میلاد المسیح اور ہماری ذمہ داری

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں انسان کسی بھی مذہب، گروہ ، فرقہ ، قوم یا ملک سے ہو، ا سے خوشی چاہیے۔ وہ خوش ہونا، ہنسنا اور مسکرانا چاہتا ہے ، وہ تہوار منانا چاہتا ہے۔ مذہب انسان کی اس فطرت سے واقف ہے، لہٰذا وہ اسے تقریبات،عیدوں اور تہواروں کی اجازت دیتا ہے ۔

انسانی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تو اکثر و بیشتر حدود اللّٰہ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آسمانی مذاہب نے ان تقریبات، عیدوں اور تہواروں کو پاکیزہ رکھنے کی ہمیشہ تاکید کی ہے۔لیکن انسان کی خواہشِ نفس کی تکمیل کے آگے جہاں مقدس الہامی کتب اور صحائف نہ بچ سکے ،وہاں یہ عیدیں اور تہوار کیا چیز ہیں؟

کرسمس(Christmas) دو الفاظ کرائسٹ(Christ)اور ماس (Mass)کا مرکب ہے۔ کرائسٹ(Christ)مسیح (ع ) کو کہتے ہیں اورماس (Mass) اجتماع ، اکٹھا ہوناہے یعنی مسیح کے لیے اکٹھا ہونا، اس کا مفہوم یہ ہوا: مسیحی اجتماع یایومِ میلاد مسیح ۔

یہ لفظ تقریباً چوتھی صدی کے قریب قریب پایا گیا۔ اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں ملتا ۔ دنیا کے مختلف خطوں میں ‘کرسمس’ کو مختلف ناموں سے یاد کیا اور منایا جاتا ہے۔ اسے یول ڈے نیٹوئی (پیدائش کا سال)اور نوائل (پیدائشی یا یوم پیدائش)جیسے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے[۱]۔ ‘بڑا دن’ بھی کرسمس کا مروّجہ نام ہے ۔ یہ یومِ ولادت مسیح کے سلسلے میں منایا جاتا ہے کیونکہ مسیحیوں کے لیے یہ ایک اہم اور مقدس دن ہے، اس لیے اسے بڑا دن کہا جاتا ہے۔

جبکہ نہ صرف مسیح کی تاریخ پیدائش بلکہ سن پیدائش کے حوالے سے بھی مسیحی علما میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ عام خیال ہے کہ سن عیسوی مسیح کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے مگر ‘قاموس الکتاب ‘اور دیگر مسیحی کتب کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کی ولادت باسعادت4یا 6ق م میں ہوئی ۔ قاموس الکتاب میں یہ تاریخ  4 ق م دی گئی ہے جبکہ مائیکل ہارٹ ”The Hundred” میں  6 ق م تسلیم کرتا ہے۔

جہاں تک حضرت عیسیٰ ابن مریم (ع) کے روز ولادت کے تعین کا تعلق ہے اس پر تو شاید آئندہ بھی محققین ایک رائے اختیار نہ کر سکیں لیکن حضرت عیسیٰ کی معجزانہ ولادت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

ان کی استثنائی ولادت ہی سے ظاہر ہو گیا تھا کہ وہ ایک غیر معمولی انسان ہیں اور انھوں نے خصوصی کردار ادا کرنے کے لیے عرصہ ہستی میں قدم رکھا ہے۔ حضرت عیسیٰ (ع) کی والدہ ماجدہ جناب مریم (ع) بھی ایک غیر معمولی خاتون تھیں۔ دونوں نے معنویت و روحانیت کے نئے آفاق انسانیت کے سامنے کھولے۔ دونوں نے انسانی عظمتوں اور رفعتوں کے نئے پہلوﺅں سے بشریت کو آشنا کیا۔ دونوں نے عشق الٰہی اور اللہ کی عبادت کا پیغام دیا۔ انسانیت کو دونوں عظیم ہستیوں پر ہمیشہ فخر رہے گا اور عظیم روحیں ان کی منزلتوں کا ہمیشہ اعتراف کرتی رہیں گی۔
اسلام ہی وہ واحد عالمی دین ہے جس نے باقاعدہ حضرت مسیح (ع) اور جناب مریم (ع) کے مقام رفعت اور پاکبازی کا اعتراف کیا اور ان کی صداقت اور پاکیزگی پر ایمان کو اپنی دعوت کا حصہ قرار دیا۔ اسلام کے نزدیک یہ امر اتنا اہم ہے کہ جو اس ایمان کا حامل نہ ہو اسے مسلمان ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ مسلمان ہونے کے لیے حضرت عیسیٰ (ع) کی نبوت اور آپ کی والدہ گرامی کی پاکبازی و خدا پرستی کا اعتراف و اقرار ضروری ہے۔

وَ إِذْ قالَتِ الْمَلائِكَةُ يا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفاكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفاكِ عَلى‏ نِساءِ الْعالَمينَ[1] يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا في‏ دينِكُمْ وَ لا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلاَّ الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسيحُ عيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَ كَلِمَتُهُ أَلْقاها إِلى‏ مَرْيَمَ وَ رُوحٌ مِنْهُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَ رُسُلِهِ وَ لا تَقُولُوا ثَلاثَةٌ انْتَهُوا خَيْراً لَكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلهٌ واحِدٌ سُبْحانَهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ وَ كَفى‏ بِاللَّهِ وَكيل[2]

ان دونوں ہستیوں کے مقام رفیع کا ذکر قرآن حکیم کی ابتدائی طور پر نازل ہونے والی آیات میں موجود ہے۔ یہی وہ آیات ہیں جن کی تلاوت حضرت جعفر طیار (ع) نے ہجرت حبشہ کے دوران میں بادشاہ حبشہ نجاشی کے سامنے کی تھی تاکہ قریش کے مشرکین کے وفد کے الزامات کی حقیقت کا پردہ چاک کر سکیں۔ انہی آیات کی تلاوت نے نجاشی کے دل کو مسخر کر لیا اور اس کے تمام درباری بھی مبہوت ہو کر رہ گئے۔ یہیں سے دو عالمی ادیان کی ایک دوسرے سے قربت کا آغاز ہوا۔ اس سے یہ امر ظاہر ہو گیا کہ حضرت محمد ابن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو دین لے کر آئے ہیں وہ وہی ہے جس کے نقیب ابراہیم (ع)، موسیٰ (ع) اور عیسیٰ (ع) رہے ہیں۔ قرآن حکیم کی بعض آیات میں مسیحیوں کو مسلمانوں سے نسبتاً قریب قرار دیا گیا ہے اور ان میں موجود خدا پرستوں اور عبادت گذاروں کی تعریف کی گئی ہے۔

ایک طرف حضرت عیسیٰ (ع) کی غیر معمولی شخصیت اور ان کے ہاتھوں ظاہر ہونے والے معجزات اور دوسری طرف انسان کی کوتاہ اندیشی نے توحید پرستی کے اس عظیم علم بردار کو مقام الوہیت پر فائز کر دیا اور نتیجے کے طور پر جسے اسوہ اور نمونہ قرار پانا چاہیئے تھا وہ ایک ماورائی اور طلسماتی شخصیت بن کر رہ گیا۔ ایسا کرنے کا ثمرہ انسانی معاشرے کے زوال ہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ مسیحیوں میں موجود اس انحراف کی طرف قرآن حکیم نے بھی اشارہ کیا ہے۔حضرت مسیح (ع) کے اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندہ ہونے اور اللہ کی توحید پر زوردار دلائل کے ساتھ ساتھ مباہلے کا واقعہ مسیحیوں کے مذہبی راہنماﺅں کے اسی فکری انحراف کے پس منظر میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم نے اہل کتاب سے ہم آہنگی ایجاد کرنے اور پرامن بقائے باہم کی راہ کھولنے کی کوشش بھی کی ہے۔ آج کی دنیا میں مکالمہ بین الادیان کی بات بہت کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی بنیاد قرآن حکیم ہی نے رکھی ہے۔ قرآن نے اہل کتاب کو دعوت دی ہے کہ آﺅ اُس ایک “کلمہ” پر اکٹھے ہو جاتے ہیں جو ہمارے اور تمھارے درمیان مساوی ہے۔

مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین مشترکات دیگر تمام ادیان کی نسبت زیادہ ہیں۔ ان اشتراکات میں سے خود حضرت عیسیٰ (ع) بھی ہیں۔ اگر ان کی ولادت مسیحیوں کے نزدیک خوشی و انبساط کا عنوان ہے تو مسلمانوں کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اس موقع پر مسلمان بھی بعض تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں۔

نتیجہ و خلاصہ کلام یہ کہ  ان پاکیزہ مراسم کو برگزار کرتے وقت ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم ان مراسم کو ویسے برگزار کریں جیسے اسلام نے چاہا ہے اور جو ان مراسم کو برگزار کرنے کا حق ہے ، ایسا نہ ہو کہ ہم دنیا کی غلط رسم و رواج کی نالیوں میں بہہ کر ان کے رنگ میں ڈھل جائیں بلکہ ہمارا یہ فرض ہے ہم اللہ کی رنگ میں رنگیں اور دنیا والوں کو صحیح رسم و رواج کا طریقہ بتائیں  اور آپس میں مل کر ایک دوسرے کو مبارکبادی دیں ساتھ ساتھ دونوں مکاتب فکر کے لوگوں کو اتحاد و یک جہتی کی دعوت دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
[1] آل عمران/42۔
[2] نسا/171۔

تبصرے
Loading...