است” (ھے) سے “باید”(ھونا چاھئیے) کا غلط نتیجہ نکالا گیا ھے، اگر ھم چاھیں کہ ان تمام مسائل کو دقیق اور جدی طریقہ سے بحث کریں توھم کو فلسفی اور دقیق بحث کرنے کی ضرورت پیش آئے گی، اور بھت جلدی کسی نتیجہ پر نھیں پھونچ سکتے-جیسا کہ ھم بیان کرچکے ھیں کہ اگر ھم آزادی کے بارے میں بحث کریں تو پھر دسیوں تعریفوں سے تحقیق و بررسی کرنی ھوگی، اس وجہ سے مصادیق کے سلسلے میں ھی بحث کرنا مناسب ھے، اورآزادی کا نعرہ لگانے والے افراد سے کھیں کھ: اگر کوئی شخص تمھارے منہ پر ایک زور دار تھپڑ لگا کر کھے میں آزاد ھوں؟! تو کیایہ صحیح ھے؟ ظاھر سی بات ھے کہ جواب منفی ھوگا اور اس کو کوئی قبول نھیں کرے گا، اور جواب یہ ملے گا کہ آزادی سے ھمارا مقصد یہ نھیں ھے، کیونکہ یہ تو دوسروں پر ظلم ھے لھٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی اس وقت تک مناسب ھے کہ جب تک دوسرے پر ظلم وزیادتی نہ ھو، یعنی آزادی مطلق نھیں ھے-اور اگر اس سے یہ کھا جائے کہ کوئی شخص تمھارے خاندان اور عورتوں کے بارے میں جو کچھ چاھے کھے ، وہ تم کو مار تو نھیں رھا ھے بلکہ آپ کی بے حرمتی کررھا ھے اور تمھارے یا تمھارے اھل خانہ کے بارے میں نازیبا الفاظ کھہ رھا ھے، تو کیا یہ صحیح ھے؟ ظاھر ھے کہ کوئی بھی اس بات کی اجازت نھیں دےگا،کیونکہ یہ بھی دوسروں کے حقوق کی پائمالی ھے، اور ناموس کی عزت بھی معاشرے میں محترم ھے، پس معلوم ھوا کہ عزت وناموس پر تجاوز وزیادتی ظاھری چیزوں پر منحصر نھیں ھے-اور اگر کوئی شخص کسی اخبار میں اس کے خلاف کچھ لکھے اور مقالہ کے ذریعہ اس کی شخصیت اور آبرو کو داغدار کرے، تو اس صورت میں کیا یہ فیزیکی اور ظاھری طور پر اس کی بے حرمتی نھیں ھوئی ھے، یعنی زبان کے ذریعہ اس کی بے عزتی نھیں ھوئی ھے،کیا کوئی اس چیز کی اجازت دے سکتا ھے؟ ھرگز کوئی شخص اس بات کو قبول نھیں کر سکتا، اور اس کام کو بھی دوسروں کے حقوق کی پائمالی اور اپنے لئے بے عزتی جانتا ھے، اور اجازت نھیں دیتا کہ کوئی شخص اس کی آبرو ریزی کرے، اور اس کے حقوق کو پائمال کرے، نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کیلئے اب تک تین قیود و شرط موجود ھیں اور اگر ان شرطوں کی رعایت نہ کی جائے تو دوسروں کے حقوق کی پامالی ھے-
4- ھر معاشرے کی مقدسات کی رعایت ضروری ھے-ایک دوسرا نکتہ کہ جس کے بارے میں بحث کرنا ضروری ھے وہ یہ ھے کہ ھر معاشرہ کی مقدسات (قابل احترام چیزیں) الگ الگ ھیں، اور نسبی ھوتی ھیں مثال کے طور پر بعض معاشروں میں کسی کی بھن یا بیٹی سے آزادانہ رابطہ کرنا معیوب نھیں ھوتا، جیسا کہ یورپی اور امریکائی ممالک ھیں کہ کوئی بھی شخص کسی بھی لڑکی یاعورت سے دوستی کرنا چاھے، تو چاھے اس دوستی کے نتائج کچھ بھی نکلیںکوئی مشکل نھیں ھے-کیونکہ دونوں کی مرضی سے یہ کام ھو رھا ھے لیکن اگر کوئی شکایت کرے اور کورٹ میں جا کر اس کے خلاف مقدمہ دائر کرے کہ طاقت کے بل بوتے پر مجہ پر ظلم ھوا ھے اور میں راضی نھیں ھوں، تو عدالت اس کی اس شکایت کو سنتی ھے لیکن صرف مرد وعورت کی دوستی کیونکہ اپنی مرضی سے ھوتی ھے ،لھٰذاکوئی عیب نھیں ھے! لھٰذا اگر کوئی شخص کسی سے کھے میری اور تمھاری بھن کی دوستی ھے اور کل رات فلاں جگہ تھے یورپی فرھنگ و کلچر میں برا نھیں سمجھا جاتا، اور کوئی اس بات پر خوش بھی ھو سکتا ھے لیکن ھمارے معاشرے میں یھی بات بری سمجھی جاتی ھے اور اس کو برا سمجھا جاتا ھے کسی کو ایسی باتیں کھنے کا کوئی حق نھیں ھوتا،ان باتوں سے ایک دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ھے کہ ھر معاشرے میں کچھ خاص چیزیں ھوتی ھیں کہ جن کو وہ محترم اور مقدس سمجھتا ھے، درحالیکہ یھی چیزیں دوسرے معاشرے میں نھیں پائی جاتیں، اب یہ دیکھنا ھے کہ ان مقدسات کا معیار کیا ھے؟ اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ ھر معاشرے کی مقدسات اس کی ثقافتی اور اجتماعی زندگی کی وجہ سے ھوتی ھیں، اور ظاھر سی بات ھے کہ یہ مقدسات معاشرے کی بنیاد، اس ماحول اور ملک کے ثقافتی معیار کی وجہ سے ھوتی ھیں لھٰذا اگر کسی معاشرے میں وھاں کی ثقافت کے وجہ سے کچھ چیزیں مقدس اور قابل احترام ھوں، تو ان سے تجاوز نھیں کرنا چاھیے اور ان کی بے احترامی نھیں ھونا چاھیے، اور کسی بھی معاشرے میں کسی کو یہ حق نھیں ھے کہ جو چاھے کھے،جبکہ اس کو اس طرح کی باتیں کرنا چاھیے جن سے ان مقدسات کی بے احترامی نہ ھوتی ھو-نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کیلئے بھت سی قید و شرط ھیں کہ جن کی ھر معاشرہ کے لحاظ سے رعایت کرنا چاھیے اور آزادی کا مطلب یہ نھیں ھے کہ انسان جو چاھے کھے، اور جس طرح چاھے کرے، ھاں اگر جس ماحول میں وہ زبان کھول رھا ھے ا سمیں اگر اس کو بے احترامی نھیں سمجھا جاتا تو اس کا کھنا صحیح ھے لیکن جس معاشرے میں وہ کھہ رھا ھے اگر وھاں اس کا یہ کھنا اس معاشرے اور مذھب کے مقدسات کی توھین ھے تو پھر کسی کو یہ حق نھیں ھے وہ مقدسات کے ھدف کچھ کئے، اور جو چاھے انجام دے اور کوئی بھی اس بات کی اجازت نھیں دیتا، اگرچہ ھم نے جو کچھ بیان کیا،مغربی ممالک میں محترم اور با اھمیت نھیں سمجھا جاتا اور ھر انسان اپنی گفتار و کردار میں آزاد ھے،لیکن ھمارے معاشرے میں چونکہ اسلامی حکومت ھے مغربی ممالک سے فرق ھے اور اس طرح کی آزادی نھیں ھے کہ جو چاھے لوگوں کی طرف نسبت دے اس بات کی دلیل یہ ھے کہ ھمارے فرھنگ و ماحول میں یہ چیزیں با ارزش ھیں اور ھر قوم و ملت کے مقدسات کا احترام کرنا ضروری ھے اور آزادی کے بھانہ ان کی خلاف ورزی کرنا صحیح نھیں ھے-پس معلوم یہ ھوا کہ آزادی کا دائرہ اتنا وسیع نھیں ھے جیسا کہ بعض لوگ تصور کرتے ھیں اور اس قدر آزادی کو کوئی بھی عقلمند انسان قبول نھیں کر سکتا، لھٰذا آزادی کے اس طرح معنی بیان کرنے چاھئےے جس سے دوسروں کی توھین اور ان کے حقوق کی پائمالی نہ ھوتی ھو-لھٰذا جن باتوں سے لوگوں کے مقدسات کی توھین ھوتی ھو ان کا بیان کرنا ممنوع اور ناجائز ھے، اسلامی معاشرہ میں آزادی کا بھانہ بناکرخاص طور سے جان سے زیادہ عزیز اسلامی مقدسات کی توھین کرنے کا کسی کو حق نھیں ھے-ھماری قوم و ملت نے ثابت کر دیا ھے کہ اپنے عزیزوں کی لاکھوں جانیں قربان ھوجائیں، لیکن اسلام باقی رھے، اب اگر مغربی کلچر میں کسی بھی طریقہ سے کسی کی توھین ھو (مثلاً یہ کھا جائے کہ آپ کی ناک بھت لمبی ھے، آپ کا قیافہ برا ھے) اس کو عدالت میں جانے اور مقدمہ دائر کرنے کا حق ھے، اسی طرح اگرھمارے معاشرے میں کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں توھین کرے، وہ بھی اس بارے میں کہ جو ماں، باپ، بیوی اور اولاد حتی خود اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ھو، ظاھر ھے کہ لوگوں کو یہ اعتراض کرنے کا حق ھے کہ آزادی کا بھانہ بنا کر ھمارے مقدسات کی توھین کیوں کررھے ھو-
5-آزادی کے نعرہ میں ناجائز غرضجو لوگ آزادی کا دم بھرتے ھیں اور آزادی نہ ھونے کا غم مناتے ھیں اور ایران میں آزادی نہ ھونے کا مرثیہ پڑھتے ھیں! کیا کھنا چاھتے ھیں؟ ان میں سے بعض لوگوں نے مغربی ممالک کا سفر کیا ھے یا ان کے بارے میں سنا ھے یا وھاں کی فلموں کو دیکھا ھے،جو لوگ اس طرح کی زندگی چاھتے ھیں،لیکن ایران میں ان کو اس طرح کی زندگی بسر کرنے کی اجازت نھیں ھے ،اسلامی حکومت کھاںسے قوانین بناتی ھے؟ کیا اسلامی حکومت کے قوانین خدا،رسول اور آئمہ کی مرضی کے مطابق قوانین نھیںھوتے ھیں؟ وہ لوگ الٰھی احکام کو قبول نھیں کرتے، ولی فقیہ پر اعتراضوں کی بوچھار کرتے ھیں اور ولی فقیہ کے متعلق کینہ رکھتے ھیں جبکہ ولی فقیہ اپنی طرف سے کچھ بھی نھیں کھتا:(فَإِنَّھُمْ لاٰ یُکَذِّبُونَکَ وَلٰکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بِاٰیَاتِ اللّٰہ یَجْحَدُوْنَ)-( 1)”یہ لوگ تم کو نھیں جھٹلاتے بلکہ (یھ) ظالم (حقیقتاً) خدا کی آیتوں سے انکار کرتے ھیں “کیا مرجع تقلید اور فقیہ اپنی طرف سے کچھ کھتا ھے؟ وہ جو کچھ بھی کھتا ھے قرآن ، احادیث سے اخذ کرتا ھے لیکن دشمن اس چیز کو قبول نھیں کرتا، امریکہ کی معتبر یونیورسٹیوں کی کھلی فضا میں بھت سے ایسے واقعات ھوتے رھتے ھیں کہ لڑکے، لڑکیاں ایک دوسرے کے سامنے ایسے ایسے کام کرتے ھیں کہ جن کے بیان کرنے سے شرم آتی ھے،وھاں کے عیاش خانوں میں کیا کیا ھوتاھے؟ تصور کریں اگر وھاں کے عیاش خانوں کی ویڈیو بنائی جائے اور اس کو اس ملت کے جوانوں کو دکھائی جائے تو اس کا کیا اثر ھوگا؟ اور ظاھر ھے کہ اگر کوئی جوان ایسی فلمیں دیکھئے گا،اور جب صبح اٹھ کر یونیورسٹی جائے گا تو پھر سکون سے نھیں رہ سکے گا، کیونکہ رات میں سویاھی نھیں ھے، اور دوسری طرف اس کی شھوت تحریک ھو جاتی ھے، اور اس کا چین و سکون غائب ھو جاتا ھے، اب اگر ایسا جوان نعرہ لگائے کہ یھاں آزادی نھیں ھے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ جو میں کرنا چاھتا ھوں،اس کو کرنے نھیں دیا جاتا اسلام کے مقابلہ میں اسی طرح کی آزادی کو لایا جاتاھے-اور کھا جاتا ھے کہ آزادی مقدم ھے یا اسلام؟ اس آزادی کا مطلب ھی جنسی شھوات کو پورا کرنا ھے، لھٰذا شروع ھی سے یہ کھا جائے کہ آزادی سے ھم یہ چاھتے ھیں، ھر وہ چیز جو کچھ کفر و الحاد کے ماحول میں ھوتی ھے وھی معاشرے میں بھی جائز ھو جائے تو وہ مطمئن رھیں کہ ایسا ھرگز نھیں ھوسکتا، کیونکہ لوگوں نے اپنے عزیزوں کی جانیں قربان کی ھیں تاکہ اسلام کارواج ھو، نہ کہ مغربی فساد اور بے ھودگی رائج ھو-ممکن ھے کہ کوئی یہ کھے کہ ھم واقعاً مسلمان ھیں اور اس حکومت کو ووٹ دیا ھے اور ولایت فقیہ کے معتقد ھیں اور جیسی آزادی مغربی ممالک میں رائج ھے ایسی آزادی نھیں چاھتے، بلکہ ھم یہ چاھتے ھیں کہ جو کچھ ھم لکھنا چاھیں اس کو بغیر کسی روک ٹوک کے بے جھجک لکہ سکیں ھم تو آزادی بیان و قلم اور عملی آزادی کے خواھاں ھیں ،ھم کو اپنی بات کھنے کی آزادی ملنا چاھیئے-یہ بات ظاھراً ٹھیک ھے کیونکہ حقوق بشر کے نشریات میں سے ایک حق جو تمام لوگوں کو ھے یھی آزادی بیان اور میڈیا کی آزادی ھے اور اسی طرح کی آزادی کو ڈیمو کراسی کی ایک اصل مانا گیاھے، لیکن ھم ان سے یہ کھیں گے کہ آپ اپنی رائے کا اظھار کریں کہ ھمارے ملک کے حکمران کیسے ھیں لیکن کیا واقعاً آپ کھنا چاھتے ھیں کہ فلاں شھر کا فلاں قاضی صحیح کام کرتا ھے یا نھیں یا فلاں شھر کاڈی ایم( D-M)ٹھیک کام کرتا ھے یا نھیںیا فلاں ملازم کا کردار صحیح ھے یا نھیں؟ یا درحقیقت آپ اصل اسلام اور اسلامی مقدسات کے بارے میں کچھ لکھنا چاھتے ھیں اور ان تمام چیزوں کی نفی کرنا چاھتے ھیں؟ یا اسلامی مقدسات کی توھین کرنا چاھتے ھیں؟
6- آزاد گفتگو کی حد وحدوداگر آزادی سے آپ کی مراد یہ ھے کہ جس کام کا ھوناجائز نھیں ھے اس کے بارے میں لکھنا اور کھنا جائز ھونا چاھئیے، جیسا کہ ھم نے مثال میں عرض کیا تو جب کسی شخص کو آپ کے سلسلے میں کوئی توھین آمیز کلمات کھنے کا کوئی حق نھیں ھے،یعنی وہ اتنی آزادی نھیں رکھتا لیکن جب اسلامی مقدسات کی بات آتی ھے تو آپ فرماتے ھیں کہ آزادی بیان کا تقاضا یہ ھے کہ ھم جو چاھیں لکھیں ھم جو چاھیں کھیں!یہ کیسے ھو سکتا ھے کہ اگر کوئی آپ کے بارے میں توھین آمیز کلمات زبان پر جاری کرے، اور اگر کوئی ایسا کرے تو آپ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ھیں اور مقدمہ دائر کرنے کیلئے تیار ھوجاتے ھیں،آپ اجازت نھیں دیتے کہ آپ کے ذاتی مسائل کو اخبار میں دیا جائے تو پھر آپ کو اس ملت کے راز فاش کرنے کا حق کھاں سے حاصل ھوگیا؟ کس طرح آپ کی نظر میں کسی ایک شخص کے راز کو فاش کرنا جائز نھیں ھے، لیکن ایک ملت کے راز کو فاش کرنا جائز ھوگیا! یعنی آپ کی نظر میں جب ایک شخص لاکھوں میں تبدیل ھو جاتا ھے ،توکیا اس کے راز کو فاش کرنا جائز ھے؟! کیا ایک معاشرے کی نسبت اپنے مقالوں میں حدود کی رعایت کرنا ضروری نھیں ھے؟ کیا کچھ بھی لکھا اور کیا جا سکتا ھے، معاشرے کے بھی کچھ حقوق ھیں،اس کے مقدسات ھیں اور ان کا احترام باقی رھنا چاھیے اور مقدسات کو مجروح نھیں کیا جا سکتا-جس طرح آپ اپنی توھین کر برداشت کرنے کیلئے تیار نھیں ھیں،اسی طرح آپ اپنی ناموس یا آپ کے گھریلو اسرار کے بارے میں تجاوز کرنے کی اجازت نھیں دیتے، تو پھر آپ کس طرح اجازت دیتے ھیں کہ اس عظیم معاشرے جس نے ھزاروں عزیزوں کو ان مقدسات کی حفاظت کیلئے قربان کردیا ھے اس کی توھین کی اجازت دیتے ھیں ؟!کیا آپ کی نظر میں کوئی رکاوٹ نھیں ھونی چاھیے، ؟اور آزادی کا بھانہ بنا کر قانون کی طرف سے کوئی حد و حدود نھیں ھونا چاھیے؟ کیا آزادی مطلق ھے؟ اور اگر آزادی مطلق ھو توکسی کے بارے میں کچھ بھی کھنے کا حق حاصل ھونا چاھئےے اور اگر اس 6 /کروڑ والی ملت کی مقدسات مجروح ھوں اور کوئی تم پر اعتراض کرے تو آپ جواب میں کھیں: اظھار نظر کرنا آزاد ھے! اس سے بڑا مغالطہ اور کیا ھو سکتا ھے کہ ایک شخص کے احترام کو مجروح کرنا جائز نھیں ھے لیکن 6 /کروڑ والی ملت کے مقدسات کو مجروح کرنا جائز ھے، لیکن ایک عرب مسلمانوں کے مقدسات کو مجروح کرنا جائز ھے! یہ کونسی منطق اور فلسفہ ھے؟ اور صرف اس وجہ سے کہ حقوق بشر کے نشریات میں موجود ھے کہ بیان آزاد ھے مقدسات کی توھین کرنا بھی آزاد ھوجائے گا؟! آزادی کا ایک مبھم کلمہ استعمال کرتے ھیں اور ھر شخص اپنے لحاظ سے اس کی تفسیر کر کے سوء استفادہ کرتا ھے-
7-الفاظ کے مفھوم اور مصادیق کو روشن کرنے کی ضرورتھم یھاں پر یہ مشورہ نھیںدیتے ھیں کہ مبھم اور غیر واضح الفاظ کو استعمال کرنے کے بجائے ان کے مصادیق پر تکیہ کریں اور کھیں کہ یہ کام جائز ھے یا نھیں؟ مثلاً یہ کھنے کے بجائے کہ اسلام ڈیموکراسی کے موافق ھے یا نھیں؟ کھیں کہ آپ کیا چاھتے ھیں اور کون سا عمل انجام دینا چاھتے ھیں؟ کیا آپ خدا اور اس کے احکام کو نادیدہ کرنا چاھتے ھیں اس کی اسلام اجازت نھیں دیتا، اگر ڈیموکراسی کے یہ معنی کیے جائیں کہ انسان جس طرح کے قوانین بنانا چاھے بنا سکتا ھے اگرچہ خدا کے قوانین کے مخالف ھی کیوں نہ ھوں، توچاھے پوری دنیا زور لگائے ھر گز ھم ایسی ڈیموکراسی کو قبول نھیں کر سکتے -لیکن اگر ڈیموکراسی کے یہ معنی کئے جائیں کہ لوگ اپنی سرنوشت اور زندگی میں موثر ھیں،کوئی شخص اپنے زور کے ذریعہ ان پر تحمیل نھیں کر سکتا، افراد بھی اسلامی قوانین اور بنیادوں کے دائرے میں چلیں، تو اس چیز پر تو شروع انقلاب سے عمل ھو رھا ھے، اور اگر ھم یہ دعویٰ کریں کہ ایران کے برابر کسی بھی ملک میں لوگوں کی کا احترام نھیں کیا جاتا،تو شاید دعویٰ بے جا نہ ھوگا، اور شاید کھنے کی وجہ بھی یہ ھے کہ ھمارے پاس اس حد تک ثبوت نھیں ھیں،لیکن پھر بھی ھمارا نظریہ یہ ھے کہ دنیا میں کھیں بھی اتنی آزادی نہ ھو، لھٰذا لفظ ڈیموکراسی پر بحث و مباحثہ کرناکہ اسلام ڈیموکراسی کا موافق ھے یا مخالف ھے ؟اس سے بھتر یہ ھے کہ پھلے اس کے مصادیق کو معین کر لیں، مثلاً کیا اسلام ھم جنس بازی کے آزاد ھونے کی اجازت دیتاھے ؟ چاھے تمام ھی لوگ ایسا نظریہ رکھتے ھوں، ظاھر ھے کہ اسلام اس چیز کی اجازت نھیں دیتااگر تمام ھی لوگ اس چیز کے موافق ھی کیوں نہ ھوں اور اس بارے میں ووٹ بھی دیں، لھٰذا اگر ڈیموکراسی اس حد تک بے لگام ھو تو پھر ھم اس کو نھیں مانتے، لیکن اگر ڈیموکراسی سے مراد یہ ھو کہ افراد انتخابی مھم میں آزاد ھیں پارلیمنٹ کے ممبران کو آزادانہ طور پر منتخب کریں، صدر کا انتخاب آزادانہ طریقہ پر ھو اور ان کو حق ھے کہ ممبران پارلیمنٹ یا دوسرے ذمہ دار افراد کی استیضاح(1)کرے تو ایسی آزادی ھونا چاھیے کہ الحمد للہ ھمارے یھاں یہ آزادی ھے، اور ھم بھی سو فیصد اس کی حمایت کرتے ھیں، لھٰذا اس کے لئے الفاظ کی بحث میں جانے سے بھتر یہ ھے کہ ان کے مصادیق کے بارے میں بحث کی جائے، کھلے عام کھیں کہ ھم کیا چاھتے ھیں تاکہ اس کا جواب بھی واضح طور پر دیا جا سکے-اور اگر الفاظ مبھم اور نا مشخص استعمال کئے جائیں گے تو ان کے جوابات بھی مبھم دئے جائےں گے، درج ذیل الفاظ جیسے آزادی، ڈیموکراسی، لیبرالیسم، جامعہ مدنی، تمدن اور فرھنگ و ثقافت مبھم ھیں کہ جن کی مختلف تفسیریں کی جا سکتی ھیں لھٰذا ان کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنا کبھی بھی عقلمندی نھیں ھے، صاف کھیں کیا چاھتے ھیں تاکہ ھم اس کا جواب دیں کہ آیا اسلام سے ھم آھنگ ھے یا نھیں؟(1) یعنی ممبر آف پارلیمنٹ کسی وزیر سے کسی سلسلہ میں توضیح مانگے اور نامطمئن جواب ملنے پر دوبارہ اس کے بارے ووٹنگ ھو اور اگر اس کے بارے میں اعتماد رائے باقی رھے تو ٹھیک ھے ورنہ اس کو ھٹا دیا جاتا ھے-
حوالہ.1سورہ انعام آیت 33
 

http://shiastudies.com/ur/2894/%d8%a7%d9%93%d8%b2%d8%a7%d8%af%db%8c-%da%a9%db%92-%d8%ad%d8%af%d9%88%d8%af/

تبصرے
Loading...