حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کےخطبہ کوفہ کا ادبی تجزیہ

خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے حضرت سیدالشہداء (علیہ السلام) کے مقصد کی تکمیل کے لئے ایک راستہ جو اختیار کیا، خطبہ کے ذریعے حقائق کو بیان کرنا تھا، ان خطبوں میں سے ایک کوفہ کے لوگوں کے سامنے خطبہ ہے جو آپ (سلام اللہ علیہا) نے حقائق کو کلامی محاسن کے ساتھ بیان کیا جس کا سننے والے پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کےخطبہ کوفہ کا ادبی تجزیہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے سوائے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے گھرانہ کے کوئی ایسا گھرانہ نہیں ملتا جس کے سب افراد ایسی عظیم شخصیات ہوں کہ ہر ایک فرد نے مستقبل کی تاریخ میں اپنے صبر و شجاعت سے ایسا اہم اور گہرا اثر ڈال دیا ہو جس سے تاریخ کے سیاہ دھبے صاف ہوگئے ہوں اور انحرافی راستے مٹ کر لوگوں کے لئے صراط مستقیم واضح ہوگئی ہو۔ اس معصوم گھرانہ کی ایک بلند مقام ہستی حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) ہیں جنہوں نے حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی زندگی کے دوران آنحضرت (علیہ السلام) کے ساتھ زندگی گزاری اور جب حضرت سیدالشہداء (علیہ السلام) شہید ہوگئے تو زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے اپنی پوری کوشش کی کہ اپنے بھائی حسین ابن علی (علیہما السلام) کے قیام کے اہداف کو زندہ رکھیں۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے حضرت زینب عالیہ (سلام اللہ علیہا) کے پاس ایک طریقہ، خطبہ دینا تھا۔ وہ خطبے جو کوفہ و شام میں ارشاد فرمائے۔ اس مضمون میں عقیلہ بنی ہاشم کے صرف اس خطبہ کا ادبی تجزیہ پیش کیا جارہا ہے جو آپ نے کوفہ میں ارشاد فرمایا اور اگلے مضامین میں خطبہ کی تشریح اور وضاحت بیان ہوگی ان شاء اللہ۔
قیام امام حسین (علیہ السلام) کو ایک لحاظ سے دو حصوں میں دیکھا جاسکتا ہے: ۱۔ شہادت۔ ۲۔ پیغام پہنچانا۔ پہلے حصہ میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے انقلاب میں عصر عاشورا تک خون، شہادت اور جانثاری نمودار ہے جس کے رہبر اور علمبردار بھی خود حسین ابن علی (علیہماالسلام) ہیں۔ دوسرا حصہ عصر عاشورا سے شروع ہوتا ہے اور اس کے علمبردار حضرت زین العابدین اور حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) ہیں جنہوں نے سیدالشہداء (علیہ السلام) اور آنحضرتؑ کے اصحاب کے انقلاب اور شہادت کا پیغام، اپنے شعلہ بیان خطبوں اور قرآنی آیات پر مبنی دلائل کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا اور ظالم حکومت کی ذلت و خواری سے نقاب ہٹا دیا۔
حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) سے تین طرح کے کلام دستیاب ہوئے ہیں: ۱۔ اہل کوفہ کے سامنے خطبہ۔ ۲۔ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) اور ابن زیاد ملعون کے درمیان گفتگو۔ ۳۔ شام میں یزید ملعون کے دربار میں خطبہ۔

آپ (سلام اللہ علیہا) کا کوفہ میں خطبہ مقدمہ، اصلی متن اور اختتامیہ پر مشتمل ہے۔ اس کا مقدمہ اللہ کی حمد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت (علیہم السلام) پر صلوات ہے۔ اس کے بعد اصلی متن اہل کوفہ کو خطاب کرتے ہوئے ان کی سب سے واضح بری صفت یعنی دھوکہ بازی بیان ہوئی ہے اور نیز ان کے اعمال کو محسوس امور سے تشبیہ دیتے ہوئے ان کے اعمال کی برائی کو ان کے لئے واضح کیا گیا ہے۔
کوفہ کے خطبہ میں بعض ظاہری خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ وہ خوبصورت سانچہ جن میں معانی کو رکھا گیا ہے اور الفاظ و عبارات کا اس کیفیت اور ماحول سے ہم آہنگ اور مطابق ہونا جو، ہر معنی میں پایا جاتا ہے۔مثلاً جہاں پر آپ (سلام اللہ علیہا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت سے غمزدہ ہونے کو ظاہر کرنا چاہتی ہیں، وہاں پر کلام کو خوبصورت، جذبات کو ابھارنے والے اور متاثر کن سانچہ میں قرار دیا اور اس طرح کے جملات فرمائے ہیں: “افسوس ہے تم پر اے اہل کوفہ”،  ” رسول اللہؐ کے جگر کو پارہ پارہ کرنا”، ” رسول اللہؐ کا خون بہانا”، ” رسول اللہؐ کی حرمت پامال کرنا”۔ “کبد، دم، حرمة” جیسے الفاظ کو ہم آہنگ اور جذبات کو اجاگر کرنے والے جملات کے ساتھ بیان کیا ہے: وَ تِلکُم یا اَهلَ الکُوفَة ! اَتَدرُونَ اَیَّ کَبَدٍ لِرَسوُلِ الله فَرَیتُم، وَ اَیَّ کَریمَةٍ لَهُ اَبرَزتُم، وَ اَیَّ دَمٍ لَهُ سَفَکتُم وَ اَیَّ حُرمَةٍ لَهُ انتَهَکتُم۔[1]
اور نیز جب آپ (سلام اللہ علیہا) ان لوگوں کے اعمال کی بدصورتی اور برائی کو ظاہر کرنا چاہتی ہیں تو ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جن کے حروف کی آواز کان میں ایک طرح کی ناگواری اور نفرت سی پیدا کرتے ہیں، جیسے: صلعاء، عنقاء، سوداء، خرقاء، شوهاء۔
۲۔ چھوٹے جملات کا استعمال جن میں ایک طرح کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، جیسے:فَلَقَد ذَهَبتُم بِعارِها وَ شَنارِها وَ لَن تَرحَضُوها بِغَسلٍ بَعدَها اَبَداَ وَ اَنّی تَرحَضُونَ قتلَ سَلِیلِ خاتِمِ النُبُّوَةِ وَ مَعدِنِ الرِّسالَةِ ، وَ سَیِّدِ شَبابِ اَهلِ الجَنَّةِ ، وَ مَلاذِ خِیَرَتِکُم وَ مَفزَعِ نازِلَتِکُم وَ مَنارِ حُجَّتِکُم ، وَ مَدرَةِ سُنَّتِکُم۔
ایسا انداز بیان، قرآن کریم کی مکی سورتوں میں بالکل واضح طور پر پایا جاتا ہے۔
۳۔ ان ہم آہنگ الفاظ کو دہرانا جو معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب ہیں۔
۴۔ بددعا اور مذمت کے جملات جو جذبات کو ابھارنے پر بہت اثرانداز ہوتے ہیں۔
۵۔ نداء اور پکارنے کے الفاظ کا استعمال جس سے لوگوں کے ضمیر کو مخاطب قرار دیا جاتا ہے۔
۶۔ تصوراتی منظرکشی، جیسے: تمہاری مثال اس عورت کی ہے جس نے اپنے دھاگہ کو مضبوط کاتنے کے بعد پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا، یا سبزہ جیسی ہے جو کثافت پر اُگا ہو یا اس چاندی جیسی ہے جس سے دفن شدہ عورت (کی قبر) کو سجایا جائے۔
۷۔ اندازِ انتباہ: جیسے: “اَلا ساءَ ما قَدَّمَت لَکُم اَنفُسَکُم ، اَن سَخِطَ اللهُ عَلَیکُم وَ فِی العَذابِ اَنتُم خالِدون”، “آگاہ رہو کہ تم نے اپنی آخرت کے لئے برا کردار بھیجا ہے کہ اللہ نے تم پر غضب کیا اور تم ابدی عذاب میں رہوگے”۔
نتیجہ: حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) نے اپنے عاشورا کے بعد ایسے خطبے دیئے جو امام حسین (علیہ السلام) کی قربانیوں کے اہداف کو منزل مقصود تک پہنچانے میں حامی و مددگار ثابت ہوئے اور اس مقصد کی تکمیل کےلئے جو خطبے دیئے ان کے لئے ادبیاتی سانچے کا خیال رکھا تا کہ اثرانداز کلام کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کوفیوں کو متاثر کردے، یہاں تک کہ سننے والوں کو محسوس ہونے لگا کہ گویا امیرالمومنین علی (علیہ السلام) دوبارہ منبر خطابت پر رونق افروز ہوگئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] اللهوف، ص64۔

تبصرے
Loading...