سوره بقره آيات 121 – 140
اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۱۲۱﴾٪
۱۲۱۔ جنہیں ہم نے کتاب عنایت کی ہے (اور) وہ اس کا حق تلاوت ادا کرتے ہیں، وہی لوگ اس (قرآن) پر ایمان لائیں گے اور جو اس سے کفر اختیار کرے گا پس وہی گھاٹے میں ہے۔
121۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: حق تلاوت ادا کرنے والے لوگ وہ ہیں جو آیات کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہیں اور انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے وعدوں کی امید رکھتے ہیں۔ اس کی تنبیہوں سے خائف رہتے ہیں۔ اس کے قصوں سے عبرت حاصل کرتے ہیں اس کے اوامر کی تعمیل کرتے ہیں اور اس کے نواہی سے باز رہتے رہتے ہیں۔ (ارشاد القلوب 1 : 78)
یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۲۲﴾
۱۲۲۔ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تمہیں عطا کی ہے اور یہ کہ میں نے تمہیں اہل عالم پر فضیلت دی ہے۔
وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا لَّا تَجۡزِیۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَیۡئًا وَّ لَا یُقۡبَلُ مِنۡہَا عَدۡلٌ وَّ لَا تَنۡفَعُہَا شَفَاعَۃٌ وَّ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ﴿۱۲۳﴾
۱۲۳۔اور اس روز سے ڈرو جب نہ کوئی کسی کے کچھ کام آئے گا، نہ اس سے معاوضہ قبول ہو گا، نہ شفاعت اسے فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ ہی انہیں کوئی مدد مل سکے گی۔
وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۲۴﴾
۱۲۴۔ اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا اور انہوں نے انہیں پورا کر دکھایا، ارشاد ہوا : میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا: اور میری اولاد سے بھی؟ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا ۔
124۔ الٰہی دعوت کے بانی، ارتقائی سفر کے میرکارواں، تحریکِ جہاد کے اولین قائد، بیت اللہ کے معمار، اللہ کی راہ میں پہلے مہاجر اور تاریخ انسانیت کے عظیم بت شکن ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ کا ذکر ہے ۔
آپ تین بڑے پیشواؤں حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ علیہما السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد اعلیٰ ہیں۔ قدیم کلدانی سلطنت بابل اور موجودہ عراق کے ایک شہر اور میں پیدا ہوئے۔ آپؑ نے اپنے فرزندوں کے ذریعے دنیا میں دعوت توحید کے دو مراکز قائم کیے۔ ایک مکہ میں اور دوسرا فلسطین میں۔ حضرت اسماعیل ؑ کو مکہ اور حضرت اسحاق ؑکو فلسطین میں متعین فرمایا۔ قریش حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد ہیں اور بنی اسرائیل حضرت اسحاق ؑ کی۔
یہودیوں کی بد عہدی اور نا شکری، منصب امامت کو ظالموں سے دور رکھنا، بیت اللہ کی تعمیر، اسے پاکیزہ رکھنے کی ذمہ داری سونپنا، تبدیلی قبلہ، نسل اسماعیل ؑ کے لیے دعا، یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ انسانیت کی امامت کے لیے نسل اسرائیل کی جگہ اولاد اسماعیل کو منتخب کر لیا گیا ہے۔
اللہ کا فضل و کرم اندھی بانٹ نہیں، بلکہ استحقاق اور اہلیت کی بناء پر ہے اور استحقاق پرکھنے کے لیے امتحان اور میدان عمل ضروری ہیں۔
بعض علماء نے فرمایا ہے: لوگوں کی چار قسمیں ہو سکتی ہیں :٭ وہ لوگ جو ساری زندگی ظالم رہے ہوں۔٭ جو آخری عمرمیں ظالم رہے ہوں۔ ٭جو ابتدائی زندگی میں ظالم رہے ہوں۔ ٭جو زندگی میں کبھی ظالم نہ رہے ہوں۔ حضرت ابراہیمؑ کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ پہلی اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے امامت کی خواہش کرتے۔ باقی دو قسمیں رہ جاتی ہیں، جن میں سے ایک کے لیے امامت کی نفی کی ہے۔ بنا برایں چوتھی قسم کے لیے امامت ثابت ہو جاتی ہے اور ساتھ عصمت بھی ۔
وَ اِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَیۡتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمۡنًا ؕ وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰہٖمَ مُصَلًّی ؕ وَ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡعٰکِفِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ﴿۱۲۵﴾
۱۲۵۔ اور (وہ وقت یاد رکھو) جب ہم نے خانہ (کعبہ) کو مرجع خلائق اور مقام امن قرار دیا اور (حکم دیا کہ) مقام ابراہیم کو مصلیٰ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل پر یہ ذمے داری عائد کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف، اعتکاف اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔
125۔ خانہ کعبہ کو اللہ نے نزول وحی کا مہبط، تحریک ابراہیمی و انقلاب محمدی کامرکز، عبادت و خشوع کے لیے قبلۂ عالم، حج کی انجام دہی کے لیے مقدّس اور امن و آشتی کا گہوارہ بنایا۔ “مقامِ ابراہیم” وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیمؑ کے قدموں کے آثار موجود ہیں
وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارۡزُقۡ اَہۡلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنۡ اٰمَنَ مِنۡہُمۡ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ قَالَ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیۡلًا ثُمَّ اَضۡطَرُّہٗۤ اِلٰی عَذَابِ النَّارِ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ﴿۱۲۶﴾
۱۲۶۔ اور (وہ وقت یاد رکھو) جب ابراہیم نے دعا کی: اے رب! اسے امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان لائیں انہیں ثمرات میں سے رزق عنایت فرما، ارشاد ہوا : جو کفر اختیار کریں گے انہیں بھی کچھ دن(دنیا کی) لذتوں سے بہرہ مند ہونے کی مہلت دوں گا، پھر انہیں عذاب جہنم کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔
وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۱۲۷﴾
۱۲۷۔اور ( وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم و اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے،(دعا کر رہے تھے کہ) اے ہمارے رب! ہم سے (یہ عمل) قبول فرما،یقینا تو خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
127۔ خانہ کعبہ کی تعمیر اور اس کے دو عظیم معماروں کا ذکر ہے۔ چند مربع گز کے ایک گھر کی نہیں، ایک تاریخ کی تعمیر کا تذکرہ ہے، دیوار کی نہیں بلکہ امت کی بنیاد رکھنے کا بیان ہے۔
اس گھر کی دیواروں کو وہی اہمیت حاصل ہے جو اس وقت اور اس کی تاریخ کو حاصل ہے۔ اس گھر کے معمار اول حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ ان کے بعد حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے تعمیر نو کی۔ ہجرت سے دو صدی قبل قصیٰ بن کلاب نے تعمیر نو کی۔ حضورؐ کی بعثت سے پانچ سال قبل ایک سیلاب سے کعبہ کی عمارت منہدم ہو گئی تو عرب قبائل نے مل کر تعمیر کی اور حضورؐ کے فیصلے کے مطابق حجراسود کو تمام قبائل نے ایک چادر میں رکھ کر اٹھایا اور خود آپؐ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی جگہ نصب فرمایا۔ عبد اللہ بن زبیر نے جب مکہ پر حکومت قائم کی تو یزید کے لشکرنے کعبہ پر منجنیق سے حملہ کیا اور اسے منہدم کر دیا۔ا س حملے میں غلاف کعبہ بھی جل گیا تھا۔
رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۲۸﴾
۱۲۸۔اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما، یقینا تو بڑا توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔
128۔ اسلام کے مختلف درجات و مراتب ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اسلام کا کلمہ اپنی زبان پر جاری کرے اور دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے۔ اب اس کا مال و جان محترم ہیں۔ مگر اسلام کے کامل ترین درجے تک رسائی کے لیے حضرت ابراہیم(ع) جیسے اولوالعزم اور رسول بھی دست دعا بلند کرتے ہیں۔
رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۱۲۹﴾٪
۱۲۹۔اے ہمارے رب!ان میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات سنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں (ہر قسم کے رذائل سے) پاک کرے،بے شک تو بڑا غالب آنے والا، حکیم ہے۔
129۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: انا دعوۃ ابی ابراھیم ۔ “میں اپنے پدر بزرگوار ابراہیمؑ کی دعا (کا نتیجہ) ہوں”۔
وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰہٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ ؕ وَ لَقَدِ اصۡطَفَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۳۰﴾
۱۳۰۔ اور ملت ابراہیم سے اب کون انحراف کرے گا سوائے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کیا، ابراہیم کو تو ہم نے دنیا میں برگزیدہ بنایا اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہو گا۔
130۔ دین ابراہیمی(ع) سے انحراف کو بیوقوفی قرار دینا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام عقل و منطق کا دین ہے۔ انسان کے لیے سب سے بڑا خدائی اعزاز، اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں کی صف میں شامل ہوناہے
اِذۡ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسۡلِمۡ ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۳۱﴾
۱۳۱۔(ابراہیم کا یہ حال بھی قابل ذکر ہے کہ) جب ان کے رب نے ان سے کہا: (اپنے آپ کو اللہ کے) حوالے کر دو، وہ بولے: میں نے اپنے آپ کو رب العالمین کے حوالے کر دیا۔
وَ وَصّٰی بِہَاۤ اِبۡرٰہٖمُ بَنِیۡہِ وَ یَعۡقُوۡبُ ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ﴿۱۳۲﴾ؕ
۱۳۲۔ اور ابراہیم نے اپنی اولاد کو اسی ملت پر چلنے کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنی اولاد کو یہی وصیت کی) کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے، لہٰذا تم تادم مرگ مسلم ہی رہو۔
اَمۡ کُنۡتُمۡ شُہَدَآءَ اِذۡ حَضَرَ یَعۡقُوۡبَ الۡمَوۡتُ ۙ اِذۡ قَالَ لِبَنِیۡہِ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ؕ قَالُوۡا نَعۡبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰـہَ اٰبَآئِکَ اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚۖ وَّ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ﴿۱۳۳﴾
۱۳۳۔کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا؟ اس وقت انہوں نے اپنے بچوں سے کہا: میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ سب نے کہا: ہم اس معبود کی بندگی کریں گے جو آپ کا اور آپ کے آبا و اجداد ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے جو یکتا معبود اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں۔
133۔ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ : میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو ان کی زندگی کے بعد خطرہ لاحق رہا ہے۔ فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ ۔ (19: 59) یعنی پھر ان کے بعد چند ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو کھو دیا اور خواہشات کی پیروی کی۔
تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۳۴﴾
۱۳۴۔ یہ گزشتہ امت کی بات ہے، ان کے اعمال ان کے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم لوگوں سے (گزشتہ امتوں کے بارے میں) نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔
134۔ تمہارے اسلاف کتنے ہی مقرب بارگاہ کیوں نہ ہوں، ان پر فخر و مباہات کرنا لاحاصل ہے۔ اگر وہ صالحین میں سے تھے تو یہ فخر صرف انہیں حاصل تھا، جب کہ تمہیں اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا پڑے گا۔ لہٰذا یہ نظریہ غیرمنطقی ہے کہ بزرگ اسلاف کی عباد توں کا صلہ تمہیں مل جائے گا۔ تم یہ امید نہ رکھو، تم سے ہرگز یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے اسلاف کیا کرتے تھے۔
وَ قَالُوۡا کُوۡنُوۡا ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی تَہۡتَدُوۡا ؕ قُلۡ بَلۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہٖمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۳۵﴾
۱۳۵۔ وہ لوگ کہتے ہیں: یہودی یا نصرانی بنو تو ہدایت یافتہ ہو جاؤ گے، ان سے کہدیجئے : (نہیں) بلکہ یکسوئی سے ملت ابراہیمی کی پیروی کرو اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھے۔
135۔ ملت ابراہیم (ع)، تعلیم ابراہیم (ع)، دعائے ابراہیم (ع) اور وصیت ابراہیم (ع) کے بیان کے بعد یہود و نصاریٰ کا یہ دعویٰ کتنا بے اساس اور بے معنی لگتا ہے کہ یہودیت یا نصرانیت ہی ہدایت کے دو راستے ہو سکتے ہیں۔ کتنا فرق ہے، ملت ابراہیم (ع) اور یہودیت و مسیحیت میں اور کس قدر فرق ہے،دین توحید اور دین شرک میں۔ ابراہیم (ع) موحد بلکہ تحریک توحید کے بانی تھے ۔
قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ مَاۤ اُوۡتِیَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ۖ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ﴿۱۳۶﴾
۱۳۶۔ ( مسلمانو !) کہو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اور جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل کیا گیا اور جو موسیٰ و عیسیٰ کو دیا گیا اور جو انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا (ان سب پر ایمان لائے)ہم ان میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں۔
136۔ لَا نُفَرِّقُ : انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان کے لیے کسی نسلی تعصب کی گنجائش نہیں ہے۔ یہود نسلی تعصب کی بناء پر حضرت اسماعیلؑ کی نسل کے رسول برحقؐ پر ایمان نہیں لائے، لیکن نسل پرستی پر مبنی ان کے اس عقیدے کے مقابلے میں مسلمان، انبیاء علیہم السلام کے بارے میں نسل، زبان ، رنگ وغیرہ کی بنیاد پر کسی تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ وہ حضرت آدمؑ سے لے کر محمد مصطفیؐ تک سب کو اللہ کے نمائندے مانتے ہیں۔ اگر ہمارے رسولؐ نسل اسماعیلؑ سے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم حضرت اسحاقؑ کے خلاف ہیں۔ جس طرح یہود نے حضرت اسماعیلؑ اور ان کی اولاد کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔
فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ فَقَدِ اہۡتَدَوۡا ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا ہُمۡ فِیۡ شِقَاقٍ ۚ فَسَیَکۡفِیۡکَہُمُ اللّٰہُ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ﴿۱۳۷﴾ؕ
۱۳۷۔اگر یہ لوگ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پر ہیں اور اگر وہ روگردانی کریں تو وہ صرف مخالفت کے درپے ہیں، ان کے مقابلے میں تمہارے (حمایت کے) لیے اللہ کافی ہو گا اور وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً ۫ وَّ نَحۡنُ لَہٗ عٰبِدُوۡنَ﴿۱۳۸﴾
۱۳۸۔ خدائی رنگ اختیار کرو، اللہ کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو سکتا ہے؟ اور ہم صرف اسی کے عبادت گزار ہیں۔
138۔ جس طرح اجسام کے رنگ ہوتے ہیں، جن کی مدد سے وہ جانے اور پہچانے جاتے ہیں، اسی طرح نفوس اور ارواح کے بھی رنگ ہوتے ہیں۔ کفر و شرک سے روح ، سیاہ اور مکدر ہوجاتی ہے۔ جب کہ توحید و نبوت پر ایمان لانے سے روح میں زندگی کاحقیقی اور الہٰی رنگ نکھرآتا ہے اور اللہ نے اسے فطرت کے جس صاف و شفاف رنگ میں خلق کیا ہے، وہ اجاگرہو جاتا ہے۔
اس آیت میں نصاریٰ کے عقیدۂ تعمید، بپتسما کی طرف اشارہ ہے۔ ان کا یہ رواج تھا کہ جب بھی ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا یا کوئی شخص ان کا مذہب اختیار کرتا تو اسے غسل دیتے تھے۔ اسے وہ صِبۡغَۃَ کہتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس نے زندگی کا نیا رنگ اختیار کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: “زندگی کا بہترین رنگ، خدائی فطری رنگ ہے” اور اس عقیدے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صرف اسی کی عبات کی جائے: وَّ نَحۡنُ لَہٗ عٰبِدُوۡنَ ۔
قُلۡ اَتُحَآجُّوۡنَنَا فِی اللّٰہِ وَ ہُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ۚ وَ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ۚ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُخۡلِصُوۡنَ﴿۱۳۹﴾ۙ
۱۳۹۔کہدیجئے: کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے مخاصمت کرتے ہو؟ حالانکہ ہمارا اور تمہارا رب وہی ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال اور ہم تو اسی کے لیے مخلص ہیں۔
139۔ یہودی، نصرانی اور مسلمان ایک ہی خدا کو مانتے ہیں۔ لیکن یہود و نصاریٰ نے اللہ کے بارے میں نزاع کیا اور کہا کہ اللہ صرف ہمارا رب ہے اور ہم اس کی برگزیدہ مخلوق ہیں۔ قرآن اس دعوے کو باطل گردانتا ہے اور اس مخاصمت کو بیہودہ قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ خودساختہ نزاع لاحاصل ہے۔ خدا کسی مخصوص گروہ کا نہیں، بلکہ سب کا رب ہے۔ البتہ ہر گروہ اپنے اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہے۔
اَمۡ تَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطَ کَانُوۡا ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی ؕ قُلۡ ءَاَنۡتُمۡ اَعۡلَمُ اَمِ اللّٰہُ ؕ وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنۡدَہٗ مِنَ اللّٰہِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴۰﴾
۱۴۰۔ کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے؟ پوچھیے: کیا تم بہتر جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جس کے ذمے اللہ کی طرف سے گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے؟ اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر تو نہیں ہے۔
140۔ توریت میں اس بات کی وضاحت موجود تھی کہ ابراہیم (ع) اور ان کی ذریت کا مذہب کیا تھا؟ اور ان لوگوں سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے اس بات کی شہادت دیں گے، لیکن انہوں نے اس حقیقت کو چھپا کر ایک بہت بڑے ظلم کا ارتکاب کیا ۔