سوره بقره آيات 161 – 180

سوره بقره آيات 161 – 180

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ لَعۡنَۃُ اللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۶۱﴾ۙ

۱۶۱۔جو لوگ کفر اختیار کرتے ہیں اور اسی حالت میں مر جاتے ہیں ان پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔


خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ﴿۱۶۲﴾

۱۶۲۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔


وَ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۶۳﴾٪

۱۶۳۔ اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اس رحمن رحیم کے سوا کوئی معبود نہیں۔

163۔ الٰہ :معبود کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ واحد ہے۔ اس کی ذات ایک ہے۔ وہ صفات میں بھی ایک ہے۔ اس کی ذات اور صفات میں بھی تعدد نہیں ہے۔ یعنی اس کی حیات، قدرت، علم اور ذات ایک ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ذات خدا اور اس کی صفات دو متعدد چیزیں ہوں۔ صفت اور موصوف الگ ہوں ۔ چنانچہ دیگر اشیاء میں ذات، صفات سے الگ اور ان سے متصف ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ذات کا صفات سے اتصاف اس وقت معقول ہے، جب یہ دونوں الگ ہوں ۔


اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ﴿۱۶۴﴾

۱۶۴۔ یقینا آسمانوں اور زمین کی خلقت میں، رات اور دن کے آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کے لیے مفید چیزیں لے کر سمندروں میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمانوں سے برسایا، پھر اس پانی سے زمین کو مردہ ہونے کے بعد (دوبارہ) زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانداروں کو پھیلایا، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں عقل سے کام لینے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

164۔ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ : حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہوا کے درج ذیل فوائد بیان فرماتے ہیں: ٭حیا ت بخش ہے ٭تنفس کے ذریعے اعضاء کا تحفظ ٭آواز کی منتقلی ٭خوشبو کی منتقلی ٭حرارت اور برودت کا اعتدال ٭بادلوں کی منتقلی ٭درختوں کی بارداری ٭کشتی رانی ٭کھانے کی چیزوںمیں نرمی ٭آتش سوزی کا ذریعہ ٭موسم میں خنکی ٭رطوبت کی تخفیف۔ خلاصہ: موجوداتِ ارضی کے لیے ہوا حیات بخش ہے۔ (توحید مفضل سے اقتباس)

امام (ع) کے فرمان کا ایک جملہ یہ ہے: وھو القابل للحر و البرد ” ہوا حرارت اور برودت کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے “۔

سورج کی روشنی کے مضر اثرات زمین کے مخصوص کرۂ ہوائی اوزون کے ذریعے زائل ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ رو شنی چَھن کر ہم تک پہنچتی ہے، لیکن اس مخصوص کرۂ ہوائی کے دائرے اوزون میں بعض وجوہات کی بنا پر شگاف پڑ جانے کی وجہ سے یہ مضر کرنیں اور شعاعیں براہ راست زمین تک پہنچ رہی ہیں جن کے مہلک اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔


وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕوَ لَوۡ یَرَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اِذۡ یَرَوۡنَ الۡعَذَابَ ۙ اَنَّ الۡقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعَذَابِ﴿۱۶۵﴾

۱۶۵۔اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا مدمقابل قرار دیتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنی چاہیے اور ایمان والے تو سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں اور کاش یہ ظالم لوگ عذاب کا مشاہدہ کر لینے کے بعد جو کچھ سمجھنے والے ہیں اب سمجھ لیتے کہ ساری طاقتیں صرف اللہ ہی کی ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں نہایت شدید ہے۔


اِذۡ تَبَرَّاَ الَّذِیۡنَ اتُّبِعُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا وَ رَاَوُا الۡعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتۡ بِہِمُ الۡاَسۡبَابُ﴿۱۶۶﴾

۱۶۶۔ (اس وقت کا خیال کرو) جب راہنما اپنے پیروکاروں سے اظہار برائت کریں گے اور عذاب کا مشاہدہ کریں گے اور تمام تعلقات ٹوٹ کر رہ جائیں گے۔

166۔ ان لوگوں کی بات ہے جنہوں نے حق کو نہیں پہچانا بلکہ شخصیات کی جاہ و جلالت دیکھ کر انہیں حق و باطل کا معیار قرار دیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے ایسے لوگوں سے فرمایا: الحق لایعرف بالرجال اعرف الحق تعرف اھلہ ۔ حق شخصیات سے نہیں پہچانا جاتا، حق کو پہچان لو پھرتم اہلِ حق کو بھی پہچان لو گے۔ (روضۃ الواعظین 1: 31)


وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا لَوۡ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنۡہُمۡ کَمَا تَبَرَّءُوۡا مِنَّا ؕ کَذٰلِکَ یُرِیۡہِمُ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ حَسَرٰتٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِخٰرِجِیۡنَ مِنَ النَّارِ﴿۱۶۷﴾٪

۱۶۷۔ اور (دنیا میں) جو لوگ( ان کے ) پیروکار تھے وہ کہیں گے: کاش ہمیں ایک بار دنیا میں واپس جانے کا موقع مل جاتا تو ہم بھی ان سے (اسی طرح) اظہار برائت کرتے جس طرح یہ (آج) ہم سے اظہار برائت کر رہے ہیں،اس طرح اللہ ان کے اعمال کو سراپا حسرت بنا کر دکھائے گا اور وہ دوزخ سے نکل نہیں پائیں گے۔


یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿۱۶۸﴾

۱۶۸۔لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

168۔ اس آیت سے اصل حِلّیّت ثابت ہوتی ہے کہ زمین میں موجود چیزیں دو شرطوں کے ساتھ انسان کے لیے مباح ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ حلال ہوں، دوسری شرط یہ ہے کہ پاکیزہ ہوں۔


اِنَّمَا یَاۡمُرُکُمۡ بِالسُّوۡٓءِ وَ الۡفَحۡشَآءِ وَ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۶۹﴾

۱۶۹۔ وہ تمہیں برائی اور بے حیائی کا ہی حکم دیتا ہے اور اس بات کا کہ تم اللہ کی طرف وہ باتیں منسوب کرو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے۔

169۔ شیطان کی گمراہ کن تحریک کے دو عناصر ہیں: ایک یہ کہ انسان کو بے حیائی کے ارتکاب پر آمادہ کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ بغیر علمی سند کے اللہ کی طرف باتیں منسوب کرے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے: إیّاک و خصلتین ففیھما ھلک من ھلک : ان تفتی برأیک و تدین بما لا تعلم (وسائل الشیعہ27:21)۔دو باتوں سے اجتناب کیا کرو، ان دو باتوں کی وجہ سے لو گ ہلاکت میں پڑتے رہے ہیں: اپنی ذاتی رائے سے حکم نہ بتایا کرو اور جن چیزوں کا تمہیں علم نہیں ہے انہیں اپنے دین کا حصہ نہ بناؤ۔


وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اتَّبِعُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ قَالُوۡا بَلۡ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلۡفَیۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا ؕ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ شَیۡئًا وَّ لَا یَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۷۰﴾

۱۷۰۔اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آبا و اجداد کو پایا ہے، خواہ ان کے آبا و اجداد نے نہ کچھ عقل سے کام لیا ہو اور نہ ہدایت حاصل کی ہو۔

170۔ اَوَ لَوۡ کَانَ اٰبَآؤُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ … ۔ اس آیت میں اندھی تقلید کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی ہے۔ اندھی تقلید وہ ہے جو عقل و ہدایت پر مبنی نہ ہو۔ اسلام عقل، دلیل اور سند کے بغیر کسی مؤقف کو درست تصور نہیں کرتا۔ اس لیے یہ کہنا نہایت ناانصافی ہے کہ مذہب اندھی تقلید کا نام ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں انسانی زندگی چار ادوار پر مشتمل ہے۔داستانی، مذہبی، فلسفی اور سائنسی۔ مذہب دوسرے دور سے مربوط ہے۔ لیکن یہ نظریہ درست نہیں، کیونکہ دین فلسفے سے پہلے دور کی پیداوار نہیں ہے بلکہ دین ابراہیمی سے پہلے ہندوستان، مصر اور کلدان میں فلسفہ رائج تھا۔ فروعی مسائل میں ماہر فقہ کی طرف رجوع کرنے کو بھی تقلید کہتے ہیں۔ مگر یہ بغیر دلیل و سند کے اندھی تقلید نہیں ہے، بلکہ یہ عقل و ہدایت کے ذریعے مذہب کو قبو ل کرنے کے بعد اس پر عمل کرنے کا ایک معقول ذریعہ ہے۔


وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا کَمَثَلِ الَّذِیۡ یَنۡعِقُ بِمَا لَا یَسۡمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً ؕ صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۷۱﴾

۱۷۱۔اور ان کافروں کی حالت بالکل اس شخص کی سی ہے جو ایسے (جانور) کو پکارے جو بلانے اور پکارنے کے سوا کچھ نہ سن سکے، یہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں، پس (اسی وجہ سے) یہ لوگ عقل سے بھی عاری ہیں۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِلّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِیَّاہُ تَعۡبُدُوۡنَ﴿۱۷۲﴾

۱۷۲۔ اے ایمان والو! اگر تم صرف اللہ کی بندگی کرنے والے ہو تو ہماری عطا کردہ پاک روزی کھاؤ اور اللہ کا شکر کرو۔


اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔یقینا اسی نے تم پر مردار، خون، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام قرار دیا، پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ بغاوت کرنے اور ضرورت سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

173۔ فقہ جعفری کے مطابق جو جانور ذبح شرعی کے بغیر مر جائے، اس مردار سے ہرقسم کا استفادہ حرام ہے۔ چنانچہ اس کا چمڑا دباغت کے ذریعے پاک اور جائز الاستفادہ نہیں ہوتا، جب کہ دوسرے مذاہب میں پاک و جائز ہوتا ہے۔


اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ یَشۡتَرُوۡنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۙ اُولٰٓئِکَ مَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیۡہِمۡ ۚۖ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۷۴﴾

۱۷۴۔جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے عوض میں حقیر قیمت حاصل کرتے ہیں، یہ لوگ بس اپنے پیٹ آتش سے بھر رہے ہیں اور اللہ قیامت کے دن ایسے لوگوں سے بات نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

174۔ جو لوگ حقیر دنیاوی مفادات کی خاطراحکام خداوندی کو درست بیان نہیں کرتے، دراصل وہ اپنے شکم کو آگ سے بھر رہے ہیں۔ یہ آیت تجسم اعمال پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی انسان اس دنیا میں جو بھی عمل انجام دیتا ہے، وہ آخرت میں مجسم ہو کر سامنے آئے گا۔ جو لوگ احکام خدا کو چھپا کر دنیا میں مال و دولت کماتے ہیں قیامت کے دن یہی مال آگ کی شکل اختیار کرے گا ۔

قیامت کے دن اللہ ایسے لوگوں سے نہ بات کرے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا۔ دنیا میں اللہ سے ہمکلام ہونے کا شرف صرف انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہے، لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومنوں سے ہمکلام ہوگا۔ قیامت کے دن سب کو اللہ ہی کے سامنے جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے اور حساب و کتاب دینا ہے۔


اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالۡہُدٰی وَ الۡعَذَابَ بِالۡمَغۡفِرَۃِ ۚ فَمَاۤ اَصۡبَرَہُمۡ عَلَی النَّارِ﴿۱۷۵﴾

۱۷۵۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے عوض ضلالت اور مغفرت کے بدلے عذاب خرید لیا ہے، (تعجب کی بات ہے کہ) آتش جہنم کے عذاب کے لیے ان میں کتنی برداشت ہے۔

175۔ اللہ تعالیٰ ان کی نادانی اور بے عقلی بیان فرماتا ہے کہ یہ لوگ احکام خدا کو بھی جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے چھپانے کا انجام ضلالت اور جہنم ہے۔ اس علم کے باوجود یہ لوگ آتش جہنم میں جانے کے لیے آمادہ ہیں جو مقام تعجب ہے۔


ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِی الۡکِتٰبِ لَفِیۡ شِقَاقٍۭ بَعِیۡدٍ﴿۱۷۶﴾٪

۱۷۶۔یہ (سزا) اس وجہ سے ہے کہ اللہ نے کتاب تو حق کے مطابق نازل کی تھی اور جن لوگوں نے کتاب کے بارے میں اختلاف کیا، یقینا وہ دور دراز کے جھگڑے میں پڑے ہوئے ہیں۔

176۔ احکام خدا چھپانے والوں کو یہ سزا کیوں دی جا رہی ہے اور ان کے یہ گناہ ناقابل معافی کیوں ہیں؟ آیہ شریفہ میں اس کی وضاحت فرمائی گئی ہے کہ اللہ نے حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی، ان لوگوں نے حق کو چھپایا ہے۔ حق پوشیدہ رکھنے کی صورت میں اختلاف اور تفرقہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ضلالت و گمراہی اوراستحقاق عذاب ہے۔ چنانچہ دنیا میں رونما ہونے والے تمام اختلافات اور نفرتوں کے ذمے داریہی لوگ ہیں۔ اس لیے ان کا یہ جرم قابل معافی نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے اس جرم کے آثار آنے والی تمام نسلوں میں جاری رہتے ہیں۔


لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ﴿۱۷۷﴾

۱۷۷۔ نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ جو کوئی اللہ، روز قیامت، فرشتوں، کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنا پسندیدہ مال قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے نیز جب معاہدہ کریں تو اسے پورا کرنے والے ہوں اور تنگدستی اور مصیبت کے وقت اور میدان جنگ میں صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں۔

177۔ رسولِ کریمؐ سے مروی ہے: من عمل بھذہ الایۃ فقد استکمل الایمان ۔ (بحار الانوار 66: 346) جو اس آیت پر عمل کرے اس کا ایمان کامل ہے۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی ؕ اَلۡحُرُّ بِالۡحُرِّ وَ الۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَ الۡاُنۡثٰی بِالۡاُنۡثٰی ؕ فَمَنۡ عُفِیَ لَہٗ مِنۡ اَخِیۡہِ شَیۡءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیۡہِ بِاِحۡسَانٍ ؕ ذٰلِکَ تَخۡفِیۡفٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۷۸﴾

۱۷۸۔ اے ایمان والو! تم پر مقتولین کے بارے میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، ہاں اگر مقتول کے بھائی کی طرف سے قاتل کو (قصاص کی) کچھ چھوٹ مل جائے تو اچھے پیرائے میں (دیت کا) مطالبہ کیا جائے اور (قاتل کو چاہیے کہ) وہ حسن و خوبی کے ساتھ اسے ادا کرے، یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک قسم کی تخفیف اور مہربانی ہے، پس جو اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔

178۔ یہودیوں کے ہاں قصاص ایک لازمی اور ناقابلِ تلافی سزا ہے۔ ملاحظہ ہو خروج 21، 22 عدد 35۔ عیسائی کہتے ہیں : قصاص کی سزا فقط خاص حالات میں دی جا سکتی ہے۔ اسلام نے یہاں عادلانہ اور فراخدلانہ راہ اختیار کی ہے اور تین راہوں میں سے ایک راہ اختیار کرنے کا حق دیا ہے :٭ قصاص یعنی خون کا بدلہ خون ٭ دیت یعنی خون کا بدلہ مال ٭ معافی یعنی نہ خون نہ دیت۔


وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ﴿۱۷۹﴾

۱۷۹۔ اور اے عقل والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، امید ہے تم (اس قانون کے سبب) بچتے رہو گے۔

179۔ جو لوگ قصاص کو جانوں کے تلف کرنے کا اعادہ اور جذبۂ انتقام کا فروغ تصور کرتے ہیں، ان کی نظر میں قصاص صرف قاتل اور مقتول تک محدود ہے جبکہ قصاص کا تعلق پوری انسانیت سے ہے اور اس قانون سے قتل میں کمی واقع ہو جاتی ہے، خواہ قصاص عملاً معاف ہو جائے یا دیت لے لی جائے نیز قصاص اندھا انتقام نہیں بلکہ یہ ایک مہذب قانون ہے۔ چنانچہ مقتول کے وارثین کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خود قاتل سے انتقام لیں۔ ورثاء عدالت کی طرف رجوع کریں گے اور اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ قانونِ قصاص پر عمل کرائے خواہ مقتول کا کوئی وارث ہو یا نہ ہو۔ چشم جہاں نے دیکھ لیا کہ جس دن سے زندان نے قصاص کی جگہ لی ہے، دنیا میں قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے نیز دفاع میں جب قتل سے پہلے قتل جائز ہے، قصاص میں قتل کے بعد قتل کیسے جائز نہ ہو گا۔

قصاص پر اعتراض کرنے والی ایک مہذب قوم نے اپنے ایک فرد کا بدلہ دوسری پوری قوم سے لیا۔ وہ لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تیسری دنیا میں نسل کشی سے باز نہیں آتے،پھر قصاص کو غیر انسانی عمل کہتے ہیں!


کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الۡوَصِیَّۃُ لِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۸۰﴾ؕ

۱۸۰۔ تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے مناسب طور پر وصیت کرے، متقی لوگوں پر یہ ایک حق ہے۔

180۔ تَرَکَ خَیۡرَۨا سے مراد مال ہے۔ قرآن مجید میں مال کو یہاں خیر کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مال اگرچہ خود مقصد تو نہیں، لیکن اگرکسی نیک مقصد کا ذریعہ بنتا ہو تو اس میں خیر ہی خیر ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ (ع) نے خیر سے مال کثیر مراد لیا ہے۔ چنانچہ ایک ایسے آدمی کو جس کے پاس صرف سات سو درھم تھے آپ (ع) نے وصیت کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا: قَال سُبْحَانَہٗ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا وَ لَیْسَ لَکَ کَثِیْرِ مَالٍ ۔ (فقہ القرآن 2: 301) اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ خیر چھوڑ جائے اور تیرے پاس کثیر مال نہیں ہے۔


تبصرے
Loading...