سوره بقره آيات 201 – 220

سوره بقره آيات 201 – 220

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿۲۰۱﴾

۲۰۱۔اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بہتری اور آخرت میں بھی بہتری عطا کر نیز ہمیں آتش جہنم سے بچا۔

201۔ اس آیۂ شریفہ سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ دنیا و آخرت کے معاملے میں متوازن مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ انسان نہ تو صرف دنیا کا طلبگار ہو اور نہ ہی ترک دنیا کر کے فقط آخرت کا طالب رہے: لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ ۔ (الوسائل 14: 155) اسلام میں ترک دنیا کا تصور نہیں ہے۔ دنیاوی زندگی کے بارے میں اسلام کا مؤقف یہ ہے کہ دنیا کو اگر صرف برائے دنیا اختیار کیا جائے اور اس حیات فانی کو ہی اپنا مقصد حیات بنا لیا جائے تو یہ دنیا داری ہے اور دنیا داروں کو آخرت میں کچھ نہیں ملے گا۔ دنیاوی زندگی حقیقی مقصد حیات نہیں بلکہ یہ تو آخرت کی ابدی سعادت کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے : اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْآخِرَۃِ ۔ (عوالی اللآلی 1:267) دنیا آخرت کے لیے کھیتی ہے۔


اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ نَصِیۡبٌ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ﴿۲۰۲﴾

۲۰۲۔ایسے لوگ اپنی کمائی کا حصہ پائیں گے اور اللہ بلاتاخیر حساب چکا دینے والا ہے۔


وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ تَعَجَّلَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ۚ وَ مَنۡ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ۙ لِمَنِ اتَّقٰی ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ﴿۲۰۳﴾

۲۰۳۔ اور گنتی کے (ان چند) دنوں میں اللہ کو یاد کرو، پھر کوئی جلدی کر کے دو ہی دن میں چلا گیا تو کوئی حرج نہیں اور کچھ دیر زیادہ ٹھہرے تو بھی کوئی گناہ نہیں، یہ اس شخص کے لیے ہے جس نے پرہیز کیا ہے اور اللہ کا خوف کرو اور جان لو کہ (ایک دن) اس کے حضور پیش کیے جاؤ گے۔

203۔ چند دنوں سے مراد “ایامِ تشریق” ہیں جو ذی الحجہ کی 11، 12، 13 ہیں۔ ان دنوں میں منیٰ میں ٹھہرنا ہوتا ہے۔ تین دن کی جگہ دو دن ٹھہریں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ احادیث کے مطابق صرف دو دن وہ ٹھہرے جس نے حج کے دوران کوئی خلاف ورزی نہ کی ہو اور لِمَنِ اتَّقٰی سے یہی مطلب لیتے ہیں۔


وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّعۡجِبُکَ قَوۡلُہٗ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ یُشۡہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیۡ قَلۡبِہٖ ۙ وَ ہُوَ اَلَدُّ الۡخِصَامِ﴿۲۰۴﴾

۲۰۴۔ اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں آپ کو پسند آئے گی اور جو اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ بنائے گا حالانکہ وہ سخت ترین دشمن ہے۔

204۔ یہ آیت ایک منافق اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی۔


وَ اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الۡاَرۡضِ لِیُفۡسِدَ فِیۡہَا وَ یُہۡلِکَ الۡحَرۡثَ وَ النَّسۡلَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡفَسَادَ﴿۲۰۵﴾

۲۰۵۔ اور جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو سرتوڑ کوشش کرتا پھرتا ہے کہ زمین میں فساد برپا کرے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کر دے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔


وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتۡہُ الۡعِزَّۃُ بِالۡاِثۡمِ فَحَسۡبُہٗ جَہَنَّمُ ؕ وَ لَبِئۡسَ الۡمِہَادُ﴿۲۰۶﴾

۲۰۶۔ اور پھر جب اس سے کہا جائے: خوف خدا کرو تو نخوت اسے گناہ پر آمادہ کر دیتی ہے، پس اس کے لیے جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔


وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ﴿۲۰۷﴾

۲۰۷۔ اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضاجوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں پر بہت مہربان ہے۔

207۔ یہ آیت حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی۔ جب آپؑ ہجرت کی رات رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بستر پر سوئے اور اللہ کی رضا جوئی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ملاحظہ ہو مستدرک حاکم 3: 4، امام الحدیث ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اس حدیث کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔ اس صحیح السند حدیث کے بعد اس سوال کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ سورۂ بقرہ مدنی ہے اور واقعہ مکہ میں پیش آیا۔ کیونکہ سورے کے مدنی ہونے اور اس آیت کے حضرت علی علیہ السلام کی شب ہجرت کی قربانی کے بارے میں نازل ہونے میں کوئی منافات نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس کی اس حدیث سے اس کی صحت یقینی ہو جاتی ہے جس میں انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کے دس بڑے مناقب میں شب ہجرت کے ایثار کا ذکر کیا ہے، جسے ائمہ حدیث نے الاستیعاب، تہذیب الکمال، سنن نسائی اور مسند احمد بن حنبل میں ذکر کیا ہے۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۲۰۸﴾

۲۰۸۔ اے ایمان لانے والو! تم سب کے سب (دائرہ ) امن و آشتی میں آ جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔


فَاِنۡ زَلَلۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡکُمُ الۡبَیِّنٰتُ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۰۹﴾

۲۰۹۔اور اگر ان صریح نشانیوں کے تمہارے پاس آنے کے بعد بھی تم لڑکھڑا جاؤ تو جان رکھو کہ اللہ بڑا غالب آنے والا، باحکمت ہے۔


ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیۡ ظُلَلٍ مِّنَ الۡغَمَامِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ قُضِیَ الۡاَمۡرُ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ﴿۲۱۰﴾٪

۲۱۰۔ کیا یہ لوگ منتظر ہیں کہ خود اللہ بادلوں کے سائبان میں ان کے پاس آئے اور فرشتے بھی اتر آئیں اور فیصلہ کر دیا جائے؟ جب کہ سارے معاملات کو اللہ ہی کے حضور پیش ہونا ہے۔


سَلۡ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ کَمۡ اٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍۭ بَیِّنَۃٍ ؕ وَ مَنۡ یُّبَدِّلۡ نِعۡمَۃَ اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿۲۱۱﴾

۲۱۱۔ آپ بنی اسرائیل سے پوچھیں کہ ہم نے انہیں کتنی واضح نشانیاں دیں اور جو شخص اللہ کی نعمت پانے کے بعد اسے بدل ڈالے تو اللہ یقینا سخت عذاب والا ہے۔

211۔ آیت کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ اپنا ایک عام قانون بیان فرما رہا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے، دنیا میں دوسروں پر برتری دیتا ہے ، ہدایت و رہنمائی کے لیے ان کے پاس انبیاء بھیجتا ہے اور انہیں واضح اور صریح معجزے دکھا دیتا ہے، اس کے باوجود بھی وہ ان نعمتوں کو بدل ڈالیں اور ان کے ذریعے دارین کی سعادت حاصل کرنے کی بجائے شقاوت پر ڈٹے رہیں تو پھر اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔


زُیِّنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ یَسۡخَرُوۡنَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۘ وَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ﴿۲۱۲﴾

۲۱۲۔جو کافر ہیں ان کے لیے دنیا کی زندگی خوش نما بنا دی گئی ہے اور وہ دنیا میں مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں مگر اہل تقویٰ قیامت کے دن ان سے مافوق ہوں گے اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

212۔ یہاں کافر اور مومن کا کائناتی مؤقف نیز مادی انسان اور الہٰی انسان کا تصور حیات بیان ہو رہا ہے۔ کافر کے تصور حیات میں دنیاوی زندگی ہی سب کچھ ہے۔ وہ اس زندگی کی حقیقی اقدار کو نہیں جانتا ۔


کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۟ فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۪ وَ اَنۡزَلَ مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ فِیۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ مَا اخۡتَلَفَ فِیۡہِ اِلَّا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡہُ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ۚ فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ مِنَ الۡحَقِّ بِاِذۡنِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۲۱۳﴾

۲۱۳۔ لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے اور ان میں اختلاف بھی ان لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی حالانکہ ان کے پاس صریح نشانیاں آچکی تھیں، یہ صرف اس لیے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، پس اللہ نے اپنے اذن سے ایمان لانے والوں کو اس امر حق کا راستہ دکھایا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔

213۔ تاریخ مذہب کے سلسلے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انسان نے زندگی کا آغاز شرک سے کیا ہے، بعد میں وہ تدریجاً ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے توحید تک پہنچ گیا۔ قرآن کے نزدیک انسان نے دین فطرت پر اپنی زندگی کا آغاز کیا اور فطرت ہی کو اللہ نے دین قیم کہا ہے۔ جس وقت لوگوں کو فطری تقاضوں سے سرکشی کرنا نہیں آتا تھا، اس وقت سب لوگ امت واحدہ تھے۔ زندگی نہایت سادہ تھی اور تسخیر طبیعت نہ ہونے کی وجہ سے وہ بغیر کسی اختلاف کے زندگی بسر کرتے تھے، انسانیت کو سب سے پہلے مذہب نے حضرت نوح (ع) کے زمانے میں قانون زندگی عطا کیا : شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا (شوریٰ:13) تمہارے لیے دین کی وہی شریعت بنی جس کا نوح کو حکم دیا گیا تھا ‘‘۔ حدیث میں آیا ہے: کانوا قبل نوح امۃ واحدۃ علی فطرۃ اللّہ ۔ حضرت نوح (ع) سے پہلے فطرت الٰہی کے مطابق ایک ہی امت تھی۔

جب لوگوں کو انبیاء علیہم السلام کے ذریعے قانون دیا گیا تو انہی لوگوں نے اختلاف کی بنیاد ڈالی جنہوں نے فطری راہوں سے سرکشی کرنا سیکھا تھا۔ قانون دینے سے پہلے کا اختلاف فطرت سے بغاوت تھی اور قانون دینے کے بعد کا اختلاف شریعت سے بغاوت تھی۔ کیونکہ شریعت کے ذریعے لوگوں کو فطرت کی طرف لوٹانا مقصود تھا، لہٰذا شریعت کا باغی، فطرت کا باغی ہے۔


اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ﴿۲۱۴﴾

۲۱۴۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے؟ انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟(انہیں بشارت دے دی گئی کہ) دیکھو اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے۔

214۔ یہاں خطاب مسلمانوں سے ہے۔ خدا اپنے برگزیدہ بندوں کو جن تربیتی مراحل سے گزارتا ہے، ان کی نشاندھی فرما رہا ہے نیز یہاں ایک غلط تصور کا ازالہ بھی مقصود ہے۔ عام تصور یہ ہے کہ لوگ صرف ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے کو ہر چیز کے لیے کافی سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ طبیعی علل و اسباب کے لیے بھی اپنے ایمان و اسلام سے توقع رکھتے ہیں کہ بغیر کوشش کیے مفت میں کامیابی مل جائے گی۔ الٰہی سنت یہ رہی ہے کہ مفت میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ اگر مفت میں ملے توسب کو ملنی چاہیے اور سب کو ملے تو بغیر استحقاق اور اہلیت کے بھی ملنی چاہیے اور یہ ایک عبث کام بن جاتا ہے۔ اس لیے حکمت الٰہی کے تحت ضروری ہوا کہ کامیابی کے راستوں کو دشوار بنا دیا جائے اور تمام کامیابیوں کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہو۔ پھرجنت اور ابدی زندگی کے حصول کیلیے آزمائش اور امتحان کے کٹھن مراحل سے گزرنا اور ایسی مشکلات اور تکالیف کا مقابلہ ضروری ہو جہاں کھرے اور کھوٹے کی تمیز ہو جاتی ہے اور سچے اہل ایمان دوسروں سے جدا ہوجاتے ہیں اور صرف صبر و تحمل کرنیوالے ہی اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔


یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلۡ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ فَلِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ‌السَّبِیۡلِ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ﴿۲۱۵﴾

۲۱۵۔ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں : کیا خرچ کریں؟ کہدیجئے: جو مال بھی خرچ کرو اپنے والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو کار خیر تم بجا لاؤ گے یقینا اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔

215۔ سوال یہ ہوا تھا کہ ہم کیا خرچ کریں؟ لیکن جواب میں معاشرے کے ان اہم افراد کا ذکر ہو رہا ہے جن پر مال خرچ ہونا چاہیے۔ انداز جواب سے ظاہر ہے کہ اصل میں سوال یوں ہونا چاہیے تھا کہ ہم کن لوگوں پر خرچ کریں؟ پھر انفاق میں مال کی کمیت اور جنس کے مقابلے میں مستحقین کے تعین اور ترجیحات کا ذکر فرمایا کہ وہ بالترتیب والدین، رشتہ دار، ایتام، فقراء و مساکین اور زادراہ سے تہی دامن مسافر ہیں۔


کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ وَ ہُوَ کُرۡہٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۱۶﴾٪

۲۱۶۔تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے جب کہ وہ تمہیں ناگوار ہے اور ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے مگر وہی تمہارے لیے بہتر ہو، (جیسا کہ) ممکن ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو مگر وہ تمہارے لیے بری ہو، (ان باتوں کو) خدا بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

216۔ صدر اسلام میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو جہاد فی سبیل اللہ سے کراہت نہیں بلکہ عشق کرتے تھے، البتہ کچھ ایسے لوگ بھی ضرور تھے جو جہاد سے کتراتے تھے اگرچہ جہاد سے کراہت کرنے والے کچھ لوگ تھے لیکن خطاب سب سے ہوا تاکہ قوم ان لوگوں کا محاسبہ کرے جو جہاد کو پسند نہیں کرتے۔ اس محاسبہ کو طعن کہنا درست نہیں ہے۔


یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الشَّہۡرِ الۡحَرَامِ قِتَالٍ فِیۡہِ ؕ قُلۡ قِتَالٌ فِیۡہِ کَبِیۡرٌ ؕ وَ صَدٌّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ کُفۡرٌۢ بِہٖ وَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ٭ وَ اِخۡرَاجُ اَہۡلِہٖ مِنۡہُ اَکۡبَرُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ ؕ وَ لَا یَزَالُوۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ حَتّٰی یَرُدُّوۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا ؕ وَ مَنۡ یَّرۡتَدِدۡ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتۡ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۱۷﴾

۲۱۷۔ لوگ آپ سے ماہ حرام میں لڑائی کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: اس میں لڑنا سنگین برائی ہے، لیکن راہ خدا سے روکنا، اللہ سے کفر کرنا، مسجد الحرام کا راستہ روکنا اور حرم کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک زیادہ سنگین جرم ہے اور فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑا گناہ ہے اور وہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے گا اور کفر کی حالت میں مرے گا ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ہوں گے اور ایسے لوگ اہل جہنم ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

217۔ رسول خدا (ص) نے قریش کی نقل و حرکت اور ان کے ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے عبد اللہ بن جحش کی سربراہی میں ایک دستہ نخلہ کی طرف بھیجا ،جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ ہے۔ یہاں پہنچ کر قریش کے ایک تجارتی قافلے کے ساتھ ان کا سامنا ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اس پر حملہ کر کے ایک آدمی کو قتل کیا اور دو کو اسیر بنا لیا۔ پھر انہیں مال سمیت مدینہ لے آئے۔ یہ واقعہ رجب کے آخری دن پیش آیاتھا اور رجب ماہ حرام ہے، اس میں جنگ کرنا حرام ہے، لیکن یہ شبہ بھی موجود رہا کہ ہو سکتا ہے کہ قتل اول شعبان میں واقع ہوا ہو اور چونکہ شعبان ماہ حرام نہیں اس لیے جنگ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے باوجود مشرکین نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا کہ محمد (ص) حرمت والے مہینوں میں بھی خونریزی کرنے کوجائز سمجھتے ہیں۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی جس میں مشرکین مکہ کی ان خلاف ورزیوں کا ذکر ہے، جو وہ مسلمانوں کے خلاف کرتے رہے ہیں اور جن کی برائی ماہ حرام میں لڑائی سے بھی زیادہ سنگین ہے


اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ اُولٰٓئِکَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۲۱۸﴾

۲۱۸۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے نیز جنہوں نے راہ خدا میں ہجرت کی اور جہاد کیا وہ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اللہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔

218۔ ہجرت: ( ھ ج ر ) جدائی اور مفارقت کے معنوں میں ہے۔ ہجرت کے مختلف درجات ہیں، ان میں سب سے اعلیٰ درجہ باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف جانا ہے۔ روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) سے سوال ہوا کہ کون سی ہجرت افضل ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا : مَنْ ھَجَرَ السَّیِّئَات ۔ (الوسائل 11 : 277) مہاجر وہ ہے جو گناہوں سے دور رہے۔


یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِؕ قُلۡ فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا ؕ وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ﴿۲۱۹﴾ۙ

۲۱۹۔لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: ان دونوں کے اندر عظیم گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی، مگر ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے کہیں زیادہ ہے اور یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ کہدیجئے: جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو

219۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے : ان الخمر راس کل اثم۔ شراب تمام گناہوں کا سرچشمہ ہے۔ اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے دس افراد پر شراب کے بارے میں لعنت بھیجی ہے: پودا لگانے والے، اس کی نگہداشت کرنے والے، کشید کرنے والے، پینے والے، پلانے والے، اٹھانے والے، جس کے لیے اٹھائی گئی ہو، فروخت کرنے والے، خریدنے والے اور اس کی قیمت سے استفادہ کرنے والے پر۔ (الکافی 6: 429)

حضرت امام محمد باقر(ع) سے منقول ہے: العفو ما فضل عن قوت السنۃ۔ آیت میں عفو سے مراد سال کے اخراجات سے زائد مال ہے۔


فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡیَتٰمٰی ؕ قُلۡ اِصۡلَاحٌ لَّہُمۡ خَیۡرٌ ؕ وَ اِنۡ تُخَالِطُوۡہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ الۡمُفۡسِدَ مِنَ الۡمُصۡلِحِ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَاَعۡنَتَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۲۰﴾

۲۲۰۔ دنیا اور آخرت کے بارے میں اور یہ لوگ آپ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے:ان کی اصلاح بہت اچھا کام ہے اور اگر تم ان سے مل جل کر رہو تو(اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ) وہ تمہارے بھائی ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ مفسد کون ہے اور مصلح کون ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں تکلیف میں ڈال دیتا، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

220۔ قرآن نے یتیم کا مال کھانے کو پیٹ میں آگ بھرنے سے تشبیہ دی۔ اس پر مسلمانوں نے یتیموں سے میل جول ترک کر دیا تو سوال پیدا ہوا کہ ان کی دیکھ بھال کس طرح کی جائے؟ تب یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر ان سے مل جل کر ان کی دیکھ بھال ہو سکتی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یعنی یتیم کے مال سے پرہیز کرنے کا یہ مقصد نہیں کہ اس سے ہر قسم کی دوری اختیار کر لی جائے، بلکہ اس کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اس کے اموال و حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔ یتیموں کے مال کو اپنے مال سے ملا کر انصاف سے خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اصلاح اور خرابی کا تعلق ارادے اور عمل سے ہے، دکھاوے سے نہیں۔ جو لوگ اصلاح کرنے والے ہیں اور اسی طر ح جو فسادی ہیں، اللہ ان کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔


تبصرے
Loading...