سوره بقره آيات 101 – 120

سوره بقره آيات 101 – 120

وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ نَبَذَ فَرِیۡقٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ ٭ۙ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآءَ ظُہُوۡرِہِمۡ کَاَنَّہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۰۱﴾۫

۱۰۱۔اور جب اللہ کی جانب سے ان کے پاس ایک ایسا رسول آیا جو ان کے ہاں موجود (کتاب)کی تصدیق کرتا ہے تو اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا گویا کہ اسے جانتے ہی نہیں۔

101۔ یہود و نصاریٰ کو بحیثیت قوم کتاب دی گئی، ورنہ نزول قرآن کے معاصر یہود و نصاریٰ کے پاس توریت و انجیل کا کامل نسخہ موجود نہیں تھا، تاہم اصل توریت و انجیل کا ایک حصہ تحریف شدہ توریت و انجیل میں جا بجا پایا جاتا ہے۔


وَ اتَّبَعُوۡا مَا تَتۡلُوا الشَّیٰطِیۡنُ عَلٰی مُلۡکِ سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا یُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ ٭ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ بِبَابِلَ ہَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلَا تَکۡفُرۡ ؕ فَیَتَعَلَّمُوۡنَ مِنۡہُمَا مَا یُفَرِّقُوۡنَ بِہٖ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ زَوۡجِہٖ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِضَآرِّیۡنَ بِہٖ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ یَتَعَلَّمُوۡنَ مَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ ؕ وَ لَقَدۡ عَلِمُوۡا لَمَنِ اشۡتَرٰىہُ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ ۟ؕ وَ لَبِئۡسَ مَا شَرَوۡا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔اور سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین جو کچھ پڑھا کرتے تھے یہ (یہودی) اس کی پیروی کرنے لگ گئے حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین کفر کیا کرتے تھے جو لوگوں کو سحر کی تعلیم دیا کرتے تھے اور وہ اس (علم) کی بھی پیروی کرنے لگے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کیا گیا تھا، حالانکہ یہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک اسے خبردار نہ کر لیں کہ (دیکھو) ہم تو صرف آزمائش کے لیے ہیں، کہیں تم کفر اختیار نہ کر لینا، مگر لوگ ان دونوں سے وہ (سحر) سیکھ لیتے تھے جس سے وہ مرد اور اس کی زوجہ کے درمیان جدائی ڈال دیتے، حالانکہ اذن خدا کے بغیر وہ اس کے ذریعے کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے اور یہ لوگ اس چیز کو سیکھتے تھے جو ان کے لیے ضرر رساں ہو اور فائدہ مند نہ ہو اور بتحقیق انہیں علم ہے کہ جس نے یہ سودا کیا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور کاش وہ جان لیتے کہ انہوں نے اپنے نفسوں کا بہت برا سودا کیا ہے۔

102۔ سُلَیۡمٰنَ عبرانی لفظ ہے۔ سلیمان ؑحضرت داؤد ؑ کے چار فرزندوں میں سے ایک ہیں جو غالباً 990 ق م مبعوث برسالت ہوئے۔

بابل قدیم مملکت عراق کا دارالحکومت تھا۔ یہاں کلدانی قوم آباد تھی۔ خیال ہے کہ ان کی سلطنت 3000 ق م میں موجود تھی۔ بابل جہاں تہذیب و تمدن کا مرکز تھا وہاں جادو کا مرکز بھی تھا۔ دنیا میں خرافات کی ابتداء یہیں سے ہوئی۔ احادیث کے مطابق حضرت سلیمان ؑ کے عہد میں جادو کا عمل عام ہونے لگا تو آپ ؑنے ان تمام اوراق و اسناد کو ضبط کر لیا جن پر جادو تحریر تھا۔ آپؑ کی وفات کے بعد کچھ افراد ان تحریروں کو منظر عام پر لے آئے۔ اس طرح یہودی، وحی الٰہی کی اتباع کی بجائے سفلی علوم کے شیدائی بن گئے، یہودیوں کے ایک فرقے نے یہ نظریہ قائم کیا کہ سلیمان ؑ پیغمبر نہیں تھے بلکہ انہوں نے جادو کے ذریعے جن و انس کو مسخر کر لیا تھا ۔ اس زعم باطل کے جواب میں فرمایا: وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ

ہاروت اور ماروت دو فرشتوں کے غیر عربی نام ہیں جنہیں ابطال سحر کے لیے انسانی صورت میں بابل بھیجا گیا تھا تاکہ لوگوں میں جادو اورمعجزے کا فرق واضح کرنے کے لیے جادو کے مخفی اسباب کو برملا کریں۔ یہودیوں نے یہاں بھی سوء استفادہ کیا اور ان اسباب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔


وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَمَثُوۡبَۃٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ خَیۡرٌ ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۰۳﴾٪

۱۰۳۔ اور اگر وہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے پاس اس کا ثواب کہیں بہتر ہوتا، کاش وہ سمجھ لیتے۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَ اسۡمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۰۴﴾

۱۰۴۔ اے ایمان والو!راعنا نہ کہا کرو بلکہ (اس کی جگہ) [انظرنا] کہا کرو اور (رسول کی باتیں) توجہ سے سنا کرو اور کافروں کے لیے تو دردناک عذاب ہے۔

104۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا : قرآن مجید میں تقریباً اسی (80) مقامات پر ان الفاظ میں مومنین سے خطاب کیا گیا ہے۔ یہ سب آیات مدنی ہیں۔ علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خطاب کا یہ انداز اس امت کے لیے ایک اعزاز ہے، ورنہ دوسری امتوں کو قرآن نے لفظ قوم سے یاد کیا ہے۔ جیسے قوم نوح، قوم ہود اور قوم عاد وغیرہ۔

ابو نعیم نے الحلیہ میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ اٰیَۃً و فِیْھَا یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِلّٰا وَ عَلِیٌّ رَاْسُہَا و اَمِیْرُھَا ۔ یعنی خدا نے يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کے ساتھ جو بھی آیت نازل کی ہے حضرت علی (ع) اس کے سردار اور امیر ہیں۔

رسول خدا (ص) جب اسلامی احکام بیان فرماتے تواکثر ایسا ہوتا کہ بعض افراد سن یا سمجھ نہیں پاتے تھے۔ اس وقت وہ حضور (ص)کی توجہ مبذول کرانے کے لیے کہتے: رَاعِنَا یعنی ہماری رعایت فرمائیں کہ ہم سمجھ نہیں سکے۔ ہمارا لحاظ فرمائیے اور دوبارہ ارشاد فرمائیے۔

بعض یہودی بھی ان علمی مجالس میں شریک ہوتے تھے۔ وہ اس لفظ کو شرارتاً حضور(ع) کی شان میں توہین کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ بعض مفسرین کے نزدیک وہ رَاعِنَا کو اَلرَّعُوْنَۃُ کے حوالے سے احمق اور بے وقوف کے معنوں میں لیتے تھے اور بعض دیگر مفسرین کے مطابق وہ رَاعِنَا کی بجائے رَاعِیْنَا “ہمارا چرواہا” کہتے۔


مَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ لَا الۡمُشۡرِکِیۡنَ اَنۡ یُّنَزَّلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَخۡتَصُّ بِرَحۡمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ کفر اختیار کرنے والے خواہ اہل کتاب ہوں یا مشرکین، اس بات کو پسند ہی نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو،حالانکہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے مخصوص کر دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔


مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ ہم کسی آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کراتے ہیں تو اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت نازل کرتے ہیں، کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ؟

106۔ آسمانی شریعتوں میں احکام کی منسوخی ایک مسلمہ امر ہے۔ اسلامی شریعت کے احکام میں بھی نسخ واقع ہوا ہے۔ کیونکہ یہ شریعت انسانی تربیت و ارتقاء کے لیے ہے اور تربیت کا مطلب ہی تدریجی ارتقاء ہے۔ اس لیے احکام میں رد و بدل ایک طبعی امر ہے۔

نسخ احکام پر یہودیوں کے اعتراض کے جواب میں فرمایا: میں جس حکم کو منسوخ کرتا ہوں اس کی جگہ اس سے بہتر یا کم از کم اس جیسا حکم لاتا ہوں۔ حالانکہ خود یہودیوں کاعقیدہ ہے کہ ان کی شریعت سابقہ شریعتوں کی ناسخ ہے۔ خود توریت میں بہت سے احکام منسوخ ہوئے ہیں۔ مثلاً سفر تکوین باب 22 میں ہے کہ ابراہیم ؑ کے لیے اپنے فرزند کے ذبح کا حکم منسوخ ہو گیا۔ واضح رہے کہ جو اعتراض یہود نسخ احکام پر کرتے ہیں وہی اعتراض بداء پر کیا جاتا ہے۔ جب کہ نسخ اور بداء ایک چیز ہے۔ فرق یہ ہے کہ نسخ احکام میں اور بداء تکوین میں ہوتا ہے۔


اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ﴿۱۰۷﴾

۱۰۷۔کیا تو نہیں جانتا کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت صرف اللہ ہی کے لیے ہے؟ اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی کارساز اور مددگار نہیں ہے۔


اَمۡ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَسۡـَٔلُوۡا رَسُوۡلَکُمۡ کَمَا سُئِلَ مُوۡسٰی مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَبَدَّلِ الۡکُفۡرَ بِالۡاِیۡمَانِ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ کیا تم لوگ اپنے رسول سے ایسا ہی سوال کرنا چاہتے ہو جیسا کہ اس سے قبل موسیٰ سے کیا گیا تھا؟ اور جو ایمان کو کفر سے بدل دے وہ حتماً سیدھے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔

108۔ سوال اگر بغرض تعلیم ہو تو نہایت مستحسن ہے، لیکن اگر بغرض استہزاء ہو تو یہ کفر کے نزدیک ہے۔ قوم موسیٰ کے مطالبے کافرانہ اس لیے تھے کہ وہ ایمان بالغیب کی جگہ ایمان بالمحسوسات کے خواہاں تھے۔ بالفاظ دیگر یہ محسوس پرستی، بت پرستی اور ایمان کی جگہ کفر اختیار کرنا ہے۔


وَدَّ کَثِیۡرٌ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَوۡ یَرُدُّوۡنَکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِکُمۡ کُفَّارًا ۚۖ حَسَدًا مِّنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡحَقُّ ۚ فَاعۡفُوۡا وَ اصۡفَحُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۰۹﴾

۱۰۹۔ (مسلمانو!) اکثر اہل کتاب حق واضح ہو جانے کے باوجود (محض) اپنے بغض اور حسد کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ایمان کے بعد تمہیں دوبارہ کافر بنا دیں، پس آپ درگزر کریں اور نظر انداز کر دیں یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ بھیج دے،بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

109۔ چونکہ دل میں زوال نعمت کی آرزو رکھنا حسد کہلاتا ہے، بنا بریں اس آیت سے پتہ چلا کہ اہل کتاب، اسلام کو مسلمانوں کے لیے ایک نعمت سمجھتے ہیں۔ وہ دل سے اس کی حقانیت کے معترف ہیں کیونکہ اسلام اگر حق نہ ہوتا تو نعمت نہ سمجھا جاتا اور اس سے حسد کوئی معنی نہ رکھتا ۔

یہ فیصلہ بعد میں آنے والے کسی حکم کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ آیہ قتال میں حکم آ گیا۔


وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ تَجِدُوۡہُ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور جو کچھ نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے پاس موجود پاؤ گے، تم جو بھی عمل انجام دیتے ہو اللہ یقینا اس کا خوب دیکھنے والا ہے۔

110۔ ممکن ہے کہ تَجِدُوۡہُ موجود پاؤ گے، کا مطلب یہ ہو کہ خود عمل کو موجود پاؤ گے، یعنی قیامت کے روز انسان اپنے اعمال کا خود مشاہدہ کرے گا۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا: وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا (18 : 49) اور انہوں نے جو کچھ کیا تھا اسے حاضر پائیں گے۔


وَ قَالُوۡا لَنۡ یَّدۡخُلَ الۡجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی ؕ تِلۡکَ اَمَانِیُّہُمۡ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ اور وہ کہتے ہیں: جنت میں یہودی یا نصرانی کے علاوہ کوئی ہرگز داخل نہیں ہو سکتا، یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں، آپ کہدیجئے: اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔

111۔ یہودیوں کے باطل عقائد میں سے ایک یہ ہے کہ نجات اخروی اور جنت، عمل کا نتیجہ نہیں، بلکہ ان کا اپنا نسلی حق ہے۔ فرمایا : یہ بے بنیاد آرزوئیں ہیں جن کے پیچھے کوئی منطق اور دلیل نہیں ہے۔

یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کو اہل جنت نہیں سمجھتے، لیکن مسلمانوں کو اہل جنت نہ سمجھنے میں دونوں متفق ہیں۔ یہ دونوں دِیَانَتَیْن آپس کے فکری و مذہبی اختلاف کے باوجود مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ متحد اور متفق رہی ہیں۔ اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ ۔ ہماری معاصر تاریخ میں بھی اس کے ایسے شواہد بکثرت موجود ہیں کہ جہاں سارے کفار نے اسلام کے مقابلے میں متحدہ روش اختیار کی ہو۔


بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۱۱۲﴾٪

۱۱۲۔ ہاں! جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا اور وہ نیکی کرنے والا ہے تو اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی حزن ۔

112۔ دخول جنت اور سعادت ابدی کی امید وہ شخص رکھ سکتا ہے، جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا ہو نیز جو خلوص کے ساتھ نیکی کرنے والا، پاک باطن ، صالح، مخلص، محسن اور مومن ہو، اس کا دل تسلیم و رضا سے سرشار اور لبریز ہو۔


وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ لَیۡسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیۡءٍ ۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰی لَیۡسَتِ الۡیَہُوۡدُ عَلٰی شَیۡءٍ ۙ وَّ ہُمۡ یَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ مِثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ۚ فَاللّٰہُ یَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ فِیۡمَا کَانُوۡا فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ اور یہود کہتے ہیں: نصاریٰ (کا مذہب) کسی بنیاد پر استوار نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں : یہود (کا مذہب) کسی بنیاد پر استوار نہیں، حالانکہ وہ (یہود و نصاریٰ) کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اس طرح کی بات جاہلوں نے بھی کہی، پس اللہ بروز قیامت ان کے درمیان اس معاملے میں فیصلہ کرے گا جس میں یہ اختلاف کرتے تھے۔

113۔ یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کا دین بے اساس ہے، حالانکہ وہ توریت میں حضرت مسیح کی آمد کی خبر پڑھ چکے ہیں۔ حضرت عیسیٰ، دین موسیٰ علیہما السلام کو آگے بڑھانے کے لیے آئے تھے۔ لیکن یہودی حضرت مسیح (ع) کو نہیں مانتے، بلکہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح آنے والے ہیں، جو بنی اسرائیل کو ملک و سلطنت واپس دلائیں گے ۔ ادھر نصاریٰ کا بھی یہی نظریہ ہے کہ یہودیوں کا دین بے بنیاد ہے، حالانکہ یہ بھی انجیل کی تلاوت کرتے ہیں۔ کتاب اور علم سے محروم ناخواندہ افراد کا بھی یہی حال ہے۔ آیت میں بت پرست اور جاہل افراد کی طرف اشارہ ہے، جن کا کہنا ہے کہ تمام ادیان بے بنیاد ہیں ۔


وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ وَ سَعٰی فِیۡ خَرَابِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمۡ اَنۡ یَّدۡخُلُوۡہَاۤ اِلَّا خَآئِفِیۡنَ ۬ؕ لَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی مساجد میں اس کا نام لینے سے روکے اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے؟ ان لوگوں کو مساجد میں داخل ہونے کا حق نہیں مگر خوف کے ساتھ،ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔

114۔ جو عبد اور معبود کے درمیان حائل ہو جائے اور بندگان خدا کو ان کے فطری حق سے محروم کر دے، وہ سب سے بڑا ظالم ہے۔ جبکہ اسلام غیر مسلموں کے گرجا گھروں اور عبادت گاہوں کو حالت جنگ میں بھی منہدم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔


وَ لِلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ٭ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۱۵﴾

۱۱۵۔ اور مشرق ہو یا مغرب، دونوں اللہ ہی کے ہیں، پس جدھر بھی رخ کرو ادھر اللہ کی ذات ہے، بے شک اللہ (سب چیزوں کا) احاطہ رکھنے والا، بڑا علم والا ہے۔

115۔ حضرت امام موسیٰ بن جعفر علیہما السلام سے روایت کی گئی ہے کہ یہ آیت نماز نافلہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ اگر انسان سفر میں ہو تو جدھر چاہے رخ کرکے نماز پڑھ سکتا ہیـ۔ (فرائض کے لیے تو قبلہ رخ ہونا لازم ہے) ۔


وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا ۙ سُبۡحٰنَہٗ ؕ بَلۡ لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوۡنَ﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے، پاک ہے وہ ذات (ایسی باتوں سے) بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ سب اس کی ملکیت ہے، سب اس کے تابع فرمان ہیں۔


بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے: ہو جا، پس وہ ہو جاتا ہے۔

116۔117 آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز اللہ کی تخلیق کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی، لہٰذا جس وجود کو اللہ کا بیٹا فرض کرو گے وہ اللہ کی مخلوق ہو سکتا ہے بیٹا نہیں۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو حکم دیتا ہے ” ہوجا ” سو وہ ہو جاتی ہے۔

یہاں مادہ پرستوں کاایک فرسودہ اعتراض ہے کہ عدم، وجود کا منبع کیسے ہو سکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ عدم کسی چیزکو وجودنہیں دے سکتا، نیستی، ہستی کے لیے بنیاد نہیں بن سکتی ۔ ” عدم سے ” کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عدم وجودکے لیے خام مال کی حیثیت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مادے کو وجود دینے والا خود مادے سے، بلکہ زمان و مکان سے بھی ماوراء ہے۔ ایک لا محدود ذات مادے کی موجد ہے۔ کیونکہ حد، مادے کا حصہ ہے۔ کُنۡ ارادہ ٔالٰہی کی تعبیر ہے، ورنہ خداوند عالم خلق و ایجاد کے لیے کاف و نون کا محتاج نہیں ہے کہ کن کا مخاطب تلاش کرے۔


وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ لَوۡ لَا یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوۡ تَاۡتِیۡنَاۤ اٰیَۃٌ ؕ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّثۡلَ قَوۡلِہِمۡ ؕ تَشَابَہَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ﴿۱۱۸﴾

۱۱۸۔ اور بے علم لوگ کہتے ہیں: اللہ ہم سے ہمکلام کیوں نہیں ہوتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح کی بات کر چکے ہیں، ان کے دل ایک جیسے ہو گئے ہیں، ہم نے تو اہل یقین کے لیے کھول کر نشانیاں بیان کی ہیں۔

118۔ رسول کریم (ص) کا ہر عمل اور ہر حکم معجزہ ہے اور ان کی سیرت و کردار کا ہر حصہ اللہ کی نشانی ہے۔ اس کے علاوہ رسول کریم (ص) کے ہاتھوں بے شمار معجزات صادر ہوتے رہے ہیں، جنہیں دیکھنے کے لیے چشم بینا اور سمجھنے کے لیے عقل و ہوش کی ضرورت ہے۔


اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ بِالۡحَقِّ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا ۙ وَّ لَا تُسۡئَلُ عَنۡ اَصۡحٰبِ الۡجَحِیۡمِ﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور آپ سے اہل دوزخ کے بارے میں کوئی پرسش نہیں ہو گی۔


وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ ؕ قُلۡ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الۡہُدٰی ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ بَعۡدَ الَّذِیۡ جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ ۙ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ﴿۱۲۰﴾ؔ

۱۲۰۔ اور آپ سے یہود و نصاریٰ اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں، کہدیجئے: یقینا اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہے اور اس علم کے بعد جو آپ کے پاس آ چکا ہے، اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کے لیے اللہ کی طرف سے نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار۔

120۔ وہ صرف اس صورت میں خوش ہوں گے کہ رسولؐ اپنا مشن ترک کر کے ان کی ملت یعنی خواہش پرستی میں شامل ہو جائیں اور ایک امت مسلمہ اور امت قرآن کو وجود میں لا کر ان کے لیے ایک دائمی مسئلہ پیدا نہ کریں۔

ہماری معاصر تاریخ میں رونما ہونے والے یہودی اور صلیبی جرائم اس آیت کی صداقت پر شاہد ہیں۔


تبصرے
Loading...