”یہاں تک کہ جب ان میں کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے .شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں.ہر گز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے”۔

 

موت کے بعد سے روز قیامت تک کی مدت کو قرآنی اصلاح میں برزخ کہا جاتا ہے۔

اس دنیا سے رخصت ہونے والے افراد پہلے برزخ میں وارد ہوتے ہیں، اپنے عقائد و اعمال اور اخلاق کی بنا پر ان کی ایک زندگی ہوتی ہے ، یہ ایک ایسی زندگی ہے جو نہ دنیا کی طرح ہے اور نہ آخرت کی طرح ہے۔

(حَتَّی ِذَا جَائَ َحَدَہُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِی ٭لَعَلِّی َعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْتُ کَلاَّ ِنَّہَا کَلِمَة ہُوَ قَائِلُہَا وَمِنْ وَرَائِہِمْ بَرْزَخ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ).(۱)

”یہاں تک کہ جب ان میں کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے .شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں.ہر گز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے”۔

لیکن چونکہ قانون خلقت نہ نیک افراد کو اور نہ برے لوگوں کودنیا میں واپس پلٹنے کی اجازت دیتا ، لہٰذا ان کو اس طرح جواب دیا جائے گا: ”نہیں نہیں، ہرگز پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہے”،اور یہی جواب انسان کی زبان بھی جاری ہوگا،

موت کے بعد سے روز قیامت تک کی مدت کو قرآنی اصلاح میں برزخ کہا جاتا ہے۔

اس دنیا سے رخصت ہونے والے افراد پہلے برزخ میں وارد ہوتے ہیں، اپنے عقائد و اعمال اور اخلاق کی بنا پر ان کی ایک زندگی ہوتی ہے ، یہ ایک ایسی زندگی ہے جو نہ دنیا کی طرح ہے اور نہ آخرت کی طرح ہے۔

(حَتَّی ِذَا جَائَ َحَدَہُمْ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِی ٭لَعَلِّی َعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْتُ کَلاَّ ِنَّہَا کَلِمَة ہُوَ قَائِلُہَا وَمِنْ وَرَائِہِمْ بَرْزَخ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ).(۱)

”یہاں تک کہ جب ان میں کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے .شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں.ہر گز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے”۔

لیکن چونکہ قانون خلقت نہ نیک افراد کو اور نہ برے لوگوں کودنیا میں واپس پلٹنے کی اجازت دیتا ، لہٰذا ان کو اس طرح جواب دیا جائے گا: ”نہیں نہیں، ہرگز پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہے”،اور یہی جواب انسان کی زبان بھی جاری ہوگا، لیکن یہ جملہ بے اختیار اور یونہی اس کی زبان پر جاری ہوگا، یہ وہی جملہ ہوگا کہ جب کوئی بدکار انسان یا کوئی قاتل اپنے کئے کی سزا کو دیکھتا ہے تو اس کی زبان پر بھی یہی جملہ ہوتا ہے، لیکن جب سزا ختم ہوجاتی ہے یا بلاء دور ہوجاتی ہے تو وہ انسان پھر وہی پرانے کام شروع کردیتا ہے۔

آیت کے آخر میں ایک چھوٹا سا لیکن پُر معنی اور اسرار آمیز جملہ برزخ کے بارے میں بیان ہوا ہے:” اس کے بعد روز قیامت تک کے لئے برزخ موجود ہے”۔

 در اصل دو چیزوں کے درمیان حائل ہونے والی چیز کو برزخ کہتے ہیں، اس کے بعد سے دو چیزوں کے درمیان قرار پانے والی چیز کو برزخ کہا جانے لگا، اسی وجہ سے دنیا و آخرت کے درمیان قرار پانے والے عالم کو ”عالم برزخ ”کہا جاتا ہے۔

عالم قبر یا عالم ارواح کے سلسلہ میں منقولہ دلائل موجود ہیں، قرآن مجید کی بہت سی آیات برزخ پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے بعض بطور اشارہ اور بعض صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔

آیہ کریمہ (وَمِنْ وَرَائِہِمْ بَرْزَخ لیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ)، عالم برزخ کے بارے میں واضح ہے۔

جن آیات میں وضاحت کے ساتھ عالم برزخ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے وہ شہداء کے سلسلہ میں نازل ہوئیں ہیں، جیسے:

(وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اﷲِ َمْوَاتًا بَلْ َحْیَائ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ).(۲)

”اور خبر دار راہ خدا میں قتل ہونے والوںکو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں”۔

نہ صرف یہ کہ شہداء کے لئے برزخ موجود ہے بلکہ کفار ،فرعون جیسے ظالم وجابر اور اس کے ساتھیوںکے بارے میں برزخ موجود ہے، سورہ مومن کی آیت نمبر ٢٦ میں اس چیزکی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

(النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ َدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ َشَدَّ الْعَذَابِ)(۳)

”وہ جہنم جس کے سامنے ہر صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت برپا ہوگی تو فرشتوں کو حکم ہوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کردو”۔

شیعہ سنی مشہور کتابوں میں بہت سی روایات بیان ہوئی ہیں جن میں عالم برزخ ،عالم قبر اور عالم ارواح کے بارے میں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں، چنانچہ نہج البلاغہ میں وارد ہوا ہے کہ جب حضرت امیر المومنین علیہ السلام جنگ صفین کی واپسی پر کوفہ کے اطراف میں ایک قبرستان سے گزرے تو قبروں کی طرف رخ کرکے فرمایا:

”اے وحشت ناک گھروں کے رہنے والو! اے ویران مکانات کے باشندو! اور تاریک قبر کے بسنے والو! اے خاک نشینو! اے غربت، وحدت اور وحشت والو! تم ہم سے آگے چلے گئے ہو اور ہم تم سے ملحق ہونے والے ہیں، دیکھو تمہارے مکانات آباد ہوچکے ہیں تمہاری بیویوں کا دوسرا عقد ہوچکا ہے اور تمہارے اموال تقسیم ہوچکے ہیں، یہ تو ہمارے یہاں کی خبر ہے، اب تم بتائو کہ تمہارے یہاں کی خبر کیا ہے؟

اس کے بعد اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا: اگر انھیں بولنے کی اجازت مل جاتی تو تمہیں صرف یہ پیغام دیتے کہ بہترین زاد راہ؛ تقویٰ الٰہی ہے”۔(۴)

حضرت امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے:

”اِنَّ الْقَبْرَ اِمّا رَوْضَة مِنْ رِیاضِ الْجَنَّةِ ،اَوْ حُفْرَة مِنْ حُفَرِ النّیرانِ”.(۵)

”قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے”۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

”اَلبَرْزَخُ الْقَبْرُ،وَھُوَ الثَّوابُ وَالْعِقابُ بَیْنَ الدُّنْیا وَالْآخِرَةُ…وَاللّٰہِ مَانَخافُ عَلَیْکُم اِلاَّ الْبَرْزَخَ”.(۶)

”برزخ وہی قبر ہے کہ جہاں دنیا و آخرت کے درمیان عذاب یا ثواب دیا جائے گا، خدا کی قسم، ہم تمہارے بارے میں برزخ سے ڈرتے ہیں”۔

روای نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا: برزخ کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

القَبْرُ مُنْذُ حینِ مَوْتِہِ اِلیٰ یَوْمِ القِیامَةِ”.(۷)

”موت سے لے کر روز قیامت تک قبر میں رہنے کا نام ہی برزخ ہے”۔

 

عظیم الشان کتاب ”کافی” میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

”فی حُجُراتٍ فِی الجَنَّةِ یَأْکُلُونَ مِنْ طَعامِھا،وَ یَشْرَبُونَ مِنْ شَرابِھا ،وَیَقولُونَ :رَبَّنا اَقِمْ لَنَا السَّاعَةَ ،وَانْجِزْ لَنا ما وَعَدْتَنا”.(۸)

”مرنے کے بعد مومنین کی ارواح جنت کے حجروں میں رہتی ہے، ]وہ لوگ[ جنتی غذا کھاتے ہیں، جنت کا پانی پیتے ہیں، اور کہتے ہیں: پالنے والے! جتنا جلدی ہوسکے روز قیامت برپا کردے اور ہم سے کئے ہوئے وعدہ کووفا فرما”۔

عالم برزخ پر عقیدہ کے سلسلہ میں قرآن مجید اور روایات میں بیان موجود ہے، جو معنوی زیبائیوں میں سے ہے، جس پر توجہ رکھنے سے نیک افراد اور بدکار لوگوں کی زندگی پر مفید آثار برآمد ہوتے ہیںاور جس سے انسان تقویٰ، پرہیزگاری اور ظاہر و باطن کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔

محشر

روز قیامت اور روز محشرایک ایسی حقیقت ہے جس کے با رے میں تمام آسمانی کتابوں، انبیاء کرام اور ائمہ معصومین نے خبر دی ہے جہاں پر تمام لوگ اپنی نیکی یا بدی کی جزا یا سزا پائیں گے ۔

روز قیامت پر اعتقاد رکھنا ایمان کا ایک حصہ ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔

قرآن مجید میں ایک ہزار آیات سے زیادہ اور بہت سی احادیث میں قیامت سے متعلق تفصیلی بیان ہوا ہے:

(رَبَّنَا ِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لاَرَیْبَ فِیہِ ِنَّ اﷲَ لاَیُخْلِفُ الْمِیعَادَ).(۹)

” خدا یا! تو تمام انسانوں کواس دن جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے .اور اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہوتا ”۔

(فَکَیْفَ ِذَا جَمَعْنَاہُمْ لِیَوْمٍ لاَرَیْبَ فِیہِ وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَیُظْلَمُونَ).(۱۰)

”اس وقت کیا ہوگا جب ہم سب کو اس دن جمع کریں گے جس میں کسی شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں ہے اورہر نفس کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ]ذرہ برابر[ ظلم نہیں کیا جائے گا”۔

(وَلَئِنْ مُتُّمْ َوْ قُتِلْتُمْ لَِلَی اﷲِ تُحْشَرُون).(۱۱)

”اور تم اپنی موت سے مرو یا قتل ہو جاؤسب اللہ ہی کی بارگاہ میں حاضر کئے جاؤگے”۔

(…وَاتَّقُوا اﷲَ الَّذِی ِلَیْہِ تُحْشَرُونَ).(۱۲)

”…اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے”۔

(…لَیَجْمَعَنَّکُمْ ِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیہِ…).(۱۳)

”…وہ تم سب کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے…”۔

(…وَالْمَوْتَی یَبْعَثُہُمْ اللَّہُ ثُمَّ ِلَیْہِ یُرْجَعُونَ).(۱۴)

”…اور مردوں کو تو خدا ہی اٹھا ئے گا اور پھر اس کی بارگاہ میں پلٹا دئے جائیں گے”۔

(…وَسَیَرَی اﷲُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ ثُمَّ تُرَدُّونَ ِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ).(۱۵)

”وہ یقینا تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور رسول بھی دیکھ رہا ہے اس کے بعد تم حاضر وغیب کے عالم خدا کی بارگاہ میں واپس کئے جاؤگے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال سے با خبر کرے گا”۔

 (ثُمَّ ِنَّکُمْ بَعْدَ ذَلِکَ لَمَیِّتُونَ٭ ثُمَّ ِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ تُبْعَثُونَ).(۱۶)

‘پھر اس کے بعد تم سب مر جانے والے ہو.پھر اس کے بعد تم روز قیامت دوبارہ اٹھائے جاؤگے”۔

(لاَ ُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَةِ٭ وَلاَُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ٭ َیَحْسَبُ الِْنسَانُ َلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَہُ٭ بَلَی قَادِرِینَ عَلَی َنْ نُسَوِّیَ بَنَانَہُ).(۱۷)

”میں روز قیامت کی قسم کھاتا ہوں.اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں.کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے.یقینا ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پورتک درست کرسکیں”۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جناب جبرئیل حضرت رسول خدا ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے او رآنحضرت کو قبرستان بقیع میں لے گئے ، آپ کو ایک قبر کے پاس بٹھایا اور اس قبر کے مردہ کو آواز دی کہ بہ اذن الٰہی اٹھ کھڑا ہو، وہ فوراً باہر آگیا! ایک ایسا شخص جس کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے قبر سے باہر نکلادر حالیکہ اپنے منھ سے گردوخاک ہٹاتے ہوئے کہتا تھا:”الحمد ﷲ و اﷲ اکبر”، اس وقت جناب جبرئیل نے اس سے کہا: بہ اذن خدا واپس ہوجا،اس کے بعد پیغمبر اکرمۖ    کو ایک دوسری قبر کے پاس لے گئے اور اس سے کہا: حکم خدا سے اٹھ کھڑا ہو، چنانچہ ایک شخص نکلا جس کاچہرہ سیاہ تھا اور کہنے لگا: ہائے افسوس! ہائے ہلاکت و بیچارگی! چنانچہ جناب جبرئیل نے اس سے کہا: حکم خدا سے واپس ہوجا. اس کے بعد جناب جبرئیل نے کہا: اے محمدۖ! تمام مردے اسی طرح سے روز قیامت محشور ہوں گے۔(۱۸)

لقمان حکیم اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اے میرے بیٹے! اگر تمہیں مرنے میں شک ہے تو سونا چھوڑو لیکن نہیں چھوڑسکتے ، اگر روز قیامت قبر سے اٹھائے جانے میں شک رکھتے ہو تو بیدار رہنا چھوڑدو لیکن نہیں چھوڑسکتے ، لہٰذا اگر سونے اور جاگنے میں غور و فکر کرو تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ تمہارا اختیار کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہے، بے شک نیند موت کی طرح ہے اور بیداری اور جاگنا مرنے کے بعد قبر سے اٹھانے کی مانند ہے۔(۱۹)

بہر حال پورے قرآن کریم میں قیامت اور اس کے صفات کے بارے میں بہت زیادہ تکرار، تاکید اور وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، صرف بعض مقامات پر استدلال اور برہان بیان ہوا، برخلاف اثبات توحید کے کہ جہاں پر دلیل و برہان کے ساتھ ساتھ خداوندعالم کی قدرت و حکمت کا بیان بھی ہوا ہے، کیونکہ جب انسان توحید خدا کو قبول کرلیتا ہے تو اس کے لئے معاد اور قیامت کا مسئلہ واضح ہوجاتا ہے۔

اسی وجہ سے قرآن مجید میں روز قیامت کی تشریح و توصیف سے پہلے یا اس کے بعد خدا کی قدرت و توانائی کے بارے میں بیان ہوا ہے، درحقیقت خداوندعالم کے وجود کے دلائل یقینی طور پر معاد کے دلائل بھی ہیں۔

جہاں پر روز قیامت اور مردوں کے زندہ ہونے پر واضح دلیل بیان ہوئی ہے ، وہاں بھی یہی دلیل و برہان قائم کی گئی ہے؛ کیونکہ کوئی بھی یہ نہیں کہتا: قیامت کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ تاکہ گناہوں کے بارے میں فیصلہ ہوسکے، اور نیک افراد اور برے لوگوں کو جزا یا سزا دی جاسکے،اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا بلکہ انکار کرنے والوں کا اعتراض اور اشکال یہ ہوتا ہے کہ کس طرح یہ جسم خاک میں ملنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوگا؟ اسی وجہ سے خداوندعالم نے واضح طور پر یا دلائل توحید کے ضمن میںروز قیامت کے دلائل سے زیادہ منکرین کے لئے جواب دئے ہیں تاکہ منکرین سمجھ لیں کہ جس قدرت خدا کے ذریعہ یہ کائنات خلق ہوئی ہے اسی قدرت کے پیش نظر قیامت کوئی مشکل کام نہیں ہے، وہی خالق جس نے شروع میں حیات اور وجود بخشا تو اس کے لئے دوبارہ زندہ کرنا اور دوبارہ حیات دینا کوئی مشکل کام        نہیں ہے۔(۲۰)

قرآن مجید نے منکرین، مخالفین اور ملحدین کے اعتراض کو سورہ یٰس میں اس طرح بیان کیا ہے(َ وَلَمْ یَرَ الِْنسَانُ َنَّا خَلَقْنَاہُ مِنْ نُطْفَةٍ فَِذَا ہُوَ خَصِیم مُبِین٭ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَنْ یُحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیم٭ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی َنشََہَا َوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیم).(۲۱)

”توکیا انسان نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ہے اور وہ یکبارگی ہمارا کھلا ہوا دشمن ہوگیا ہے.اور ہمارے لئے مثل بیان کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے. ]اے رسول![ آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہے”۔

 

ان آیات میں پہلے انسان کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ تو پہلے تو کچھ نہیں تھا اور ایک نطفہ سے زیادہ ارزش نہیں رکھتا تھا،لہٰذا انسان کو غور و فکر کی دعوت دی جاتی ہے کہ کیا انسان تونے نہیں دیکھا، توجہ نہیں کی، غور وفکر نہیں کیا کہ ہم نے تجھے ایک نطفہ سے خلق کیا ہے اور اب اتناطاقتور، صاحب قدرت اور باشعور ہوگیا کہ اپنے پروردگار سے مقابلہ کے لئے کھڑا ہوگیا اور علی الاعلان اس سے پر برسرپیکارہے؟!

پہلے انسان کو مخاطب کیاگیا ہے،یعنی ہر انسان چاہے کسی مذہب کا ماننے والا ہو یا اس کا علم و دانش کسی بھی حد میں ہو اس حقیقت کو درک کرسکتا ہے۔

اس کے بعد نطفہ کے بارے میں گفتگو کی ہے، (لغت میں نطفہ کے معنی ناچیز او ربے ارزش پانی کے ہیں)تاکہ انسان مغرور نہ ہوجائے لہٰذا تھوڑا بہت اپنی ابتداء کے بارے میں بھی جان لے کہ وہ پہلے کیا تھا؟ اس کے علاوہ صرف یہی ایک ناچیز قطرہ اس کی رشد و نمو کے لئے کافی نہیں تھا بلکہ اس ایک قطرہ میں چھوٹے چھوٹے ہزاروں سلولز تھے جو آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے اور یہ زندہ سلولز رحم مادر میں بہت چھوٹے سلولز سے باہم ملے اور انسان ان چھوٹے موجود سے وجود میں آیا ہے۔

اپنے رشد و نمو کی منزل کو یکے بعد دیگرے طے کیا ، سورہ مومنون کی ابتدائی آیات نے ان چھ مراحل کی طرف اشارہ کیا ہے: نطفہ، علقہ (مضغہ) ہڈیوں کا ظاہر ہونا، ہڈیوں پر گوشت پیدا ہونا اور آخر میں روح کی پیدائش اور حرکت۔

انسان پیدائش کے وقت ضعیف و ناتواں بچہ تھا، اس کے بعد تکامل کے مرحلوں کو تیزی کے ساتھ طے کیا یہاں تک کہ عقلانی اور جسمانی بلوغ تک پہنچ گیا۔

 یہ کمزور اور ناتواں بچہ اس قدر طاقتور ہوا کہ خدا کے مد مقابل کھڑا ہوگیا، اس نے اپنی عاقبت کو بالکل ہی بھلادیااور ”خصیم مبین” کا واضح مصداق بن گیا۔

انسان کی جہالت کا اندازہ لگائیں کہ ہمارے لئے مثال بیان کرتا ہے اور اپنے زعم ناقص میں داندان شکن دلیل حاصل کرلی ہے، حالانکہ اپنے پہلے وجود کو بھول گیا ہے اور کہتا ہے: ان بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرنے والا کون ہے ؟!

 

جی ہاں، وہ منکر معاند]دشمن[ خصیم مبین ]کھلا ہوا دشمن[ بغض و کینہ رکھنے والااور بھول جانے والا، جنگل بیابان سے ایک بوسیدہ ہڈی کو پالیتا ہے جس ہڈی کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ کس کی ہے؟ اپنی موت پر مرا ہے یا زمان جاہلیت کی جنگ میں دردناک طریقہ سے ماراگیا ہے یا بھوک کی وجہ سے مرگیا ہے؟ بہر حال ہڈی کو پاکر یہ سوچتا تھا کہ قیامت کے انکار پر ایک دندان شکن دلیل مل گئی ہے، غصہ اور خوشحالی کی حالت میں اس ہڈی کو اٹھاکر کہتا ہے: اسی دلیل کے سہارے میں محمد ] ۖ[ سے ایسا مقابلہ کروں گا جس کا کوئی جواب نہ دیا جاسکے!

تیزی کے ساتھ چل کر آنحضرت ۖ کے پاس آیا اور فریاد بلند کی: ذرا بتائیے تو سہی کہ اس بوسیدہ ہڈی کو کون دوبارہ لباس ِحیات پہناسکتا ہے؟ اس کے بعد اس ہڈی کو مسلتے ہوئے زمین پر ڈال دیا ، وہ سوچتا تھا کہ رسول خدا ] ۖ[ کے پاس اس کو کوئی جواب نہیں پن پائے گا۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے ایک چھوٹے سے جملہ (نسی خلقہ) کے ذریعہ پورا جواب دیدیا، اگرچہ اس کے بعد مزید وضاحت اور دلائل بھی بیان کئے ہیں۔

ارشاد ہوا: اگر تو نے اپنی پیدائش کو نہ بُھلایا ہوتا تو اس طرح کی بے بنیاد دلیل نہ دیتا؛ اے بھولنے والے انسان! ذرامڑکرتو دیکھ اور اپنی پیدائش کے بارے میں غور و فکر کر کہ اول خلقت میں کس قدر ذلیل پانی تیرا وجود تھا، ہر روز ایک نئی زندگی کی شروعات تھی، تو ہمیشہ موت و معاد کی حالت میں ہے، لیکن اے بھولنے والے انسان! تو نے سب کچھ بالائے طاق رکھ دیا اور اپنی خلقت کو بھول گیا اور اب پوچھتا ہے کہ کون اس بوسیدہ ہڈی کو دوبارہ زندہ کرسکتا ہے؟یہ ہڈی جب مکمل طور پر بوسیدہ ہوجائے گی تو خاک بن جائے گی، کیا تو روز اول خاک نہیں تھا؟! فوراً ہی پیغمبر کو حکم ہوتا ہے کہ اس مغرور اور بھولنے والے سے کہہ دو: ”وہی اس کو دوبارہ زندہ کرے گا جس نے روز اول اس کو پیدا کیا ہے”۔(۲۲)

اگر آج یہ بوسیدہ ہڈی باقی رہ گئی ہے تو پہلے تو یہ ہڈی بھی نہیں تھی یہاں تک کہ مٹی اور خاک بھی نہیں تھی، جی ہاں جس نے اس انسان کو عدم کی وادی سے وجود عطا کیا تو اس کے لئے بوسیدہ ہڈی سے دوبارہ پیدا کرنا بہت آسان ہے۔

اگر تو یہ سوچتا ہے کہ یہ بوسیدہ ہڈیاں خاک ہوکر تمام جگہوں پر پھیل جائیں گی، تو ان ہڈیوںکو کون پہچان سکتا ہے اور کون ان کو مختلف جگہ سے جمع کرسکتا ہے؟ تو اس چیز کا جواب بھی واضح اور روشن ہے کہ وہ تمام مخلوقات سے آگاہ ہے اور اس کی تمام خصوصیات کو جانتا ہے:

(وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیم)

”اور وہ ہر مخلوق کا بہترین جاننے والا ہے”۔

جس کے پاس اس طرح کا علم اور قدرت ہو تو اس کے لئے معاد اور مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

ایک مقناطیس کے ذریعہ مٹی کے نیچے بکھرے ہوئے لوہے کے ذرات کو جمع کیا جاسکتا ہے جبکہ یہ مقناطیس ایک بے جان چیز ہے، تو کیاخداوندعالم انسان کے بکھرے ہوئے ہر ذرہ کو ایک اشارہسے جمع نہیں کرسکتا؟

وہ نہ صرف انسان کی خلقت سے آگاہ ہے بلکہ انسان کی نیتوں اور اس کے اعمال سے بھی آگاہ ہے ، انسان کا حساب و کتاب اس کے نزدیک واضح و روشن ہے۔

لہٰذا اس کے اعمال، اعتقادات اور نیتوں کا حساب کرنا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے:

(… وَِنْ تُبْدُوا مَا فِی َنفُسِکُمْ َوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ…).(۲۳)

”…تم اپنے دل کی باتوں کا اظہار کرو یا ان پر پردہ ڈالو، وہ سب کا محاسبہ کرلے گا…”۔

اسی وجہ سے جناب موسیٰ علیہ السلام کو حکم ملا کہ فرعون (جو معاد کے بارے میں شک کرتا تھا اور صدیوں پرانے لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور ان کے حساب و کتاب سے تعجب کرتا تھا)سے کہہ دو :

(… عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی فِی کِتَابٍ لاَیَضِلُّ رَبِّی وَلاَیَنسَی).(۲۴)

”…ان باتوں کا علم میرے پروردگار کے پاس اس کا کتاب میں محفوظ ہے، وہ نہ بہکتا ہے اور نہ بھولتا ہے”۔(۲۵)

بہر حال روز قیامت ،روز محشر اورحساب و کتاب کا مسئلہ غیب کے مصادیق میں سے ہے، جس پرقرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں اعتقاد اور ایمان رکھنا معنوی اور روحانی زبیائیوں میں سے ہے،جس سے انسان رشد و کمال کے درجات اور صحیح تربیت حاصل کرلیتاہے، جو انسانی زندگی میں بہت موثر اور ثمر بخش نتائج کا حامل ہے۔

 حوالہ جات

 (۱)سورۂ مومنون،آیت ٩٩۔١٠٠.

(۲)آل عمران،آیت١٦٩.

(۳)سورۂ غافر (مومن) :٢٦.

(۴)قال (علیہ السلام): وقد رجع من صفین فاشرف علی القبور بظاھر الکوفة :یا اہل الدیار الموحشة والمحال المقفرة والقبور المظلمة! یا اھل التربةیا اہل الغربة! یا اہل الوحدة !یا اہل الوحشة!انتم لنا فرط سابق ،ونحن لکم تبع لاحق؛اماا لدور فقد سکنت ؛و اما الازواج فقد نکحت ؛واما الاموال فقد قسمت ؛ھذا خبر ما عندنا ،فما خبر ماعندکم ؟ثم التفت الی اصحابہ فقال:اما لو اذن لھم فی الکلام لا خبرو کم:ان خیر الزاد التقوی.

نہج البلاغہ :٧٨٥،حکمت ١٣٠؛بحار الانوار ج٣٢،ص٦١٩،باب ١٢،حدیث ٤٨٨..

(۵)نور الثقلین ،ج٢،ص٥٥٣.

(۶)نور الثقلین ،ج٢،ص٥٥٣؛بحارالانوار ج٦،ص٢١٨،باب ٨،حدیث ١٢.

(۷)کافی ج٣،ص٤٣،باب ماینطق بہ موضع القبر،حدیث٣؛ نور الثقلین ،ج٢،ص٥٥٤.

(۸)کافی ج٣،ص٢٤٤،باب آخر فی ارواح المؤمنین،حدیث٤؛ بحارالانوار ،ج٦،ص٢٦٩،باب ٨،حدیث١٢٢.

(۹)سورۂ آل عمران ،آیت ٩.

(۱۰)سورۂ آل عمران ،آیت ٢٥.

(۱۱)سورۂ آل عمران ،آیت ١٥٨.

(۱۲)سورۂ مائدہ،آیت ٩٦.

 (۱۳)سورۂ انعام ،آیت١٢.

(۱۴)سورۂ انعام ،آیت ٣٦.

(۱۵)سورۂ توبہ آیت ٩٤.

(۱۶)سورۂ مؤمنون آیت ١٥۔١٦.

(۱۷)سورۂ قیامت آیت ١۔٤.

 (۱۸)تفسیر قمی ج٢،ص٢٥٣،کیفیة نفخ الصور؛بحار الانوار ج٧،ص٣٩،باب ٣،حدیث٨.

(۱۹)عن ابی جعفر علیہ السلام قال:کان فیما وعظ بہ لقمان علیہ السلام ابنہ أن قال :یا بنی!ان تک فی شک من الموت فارفع عن نفسک النوم ،ولن تستطیع ذلک،وان کنت فی شک من البعث فارفع عن نفسک الانتباہ،ولن تستطیع ذلک.فانک اذا فکرت فی ھذا علمت ان نفسک بید غیرک ،وانما النوم بمنزلة الموت ،وانما الیقظة بعد النوم بمنزلة البعث بعد الموت.

قصص راوندی ص١٩٠،حدیث ٢٣٩؛بحار الانوار ج٧،ص٤٢،باب٣،حدیث ١٣.

(۲۰)تفسیر نوین،ص : ١٩.

(۲۱)سورۂ یس آیت ٧٧۔٧٩.

(۲۲)سورۂ یس آیت ٧٩.(قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی َنشََہَا َوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیم)

(۲۳)سورۂ بقرہ آیت ٢٨٤.                                 

(۲۴)سورۂ طہ آیت ٥٢.

(۲۵)تفسیر نمونہ ج١٨ ،ص٤٥٦.

 

تبصرے
Loading...