زیادہ باتیں کرنے کا آخری نتیجہ جہنم کی آگ

خلاصہ: انسان کو اپنی زبان پر قابو ہونا چاہیے اور ضرورت سے زیادہ بات نہ کرے ورنہ نقصانات کا شکار ہوگا۔

زیادہ باتیں کرنے کا آخری نتیجہ جہنم کی آگ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان کی بعض غلطیوں کے نتائج اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ ان غلطیوں کی وجہ سے انسان  جو جو مختلف مراحل سے گزرتو ہہننا کرنا ہے تو لوگ ایسے آدمی سے دوری اختیار کریں گے، اس سے مشورہ نہیں لیں گے، اس ہلاک ہوجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ نتائج قدم بہ قدم آدمی کو ہلاکت کی طرف لے جائیں اور آدمی پہلے قدم پر ان خطرناک نتائج کی طرف متوجہ نہ ہو، مگر پہلے قدم کے بعد دوسرا قدم اٹھائے گا اور کیونکہ وہ اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنا چاہتا ہے اور اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس کام سے اسے کیا کیا نقصان ہوگا تو پہلے قدم کے بعد دوسرا قدم، دوسرے کے بعد تیسرا اور اسی طرح رفتہ رفتہ تباہی کے نزدیک ہوتا چلا جائے گا۔
بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہی طاقتیں چھِن جاتی ہیں جو انسان کو غلطی کرنے سے روکتی ہیں۔ جب آدمی نے ایک غلطی کرلی اور اس سے باز آنے کا ارادہ نہ کیا تو جس طاقت نے اس غلطی کے دہرائے جانے کے سامنے رکاوٹ بن جانا تھا، استغفار اور توبہ نہ کرنے کی وجہ سے وہ طاقت باقی نہیں رہی کہ غلطی کو روک لے، کیونکہ آدمی اس غلطی کے ارتکاب پر ڈٹ گیا ہے تو وہ طاقت چھِن گئی ہے، اس طاقت کے چھِن جانے کے بعد، اگلی طاقتوں کے چھِن جانے کی باری آجائے گی، اسی طرح کیونکہ آدمی قدم بہ قدم غلطی پہ غلطی کررہا ہے اور روکنے والی طاقتوں کو بھی تباہ کررہا ہے تو بالآخر ہلاکت کے گڑھے میں گرکر تباہ و برباد ہوجائے گا۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ کی حکمت ۳۴۹ میں ارشاد فرماتے ہیں: مَنْ كَثُرَ كَلَامُهُ كَثُرَ خَطَاؤُهُ وَ مَنْ كَثُرَ خَطَاؤُهُ قَلَّ حَیَاؤُهُ وَ مَنْ قَلَّ حَیَاؤُهُ قَلَّ وَرَعُهُ وَ مَنْ قَلَّ وَرَعُهُ مَاتَ قَلْبُهُ وَ مَنْ مَاتَ قَلْبُهُ دَخَلَ النَّارَ”، “جس کی باتیں زیادہ ہوگئیں اس کی خطائیں بڑھ جاتی ہیں، اور جس کی خطائیں بڑھ جائیں اس کا حیا کم ہوجاتا ہے، اور جس کا حیا کم ہوجائے اس کا ورع (جو تقوا سے بالاتر درجہ ہے) کم ہوجاتا ہے اور جس کا ورع کم ہوجائے اس کا دل مرجاتا ہے اور جس کا دل مرجائے وہ (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگا”۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[نہج البلاغہ، سید رضی علیہ الرحمہ]

تبصرے
Loading...