حضرت ابوطالب علیہ السلام کی موحدانہ اور مومنانہ زندگی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

حضرت ابوطالب علیہ السلام موحد گھرانہ میں عبدالمطلب جیسے باپ جو روحانی کمالات اور معنوی خدوخال کے حامل تھے، کے سائے میں پرورش پائے اور اپنے باپ کی طرح دین حنیف ابراہیمی کے راستے پر گامزن رہے اور منصب سقایت اور خانہ کعبہ کے زائرین کو پانی پہنچانا اور حضرت محمد (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی جان سے اچھے طریقہ سے حفاظت کو اپنے ذمہ لیا۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام نے نہ صرف مکہ کے لوگوں کے شرک اور بت پرستی کا اثر نہ لیا بلکہ جاہلیت کے کاموں کے سامنے مزاحمت کی اور شراب پینے کو اپنے اوپر حرام کیا اور اپنے آپ کو ہر طرح کی برائی اور آلودگی سے بچایا۔[1] آپؑ پہلے شخص تھے جنہوں نے “مقتول کے وارثوں کا قسم کھانا قتل کو ثابت کرنے کے لئے” کو فیصلہ کرنے کے لئے سنّت قرار دیا اور اس کو بعد میں اسلام نے بھی “قسامہ” کے نام سے تائید کیا۔[2]

مورخین نے لکھا ہے: “حضرت ابوطالب علیہ السلام نے ہجرت سے تین سال پہلے، پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور آنحضرتؐ کے اصحاب کا  “شعب” سے باہر آجانے کے بعد، شوال یا ذی القعدہ میں ۸۴ سال کی عمر میں وفات پائی۔[3]  اور اس حال میں دنیا سے الوداع کی کہ آپؑ کا دل، خدا پر ایمان اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے محبت سے لبریز تھا۔ آپؑ کے جسد مبارک کو مکہ معظمہ میں مقبرہ حجون میں جو “قبرستان ابوطالب” سے معروف ہے، دفن کیا گیا۔ آپؑ کی رحلت سے پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور اُس وقت کے مسلمانوں پر جن کی تعداد پچاس افراد سے کم تھی، غم اور دکھ چھاگیا کیونکہ وہ اس شخص کو جو اسلام کی راہ میں بہترین حامی، محافظ اور جانثار تھا، کھوبیٹھے تھے۔

بعض علمائے اہلسنّت جو حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کا دل میں کینہ رکھتے ہیں اور آنحضرتؑ کے فضائل کی اشاعت کی روک تھام کے لئے کسی کوشش سے دریغ نہیں کرتے تھے، آنحضرتؑ کے مقام کو کم کرنے کے لئے آپؑ کے والد گرامی کے اسلام کا انکار کردیا ہے، جن کے بارے میں ابن ابی الحدید کا کہنا ہے: “ان الاسلام لولا ابوطالب لم یکن شیئاً مذکورا” اگر ابوطالب نہ ہوتے تو ہرگز اسلام باقی نہ رہتا۔

حضرت ابوطالب علیہ السلام نے لمحہ بھر جانثاری سے دریغ نہ کیا اور خدا، قیامت اور پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) پر ایمان اور عقیدہ سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپؑ کے ایمان کے بارے میں ابن ابی الحدید کے یہی اشعار کافی ہیں: لولا ابوطالب و ابنه لما مثل الدین شخصا فقاما فذاک بمکه آوی و حامی و هذا بیثرب جس الحماما تکفل عبد مناف بامر و اودی فکان علی تماما”[4] اگر ابوطالب اور ان کے فرزند علی نہ ہوتے تو دین کے ستون قائم نہ ہوسکتے، ابوطالب نے مکہ میں اللہ کے دین کی مدد کی اور اسے پناہ دی اور علی مدینہ میں دین کے پرندہ کو پرواز میں لائے۔ ابوطالب نے ایسے کام کو اپنے ذمہ لیا کہ جب وفات پاگئے تو علی نے اسے اختتام پر پہنچایا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: مثل ابی طالب مثل اهل الکهف حین اسروا الایمان و اظهروا الشرک فآتاهم الله اجرهم مرتین [5]ابوطالب کی مثال، اصحاب کہف کی مثال ہے کہ انہوں نے اپنے ایمان کو چھپایا اور شرک کا اظہار کیا، لہذا خداوند نے انہیں دگنا اجر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ماخوذ: زندگینامه حضرت ابوطالب ( سلام الله علیه )، اصغر ناظم زاده قمی)

[1]  بحار الانوار، ج 35 ص 72

[2]  ابوطالب مؤمن قریش، ص 116.

[3]  کامل ابن اثیر، ج 1، ص 507.

[4]  شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، ج 14، ص 84.

[5]  بحار الانوار، ج 35 ص 72.

تبصرے
Loading...