سوره بقره آيات 221 – 240

سوره بقره آيات 221 – 240

وَ لَا تَنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکٰتِ حَتّٰی یُؤۡمِنَّ ؕ وَ لَاَمَۃٌ مُّؤۡمِنَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکَۃٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ ۚ وَ لَا تُنۡکِحُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤۡمِنُوۡا ؕ وَ لَعَبۡدٌ مُّؤۡمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِکٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَکُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ یَدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ ۚۖ وَ اللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلَی الۡجَنَّۃِ وَ الۡمَغۡفِرَۃِ بِاِذۡنِہٖ ۚ وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ﴿۲۲۱﴾٪

۲۲۱۔ اور تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، کیونکہ مومنہ لونڈی مشرک عورت سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو نیز (مومنہ عورتوں کو) مشرک مردوں کے عقد میں نہ دینا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں، کیونکہ ایک مومن غلام مشرک مرد سے بہتر ہے خواہ وہ (مشرک) تمہیں پسند ہو، کیونکہ وہ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور اپنی نشانیاں لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہے شاید کہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

221۔ فطری تقاضوں اور اسلامی اقدار کی رو سے ازدواجی زندگی کی تشکیل کی ایک بنیادی شرط کفو ہونا۔ اسلامی اقدار کے مطابق مقام و منزلت اور مرتبے کے معاملے میں رنگ، نسل، علاقہ اور مال و دولت وغیرہ کو کوئی دخل حاصل نہیں ہے، بلکہ کفو (ہم پلہ) ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک ہی امت کے فعال اور ایک ہی مشن کے متحرک کارکن ہوں تاکہ ایک متوازن اور پرسکون ماحول میں ایک نظریاتی کنبہ تشکیل پا سکے۔ مؤمن کے لیے مشرک کفو نہیں ہو سکتا کیونکہ ان دونوں کا مقصدِ حیات اور منزل ایک نہیں ہے۔ شرک انسان کو ہلاکت اور جہنم کی طرف بلاتا ہے جب کہ مومن کا خدا جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔ ان دونوں میں نور اور ظلمت کا تضاد پایا جاتا ہے، البتہ اہل کتاب کا حکم اس سے جدا ہے۔


وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡمَحِیۡضِ ؕ قُلۡ ہُوَ اَذًی ۙ فَاعۡتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الۡمَحِیۡضِ ۙ وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ حَتّٰی یَطۡہُرۡنَ ۚ فَاِذَا تَطَہَّرۡنَ فَاۡتُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ﴿۲۲۲﴾

۲۲۲۔اور وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہدیجئے: یہ ایک گندگی ہے، پس حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ، پس جب پاک ہو جائیں تو ان کے پاس اس طرح جاؤ جس طریقے سے اللہ نے تمہیں حکم دے رکھا ہے، بے شک خدا توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

222۔ یہود حیض کے دنوں میں عورتوں کو اچھوت سمجھتے تھے اور عیسائی حیض کے دنوں میں عورتوں سے ہر قسم کا ملاپ رکھتے تھے۔ یہاں اسلام کا موقف بیان ہوا ہے کہ عورت ان دنوں میں اچھوت نہیں ہے اور اس کے ہاتھ سے کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ جنسی ملاپ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ ان دنوں میں عورت کا رحم اور تناسلی نظام شکست و ریخت سے دوچار ہوتا ہے، لہٰذا ان دنوں میں صرف جنسی آمیزش سے اجتناب کرنا چاہیے۔


نِسَآؤُکُمۡ حَرۡثٌ لَّکُمۡ ۪ فَاۡتُوۡا حَرۡثَکُمۡ اَنّٰی شِئۡتُمۡ ۫ وَ قَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ مُّلٰقُوۡہُ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۲۲۳﴾

۲۲۳۔ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جا سکتے ہو نیز اپنے لیے(نیک اعمال) آگے بھیجو اور اللہ کے عذاب سے بچو اور یاد رکھو تمہیں ایک دن اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے اور (اے رسول) ایمانداروں کو بشارت سنا دو۔

223۔ مذکورہ آیت میں بیوی کو کھیتی کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے، کیونکہ یہاں عورت کو انسانی نسل کی افزائش اور نشو و نما کا منبع قرار دیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو یہ تربیت دی جا رہی ہے کہ وہ عورت کو محض اپنی ہوس پرستی کا ہدف قرار نہ دیں،کیونکہ عورت انسانی نسل جیسی عظیم فصل کی کاشت کا مقدس ذریعہ ہے۔ اس ذریعے کے پاس یہی عظیم فصل کاشت کرنے کے لیے جایا کرو اور یہی تمہارا اولین مقصد ہونا چاہیے۔ اس سے بحث نہیں ہے کہ کاشت کی کیفیت کیا ہے: فَاۡتُوۡا حَرۡثَکُمۡ اَنّٰی شِئۡتُمۡ ۔ اپنی کھیتی میں جس وقت چاہو جا سکتے ہو۔ یہاں پر لفظ اَنّٰی زمانی ہو سکتا ہے یعنی جب چاہو، جس وقت چاہو اپنے کھیتوں میں جاؤ، سوائے ایام حیض کے نیز ممکن ہے کہ اَنّٰی “جس طرح” کے معنی میں ہو۔ جیسے قرآن مجید میں یہ لفظ کَیۡفَ کے معنوں میں آیا ہے: اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ۔(بقرۃ : 259) بنابریں آیت کا ترجمہ اس طرح ہو گا : تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جا سکتے ہو۔


وَ لَا تَجۡعَلُوا اللّٰہَ عُرۡضَۃً لِّاَیۡمَانِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡا وَ تَتَّقُوۡا وَ تُصۡلِحُوۡا بَیۡنَ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۲۴﴾

۲۲۴۔ اور اللہ کو اپنی ان قسموں کا نشانہ مت بناؤ جن سے نیکی کرنے، تقویٰ اختیار کرنے اور لوگوں میں صلح و آشتی کرانے سے باز رہنا مقصود ہو اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا،جاننے والا ہے۔

224۔ نیکی انجام نہ دینے کے لیے قسم کھانے کی ممانعت فرمائی ہے۔ اگر ایسی قسم کھائی بھی ہو تو اس کے توڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔


لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا کَسَبَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ﴿۲۲۵﴾

۲۲۵۔ اللہ ان قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کرتا جو تم بے توجہی میں کھاتے ہو، ہاں جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان کا مواخذہ ہو گا اور اللہ خوب درگزر کرنے والا، بردبار ہے۔


لِلَّذِیۡنَ یُؤۡلُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِہِمۡ تَرَبُّصُ اَرۡبَعَۃِ اَشۡہُرٍ ۚ فَاِنۡ فَآءُوۡ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۲۲۶﴾

۲۲۶۔ جو لوگ اپنی عورتوں سے الگ رہنے کی قسم کھاتے ہیں ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے، اگر ( اس دوران) رجوع کریں تو اللہ یقینا بڑا معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔

226۔ اپنی زوجہ سے مباشرت نہ کرنے کی قسم کو ایلاء کہتے ہیں۔ اس صورت میں حاکم شرع اس مرد کو چار ماہ کی مہلت دے گا کہ اس اثناء میں کفارہ دے کر مباشرت کرے یا طلاق دے۔


وَ اِنۡ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۲۷﴾

۲۲۷۔ اور اگر طلاق کا فیصلہ کر لیں تو اللہ یقینا خوب سننے والا، علم والا ہے۔


وَ الۡمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوۡٓءٍ ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَہُنَّ اَنۡ یَّکۡتُمۡنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیۡۤ اَرۡحَامِہِنَّ اِنۡ کُنَّ یُؤۡمِنَّ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ وَ بُعُوۡلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ اِنۡ اَرَادُوۡۤا اِصۡلَاحًا ؕ وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۲۸﴾٪

۲۲۸۔ اور طلاق یافتہ عورتیں تین مرتبہ (ماہواری سے) پاک ہونے تک انتظار کریں اور اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق کیا ہے اسے چھپائیں اور ان کے شوہر اگر اصلاح و سازگاری کے خواہاں ہیں تو عدت کے دنوں میں انہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لینے کے پورے حقدار ہیں اور عورتوں کو دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

228۔ اس آیت میں چند احکام بیان فرمائے ہیں: ٭ عدت: طلاق کی صورت میں عورت کو عدت گزارنی چاہیے۔ یہ عدت فقہ جعفری کے مطابق تیسری مرتبہ حیض شروع ہونے پر اور حنفی کے مطابق تیسری مرتبہ حیض سے پاک ہونے پر پوری ہو جائے گی۔٭ عدت کی انتہا نسوانی مسائل سے مربوط ہے۔ اس لیے یہ بات عورتوں پر چھوڑی گئی ہے، وہی بتائیں کہ ان کا رحم خون سے کب پاک ہوا ہے۔٭ حق رجوع: اگر طلاق رجعی ہے تو شوہر کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ٭ مساویانہ حقوق: عورتوں کو دستور کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔


اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمۡسَاکٌۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِیۡحٌۢ بِاِحۡسَانٍ ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَاۡخُذُوۡا مِمَّاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ شَیۡئًا اِلَّاۤ اَنۡ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا یُقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَا فِیۡمَا افۡتَدَتۡ بِہٖ ؕ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَعۡتَدُوۡہَا ۚ وَ مَنۡ یَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۲۲۹﴾

۲۲۹۔ طلاق دو بار ہے پھر یا تو شائستہ طور پر عورتوں کو اپنی زوجیت میں رکھ لیا جائے یا اچھے پیرائے میں انہیں رخصت کیا جائے اور یہ جائز نہیں کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو مگر یہ کہ زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے، پس اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ زوجین اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو زوجین کے لیے (اس مال میں) کوئی مضائقہ نہیں جو عورت بطور معاوضہ دے دے،یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کرتے ہیں پس وہی ظالم ہیں۔


فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰی تَنۡکِحَ زَوۡجًا غَیۡرَہٗ ؕ فَاِنۡ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَاۤ اَنۡ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنۡ ظَنَّاۤ اَنۡ یُّقِیۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ﴿۲۳۰﴾

۲۳۰۔ اگر (تیسری بار) پھر طلاق دے دی تو وہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو گی جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کر لے، ہاں اگر دوسرا خاوند طلاق دے اور عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کی طرف رجوع کریں تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ انہیں امید ہو کہ وہ حدود الٰہی کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ ہیں اللہ کی مقرر کردہ حدود جنہیں اللہ دانشمندوں کے لیے بیان کرتا ہے۔

229۔ 230۔ شوہر اپنی منکوحہ بیوی کو دو مرتبہ طلاق دے کر رجوع کر سکتا ہے۔ اگردو مرتبہ طلاق دے کر رجو ع کر چکا ہو تواس کے بعد جب کبھی وہ اسے تیسری بار طلاق دے گا توعورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی۔ تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد شوہر بہتر طریقے سے رجوع کرتے ہوئے بیوی کو اپنی زوجیت میں رکھ لے یا تیسری طلاق دے کر اسے مستقل طور پر فارغ کر دے۔

وہ مہر جو شوہر اپنی بیوی کے عقد نکاح میں معین کرے، اس میں سے کوئی چیز نہ دینے یا واپس مانگنے کا اسے حق حاصل نہیں ہے۔ ایسا کرنا تَسۡرِیۡحٌۢ بِاِحۡسَانٍ کے منافی ہے۔

اگر میاں بیوی اسلامی احکام کی حدود میں رہ کر اپنی زوجیت کا نظام برقرار نہ رکھ سکیں اور عورت مرد سے اس حد تک متنفر ہو جائے کہ وہ اس کے ساتھ زندگی نہ گزار سکتی ہو تو اس صورت میں عورت کچھ معاوضہ دے کر شوہر سے طلاق حاصل کر سکتی ہے۔ اسے اصطلاح میں خلع کہتے ہیں۔ خلع طلاق بائن ہے جس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہوتا، البتہ اگر عورت عدت کے دوران معاوضہ واپس لے لے تو شوہر بھی رجوع کر سکتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ اگر عورت شوہرسے متنفر نہ ہو اور شوہر از خود طلاق دے تو اس صورت میں عورت سے کچھ لینا حرام ہے اور اگر عورت متنفر ہے اور معاوضہ دے کر طلاق حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس صورت میں عورت سے معاوضہ لینا جائز ہے۔ تیسری بار طلاق دینے کی صورت میں یہ عورت مستقل طور پر جدا ہو جاتی ہے۔ اب سابقہ شوہر نہ اس سے دوبارہ عقد کر سکتا ہے اور نہ رجوع، جب تک وہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کر کے مطلقہ نہ ہو جائے۔ پس اگر وہ عورت کسی اور مرد سے شادی کر لیتی ہے تو صرف عقد کافی نہیں ہے، بلکہ ہمبستری بھی شرط ہے۔پھر اگر وہ اسے طلاق دے تو پہلے شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ اس عورت سے تیسری بار عقد کر لے۔


وَ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ سَرِّحُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ ۪ وَ لَا تُمۡسِکُوۡہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعۡتَدُوۡا ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَہٗ ؕ وَ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًا ۫ وَّ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ الۡکِتٰبِ وَ الۡحِکۡمَۃِ یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۲۳۱﴾٪

۲۳۱۔ اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں یا تو شائستہ طریقے سے نکاح میں رکھو یا شائستہ طور پر رخصت کر دو اور صرف ستانے کی خاطر زیادتی کرنے کے لیے انہیں روکے نہ رکھو اور جو ایسا کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا اور تم اللہ کی آیات کا مذاق نہ اڑاؤ اور اللہ نے جو نعمت تمہیں عطا کی ہے اسے یاد رکھو اور یہ (بھی یاد رکھو) کہ تمہاری نصیحت کے لیے اس نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی اور اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

231۔ جب طلاق کے بعد عدت کا عرصہ ختم ہونے کے قریب آئے تو شوہر کو چاہیے کہ یا تو رجوع کر کے دستور کے مطابق عورت کو دوبارہ اپنی زوجیت میں لے آئے یا دستور کے مطابق بغیر کسی زیادتی کے اسے رخصت کر دے۔ محض اذیت دینے کے لیے رجوع نہ کرے۔ یعنی طلاق دینے کے بعد عدت گزرنے سے پہلے اگر شوہر محض اس لیے رجوع کرے کہ عورت کسی اور سے شادی بھی نہ کرسکے اور سکون سے اس کے پاس بھی نہ رہ سکے توشوہر کا یہ عمل عورت کے حق میں ظلم متصور ہو گا، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔


وَ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ اَنۡ یَّنۡکِحۡنَ اَزۡوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوۡا بَیۡنَہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ ذٰلِکَ یُوۡعَظُ بِہٖ مَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکُمۡ اَزۡکٰی لَکُمۡ وَ اَطۡہَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۳۲﴾

۲۳۲۔اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو انہیں اپنے (مجوزہ) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ جائز طور پر ازدواج پر باہم راضی ہوں، یہ نصیحت اس شخص کے لیے ہے جو تم میں سے خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، تمہارے لیے نہایت شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے اور (ان باتوں کو) اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

232۔ یہاں خطاب ان تمام اشخاص سے ہے جو طلاق کے بعد عورتوں کے نئے عقد نکاح میں مداخلت کریں ، خواہ ولی ہوں یاغیر ولی۔ ارشاد ہوتا ہے: اگر طلاق یافتہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے بعد اپنے سابقہ یا مجوزہ شوہروں سے عقد کرنا چاہیں اور طرفین جائز طریقے سے عقد ثانی پر راضی ہوں تو کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ انہیں روکے۔ یہ معاملہ ان دونوں کی ز ندگی سے مربوط ہے۔ جب یہ دونوں راضی ہوں تو کسی غیر کو ان کے آزادانہ فیصلے میں دخل دینے کا حق نہیں، خواہ اس کا مقام کچھ بھی ہو۔ جب طرفین عاقل، بالغ اور تجربہ کار ہوں توان کی ازدواجی زندگی کے فیصلے انہی پر چھوڑدینا ہی شائستہ و پاکیزہ طریقہ ہے۔ اس حکم سے فردی آزادی کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر سمجھ میں آتا ہے


وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ؕ وَ عَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہٗ رِزۡقُہُنَّ وَ کِسۡوَتُہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ لَا تُکَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَہَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِہَا وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ ٭ وَ عَلَی الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰلِکَ ۚ فَاِنۡ اَرَادَا فِصَالًا عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡہُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَا ؕ وَ اِنۡ اَرَدۡتُّمۡ اَنۡ تَسۡتَرۡضِعُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا سَلَّمۡتُمۡ مَّاۤ اٰتَیۡتُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۲۳۳﴾

۲۳۳۔اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں، (یہ حکم) ان لوگوں کے لیے ہے جو پوری مدت دودھ پلوانا چاہتے ہیں اور بچے والے کے ذمے دودھ پلانے والی ماؤں کا روٹی کپڑا معمول کے مطابق ہو گا،کسی پر اس کی گنجائش سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا، بچے کی وجہ سے نہ ماں کو تکلیف میں ڈالا جائے اور نہ باپ کو اس بچے کی وجہ سے کوئی ضرر پہنچایا جائے اور اسی طرح کی ذمے داری وارث پر بھی ہے، پھر اگر طرفین باہمی رضامندی اور مشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہتے ہیں تو اس میں ان پر کوئی مضائقہ نہیں ہے نیز اگر تم اپنی اولاد کو (کسی سے) دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ تم عورتوں کو معمول کے مطابق طے شدہ معاوضہ ادا کرو اور اللہ کا خوف کرو اور جان لو کہ تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نظر ہے۔

233۔ ” مائیں پورے دو سال یعنی چوبیس ماہ دودھ پلائیں”۔ اس جملے میں دو اہم نکتے ہیں۔ ایک یہ کہ مائیں دودھ پلائیں۔ دوم یہ کہ دو سال تک دودھ پلائیں۔ صدیوں کے تجربات کے بعد آج انسان کو دو باتوں کا پتہ چلا ہے: الف: بچے کے لیے ماں کا دودھ بہترین غذا ہے اور ماں کے دودھ سے مثبت اخلاقی، نفسیاتی، عقلی اور جسمانی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ب: طبی تجربات سے معلوم ہو اہے کہ دوسا ل کے دوران بچے کو فراہم کی جانے والی غذا سے بچے پر اخلاقی، نفسیاتی اور جسمانی وعقلی لحاظ سے ٹھوس اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ رضاعت یعنی دودھ پلانااور تربیت کرنا ماں کا ایک حق ہے جسے “حق حضانت” کہتے ہیں۔ اگرماں اپنے اس حق سے دستبردار ہوجائے تو دو سال سے کم دود ھ پلانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ بچے کی صحت اس بات کی متحمل ہو سکے۔ باپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلانے والی کا خرچہ برداشت کرے۔ یہاں نہ ماں زیادہ مطالبہ کر سکتی ہے اور نہ باپ معمول سے کم پر اکتفا کر سکتا ہے، بلکہ عام دستور کے مطابق اسے کھانا کپڑا وغیرہ فراہم کرنا ہو گا۔ بچے کی تربیت اور رضاعت کے سلسلے میں ماں اور باپ ایک دوسرے کو نقصان اور ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ میاں اور بیوی میں اختلاف اور نزاع ہو جائے تو اس کے برے اثرات بچے کی تربیت پرمترتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا باپ ماں کی مامتا سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ماں کو نقصان اور ضرر نہیں پہنچا سکتا اور نہ ہی ماں کو یہ حق حاصل ہے کہ باپ کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کراسے کوئی نقصان پہنچائے۔

باپ کی وفات کی صورت میں وارث پر بھی وہی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو باپ پر عائد تھیں۔ والدین باہمی رضامندی اورباہمی مشورے سے دو سال سے پہلے بچے کا دودھ چھڑا سکتے ہیں۔ رضامندی اور مشورے کی شرط اس لیے لگائی گئی ہے کہ اگربچے کی صحت اس بات کی متحمل ہے تو یہ کام جائز ہے۔ دو سال کی حد انتہائی حد ہے۔ دو سال پورے کرنا ہر صورت میں ضروری نہیں بلکہ اگر بچے کی صحت اس بات کی اجازت دے تو دو سال سے پہلے دودھ چھڑانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ماں کی جگہ غیر عورت سے دودھ پلوانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ اسے طے شدہ معاوضہ اد ا کیا جائے۔


وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا یَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ عَشۡرًا ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ﴿۲۳۴﴾

۲۳۴۔ اور تم میں سے جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں، پھر جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو دستور کے مطابق اپنے بارے میں جو فیصلہ کریں اس کا تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

234۔ غیر اسلامی، باطل اورغیر انسانی مراسم پرخط بطلان کھینچتے ہوئے قرآن اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے کہ عدت پوری ہونے کے بعد عورتیں نئی ازدواجی زندگی کے سلسلے میں جو بھی فیصلہ کریں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح زیبائش اور گھر سے نکلنا وغیرہ بھی جائز ہے ۔


وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا عَرَّضۡتُمۡ بِہٖ مِنۡ خِطۡبَۃِ النِّسَآءِ اَوۡ اَکۡنَنۡتُمۡ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمۡ سَتَذۡکُرُوۡنَہُنَّ وَ لٰکِنۡ لَّا تُوَاعِدُوۡہُنَّ سِرًّا اِلَّاۤ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ۬ؕ وَ لَا تَعۡزِمُوۡا عُقۡدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡکِتٰبُ اَجَلَہٗ ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُ ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ﴿۲۳۵﴾٪

۲۳۵۔ اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم ان عورتوں کے ساتھ نکاح کا اظہار اشارے کنائے میں کرو یا اسے تم اپنے دل میں پوشیدہ رکھو، اللہ کو تو علم ہے کہ تم ان سے ذکر کرو گے مگر ان سے خفیہ قول و قرار نہ کرو، ہاں اگر کوئی بات کرنا ہے تو دستور کے مطابق کرو، البتہ عقد کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک عدت پوری نہ ہو جائے اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ کو سب معلوم ہے، لہٰذا اس سے ڈرو اور جان رکھو کہ اللہ بڑا بخشنے والا، بردبار ہے۔

235۔ عدت کے دوران عورت سے اشاروں اور کنایوں میں منگنی کا اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً کہے کہ میں تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں یا یہ کہے کہ کون ہے جو تجھے پسند نہ کرے۔ اسی طرح دل میں یہ ارادہ رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ عدت ختم ہونے کے بعد اس کا اظہار کرے گا۔


لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ۚۖ وَّ مَتِّعُوۡہُنَّ ۚ عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۲۳۶﴾

۲۳۶۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم عورتوں کو ہاتھ لگانے اور مہر معین کرنے سے قبل طلاق دے دو، اس صورت میں انہیں کچھ دے کر رخصت کرو، مالدار اپنی وسعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی وسعت کے مطابق یہ خرچ دستور کے مطابق دے، یہ نیکی کرنے والوں پر ایک حق ہے۔


وَ اِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡہُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡہُنَّ وَ قَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یَّعۡفُوۡنَ اَوۡ یَعۡفُوَا الَّذِیۡ بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ ؕ وَ اَنۡ تَعۡفُوۡۤا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ؕ وَ لَا تَنۡسَوُا الۡفَضۡلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۲۳۷﴾

۲۳۷۔ اور اگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے سے قبل اور ان کے لیے مہر معین کر چکنے کے بعد طلاق دو تو اس صورت میں تمہیں اپنے مقرر کردہ مہر کا نصف ادا کرنا ہو گا مگر یہ کہ وہ اپنا حق چھوڑ دیں یا جس کے ہاتھ میں عقد کی گرہ ہے وہ حق چھوڑ دے اور تمہارا چھوڑ دینا تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور تم آپس کی احسان کوشی نہ بھولو، یقینا تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نگاہ ہے۔

236۔ 237۔ ان دو آیات اور سنت کی روشنی میں مسئلے کی چار صورتیں بنتی ہیں: 1۔ مہر معین ہو اور ہمبستری سے پہلے طلاق ہو جائے تو عورت کو نصف مہر ملے گا۔ 2۔ مہر معین نہ ہو اور ہمبستری سے پہلے طلاق ہو جائے تو مالدار شوہر اپنی وسعت کے مطابق اور غریب شوہر اپنی وسعت کے مطابق عورت کو کچھ مال دے گا۔ 3۔ مہر معین ہو اور ہمبستری کے بعد طلاق دے تو پور ا مہر دینا ہو گا۔ 4۔ مہر معین نہ ہو اور ہمبستری کے بعد طلاق ہوجائے تو اس جیسی عورتوں کو عرف میں جو مہر ملاکرتا ہے وہ دینا ہوگا، جسے مہر مثل کہتے ہیں۔ ذیل کی دو صورتوں میں باقی نصف بھی معاف ہو سکتا ہے: 1۔ عورت خود معاف کر دے۔ 2۔باپ یا دادا جن کے ہاتھ میں نابالغ بچی کے نکاح کا اختیار ہوتاہے، باقی مہر معاف کر دیں۔

نکاح اسلام کے نزدیک نہایت ہی مقدس عمل ہے،جب کہ طلاق اسلام کی نظرمیں جائز کاموں میں سب سے مکروہ اور مبغوض کام ہے۔ اسی لیے طلاق کی حدود و شرائط سخت ہیں،جب کہ نکاح کی شرائط آسان ہیں ۔ زن و شوہر کے درمیان اختلافات اور ناہم آہنگی کی صورت میں آخری علاج طلاق ہے۔ قرآن نے طلاق کی نوبت آنے سے پہلے اختلافات کو ختم کرنے کے متعدد حل بتائے ہیں۔ مثلاً عرف کی طرف رجوع کرنا، حَکَم اور منصف کی طرف رجوع کرنا، میاں بیوی کے خاندان کے افراد کی طرف رجوع کرنا اور آخر میں ہمبستری ترک کرنا وغیرہ۔ ان تمام تدابیر میں ناکامی کی صورت میں طلاق کی نوبت آتی ہے ۔


حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الۡوُسۡطٰی ٭ وَ قُوۡمُوۡا لِلّٰہِ قٰنِتِیۡنَ﴿۲۳۸﴾

۲۳۸۔ نمازوں کی محافظت کرو، خصوصاً درمیانی نماز کی اور اللہ کے حضور خضوع کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔

238۔ نمازیں پوری شرائط کے ساتھ وقت پر ادا کی جائیں۔ احادیث کے مطابق نماز وسطیٰ (درمیانی نماز) سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ پہلی نماز ہے جو اسلام میں پڑھی گئی اور دن کے وسط میں بھی ہے اور نماز جمعہ ظہر کی جگہ پڑھی جاتی ہے۔


فَاِنۡ خِفۡتُمۡ فَرِجَالًا اَوۡ رُکۡبَانًا ۚ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۲۳۹﴾

۲۳۹۔ پھر اگر تم حالت خوف میں ہو تو پیدل ہو یا سوار (جس حال میں ہو نماز پڑھ لو) اور جب تمہیں امن مل جائے تو اللہ کو اسی طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں وہ (کچھ) سکھایا ہے جسے تم پہلے نہیں جانتے تھے۔

239۔ نماز کی محافظت کے ایک مورد کا ذکر ہے کہ نماز کسی بھی حالت میں چھوڑی نہیں جائے گی، حتیٰ کہ حالت خوف میں بھی، جہاں ایک جگہ اطمینان سے نماز پڑھی نہیں جا سکتی۔ خوف کی حالت میں چلتے ہوئے یا سواری کی حالت میں قبلہ رخ ہونا شرط نہیں اور رکوع وسجود کے اشاروں پر اکتفا کیا جائے گا۔ نماز خوف کی تفصیل فقہی کتابوں میں مذکور ہے۔


وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا ۚۖ وَّصِیَّۃً لِّاَزۡوَاجِہِمۡ مَّتَاعًا اِلَی الۡحَوۡلِ غَیۡرَ اِخۡرَاجٍ ۚ فَاِنۡ خَرَجۡنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡ مَا فَعَلۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِنَّ مِنۡ مَّعۡرُوۡفٍ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ﴿۲۴۰﴾

۲۴۰۔ اور تم میں سے جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی بیویوں کے بارے میں وصیت کر جائیں کہ ایک سال تک انہیں (نان و نفقہ سے) بہرہ مند رکھا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں، پس اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں تو دستور کے دائرے میں رہ کر وہ اپنے لیے جو فیصلہ کرتی ہیں تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

240۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم آیۂ عدت وفات سے منسوخ ہو گیا ہے۔


تبصرے
Loading...