سوره بقره آيات 61 – 80

سوره بقره آيات 61 – 80

وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰی لَنۡ نَّصۡبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُخۡرِجۡ لَنَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ مِنۡۢ بَقۡلِہَا وَ قِثَّآئِہَا وَ فُوۡمِہَا وَ عَدَسِہَا وَ بَصَلِہَا ؕ قَالَ اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِیۡ ہُوَ اَدۡنٰی بِالَّذِیۡ ہُوَ خَیۡرٌ ؕ اِہۡبِطُوۡا مِصۡرًا فَاِنَّ لَکُمۡ مَّا سَاَلۡتُمۡ ؕ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ﴿٪۶۱﴾

۶۱۔ اور ( وہ وقت یاد کرو) جب تم نے کہا تھا : اے موسیٰ! ہم ایک ہی قسم کے طعام پر ہرگز صبر نہیں کر سکتے، پس آپ اپنے رب سے کہدیجئے کہ ہمارے لیے زمین سے اگنے والی چیزیں فراہم کرے، جیسے ساگ، ککڑی، گیہوں، مسور اور پیاز، (موسیٰ نے) کہا:کیا تم اعلیٰ کی جگہ ادنیٰ چیز لینا چاہتے ہو؟ ایسا ہے تو کسی شہر میں اتر جاؤ جو کچھ تم مانگتے ہو تمہیں مل جائے گا اور ان پر ذلت و محتاجی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں مبتلا ہو گئے، ایسا اس لیے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے اور یہ سب اس لیے ہوا کہ وہ نافرمانی اور حد سے تجاوز کیا کرتے تھے۔

61۔اس آیت میں بنی اسرائیل کی سرکش ذہنیت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی جنگ لڑ رہے تھے۔ حال ہی میں ایک جابر اور خونخوار حکمران سے نجات حاصل کی تھی۔ ایسے نامساعد حالات میں عزت سے جو بھی میسر آئے، صبر کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ ناشکرے من و سلویٰ جیسی ضیافت پر بھی صبر کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ چنانچہ اس ناشکری کی وجہ سے وہ ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوئے۔

مِصۡرًا سے مراد کوئی بھی شہر ہے کیونکہ یہ چیزیں شہری اور متمدن ماحول میں میسر آتی ہیں۔ اس سے مراد معروف شہر مصر لینا درست نہیں ہے۔

ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا یعنی یہ لوگ کفر اور قتل انبیاء کے مرتکب اس لیے ہوئے کہ وہ عصیان کے عادی ہو گئے تھے اور جرائم کے ارتکاب کے بعد بھی گناہ کا احساس نہیں کرتے تھے۔


اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ النَّصٰرٰی وَ الصّٰبِئِیۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۪ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۶۲﴾

۶۲۔ بے شک جو لوگ ایمان لا چکے ہیں اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے تو ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

62:آیۂ شریفہ کا ماحصل یہ بنتا ہے: اپنے زمانے کے برحق نبی اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کے بعد عمل صالح بجا لانے والا نجات پائے گا۔
صابی مذہب کے کچھ پیروکار ایران اور عراق میں پائے جاتے ہیں۔ عراق میں دجلہ و فرات کے ساحلی علاقوں میں آباد صابی اپنے آپ کو حضرت یحیٰ (ع) کے پیروکار سمجھتے ہیں۔ ان کی مقدس کتاب کانزا ربا اور کنزا سدرہ میں رسول اسلامؐ کی آمد کی پیشگوئی بھی ہے۔ (قاموس قرآن)

شان نزول: حضرت سلمانؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا: میرے ان ساتھیوں کا کیا بنے گا جو اپنے دین پر عمل پیرا تھے اور عبادت گزار تھے؟ اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی۔ ابتدائے اسلام میں یہ سوال بہت سے مسلمانوں کو درپیش تھا کہ دین مسیح کے پیروکاروں کے آباء و اجداد کا انجام کیا ہو گا؟ ان کی تشفی کے لیے آیت نازل ہوئی کہ اگر وہ اپنے مذہب کے مخلص پیروکار اور عبادت گزار تھے تو نجات پائیں گے۔


وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ وَ رَفَعۡنَا فَوۡقَکُمُ الطُّوۡرَ ؕ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔اور ( وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے اوپر (کوہ) طور کو بلند کیا (اور تمہیں حکم دیا کہ) جو (کتاب) ہم نے تمہیں دی ہے اسے پوری قوت سے پکڑ رکھو اور جو کچھ اس میں موجود ہے اسے یاد رکھو (اس طرح) شاید تم بچ سکو۔

63۔ بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ کو معلق کرنے کی غرض و غایت بیان نہیں ہوئی۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی عظمت و قوت کا اظہار کرنا چاہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ کی نشانی اور معجزے کے طور پر ان پر حجت پوری کی ہو۔


ثُمَّ تَوَلَّیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ ۚ فَلَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ لَکُنۡتُمۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۶۴﴾

۶۴۔پھر اس کے بعد تم پلٹ گئے۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم گھاٹے میں ہوتے۔


وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ الَّذِیۡنَ اعۡتَدَوۡا مِنۡکُمۡ فِی السَّبۡتِ فَقُلۡنَا لَہُمۡ کُوۡنُوۡا قِرَدَۃً خٰسِئِیۡنَ ﴿ۚ۶۵﴾

۶۵۔اور تم اپنے ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جنہوں نے سبت (ہفتہ) کے بارے میں تجاوز کیا تھا تو ہم نے انہیں حکم دیا تھا: ذلیل بندر بن جاؤ۔

65۔ سبت (ہفتے کا دن) یہود کے ہاں متبرک ایام میں سے اور عبادت کا دن ہے۔ اس دن انہیں سیر و شکار اور کام کاج کی ممانعت تھی جس کی وجہ سے مچھلیاں اس دن زیادہ مقدار میں سطح آب پر ظاہر ہوتی تھیں۔ دریا پر بسنے والوں نے مختلف حیلے بہانوں سے اس دن بھی مچھلیوں کا شکار کرنا شروع کر دیا تو اللہ نے انہیں مسخ کر دیا۔


فَجَعَلۡنٰہَا نَکَالًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہَا وَ مَا خَلۡفَہَا وَ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ﴿۶۶﴾

۶۶۔چنانچہ ہم نے اس (واقعے) کو اس زمانے کے اور بعد کے لوگوں کے لیے عبرت اور تقویٰ رکھنے والوں کے لیے نصیحت بنا دیا۔


وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖۤ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تَذۡبَحُوۡا بَقَرَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَتَّخِذُنَا ہُزُوًا ؕ قَالَ اَعُوۡذُ بِاللّٰہِ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔اور (یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : خدا تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے، وہ بولے: کیا آپ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں؟ (موسیٰ نے) کہا: پناہ بخدا! میں (تمہارا مذاق اڑا کر) جاہلوں میں شامل ہو جاؤں؟

67۔ شاید گوسالہ پرست قوم کے ایمان باللہ کا امتحان مقصود ہے کہ وہ جس گائے کو مقدس سمجھتے رہے ہیں، اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کریں۔

یہاں سے بقرہ یعنی گائے کا قصہ شروع ہوتا ہے جس کے ذکر کی وجہ سے اس سورے کا نام سورۃ بَقَرۃ رکھا گیا ہے۔ قصہ یہ ہے: بنی اسرائیل کا ایک شخص قتل ہو گیا، قتل کا سراغ نہیں مل رہا تھا، چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ وہ ایک گائے ذبح کریں اور اس کا ایک حصہ مقتول کی لا ش پر ماریں تاکہ وہ زندہ ہو جائے اور قاتل کی نشاندہی کر دے۔


قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ؕ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِکۡرٌ ؕ عَوَانٌۢ بَیۡنَ ذٰلِکَ ؕ فَافۡعَلُوۡا مَا تُؤۡمَرُوۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔وہ بولے:اپنے رب سے ہماری خاطر درخواست کیجیے کہ وہ ہمیں بتائے کہ گائے کیسی ہو، کہا: وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ بوڑھی ہو اور نہ بچھیا، (بلکہ) درمیانی عمر کی ہو، پس جس بات کا تمہیں حکم دیا گیا ہے، اب اسے بجا لاؤ۔


قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا لَوۡنُہَا ؕ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ صَفۡرَآءُ ۙ فَاقِعٌ لَّوۡنُہَا تَسُرُّ النّٰظِرِیۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ کہنے لگے: اپنے رب سے ہمارے لیے درخواست کیجیے کہ وہ ہمیں بتائے کہ اس گائے کا رنگ کیسا ہو؟ کہا: وہ فرماتا ہے کہ اس گائے کا رنگ گہرا زرد اور دیکھنے والوں کے لیے فرحت بخش ہو۔


قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ۙ اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا ؕ وَ اِنَّاۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ لَمُہۡتَدُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔انہوں نے کہا: اپنے رب سے (پھر) درخواست کیجیے کہ وہ ہمیں بتائے کہ وہ گائے کیسی ہو؟ گائے ہم پر مشتبہ ہو گئی ہے اور اگر خدا نے چاہا تو ہم اسے ضرور ڈھونڈ لیں گے۔


قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوۡلٌ تُثِیۡرُ الۡاَرۡضَ وَ لَا تَسۡقِی الۡحَرۡثَ ۚ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیۡہَا ؕ قَالُوا الۡـٰٔنَ جِئۡتَ بِالۡحَقِّ ؕ فَذَبَحُوۡہَا وَ مَا کَادُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ﴿٪۷۱﴾

۷۱۔( موسیٰ نے ) کہا: اللہ فرماتا ہے کہ وہ گائے ایسی سدھائی ہوئی نہ ہو جو ہل چلائے اور کھیتی کو پانی دے (بلکہ) وہ سالم ہو، اس پر کسی قسم کا دھبہ نہ ہو،کہنے لگے:اب آپ نے ٹھیک نشاندہی کی ہے، پھر انہوں نے گائے کو ذبح کر دیا حالانکہ وہ ایسا کرنے والے نہیں لگتے تھے۔


وَ اِذۡ قَتَلۡتُمۡ نَفۡسًا فَادّٰرَءۡتُمۡ فِیۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ مُخۡرِجٌ مَّا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ ﴿ۚ۷۲﴾

۷۲۔اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا،پھر ایک دوسرے پر اس کا الزام لگانے لگے، لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے اللہ اسے ظاہر کر نے والا تھا۔


فَقُلۡنَا اضۡرِبُوۡہُ بِبَعۡضِہَا ؕ کَذٰلِکَ یُحۡیِ اللّٰہُ الۡمَوۡتٰی ۙ وَ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۷۳﴾

۷۳۔تو ہم نے کہا : گائے کا ایک حصہ اس (مقتول) کے جسم پر مارو، یوں اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔

68تا73۔ تفصیلات کامطالبہ دراصل اس حکم کو ٹالنے کی کوشش تھی۔ چنانچہ آیت 71کے آخری جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنے کی امید نہ تھی۔ یعنی وہ گائے کو ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے۔ واقعاتی ترتیب کے لحاظ سے پہلے قتل کا اور بعد میں گائے ذبح کرنے کا تذکرہ ہونا چاہیے تھا ۔ لیکن چونکہ یہاں آدمی کا قتل محل کلام نہیں، بلکہ گائے ذبح کرنے کے سلسلے میں اسرائیلیوں کے لیت و لعل اورا ن کی سرکشی و نافرمانی کا بیان مقصود ہے، اس لیے گائے کا واقعہ پہلے مذکور ہوا۔ علاوہ ازیں سبب کے عدم بیان سے ایک تجسس پیدا ہو جاتا ہے کہ آخر گائے ذبح کرنے کا حکم کس لیے دیا جا رہا ہے؟

قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا : احکام دین کی تبلیغ کو لوگ تمسخر قرار دیتے تھے، حضرت موسیٰ (ع) تمسخر کو جاہلانہ عمل قرار دیتے ہیں اور اس سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔

اَعُوۡذُ بِاللّٰہِ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں۔

فَذَبَحُوۡہَا : بنی اسرائیل کو ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ وہ لوگ اگر حکم کی تعمیل میں مخلص ہوتے تو فوراً ایک گائے ذبح کر دیتے، لیکن وہ فرمانبرداری پر قلباً آمادہ نہیں تھے۔ اس لیے وہ طرح طرح کی حیل و حجت کرنے لگے۔ اس حکم سے پہلوتہی کی خاطر انہوں نے طرح طرح کے سوالات کیے۔ جب ان کے ہر بہانے کا جواب دیا گیا تو انہوں نے یہ کہ کر ٹالنے کی کوشش کی: اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا “گائے ہم پر مشتبہ ہو گئی” اور جب اس کا جواب بھی تفصیل سے ملا اور کسی قسم کے اشتباہ اور حیلے بہانے کی گنجائش نہ رہی تو مجبوراً گائے ذبح کرنی ہی پڑی۔ “حالانکہ ایسا کرنے کی امید نہ تھی۔”

کچھ افراد کا یہ نظریہ ہے کہ یُحۡیِ اللّٰہُ الۡمَوۡتٰی سے مراد وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ ” تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے” کی طرح نفاذ شریعت ہے جو موجب حیات و نجات ہے، مگر آیت کا ظاہری مفہوم اس تاویل کی بھی نفی کرتا ہے۔


ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالۡحِجَارَۃِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَۃً ؕ وَ اِنَّ مِنَ الۡحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنۡہُ الۡاَنۡہٰرُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخۡرُجُ مِنۡہُ الۡمَآءُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَہۡبِطُ مِنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕوَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ پھر اس کے بعد بھی تمہارے دل سخت رہے، پس وہ پتھر کی مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے، کیونکہ پتھروں میں سے کوئی تو ایسا ہوتا ہے جس سے نہریں پھوٹتی ہیں اور کوئی ایسا ہے کہ جس میں شگاف پڑ جاتا ہے تو اس سے پانی بہ نکلتا ہے اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو ہیبت الٰہی سے نیچے گر پڑتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔

74۔ بنی اسرائیل کی سنگدلی کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ وہ اللہ کی واضح نشانیاں دیکھنے، حق ثابت ہونے، توحید و رسالت پر کافی دلائل کا مشاہدہ کرنے اور حجت خدا پوری ہونے کے بعد بھی ہدایت نہ پا سکے۔


اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا لَکُمۡ وَ قَدۡ کَانَ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوۡنَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوۡہُ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ کیا تم اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ (ان سب باتوں کے باوجود یہودی) تمہارے دین پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جو اللہ کا کلام سنتا ہے، پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر اس میں تحریف کر دیتا ہے۔

75۔ سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جن سے بنی اسرائیل کو نوازا۔ لیکن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے ان تمام احسانات کا شکریہ ادا کر نے کی بجائے خدا کی نافرمانی کی۔ سرکش یہودیوں کی تاریخ کے چند سیاہ باب ذکر فرمانے کے بعداب روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے، جو دراصل مقصود کلام ہیں۔ ارشاد ہوتاہے: اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا لَکُمۡ ۔ کیا تم یہودیوں سے اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہارے دین پرایمان لے آئیں گے۔ہمارے معاصریہودیوں کے بارے میں اس آیہ شریفہ سے یوں رہنمائی لینی چاہیے کہ کیا ان یہودیوں سے انسان دوستی، انسانی حقوق اور باہمی تعاون کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ کیا یہودی انسانی و اخلاقی اقدار پر ایمان لے آئیں گے؟ ہرگز نہیں۔


وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَ اِذَا خَلَا بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ قَالُوۡۤا اَتُحَدِّثُوۡنَہُمۡ بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ لِیُحَآجُّوۡکُمۡ بِہٖ عِنۡدَ رَبِّکُمۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔ جب وہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لا چکے ہیں اور جب خلوت میں اپنے ساتھیوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: جو راز اللہ نے تمہارے لیے کھولے ہیں وہ تم ان (مسلمانوں) کو کیوں بتاتے ہو؟ کیا تم نہیں سمجھتے کہ وہ (مسلمان) اس بات کو تمہارے رب کے حضور تمہارے خلاف دلیل بنائیں گے؟


اَ وَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا یُسِرُّوۡنَ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔کیا (یہود) نہیں جانتے کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے، خواہ وہ چھپائیں یا ظاہر کریں ؟

77۔ اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ یہودیوں کا گمان ان کی مادی سوچ کی علامت ہے کہ اگر لوگوں سے کوئی بات چھپائی جائے تو وہ اللہ سے بھی چھپ سکتی ہے۔ وہ اپنے زعم باطل میں دلیل و حجت کو خدا سے پنہاں کر رہے ہیں، جب کہ اللہ ظاہر و باطن سب کو جانتاہے ۔


وَ مِنۡہُمۡ اُمِّیُّوۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ الۡکِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ان میں کچھ ایسے ناخواندہ لوگ ہیں جو کتاب (توریت) کو نہیں جانتے سوائے جھوٹی آرزوؤں کے اور بس وہ اپنے خیال خام میں رہتے ہیں۔

78۔ بے علم حضرات ہمیشہ بے بنیاد امیدوں اور جھوٹی توقعات پر تکیہ کرتے ہیں۔ وہ نجات کے لیے فرائض و اعمال، اخلاق حسنہ اور احکام و حدود کی پابندیاں ضروری نہیں سمجھتے۔


فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ یَکۡتُبُوۡنَ الۡکِتٰبَ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ٭ ثُمَّ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰذَا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ لِیَشۡتَرُوۡا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ فَوَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا کَتَبَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ وَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۷۹﴾

۷۹۔پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو (توریت کے نام سے) ایک کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے تاکہ اس کے ذریعے ایک ناچیز معاوضہ حاصل کریں، پس ہلاکت ہو ان پر اس چیز کی وجہ سے جسے ان کے ہاتھوں نے لکھا اور ہلاکت ہو ان پر اس کمائی کی وجہ سے۔

79۔ توریت کی تحریف کا مسئلہ اب ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے۔ خود یہود بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے کہ توریت بالفاظہ اللہ کا کلام ہے،بلکہ جدید تحقیقات سے تو یہاں تک عقدہ کشائی ہوئی ہے کہ توریت کے قوانین حمورابی (قدیم بابلی بادشاہ جس نے تاریخ میں سب سے پہلے قوانین سلطنت وضع کیے) کے قوانین سے ملتے جلتے ہیں۔


وَ قَالُوۡا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدَۃً ؕ قُلۡ اَتَّخَذۡتُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ عَہۡدًا فَلَنۡ یُّخۡلِفَ اللّٰہُ عَہۡدَہٗۤ اَمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ اور ( یہودی ) کہتے ہیں: ہمیں تو جہنم کی آگ گنتی کے چند دنوں کے علاوہ چھو نہیں سکتی۔ (اے رسول) کہدیجئے: کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھا ہے کہ اللہ اپنے عہد کے خلاف ہرگز نہیں کرے گا یا تم اللہ پر تہمت باندھ رہے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے؟

80۔ یہودیوں میں پائی جانے والی عام غلط فہمیوں، خام خیالیوں اور غلط تمناؤں کا تذکرہ ہے، جن کی بنا پر وہ اپنے آپ کو اللہ کی ایسی برگزیدہ امت سمجھتے ہیں، جس پر جہنم کی آگ حرام ہے۔ ان کے زعم میں ان کا بہت زیادہ مجرم اور گنہگار شخص اگر سزا کا مستحق ٹھہرے بھی تو اسے صرف چند دنوں کے لیے سزا دی جائے گی۔


تبصرے
Loading...