سوره بقره آيات 181 – 200

سوره بقره آيات 181 – 200

فَمَنۡۢ بَدَّلَہٗ بَعۡدَ مَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَاۤ اِثۡمُہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ یُبَدِّلُوۡنَہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۸۱﴾ؕ

۱۸۱۔جو وصیت کو سن لینے کے بعد اسے بدل ڈالے تو اس کا گناہ ان بدلنے والوں پر ہو گا، اللہ یقینا ہر بات کا خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔


فَمَنۡ خَافَ مِنۡ مُّوۡصٍ جَنَفًا اَوۡ اِثۡمًا فَاَصۡلَحَ بَیۡنَہُمۡ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۸۲﴾٪

۱۸۲۔ البتہ جو شخص یہ خوف محسوس کرے کہ وصیت کرنے والے نے جانبداری یا گناہ کا ارتکاب کیا ہے، پھر وہ آپس میں صلح کرا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ﴿۱۸۳﴾ۙ

۱۸۳۔ اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔


اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ ؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۴﴾

۱۸۴۔( یہ روزے) گنتی کے چند دن ہیں، پھر اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں مقدار پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھانا ہے، پس جو اپنی خوشی سے نیکی کرے تو اس کے لیے بہتر ہے اور اگر تم سمجھو تو روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔

184۔ وَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ یعنی روزہ رکھنے میں خود تمہاری بہتری ہے ۔ اس بہتری کو ہمارے علم کے ساتھ مربوط فرمایا ۔چنانچہ کل کی نسبت آج کا انسان روزے کے طبی، اخلاقی اور نفسیاتی فوائد کو بہتر سمجھ سکتا ہے۔

اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ :گنتی کے چند دن، یعنی ماہ رمضان۔ کیونکہ بارہ مہینوں میں سے ایک ماہ گنتی کے چند دن ہی ہوتے ہیں۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سال میں چند دن یعنی ایک ماہ کے روزے رکھنا کوئی پرمشقت کام نہیں ہے۔

روزے کا حکم بیان فرمانے کے بعد مسافر اور مریض کے لیے فرمایا کہ اگروہ ان معدود ایام میں روزہ نہ رکھ سکیں تو اس مقدار کو دوسرے دنوں میں پورا کرسکتے ہیں کیونکہ مقررہ دنوں میں نہ سہی لیکن اصل روزہ تو ہر حال میں بجا لانا ہوگا۔


شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۱۸۵﴾

۱۸۵۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور(حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے وہ روزہ رکھے اور جو بیمار اور مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں مقدار پوری کرے، اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا اور وہ چاہتا ہے کہ تم مقدار پوری کرو اور اللہ نے تمہیں جس ہدایت سے نوازا ہے اس پر اللہ کی عظمت و کبریائی کا اظہار کرو شاید تم شکر گزار بن جاؤ۔

185۔ فقہ جعفری کے مطابق حالت سفر اور حالت مرض میں روزہ ہوتا ہی نہیں ہے، بعد میں قضا رکھنا ہو گا۔ جو لوگ روزہ رکھنے میں غیر معمولی مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فی روزہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھانا ہے۔

رمضان، رمض سے مشتق ہے جو سخت تپش کے معنوں میں ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رمضان کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ ایمان کی تپش سے گناہوں کو جلا دیتا ہے ۔

اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا جبکہ عملاً قرآن 23 سالوں میں تدریجاً نازل ہوا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وضاحت یہ ہے کہ قرآن قلب رسول پر شب قدر میں نازل ہوا ۔ بعد میں بیانِ احکام کے لیے وحی کا انتظار کرنے کا حکم تھا۔ چنانچہ رمضان میں نزول کے لیے انزل فرمایا جو یکبارگی نزول کے معنوں میں ہے اور 23 سالوں والے نزول کے لیے نزلنہ تنزیلا فرمایا تنزیل تدریجی نزول کے معنوں میں ہے۔ واضح رہے اَنۡزَلَ اور نَزَّلَ کے درمیان یہ فرق ایک نظریہ ہے۔ راقم کا نظریہ نہیں ہے۔

وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ : یہ ایک کلی قانون ہے جس کے تحت ہر وہ عمل جس میں عسر و حرج لازم آئے وہ ارادۂ الٰہی میں شامل نہیں ہے۔ لہٰذا وہ نافذ نہیں ہے۔


وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ﴿۱۸۶﴾

۱۸۶۔ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (کہدیں کہ) میں (ان سے) قریب ہوں، دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں۔

186۔ وہ مومن کے دل بلکہ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے خود انسان کے اپنے نفس کے علاوہ اور کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔کسی مادی وسیلے کے بغیراس تک اپنی درخواست پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس آیت میں ایک وعدہ ہے اور ایک شرط۔ وعدہ یہ ہے: اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ میں دعا کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں، شرط یہ ہے: اِذَا دَعَانِ جب وہ مجھے پکارے۔ اگر دل و جان سے اللہ کو پکارنے کی شرط پوری کر دی جائے تو اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ۔

احادیث کے مطابق دعا مؤمن کا اسلحہ، عبادت کی روح، کامیابی کی کنجی، بہترین عبادت اور مؤمن کی سپر ہے۔ قبولیت دعا کے لیے معرفت الٰہی، اس کے مطابق عمل، حلال کی کمائی اور حضور قلب ہونا ضروری ہے اور آسائش کے وقت بھی تضرع و زاری سے دعا کرتے رہنا چاہیے ۔

دعا سے انسان رحمت الہی کا مستحق اور اللہ کے ارادے کے لیے اہل بن جاتا ہے، یہاں سے اس کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت امام صادق (ع) سے مروی ہے: الدُّعَائُ یَرُدُّ الْقَضَائَ المُبْرَمَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ اِبْرَامًا ۔ (المستدرک 5 : 116) دعا تقدیر کو اس وقت بھی بدل دیتی ہے جب وہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہو ۔

آدا ب دعا یہ ہیں کہ پہلے اللہ کی حمد و ثنا پھر محمد و آل محمد پر درود اور اپنے گناہوں کا اعتراف ہونا چاہیے۔


اُحِلَّ لَکُمۡ لَیۡلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمۡ ؕ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ؕ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ تَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ وَ عَفَا عَنۡکُمۡ ۚ فَالۡـٰٔنَ بَاشِرُوۡہُنَّ وَ ابۡتَغُوۡا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ ۪ وَ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوۡہُنَّ وَ اَنۡتُمۡ عٰکِفُوۡنَ ۙ فِی الۡمَسٰجِدِ ؕ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَقۡرَبُوۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ﴿۱۸۷﴾

۱۸۷۔ اور روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو، اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے پس اللہ نے تم پر عنایت کی اور تم سے درگزر فرمایا، پس اب تم اپنی بیویوں سے مباشرت کرو اور اللہ نے جو تمہارے لیے مقرر فرمایا ہے اسے تلاش کرو اور (راتوں کو) خوردونوش کرو، یہاں تک کہ تم پر فجر کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے نمایاں ہو جائے، پھر رات تک روزے کو پورا کرو اور جب تم مساجد میں اعتکاف کی حالت میں ہو تو اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان کے قریب نہ جاؤ، اس طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔

187۔ ابتدا میں روزوں کی راتوں میں بیویوں سے مباشرت حرام تھی اور فقط سونے سے پہلے کھانا کھا سکتے تھے۔ اس آیت میں مباشرت اور فجر کی سفید دھاری ظاہر ہونے تک کھانا حلال کر دیا گیا، ساتھ ہی میاں بیوی کا تعلق بیان ہوا۔ دونوں کے لیے تعبیر یکساں ہے کہ باہمی ربط و تعلق زیب و زینت اور تحفظ کے اعتبار سے یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لباس جیسی اہمیت رکھتے ہیں۔


وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَ تُدۡلُوۡا بِہَاۤ اِلَی الۡحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۸﴾٪

۱۸۸۔اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ اور نہ ہی اسے حکام کے پاس پیش کرو تاکہ تمہیں دوسروں کے مال کا کچھ حصہ دانستہ طور پر ناجائز طریقے سے کھانے کا موقع میسر آئے۔

188۔ اَمۡوَالَکُمۡ کی تعبیر سے انفرادی ملکیت ثابت ہوتی ہے بلکہ اسلام اس انفرادی ملکیت کی حرمت کا قائل ہے۔ حرمۃ مال المسلم کحرمۃ دمہ (الکافی2: 666)۔ مال مسلم کو وہی حرمت حاصل ہے جو اس کے خون کو ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے : فَاَمَّا الرَّشَا فِی الْحُکْمِ فَھُوَ الْکُفْرُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ ۔ (الکافی 5 : 127) (عدالتی) فیصلوں میں رشوت لینا خدائے عظیم سے کفر برتنے کے مترادف ہے ۔


یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَجِّ ؕ وَ لَیۡسَ الۡبِرُّ بِاَنۡ تَاۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ ظُہُوۡرِہَا وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنِ اتَّقٰیۚ وَ اۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ اَبۡوَابِہَا ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۸۹﴾

۱۸۹۔لوگ آپ سے چاند کے(گھٹنے بڑھنے کے) بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: یہ لوگوں کے لیے اور حج کے اوقات کے تعین کا ذریعہ ہے اور (ساتھ یہ بھی کہدیجئے کہ حج کے احرام باندھو تو) پشت خانہ سے داخل ہونا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے اور تم (اپنے) گھروں میں دروازوں سے ہی داخل ہوا کرو اور اللہ (کی ناراضگی) سے بچے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

189۔ چاند آسمان پر آویزاں ایک تقویم ہے جو آسانی سے ہر خواندہ اور ناخواندہ شخص دیکھ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے قمری تقویم قدیم زمانوں سے قابل عمل چلی آ رہی ہے۔ چنانچہ مصری، سومری، یونانی اور دوسری قومیں قمری تقویم پر عمل پیرا تھیں۔ شمسی جنتری ہر شخص کے لیے قابل فہم نہیں ہے۔ چنانچہ یہ تقویم بہت سے مفکرین کی مسلسل کوششوں سے موجودہ شکل میں آ گئی ہے۔

عربوں کی تو ہم پرستانہ رسوم میں سے ایک یہ تھی کہ حج کے لیے احرام باندھنے کے بعد وہ اپنے گھروں میں دروازے سے داخل نہیں ہوتے تھے،بلکہ پیچھے سے دیوار پھلانگ کر یا گھر کی عقبی کھڑکی سے داخل ہوتے تھے۔ ان اوہام کو ختم کرتے ہوئے قرآن کریم نے نیکی کا حقیقی معیار بیان فرمایا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو۔


وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ﴿۱۹۰﴾

۱۹۰۔اور تم راہ خدا میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو اللہ تجاوز کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔

190۔ مسلمانوں کو پہلی بار یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ تمہاری دعوت کے خلاف مسلح مزاحمت کرتے ہیں ان سے مسلح جہاد کرو، جبکہ اس سے پہلے صبر کرنے اور مناسب وقت کے انتطار کی ہدایت کی جاتی تھی۔


وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ اَخۡرَجُوۡکُمۡ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ ۚ وَ لَا تُقٰتِلُوۡہُمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوۡکُمۡ فِیۡہِ ۚ فَاِنۡ قٰتَلُوۡکُمۡ فَاقۡتُلُوۡہُمۡ ؕ کَذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۹۱﴾

۱۹۱۔ اور انہیں جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کرو اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ برا ہے، ہاں مسجد الحرام کے پاس ان سے اس وقت تک نہ لڑو جب تک وہ وہاں تم سے نہ لڑیں، لیکن اگر وہ تم سے لڑیں تو تم انہیں مار ڈالو، کافروں کی ایسی ہی سزا ہے۔

191۔ فتنے میں قتل بھی کثرت سے ہوتا ہے اور لوگوں سے امن و سکون بھی سلب ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فتنہ پرور لوگ حق کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔


فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۹۲﴾

۱۹۲۔ البتہ اگر وہ باز آجائیں تو یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔


وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَلَا عُدۡوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۹۳﴾

۱۹۳۔ اور تم ان سے اس وقت تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے، ہاں اگر وہ باز آ جائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو گی۔

192۔ 193۔ غیر مسلم اگرفتنہ پرور نہ ہو اور اپنے باطل نظریات کو لوگوں میں رائج کرنے اور حق کا راستہ روکنے میں کوئی کردار ادا نہ کرے تو اس آیت میں اس کے لیے پیغام امن ہے کہ اگر وہ فتنے سے باز آجائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی ۔


اَلشَّہۡرُ الۡحَرَامُ بِالشَّہۡرِ الۡحَرَامِ وَ الۡحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ فَاعۡتَدُوۡا عَلَیۡہِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۹۴﴾

۱۹۴۔ حرمت والے مہینے کا بدلہ حرمت کا مہینہ ہی ہے اور حرمتوں کا بھی قصاص ہے، لہٰذا جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اسی طرح زیادتی کرو جس طرح اس نے تم پر زیادتی کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

194۔حضرت ابراہیم (ع) کے عہد سے ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب، حج اور عمرے کے لیے مختص تھے۔ ان مہینوں کوحرمت (تقدس) کے مہینے کہتے ہیں۔ ان چار مہینوں میں جاہلیت کے دور میں بھی لوگ جنگ نہیں کرتے تھے۔ اس آیت میں یہ آیا ہے کہ اگر کفار ان مہینوں کی حرمت کو توڑ دیں اور اس کا تقدس پامال کریں تو مسلمان بھی ان حرمت والے مہینوں میں ان کا مقابلہ کریں کیونکہ حرمتوں کا بھی قصاص ہے۔


وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۹۵﴾

۱۹۵۔ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کیا کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو یقینا پسند کرتا ہے۔

195۔ مشرکین کے ساتھ جنگ اور راہ خدا میں جہاد کا ایک حصہ مالی جہاد ہے۔ آیہ شریفہ میں اس بات کا حکم دیا جا رہا ہے کہ اگر چہ مسلمان حق پر ہیں اور رب کی نصرت ان کے ساتھ ہے، لیکن پھر بھی چونکہ اس عالم میں علل و اسباب کا نظام کارفرما ہے، اس لیے جنگ میں کامیابی کے لیے عام علل و اسباب پر بھی تکیہ کرنا ہو گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ اپنے ہاتھوں ہلاکت میں پڑنے کے مترادف ہو گا۔ اللہ کے وضع کردہ نظام کے مطابق عمل کرنا ہی احسان ہے۔ جنگ کے موقع پر جنگ کرنا، خرچ کی جگہ مال و دولت کو خرچ کرنا اور اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانا احسان کے مواقع ہیں۔ انفاق اور ہلاکت کے باہمی ربط کا ذکر نہایت قابل توجہ ہے کہ انفاق کو وہی اہمیت حاصل ہے جو زندگی کو ہے اور انفاق سے قومیں زندہ رہتی ہیں ۔ انفاق ہی کے ذریعے قوم کی رگوں میں زندگی کی رمق باقی رہتی ہے ۔

اس آیت سے خودکشی کی حرمت پر بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا حرام ہے۔


وَ اَتِمُّوا الۡحَجَّ وَ الۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ ؕ فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ وَ لَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَکُمۡ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡہَدۡیُ مَحِلَّہٗ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدۡیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوۡ صَدَقَۃٍ اَوۡ نُسُکٍ ۚ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡ ٝ فَمَنۡ تَمَتَّعَ بِالۡعُمۡرَۃِ اِلَی الۡحَجِّ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الۡحَجِّ وَ سَبۡعَۃٍ اِذَا رَجَعۡتُمۡ ؕ تِلۡکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ اَہۡلُہٗ حَاضِرِی الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿۱۹۶﴾٪

۱۹۶۔ اور تم لوگ اللہ کے لیے حج اور عمرہ مکمل کرو، پھر اگر تم لوگ (راستے میں) گھر جاؤ تو جیسی قربانی میسر آئے کر دو اور جب تک قربانی اپنے مقام پر پہنچ نہ جائے اپنا سر نہ مونڈھو، لیکن اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو تو وہ روزوں سے یا صدقے سے یا قربانی سے فدیہ دے دے، پھر جب تمہیں امن مل جائے تو جو شخص حج کا زمانہ آنے تک عمرے سے بہرہ مند رہا ہو وہ حسب مقدور قربانی دے اور جسے قربانی میسر نہ آئے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات واپسی پر، اس طرح یہ پورے دس (روزے) ہوئے، یہ(حکم) ان لوگوں کے لیے ہے جن کے اہل و عیال مسجد الحرام کے نزدیک نہ رہتے ہوں اور اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

196۔ یعنی اگر حج کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش آئے جس کی وجہ سے آگے جانا ممکن نہ ہو تو جو قربانی میسر آئے اسے ذبح کرو۔ قربانی کا مقام حج کے لیے منیٰ اور عمرہ کے لیے مکہ ہے۔

حج ان مناسک سے عبارت ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے مکہ میں ادا کیے جاتے ہیں۔ اہل عرب بھی یہی عمل یعنی حج بجا لاتے تھے۔ اسلام نے اہل عرب کی بعض خرافات کی تطہیر کے بعد حقیقی حج کو برقرار رکھا۔ حج اسلامی شعائر میں سے ہے بلکہ اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔

جو لوگ دور سے حج کے لیے آتے ہیں وہ ایک ہی سفرمیں پہلے عمرہ کے لیے احرام باندھتے ہیں اور اعمال عمرہ بجا لانے کے بعد احرام کھولتے ہیں اور احرام سے نکل آتے ہیں، پھر جب حج کے دن آئیں تو دوبارہ احرام باندھتے ہیں اور اعمال حج بجا لاتے ہیں۔ اسے حج تمتع کہتے ہیں۔ جبکہ مکہ کے باشندے حج افراد یا حج قران بجا لاتے ہیں انہیں عمرہ کے لیے الگ سفر نہیں کرنا پڑتا۔


اَلۡحَجُّ اَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ ۚ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یَّعۡلَمۡہُ اللّٰہُ ؕؔ وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ﴿۱۹۷﴾

۱۹۷۔حج کے مقررہ مہینے ہیں، پس جو ان میں حج بجا لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر حج کے دوران ہم بستری نہ ہو اور نہ فسق و فجور اور نہ لڑائی جھگڑا ہو اور جو کار خیر تم کرو گے اللہ اسے خوب جان لے گا اور زادراہ لے لیا کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! (میری نافرمانی سے) پرہیز کرو۔

197۔ زمان جاہلیت میں حج کے موقع پر بازار لگاتے، ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرتے اور ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرتے تھے۔ اس طرح حج کی عبادت لڑائی میں بدل جاتی تھی۔

وَ تَزَوَّدُوۡا : زاد راہ مہیا کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ یعنی اگر حج کے مختصر سفر کے لیے زاد راہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو آخرت کے طویل اور لامحدود سفر کے لیے زاد راہ کتنا ضروری ہو گا اور اس کے لیے بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔


لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ فَاِذَاۤ اَفَضۡتُمۡ مِّنۡ عَرَفٰتٍ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ عِنۡدَ الۡمَشۡعَرِ الۡحَرَامِ ۪ وَ اذۡکُرُوۡہُ کَمَا ہَدٰىکُمۡ ۚ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیۡنَ﴿۱۹۸﴾

۱۹۸۔ تم پر کوئی مضائقہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو، پھر جب تم عرفات سے چلو تو مشعر الحرام (مزدلفہ) کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے، حالانکہ اس سے پہلے تم راہ گم کیے ہوئے تھے۔

198۔ ایام جاہلیت میں عربوں نے حج کو ایک تاجرانہ عمل بنا رکھا تھا۔ وہ ان دنوں بڑے بڑے بازار لگاتے تھے۔ چنانچہ جب اللہ کا یہ فرمان نازل ہوا: فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی تو مسلمانوں کے ذہن میں اس خیال کا آنا قرین قیاس تھا کہ دنیاوی و مادی امور کے لیے جدوجہد کرنا اعمال حج کے منافی ہے۔ یہ خیال دور کرنے کے لیے ارشاد ہوا کہ اللہ کا فضل تلاش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور یہ حج کے منافی بھی نہیں ہے۔ اس اعتبار سے ایام حج میں کسب حلال کا عمل حج کے منافی نہیں بلکہ حج کی طرح روزی کمانا بھی عبادت ہے۔ واضح رہے کہ احادیث کے مطابق فضل سے مراد کسب حلال ہے۔

روانہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں حاجی ٹھہرا ہوا ہے وہاں سے روانہ ہو۔ چنانچہ عرفات میں وقوف کرنا حج کے ارکان میں سے ہے۔ ” مشعر الحرام میں اللہ کو یاد کرو ” سے مزدلفہ میں وقوف کرنے کا حکم واضح ہو جاتا ہے۔


ثُمَّ اَفِیۡضُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسۡتَغۡفِرُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۹۹﴾

۱۹۹۔پھر جہاں سے لوگ روانہ ہوتے ہیں تم بھی روانہ ہو جاؤ اور اللہ سے معافی مانگو، یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

199۔ قریش عرفات تک جانے کو اپنی شان کے منافی سمجھتے تھے۔اس آیت میں اس امتیازی تصور کو مٹانے کیلیے حکم ہوا کہ سب ایک صف میں حج کرو۔


فَاِذَا قَضَیۡتُمۡ مَّنَاسِکَکُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ﴿۲۰۰﴾

۲۰۰۔پھر جب تم حج کے اعمال بجا لا چکو تو اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے آبا و اجداد کو یاد کیا کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ، پس لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے: ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں (سب کچھ) دے دے اور ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔

200۔ دور جاہلیت میں اعمال حج سے فراغت کے بعد عرب جلسے منعقد کرتے اور اپنے آبا و اجداد کے کارنامے بیان کرتے تھے۔ اس آیت میں حکم ہوا آبا و اجداد پر فخر و مباہات کی جگہ اللہ کو یاد کرو۔ یاد خدا کے سلسلے میں اگر تم اللہ سے کچھ مانگتے ہو، صرف دنیا نہ مانگو، شاید تمہیں دنیا مل جائے مگر آخرت میں تمہارا کوئی حصہ نہ ہو گا۔ جبکہ اگر تم نے آخرت مانگی تو آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی تمہیں اپنا حصہ مل جائے گا۔ لہٰذا بندے کو مانگنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔


تبصرے
Loading...