سوره بقره آيات 81 – 100

سوره بقره آيات 81 – 100

بَلٰی مَنۡ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتۡ بِہٖ خَطِیۡٓــَٔتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ البتہ جو کوئی بدی اختیار کرے اور اس کے گناہ اس پر حاوی ہو جائیں تو ایسے لوگ اہل دوزخ ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔


وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿٪۸۲﴾

۸۲۔ اور جو ایمان لائیں اور اچھے اعمال بجا لائیں، یہ لوگ اہل جنت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

81۔ 82 اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر گناہ اس پر حاوی نہ ہوا ہو اور ہدایت و توبہ کے لیے ہنوز گنجائش موجود ہو تو نجات کی بھی گنجائش ہوتی ہے ۔ اللہ کی سنت اور اس کا عدل و انصاف یہ ہے کہ جزا عمل کے مطابق ہو۔ اگر گناہ اور معصیت انسان کی زندگی کو ڈھانپ لے اور ہدایت کی کوئی گنجائش نہ ہو تو اس کا لازمی نتیجہ جہنم ہے ۔

اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ جب تک انسان کے گناہ مکمل طور پر اس پر حاوی نہ ہو جائیں اس وقت تک ہدایت، توبہ اور نجات کی گنجائش باقی رہتی ہے۔


وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ ۟ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ ذِی ‌الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا وَّ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ ثُمَّ تَوَلَّیۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (اپنے) والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں پر احسان کرو اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو پھر چند افراد کے سوا تم سب برگشتہ ہو گئے اور تم لوگ روگردانی کرنے والے ہو۔

83۔ وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا : قرآن میں متعدد مقامات پر حسنِ گفتار کی تاکید ہوئی ہے کیونکہ حسنِ گفتار میں جادو کا اثر ہے جبکہ بدکلامی سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خوش کلامی میں احترام آدمیت ملحوظ رہتا ہے۔ اس لیے قرآنی تعلیمات میں اسے مادی قدروں سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ وَّ مَغۡفِرَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ صَدَقَۃٍ یَّتۡبَعُہَاۤ اَذًی ۔ (2: 263) خوش کلامی اور درگزر اس خیرات سے بہتر ہیں جس کے بعد ایذاء دی جائے۔


وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ لَا تَسۡفِکُوۡنَ دِمَآءَکُمۡ وَ لَا تُخۡرِجُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ ثُمَّ اَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَشۡہَدُوۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور (وہ وقت یاد کرو)جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ اپنوں کا خون نہ بہاؤ گے اور اپنے ہی لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے، پھر تم نے اس کا اقرار کر لیا جس کے تم خود گواہ ہو۔

84۔ بنی اسرائیل کے واقعات اس اہتمام کے ساتھ اس لیے بیان ہو رہے ہیں کہ یہ انسانی تاریخ کی سب سے پہلی اور عظیم تحریک تھی۔ جن اقدار کے لیے وقت کے طاغوت فرعون کے خلاف یہ تحریک چلی تھی وہ درج ذیل ہیں: ٭خدائے واحد کی بندگی۔ ٭ والدین سے حسن سلوک۔ ٭ قریبی رشتہ داروں سے نیکی۔ ٭یتیموں سے شفقت ۔٭ مسکینوں اور ناداروں سے حسن سلوک ۔ ٭ لوگوں سے خوش گفتاری۔ ٭اقامۂ نماز۔ ٭ادائے زکوۃ۔ ٭ ناحق خون ریزی سے اجتناب۔ ٭ اپنی قوم کے افراد کو جلاوطن نہ کرنے کا عہد۔


ثُمَّ اَنۡتُمۡ ہٰۤـؤُلَآءِ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ وَ تُخۡرِجُوۡنَ فَرِیۡقًا مِّنۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِہِمۡ ۫ تَظٰہَرُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ؕ وَ اِنۡ یَّاۡتُوۡکُمۡ اُسٰرٰی تُفٰدُوۡہُمۡ وَ ہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیۡکُمۡ اِخۡرَاجُہُمۡ ؕ اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔ پھر تم ہی وہ لوگ ہو جو اپنے افراد کو قتل کرتے ہو اور اپنوں میں سے ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو، پھر گناہ اور ظلم کر کے ان کے دشمنوں کی مدد کرتے ہو اور اگر وہ قید ہو کر تمہارے پاس آتے ہیں تو تم فدیہ دے کر انہیں چھڑا لیتے ہو، حالانکہ انہیں نکالنا ہی تمہارے لیے سرے سے حرام تھا، کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصے سے کفر اختیار کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو ایسا کرے دنیاوی زندگی میں اس کی سزا رسوائی کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے؟ اور آخرت میں (ایسے لوگ) سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔

85۔ عہد نبوی کے معاصر یہودی، دو بڑے قبائل (بنی نضیر اور بنی قریظہ ) میں بٹے ہوئے تھے۔ یہودی جب آپس میں لڑتے تو مشرکین سے مدد لیتے تھے اور جب کوئی یہودی دوسرے فریق کے اتحادی مشرکین کا اسیربن جاتا اور فدیہ دے کر اسیروں کو چھڑانے کی نوبت آتی تو حکم خدا کا حوالہ دیتے تھے۔ یہ تبعیض فی الایمان اور تضاد فی العمل کتنی غیر معقول روش ہے۔


اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا بِالۡاٰخِرَۃِ ۫ فَلَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ﴿٪۸۶﴾

۸۶۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے میں دنیاوی زندگی خرید لی ہے پس ان کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہو گی اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔


وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ قَفَّیۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ بِالرُّسُلِ ۫ وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ۚ فَفَرِیۡقًا کَذَّبۡتُمۡ ۫ وَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے، اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو نمایاں نشانیاں عطا کیں اور روح القدس کے ذریعے ان کی تائید کی تو کیا جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات کے خلاف (احکام لے کر) آئے تو تم اکڑ گئے، پھر تم نے بعض کو جھٹلا دیا اور بعض کو تم لوگ قتل کرتے رہے؟

87۔ بنا بر قولے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے درمیان چار ہزار انبیاء مبعوث ہوئے اور بعض کے نزدیک یہ تعداد ستر ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ حضرت عیسیٰ (ع) بنی اسرائیل کے آخری الوالعزم نبی ہیں۔ آپؑ کی ولادت عام بشری طریقے سے مختلف ہوئی، اس لیے آپؑ کے مزاج میں ملکوتیت غالب رہی اور آپؑ روح القدس سے زیادہ مانوس تھے۔

اسلامی اصطلاح میں روح القدس جبرئیل کا نام ہے جو انبیاء پر وحی لے کر نازل ہوتے رہے۔ اس کا اس مسیحی اصطلاح سے کوئی تعلق نہیں جس میں وہ روح القدس کو تثلیث مقدس کا ” اقنوم ثالث ” قرار دیتے ہیں ۔


وَ قَالُوۡا قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفۡرِہِمۡ فَقَلِیۡلًا مَّا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ اور وہ کہتے ہیں : ہمارے دل غلاف میں بند ہیں، (نہیں) بلکہ ان کے کفر کے باعث اللہ نے ان پر لعنت کر رکھی ہے، پس اب وہ کم ہی ایمان لائیں گے۔

88۔ یہودیوں کا نظریہ ہے کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں، لہٰذا ان پر اسلامی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اللہ فرماتا ہے: ان کا ایمان نہ لانا ان کے راندۂ درگاہ ہونے کی وجہ سے ہے۔


وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ کِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ ۙ وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ یَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚۖ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔ اور جب اللہ کی جانب سے وہ کتاب آئی جو ان کے پاس موجود باتوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور وہ پہلے کافروں پر فتح کی امید رکھتے تھے، پھر جب ان کے پاس وہ آگیا جسے وہ خوب پہچانتے تھے تو وہ اس کے منکر ہو گئے، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو۔

89۔ رسولِ کریمؐ کی آمد سے پہلے یہودی ان کے منتظر رہتے تھے اور کہتے تھے کہ جب وہ آئیں گے تو ہمیں کافروں پر فتح حاصل ہو گی۔ جب وہ نبی (ص) آگئے تو اوس و خزرج کے قبائل نے ایمان لانے میں پہل کی لیکن وہ یہودی جو ان کی آمد کے منتظر تھے، دشمن بن گئے۔


بِئۡسَمَا اشۡتَرَوۡا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمۡ اَنۡ یَّکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ بَغۡیًا اَنۡ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ۚ فَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿۹۰﴾

۹۰۔کتنی بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کا سودا کیا کہ صرف اس بات کی ضد میں خدا کے نازل کیے کا انکار کرتے ہیں کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل نازل کرتا ہے، پس وہ اللہ کے غضب بالائے غضب میں گرفتار ہوئے اور کافروں کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔

90۔ یہودی صرف حسد کی بنا پر اسلام کے خلاف ہو گئے، ورنہ وہ اسلام کی حقانیت سے آگاہ اور اس کے منتظر تھے۔


وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا نُؤۡمِنُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا وَ یَکۡفُرُوۡنَ بِمَا وَرَآءَہٗ ٭ وَ ہُوَ الۡحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمۡ ؕ قُلۡ فَلِمَ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡۢبِیَآءَ اللّٰہِ مِنۡ قَبۡلُ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۹۱﴾

۹۱۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو اللہ نے اتارا ہے اس پر ایمان لے آؤ تو جواب دیتے ہیں: ہم تو اس پر ایمان لاتے ہیں جو ہم پر نازل ہوا ہے، اس کے علاوہ وہ کسی چیز کو نہیں مانتے، حالانکہ وہ حق ہے اور جو کتاب ان کے پاس ہے اس کی تصدیق کرتا ہے، کہدیجئے: اگر تم مومن تھے تو اللہ کے پیغمبروں کو پہلے کیوں قتل کرتے رہے ہو؟

91۔ وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ… ۔: جب یہودیوں کو ایمان کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ اپنے دین کو آخری دین سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم صرف توریت پر ایمان لانے کے پابند ہیں۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز پر ایمان نہیں لائیں گے۔ حالانکہ خود توریت کے مطابق یہودیت آخری دین نہیں بلکہ اس میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشخبری موجود تھی۔

قُلۡ فَلِمَ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡۢبِیَآءَ اللّٰہِ ۔ اگر تمہارا یہ دعویٰ درست ہے کہ قَالُوۡا نُؤۡمِنُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا ” ہم تو اس (توریت) پر ایمان لاتے ہیں جو ہم پر نازل ہوئی ” تو تم نے انبیاءؑ کو کیوں قتل کیا؟ حالانکہ وہ ا بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ یعنی توریت ہی کی تشریح و تفسیر اور اس کے احکام کی ترویج کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تم توریت پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔


وَ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ مُّوۡسٰی بِالۡبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذۡتُمُ الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَ اَنۡتُمۡ ظٰلِمُوۡنَ﴿۹۲﴾

۹۲۔اور بتحقیق موسیٰ تمہارے پاس واضح دلائل لے کر آئے پھر تم نے اس کے بعد گوسالہ کو اختیار کیا اور تم لوگ ظالم ہو۔

92۔ بنی اسرائیل کی ضلالت اورمشرکانہ حرکات کی طرف تعجب کے انداز میں اشارہ ہو رہا ہے کہ ان لوگوں نے خود صاحب شریعت کی زندگی میں مشرکانہ عمل شروع کر دیا۔ صرف چند روز کی غیبت کی وجہ سے اکثر گمراہ ہو گئے اور وہ بھی گوسالہ پرستی جیسے ذلت آمیز اور پست عمل کو اختیار کرکے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایسی نامعقول حرکت حضرت موسیٰ (ع) کی طرف سے واضح دلائل اور روشن نشانیاں آنے کے بعد عمل میں آئی۔


وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ وَ رَفَعۡنَا فَوۡقَکُمُ الطُّوۡرَ ؕ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اسۡمَعُوۡا ؕ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ عَصَیۡنَا ٭ وَ اُشۡرِبُوۡا فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡعِجۡلَ بِکُفۡرِہِمۡ ؕ قُلۡ بِئۡسَمَا یَاۡمُرُکُمۡ بِہٖۤ اِیۡمَانُکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۹۳﴾

۹۳۔ اور (یاد کرو) جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا اور کوہ طور کو تمہارے اوپر اٹھایا تھا (اور حکم دیا تھا) جو چیز (توریتـ) ہم نے تمہیں دی ہے اسے مضبوطی سے پکڑو اور سنو، انہوں نے کہا: ہم نے سن تو لیا مگر مانا نہیں اور ان کے کفر کے باعث ان کے دلوں میں گوسالہ رچ بس گیا، کہدیجئے: اگر تم مومن ہو تو تمہارا ایمان تم سے بہت برے تقاضے کرتا ہے۔

93۔ ان کے کفر کی وجہ سے گوسالہ پرستی ان کے دلوں میں رچ بس گئی، یعنی ایک نافرمانی، دوسری نافرمانی اور ایک جرم، دوسرے جرم کو جنم دیتا ہے۔


قُلۡ اِنۡ کَانَتۡ لَکُمُ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ عِنۡدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنۡ دُوۡنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۹۴﴾

۹۴۔ کہدیجئے: اگر اللہ کے نزدیک دار آخرت دوسروں کی بجائے خالصتاً تمہارے ہی لیے ہے اور تم ( اس بات میں ) سچے بھی ہو تو ذرا موت کی تمنا کرو۔

94۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اخروی زندگی صرف انہی کے لیے مخصوص ہے، جبکہ دوسرے لوگ اس سے محروم ہوں گے اور اگر کسی یہودی کو عذاب ہو گا بھی تو صرف چند دنوں کے لیے۔ مثلاً جتنے دن گوسالہ پرستی میں گزرے ہیں، اتنے ہی عذاب کے دن ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے اس عقیدے کے مطابق الزامی تنبیہ فرمائی کہ اگر آخرت کی زندگی اور آسودگی صرف تمہارے لیے ہی چشم براہ ہے تواس کے حصول کی کوشش ایک طبعی اور فطری امر ہے۔ بنابرایں اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو ذرا موت کی تمنا کر کے تو دکھاؤ۔

اس آیت سے اللہ کے مخلص بندوں کا معیار واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ کے مخلص بندے موت کے مشتاق اور بارگاہ پروردگار میں جانے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ اللہ کے حقیقی ولی حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے: وَاللّٰہِ لاَبْنُ اَبِی طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْیِ اُمِّہِ ۔ یعنی، قسم بخدا ! ماں کے سینے سے بچے کے انس سے زیادہ ابوطالب کا بیٹا موت سے مانوس ہے۔ (نہج البلاغہ ص 62 خ 5 خلقہ و عملہ)

دوسری جگہ فرمایا: فَوَ اللّٰہِ مَا اُبَالِیْ دَخَلْتُ اِلَی الْمَوْتِ اَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ اِلَیَّ ۔ قسم بخدا! مجھے پرواہ نہیں کہ موت مجھ پر آ گرتی ہے یا میں موت پر جا گرتا ہوں۔ (نہج البلاغہ: خ 55)


وَ لَنۡ یَّتَمَنَّوۡہُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔ اور وہ موت کے متمنی ہرگز نہ ہوں گے، ان گناہوں کی وجہ سے جو وہ اپنے ہاتھوں کر چکے ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔


وَ لَتَجِدَنَّہُمۡ اَحۡرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ ۚۛ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚۛ یَوَدُّ اَحَدُہُمۡ لَوۡ یُعَمَّرُ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ وَ مَا ہُوَ بِمُزَحۡزِحِہٖ مِنَ الۡعَذَابِ اَنۡ یُّعَمَّرَ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ﴿٪۹۶﴾

۹۶۔ (اے رسول!) اور آپ ان لوگوں کو زندگی کا سب سے زیادہ حریص پائیں گے، حتیٰ کہ مشرکین سے بھی زیادہ، ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش اسے ہزار سال عمر ملے، حالانکہ اگر اسے یہ عمر مل بھی جائے تو یہ بات اس کے عذاب کو ہٹا نہیں سکتی اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب دیکھتا ہے۔


قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۹۷﴾

۹۷۔ آپ کہدیجئے: جو کوئی جبرائیل کا دشمن ہے (وہ یہ جان لے کہ) اس نے (تو) اس قرآن کو باذن خدا آپ کے قلب پر نازل کیا جو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو پہلے سے موجود ہے اور یہ (قرآن) ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے۔

97۔ جِبۡرِیۡلَ غیر عربی لفظ ہے جو بنابر قولے جبر اور ایل سے مرکب ہے یعنی قوت خدا۔

قلب مراد صنوبری شکل کا لحمیاتی عضو نہیں ہے، بلکہ اس کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ انسان کے اندر موجود مختلف جہتوں کے لیے جس چیز کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اسے قلب کہتے ہیں اور یہ عقل و شعور کا بھی مرکز و محور ہے۔ قلب رسولؐ پر وحی نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رسولِ کریمؐ علم حضوری کے طور پر اپنے وجود سے وحی کا ادراک کرتے تھے، نہ کہ محسوسات کی طرح صرف حواس سے یا معقولات کی طرح صرف عقل سے، بلکہ ان سے واضح تر، جیسے خود اپنے وجود کا ادراک۔ کیونکہ اگر سمعی و بصری ذرائع سے وحی کا ادراک ہوتا تو یہ وسائل جن کے پاس بھی ہوتے وہ باآسانی وحی کا ادراک کر لیتے۔


مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّلّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ جِبۡرِیۡلَ وَ مِیۡکٰىلَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوٌّ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ﴿۹۸﴾

۹۸۔ جو کوئی اللہ، اس کے فرشتوں، رسولوں اور (خاص کر) جبرائیل و میکائیل کا دشمن ہو تو اللہ(ایسے) کافروں کا دشمن ہے۔


وَ لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ۚ وَ مَا یَکۡفُرُ بِہَاۤ اِلَّا الۡفٰسِقُوۡنَ﴿۹۹﴾

۹۹۔ اور ہم نے آپ پر واضح نشانیاں نازل کی ہیں،اور ان کا انکار صرف بدکردار لوگ ہی کر سکتے ہیں۔


اَوَ کُلَّمَا عٰہَدُوۡا عَہۡدًا نَّبَذَہٗ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ کیا ( ایسا نہیں ہے کہ) ان لوگوں نے جب بھی کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اسے اٹھا پھینکا،بلکہ ان میں سے اکثر تو ایمان ہی نہیں رکھتے۔


تبصرے
Loading...