حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کی حیات طیبہ پر طائرانہ نظر

خلاصہ: اسلام میں مختلف مقامات پر پاکدامن اور باعظمت خواتین کا کردار نظر آتا ہے، ان میں سے ایک حضرت ام البنین (علیہاالسلام) ہیں، آپؑ نے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی اولاد کی حمایت کرتے ہوئے کوشش کی کہ بچوں کو ان کی مظلومہ والدہ کی کمی کم محسوس ہو، نیز آپؑ کے پاکدامن وجود سے ایسے چار بیٹے پیدا ہوئے جو جو سب کربلا میں سیدالشہداء (علیہ السلام) کی اطاعت اور محبت میں شہید ہوئے۔

حضرت ام البنین (علیہاالسلام)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسلام کی نظر میں خواتین کا معاشرے کی ترقی اور کمال میں خاص کردار ہے یہاں تک کہ کئی عظیم شخصیتیں باکمال اور پاکدامن خواتین کی پروردہ اور تربیت یافتہ ہیں یا ان کی حمایت اور نگرانی میں پروان چڑھی ہیں۔ ان میں سے ایک حضرت ام البنین (علیہاالسلام) ہیں۔
اسم گرامی اور خاندان کا تعارف: حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کا اسم گرامی فاطمہ ہے، آپؑ بنی کلاب کے شجاع اور شریف قبیلہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپؑ کے باپ کا نام گرامی حزام ابن خالد تھا اور آپ کی والدہ لیلی بنت سہیل تھیں۔ آپؑ آغازِ اسلام کی نامور ادیب اور فصیح شاعرہ خاتون تھیں اور مسلمانوں کی نگاہ میں عظیم مقام کی حامل ہیں۔
تاریخ ولادت: حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کی ولادت کے بارے میں بالکل صحیح تاریخ نہیں ملتی اور تاریخ نویسوں نے آپؑ کی تاریخ ولادت درج نہیں کی، لیکن اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ آپؑ کے بڑے بیٹے حضرت عباس (علیہ السلام) ۲۶ ہجری قمری میں پیدا ہوئے۔ بعض مورخین نے آپؑ کی ولادت کا تقریباً ۵ ہجری قمری کا اندازہ لگایا ہے۔
خاندان کی عظمت: تاریخی نقل کے مطابق حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کے باپ دادا اور ماموں، اسلام سے پہلے دور کے عرب کے بہادروں میں سے تھے اور جنگ کے سلسلہ میں ان کے بارے میں بہت ساری بہادریاں نقل ہوئی ہیں کہ شجاعت کے باوجود عظیم شخصیت اور اپنی قوم کے پیشوا تھے، یہاں تک کہ وقت کے حاکم ان کے سامنے سرتسلیم خم کرتے تھے۔ یہ وہی ہیں جن کے بارے میں حضرت عقیل (علیہ السلام) نے جو عرب کے بڑے نسب شناس اور حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے بھائی تھے، حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا: “عرب میں ان (جناب ام البنین) کے باپ داداوں سے زیادہ شجاع اور پہلوان کوئی شخص نہیں ملتا”۔
جناب ام البنین (علیہاالسلام) کا حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی زوجیت کے لئے انتخاب: جب حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے جناب عقیل (علیہ السلام) سے اپنے لیے ایسی خاتون کے انتخاب کے بارے میں فرمایا جو شجاع ہو اور اس سے شجاع بیٹا پیدا ہو تو جناب عقیل (علیہ السلام) نے فاطمہ کلابیہ (ام البنینؑ) کو آنحضرتؑ کے لئے منتخب کیا جن کا قبیلہ اور خاندان، بنی کِلاب شجاعت میں بےمثال تھا اور حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اس انتخاب کو پسند کیا۔
نام میں تبدیلی لانا: جناب فاطمہ کلابیہ نے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ فاطمہ جو آپؑ کا نام ہے، اس کی جگہ آپؑ کو ام البنین کہا جائے تا کہ حضرت امیرالمومنین(علیہ السلام) کی اولاد کے لئے اپنے باپ کی زبان سے نامِ فاطمہ سن کر، اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) کی یاد تازہ نہ ہوجائے اور گذشتہ واقعات یاد نہ آنے لگ جائیں اور ماں کی عدم موجودگی انہیں تکلیف نہ دے،لہذا آپؑ کو ام البنین پکارا گیا۔
جناب ام البنین (علیہاالسلام) کی حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) سے بے حد محبت: حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کی کوشش یہ تھی کہ حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) کی خالی جگہ کو بچوں کے لئے پُر کریں، اُس ماں کی جگہ کو پُر کریں جو عین شباب کے عالم میں زمانہ کی ستم ظریفی کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر عالم بالا کی طرف پلٹ گئیں تو حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کی کوشش تھی کہ زندگی میں حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) کی خالی جگہ کو بچوں کے لئے پُر کریں، صدیقہ طاہرہ (علیہاالسلام) کے بچے جناب ام البنین (علیہاالسلام) کے وجود کے آئینہ میں اپنی والدہ کو پاتے تو اپنی والدہ کی عدم موجودگی کو کم محسوس کرتے۔ حضرت ام البنین (علیہاالسلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی کے بیٹوں کو اپنے بیٹوں پر فوقیت دیا کرتی تھیں اور اپنی زیادہ تر محبت کو حضرت فاطمہ (علیہاالسلام) کی اولاد پر نثار کرتیں تھیں۔
آپؑ کی اولاد: حضرت ام البنین (علیہاالسلام) اور حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی مشترکہ زندگی کا نتیجہ چار بیٹے تھے جو انہی بیٹوں کی وجہ سے ام البنین کہلائیں یعنی بیٹوں کی ماں۔ آپؑ کے بیٹوں کے نام ترتیب کے ساتھ قمربنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام)، عبداللہ، جعفر اور عثمان ہیں۔ جناب ام البنین (علیہاالسلام) کے سب بیٹے کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے اور آپؑ کی نسل حضرت عباس (علیہ السلام) کے بیٹے عُبیداللہ کے ذریعے آگے بڑھی۔
شہداء ہستیوں سے آپؑ کا تعلق: حضرت ام البنین (علیہاالسلام) وہ باعظمت خاتون ہیں جن کے شوہر حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) بھی شہید ہیں اور چاروں بیٹے بھی کربلا میں شہید ہوئے، اور جن حسن و حسین (علیہماالسلام) کو پروان چڑھایا تھا، وہ دو امام بھی مقام شہادت پر فائز ہوئے، یہ صابرہ مستور اِس مقام فخر کی حامل ہیں۔
سب کچھ امام حسین (علیہ السلام) پر قربان: جناب ام البنین (علیہاالسلام) کا دل حضرت سیدالشہداء امام حسین (علیہ السلام) کی محبت سے لبریز تھا۔ جب حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے واقعہ کربلا کے بعد واپس آتے ہوئے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے بشیر بن جذلم کو مدینہ بھیجا تا کہ وہ اہل بیت (علیہم السلام) کے واپس آنے اور حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر دے[1] تو حضرت ام البنین (علیہاالسلام) نے اس سے فرمایا: اے بشیر! امام حسین (علیہ السلام) کے بارے میں سناو۔ بشیر نے کہا: اللہ آپؑ کو صبر عطا فرمائے کہ آپؑ عباسؑ قتل ہوگئے۔ ام البنین (علیہاالسلام) نے فرمایا: مجھے امام حسین (علیہ السلام) کے بارے میں بتاو۔ بشیر نے آپؑ کے دیگر بیٹوں کی شہادت کی خبر آپؑ کو دی، لیکن آپؑ مسلسل حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے بارے میں پوچھتی تھیں اور آپؑ نے فرمایا: “میرے بیٹے اور جو کچھ آسمان کے نیچے ہے وہ میرے حسینؑ پر قربان ہو”۔ جب بشیر نے حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی آپؑ کو خبر دی تو آپؑ نے فریاد کی اور فرمایا: “اے بشیر! تم نے میرے دل کی رگ کاٹ دی” اور پھر آپؑ گریہ زاری کرنے لگیں۔ آپؑ کی حضرت امام حسین (علیہ السلام) سے یہ محبت آپؑ کے معنوی کمال کی واضح دلیل ہے کہ آپؑ نے اپنے چار بیٹوں کو حجتِ وقت اور ولیِ زمان پر قربان کرکے بیٹوں سے بڑھ کر مقام امامت و ولایت اور حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) کے مظلوم بیٹے حضرت سیدالشہداء امام حسین (علیہ السلام) کے لئے اتنی فوقیت اور عظمت کی معتقد تھیں کہ اپنے بیٹوں اور جو کچھ آسمان کے نیچے ہے، ان کو امام حسین (علیہ السلام) پر قربان سمجھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپؑ اہل بیت (علیہم السلام) کے مقام و منزلت کی خاص معرفت کی حامل تھیں کہ چار بیٹوں کی شہادت کی خبر سنتے ہوئے پہلے امام حسین (علیہ السلام) کی صورتحال سے مطلع ہونے کے لئے بے تاب تھیں۔
تاریخ وفات اور قبر مطہر: حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کا حضرت زینب کبری (علیہاالسلام) کے بعد انتقال ہوا، لیکن تاریخ نویسوں نے آپؑ کی وفات کی مختلف تاریخ لکھی ہیں، بعض نے ۷۰ ہجری قمری بیان کی ہے اور بعض نے۱۳ جمادی الثانی ۶۴ ہجری قمری کا ذکر کیا ہے جو زیادہ مشہور قول ہے۔ مشہور قول کے مطابق حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کی قبر مطہر، مدینہ کے قبرستان بقیع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھیوں عاتکہ اور صفیہ کی قبر کے پاس ہے۔
نتیجہ: حضرت ام البنین (علیہاالسلام) ایسی باعظمت خاتون ہیں جن کا خاندانی لحاظ سے شان و شوکت والے خاندان سے تعلق ہے اور شوہر مولائے کائنات حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) ہیں، اور پھر ایسی ہستیوں کو پروان چڑھایا ہے جو دوسرے اور تیسرے امام ہیں، جن کو اپنی حمایت اور نگرانی اور محبت مادری سے نوازا جو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی بے مثال اولاد ہے اور نیز حضرت علی (علیہ السلام) سے چار بیٹے جو سب کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے، جن میں سے سب سے بڑے حضرت عباس (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے اتنی بہادری اور شجاعت کی قوت کو اپنے وجود میں لیے ہوئے بھی امام حسین (علیہ السلام) کے حکم سے ذرہ برابر آگے بڑھنے کی ہرگز کوشش نہ کی اور نہ ہی حکم امامت سے ذرہ برابر پیچھے رہے، اتنی طاقت کے باوجود امامؑ سے آخری سانسوں تک وفا کی، یہ ماں کی تربیت کے اثر کو ظاہر کرتی ہے، جیسے حضرت عباس (علیہ السلام) کی والدہ جناب ام البنین (علیہاالسلام) نے امام حسن اور امام حسین (علیہماالسلام) اور حضرت زینب اور ام کلثوم (سلام اللہ علیہما) سے ایسی وفا کرتی رہیں کہ ان بچوں کو اپنی والدہ کی عدم موجودگی کم محسوس ہو، اِسی وفا کا عروج اور بلندی کربلا کے میدان میں حضرت عباس (علیہ السلام) کے بولنے اور خاموش رہنے اور عمل و کردار میں اطاعتِ امامؑ کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] امامؑ کے اس حکم اور اس کے مطابق بشیر نے جو عمل کیا اور لوگوں کے سامنے اشعار پڑھے، اس کی مزید تفصیل کے لئے دیکھیے: بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج45، ص147۔ مثیرالاحزان، ابن نما حلی، ص90۔ مقتل الحسین، ابو مخنف، ص239۔

تبصرے
Loading...