مہاجنی کاروبار؛سود

دنیا میں سب سے بڑھ کر سود خواری اس کاروبار میں ہوتی ہے جو مہاجنی کاروبار (Money Lending Business)کہلاتا ہے۔ یہ بلا صرف بر عظیم ہند تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ایک عالم گیر بلا ہے جس سے دنیا کا کوئی ملک بچا ہوا نہیں ہے۔

مہاجنی کاروبار؛سود

مغربی ممالک میں اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ پہلے جب کاغذ کے نوٹ نہ چلتے تھے تو لوگ زیادہ تر اپنی دولت سونے کی شکل میں جمع کیا کرتے تھے اور اسے گھروں میں رکھنے کے بجائے حفاظت کی غرض سے سناروں کے پاس رکھوا دیتے تھے۔ سنار ہر امانت دار کو اس کی امانت کے بقدر سونے کی رسید لکھ دیتا تھا جس میں تصریح ہوتی تھی کہ رسید بردار کا اتنا سونا فلاں سنار کے پاس محفوظ ہے۔ رفتہ رفتہ یہ رسیدیں خرید وفروخت اور قرضوں کی دائیگی اور حسابات کے تصفیہ میں ایک آدمی سے دوسرے آدمی کی طرف منتقل ہونے لگیں۔ لوگوں کے لیے یہ بات زیادہ آسان تھی کہ سونے کی رسید ایک دوسرے کو دے دیں۔ بہ نسبت اس کے کہ ہر لین دین کے موقع پر سونا سنار کے ہاں سے نکلوایا جائے اور اس کے ذریعہ سے کاروبار ہو۔ رسید حوالہ کردینے کے معنی گویا سونا حوالہ کردینے کے تھے۔ اس لیے تمام کاروبار اغراض کے لیے یہ رسیدیں اصل سونے کی قائم مقام بنتی چلی گئیں اور اس امر کی نوبت بہت ہی کم آنے لگی کہ کوئی شخص وہ سونا نکلوائے جو ایک رسید کے پیچھے سنار کے پاس محفوظ تھا۔ اس کا موقع بس انہی ضرورتوں کے وقت پیش آتا تھا۔ جب کسی کو بجائے خود سونے ہی کی ضرورت ہوتی تھی ورنہ ذریعہ مبادلہ کی حیثیت سے جتنے کام سونے سے چلتے تھے وہ سب ان ہلکی پھلکی رسیدوں کے ذریعہ سے چل جایا کرتے تھے جن کا کسی کے پاس ہونا اس بات کی علامت تھا کہ وہ اس قدر سونے کا مالک ہے، مسلم معاشرے کو اس فتنے سے بچانے کے لیے ایسے سودی لین دین کی معصومین(ع) نے سخت مذمت فرمائی ہے جیسا کہ ارشاد ہے: أَخْبَثُ اَلْمَكَاسِبِ كَسْبُ اَلرِّبَا؛ سب سے خبیث ترین داد و ستد سودی معاملہ ہے۔ [تفصیل وسائل الشیعة، جلد 18، صفحه 118] یہ وہ بلائے عظیم ہے جس میں ہر ملک کے غریب اور متوسط الحال طبقوں کی بڑی اکثریت بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے قلیل المعاش کارکنوں کی آمدنی کا بڑا حصہ مہاجن لے جاتا ہے۔ شب و روز کی ان تھک محنت کے بعد جو تھوڑی سی تنخواہیں یا مزدوریاں ان کو ملتی ہیں ان میں سے سود ادا کرنے کے بعد ان کے پاس اتنا بھی نہیں بچتا کہ دو وقت کی روٹی چلا سکیں۔ یہ چیز صرف یہی نہیں کہ ان کے اخلاق کو بگاڑتی اور انہیں جرائم کی طرف دھکیلتی ہے’ اور صرف یہی نہیں کہ ان کے معیارِ زندگی کو پست اور ان کی اولاد کے معیارِ تعلیم و تربیت کو پست تر کردیتی ہے’ بلکہ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ دائمی فکر اور پریشانی ملک کے عام کارکنوں کی قابلیت کار کو بہت گھٹا دیتی ہے۔ اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی محنت کا پھل دوسرا لے اڑتا ہے تو اپنے کام سے ان کی دلچسپی ختم ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے سودی کاروبار کی یہ قسم صرف ایک ظلم ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اجتماعی معیشت کا بھی بڑا بھاری نقصان ہے۔
خداوند عالم ہمیں اس آفت سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
منبع: تَفْصیلُ وَسائلِ الشیعَة إلی تَحْصیلِ مَسائلِ الشَّریعَة،شیخ حر عاملی، آل البیت،۱۴۱۴ق۔

 

تبصرے
Loading...