چہلمِ امام منانا ہر مسلمان کی ضرورت ہے

*چہلمِ امام منانا ہر مسلمان کی ضرورت ہے*

___✍️_ *نذر حافی ___*🚩

*حضرت امام حسینؑ کی شہادت سے یزید پر کیا اثر پڑا؟*
👇
*وہ تو واقعہ کربلا سے پہلے بھی بدکار مشہور تھا۔ اس نے جب امام حسینؑ کو شہید نہیں کیا تھا تو تب بھی اس کی برائیاں زبان زدِ عام تھیں۔*
اسی لئے تو جب امام حسینؑ کو حاکمِ مدینہ نے بیعت کیلئے بلایا تھا تو امامؑ نے برملا کہا تھا :

یَزیدُ رَجُلٌ فاسِقٌ شارِبُ الْخَمْرِ، قاتِلُ النَّفْسِ المُحَرَّمَةِ، مُعْلِنٌ بِالْفِسْقِ، وَ مِثْلِی لا یُبایِعُ لِمِثْلِهِ
*یزید بدکار ، شرابی،بے گناہوں کا قاتل ، سرِ عام بے حیائی کرنے والا شخص ہے۔ لہذا میرے جیسا آدمی کبھی بھی اس جیسے شخص کی بیعت نہیں کرے گا۔*
اسی طرح اگلے روز جب مروان کی امام حسینؑ سے ملاقات ہوئی تو تب بھی امامؑ نے فرمایا :
وَ عَلَى الاِسْلامِ، ألسَّلامُ إِذْ قَدْ بُلِیَتِ الاُمَّةُ بِراع مِثْلَ یَزِیدَ
*جب امت یزید جیسے کی رعیت بن جائے تو پھر اسلام کی فاتحہ پڑھ لینی چاہیے۔*
اس زاویے سے سوچیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یزید تو پہلے سے ہی بدکردار معروف تھا ، امام حسینؑ کی شہادت سے اس پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا، زیادہ سے زیادہ یہی ہوا کہ وہ کچھ مزید بدنام ہو گیا۔لیکن اگر ہم ایک دوسرے زاویے سے یہ سوچیں کہ شہادتِ امام حسینؑ سے یزید پر کیا اثر پڑا ہے تو پھر ہمیں چہلمِ امام حسینؑ کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت پڑے گی۔
اغلب تاریخی شواہد کے مطابق چہلمِ امامؑ کا آغاز واقعہ کربلا کے ایک سال بعد ۲۰ صفر سے ہوا ہے۔

بعض روایات کے مطابق ، جب کربلا کے قیدیوں کو رہا کیا گیا تو وہ واپس مدینے جانے سے پہلے کربلا میں امام حسین ؑکی قبر کی زیارت کے لیے تشریف لائے۔

معروف یہ ہے کہ وہ ۲۰ صفر المظفر کو کربلا پہنچے اور کتابوں میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓبھی اسی دن امام حسین ؑکے مزار پر پہلے زائرکے طور پر حاضر ہوئے ۔ جہاں تک راقم الحروف کی سوجھ بوجھ کا تعلق ہے تو اس کے مطابق حضرت امام حسینؑ کا پہلا باقاعدہ چہلم اُن کی شہادت کے ایک سال کے بعد منایا گیا۔

*یہ بھی بڑی اہم بات ہے کہ روایات میں بھی صرف اسی ایک امام ؑ یعنی حضرت امام حسینؑ کا چہلم منانے کی تاکید کی گئی ہے۔*
🚩👇🚩🏴👇
*اس کا مطلب ہے کہ شہادت ِ امام حسینؑ کے بعد والے اس ایک سال میں کوئی بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے جسے باقی رکھنے اور یاد کرنے کیلئے اس چہلم کو بھرپور انداز میں منانے پر زور دیا دگیا ہے۔*
ہم دیکھتے ہیں کہ دس محرم الحرام ۶۱ ھ کو خاندانِ رسولﷺ کے ساتھ یزید کا طریقہ کار اور برتاو انتہائی غیر مہذب اور سفاکانہ تھا۔ تعاقب کرو، محاصرہ کرو، ہرگز کوئی بچ نہ پائے، بچہ ہو یا جوان ہو کسی کو زندہ نہ چھوڑو، پانی بند کرو، لاشوں کوپامال کرو، سروں کو نیزوں پر لٹکاو، خواتین کو اسیر کرو، بچوں کو طمانچے مارو، اِن کی کُچلی ہوئی لاشوں کو بغیر دفنائے اسی طرح صحرا میں پڑا رہنے دو تاکہ یہ گردوخاک میں دب جائیں اور ان کا نام و نشان مٹ جائے۔ یزیدیوں نے اُمت مسلمہ کی طرف سے بغیر کسی مزاحمت کے خوف کے آلِ نبی ﷺ کے خیام کو لوٹ لیا اور جلا دیا، اسی طرح مستورات اور بچوں کو قیدی بنا لیا ۔

https://b2n.ir/q82748

*یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، اور تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جس قریے، کوچے اور شہر سے بھی اِن قیدیوں کا قافلہ گزرتا تھا ، لوگوں کی منجمند فکریں پگھلنے اور گنگ زبانیں بولنا شروع ہو جاتی تھیں۔*

جو کوئی بھی اِن قیدیوں کو دیکھتا تھا، ان کے بارے میں سنتا تھا اور یا پھر اِن سے ملتا تھاوہ روئے بغیر، بولے بغیر اور سوچے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔

*قیدیوں کا یہ قافلہ جسے فتح کا جشن منانے کیلئے بازاروں میں گھمایا گیا تھا در اصل فکروں کے کھولنے، دماغوں کے سوچنے، اور آنکھوں کے تر ہونے کا باعث بن گیا تھا۔*

راستوں میں ان اسیروں پر جتنا ظلم کیاجاتا تھا دیکھنے والوں کے دِل اتنے ہی منقلب ہو جاتے تھے۔
ان منقلب دلوں، روتی ہوئی آنکھوں، سوچتے ہوئے دماغوں، سسکتی ہوئی خواتین کے درمیان، سیدہِ سکینہ ؑ کی فریاد، سیدہ اُمِّ کلثوم کے فرمودات ، دیگر مستورات کے بیانات، خصوصاً سیدہ ذینب ؑ کے خطبات اور امام سجادؑ کے مواعظِ حسنہ نے مُردہ سماج میں زندگی کی نئی روح پھونک دی تھی ۔

اسیری کے دوران انہوں نے جس مقام پر بھی خدا کی حمد و ثنا کر کے اس کے دین کی عظمت اور اس کے راستے میں اپنی قربانیوں کو بیان کیا تو پتھر دِل پگھل گئے، گمراہوں کو ہدایت کا سراغ مل گیا، جو نہیں جانتے تھے انہیں حقائق سے آگاہی حاصل ہو ئی اور جو جانتے تھے اور دینِ اسلام کی نصرت سے ہاتھ کھینچے ہوئے تھے ، وہ سخت نادم ہوئے۔
چنانچہ اب یہ قافلہ دعوتِ فکر بن چکا تھا۔ جس جس طرف سے یہ قافلہ گزر رہا تھا اُس اُس طر ف فکریں بیدار ہو رہی تھیں، دلوں کے شہر فتح ہو رہے تھے، دماغوں کی بستیاں جاگ رہی تھیں اور افکار کی دنیا زلزلہ آ رہا تھا۔ اسیروں کا یہ کاررواں زلزلے کے جھٹکوں کی مانند جدھر سے گزر رہا تھا لوگوں کو ہلا رہا تھا۔
*دیکھنے والے پوچھتے تھے:*
*یہ کس کے سر ہیں؟ یہ کس کی بیٹیاں اسیر ہیں؟ یہ کس کے بچوں کو زنجیریں پہنا رکھی ہیں؟ یہ کسے طمانچےمارے جا رہے ہیں؟یہ کسے تازیانے مارے جا رہے ہیں؟یہ کس کی توہین کی جا رہی ہے؟یہ کسے قتل کر کے جشن منایا جا رہا ہے؟*

ان سارے سوالوں کا ایک ہی جواب تھا۔۔۔آلِ رسولﷺ۔۔۔آلِ فاطمہؑ۔۔۔
*جب کوفے کے لوگ قیدیوں کا تماشا دیکھنے اور جشن منانے آئے تو حقیقتِ حال جان کر اُن کی آہ و فغاں بلند ہوگئی ۔*

*اس آہ و فغاں کے درمیان سیدہ ذینب ؑنے اپنے باپ علی ؑ کے لہجے میں کہا خاموش ہوجاو!*

پس لوگوں کے سانس اٹک گئے، زبانیں تالو کے ساتھ چپک گئیں اور تماشا بینوں پر قیامت کی خاموشی اور سنّاٹا چھا گیا۔
اس کے بعد سیدہؑ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور اہلِ کوفہ کو اُن کی بے حسی پر سخت ملامت کی۔

*اُس وقت بی بی ؑ نے کہا کہ اگر نبیﷺ نے تم سے پوچھا کہ تم نے میرے امتی ہونے کے باوجود میری آل ؑ کے ساتھ یہ کیا کیا ہے؟ تو پھر کیا جواب دو گے؟ تم نے میرے اہلِ بیت اور میرے بچوں اور پیاروں کے ساتھ کیا کیا ہے؟! کچھ کو خاک و خون میں غلطاں کیا اور کچھ کو قیدی بنایا ہوا ہے۔ کیا یہی میرا صلہ تھا جو تم نے میرے گھر والوں کے ساتھ کیا؟ حالانکہ میں تو تمہارا محسن تھا ۔۔۔*
اس خطبے نے بے حسوں کے ضمیروں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔

اسی طرح امام سجاد ؑ نے بھی جو کوفے میں خطبہ دیا ،اُس کا بھی ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے۔ اللہ کی حمد و ثنا اور نبی اکرم ﷺ پر درود کے بعد آپ نے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! جو مجھے جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ بھی جان لے کہ میں علیؑ ابنِ حسینؑ ہوں۔میں اُس حسینؑ کا بیٹا ہوں کہ جسے بغیر کسی جرم و خطا کے فرات کے کنارے شہید کر دیا گیا ہے۔ میں اُس مظلوم کا بیٹا ہوں کہ جس کی عزت کو پامال کیا گیا ہے، اُس کا سب کچھ لوٹ لیا گیا ہے اور اس کے اہلِ حرم کو قیدی بنا لیا گیا ہے۔میں ایک صابرمقتول کا بیٹا ہوں اور اللہ کی راہ میں یہ سب ہمارے لئے باعثِ فخر ہے۔
اسی طرح جب ان قیدیوں کو شام میں لایا گیا تو شام میں جشن کا سماں تھا۔
*شام کے علاقے کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ اسے جب سے مسلمانوں نے فتح کیا تھا ، تب سے اس علاقے پر آلِ رسول ﷺ کے مخالفین اور بنو امیہ کے حکمران ہی حکومت کرتے چلے آ رہے تھے۔شام کے لوگ خوش تھے کہ ایک باغی کو قتل کیا گیا ہے چونکہ یہ وہ لوگ تھے جو آلِ رسولﷺ کی قدرومنزلت سے نا آشنا تھے۔ انہوں نے اسلام کا اموی چہرہ ہی دیکھا تھا۔*

چنانچہ جب اسیروں اور شہدائے کربلا کے سروں کو شام میں یزید کے دربار میں لایاگیا تویزید نے ایک چھڑی کو امام حسین ؑکے نازنین ہونٹوں اور دانتوں پر مار تے ہوئے یہ اشعار پڑھے:
لعِبَتْ هاشمُ بالملکِ۔۔۔

فلا خبرٌ جاءَ ولاوحی نَزَلْ
بنی ہاشم ﴿حضرت محمدﷺ﴾ نے حکومت بنانے کیلئے ایک کھیل کھیلا ۔۔۔ ورنہ کوئی وحی نازل نہ ہوئی تھی
لَیتَ أَشْیاخی بِبَدْر شَهِدُوا

جَزِعَ الْخَزْرَجُ مِنْ وَقْعِ الاَْسَلْ
کاش آج میرے وہ بزرگ موجود ہوتے جنہوں نے جنگ بدر میں زخموں سے گھائل قبیلہ خزرج کو نوحہ کناں دیکھا تھا
فَأَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً

ثُمَّ قالُوا یایزیدُ لاتَشَلْ
آج وہ خوشی سےپھولے نہ سماتے اور کہتے کہ اے یزید تو سلامت رہے ﴿تیرا شکریہ﴾
قَدْقَتَلْنا القَرْم من ساداتهِمْ

و عدَلْناه بِبَدْرٍ فاعتدَلْ
آج ہم نے بدرکے بدلے میں ان کے سرداروں کو قتل کر کے ان کی برابری کر لی ہے
لستُ من خُنْدُفٌ ان لم انتقمْ

من بنی أحمدَ ماکانَ فَعَلْ
میں آلِ “”خندف”سے نہیں ہوں اگرآلِ احمد (رسول اکرمﷺ) سے انتقام نہ لوں
اسی طرح نقل ہوا ہے کہ اسی مجلس میں یزید نے امام حسین علیہ السلام کے ہونٹوں اور دانتوں پر مارتے ہوئے یہ بھی کہا :

یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْر۔۔۔ آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے اسی دربار میں حضرت امام سجادؑ اور سیدہ ذینب ؑ نے جب اپنا تعارف کرایا اور بنو امیّہ کا پردہ چاک کیا تو دربار کا رنگ بدل گیا۔ بازی کا پانسہ پلٹ گیا، حاضرین محفل کی طرف سے ہی یزید پر ملامت شروع ہو گئی۔

یزید کی بیوی اور بیٹا بھی ملول اور مغموم ہو گئے ، فتح کے جشن کی یہ محفل یزید کی توقع کے خلاف ایک مجلسِ عزا میں تبدیل ہو کر ختم ہوئی۔ یزید بوکھلا گیا اور اس کے حکام سٹپٹا گئے۔

قیدیوں کو محل کے ساتھ واقع ایک کھنڈر میں قید کر دیا گیا۔ شام کی خواتین کو آلِ رسولﷺ کے قید ہونے کی خبر ملی تو کبھی چھپ چھپا کر اور کبھی کسی نہ کسی بہانے اِن خواتین کا کھنڈر میں آنا جانا شروع ہوگیا۔یہی آنا جانا گھر گھر کو اور فرد فرد کو سوگوار کرنے کا باعث بنا اور یہیں سے امام حسینؑ کی یاد میں مجالس ِ عزا کی بنیاد پڑی۔

*یہاں یہ یاد آوری انتہائی ضروری ہے کہ جس طرح واقعہ کربلا سے پہلے یزید ایک نامعقول اور فاسق انسان کےطورپر شہرت رکھتا تھا اسی طرح واقعہ کربلا سے پہلے بھی حضرت ذینب ؑ عقیلہ بنی ہاشم یعنی بنی ہاشم کی عقلمند ترین خاتون کے نام سے معروف تھیں۔*

چنانچہ آپ نے یزید جیسے نامعقول شخص کے کفر اور جبر کے خلاف بہترین تدابیر اختیار کر کے اُس کے نقشے کو ملیا میٹ کر دیا۔
*عزاداری کی آج جو موجودہ شکل ہے، نوحہ و غم و سوگواری و محافل و ماتم اور سیاہ لباس ، اس کی بنیاد اسیرانِ کربلا اور خصوصاً حضرت ذینب ؑنے ڈالی، اسی طرح ان مجالس میں خطاب کرنے، اور عظمت و مظلومیتِ خاندانِ اہل بیت ؑ کو بیان کرنے نیز ظالموں کو بے نقاب کرنے کی روش بھی انہی نے سکھائی ۔*
شام میں اور مدینے میں آپ ہی خواتین کو سیاہ لباس پہننے کی تاکید کرتی تھیں ۔ آپ کا یہ جملہ تاریخ میں درج ہے:
اِجْعَلُوهَا سَوْدَاء حتّي يَعْلَمَ النّاس، أنَّا في مصيبةٍ وَ عزاءٍ لِقَتْل أولادِ الزَّهراءعليها السلام
*سیاہ لباس پہنو تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہم اولادِ فاطمہؑ کے قتل ہونے کی وجہ سے سوگوار ہیں۔*

یہ سیاہ لباس مسلمہ طور پر کربلا والوں کا پیغام پھیلانے کیلئے خود ایک میڈیا اور ذریعہ ابلاغ بن گیاہے۔

*اسی طرح حضرت ذینب ؑ نے حُسنِ تدبیر کے ساتھ امام حسین ؑکے ذکر کے ساتھ ساتھ احکامِ الِہیہ کو بیان کرنے کی داغ بیل بھی ڈالی۔*

مثال کے طور پر اگر کوئی اسیروں کیلئے کچھ کھانے کو دیتا تھا تو آپ حکمِ پروردگار بیان کرتی تھیں کہ ہم پر صدقہ حرام ہے، اسی طرح آپ کا باربار حجاب کیلئے چادر کا طلب کرنا، نماز و تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرنا، وغیرہ وغیرہ یہ سب احکامِ الِہی کا احیا تھا۔ آپ نے کمالِ مہارت سے اہدافِ امام ِحسینؑ اور احکامِ الِہیہ کو یکجا کردیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یزید کو قطعاً خدا اور دینِ اسلام کا کوئی پاس نہیں تھا وہ کسی سے نہیں ڈرتا تھا حتّی کہ خدا اور اس کے رسولﷺ سے بھی نہیں ڈرتا تھا۔

یہ حضرت ذینبؑ اور اسیرانِ کربلا کی کاوشیں تھیں کہ ایک سال کے اندر اندر یزید جیسے اوباش اور بدمست بادشاہ کا سکون اچاٹ ہو گیا۔ وہ بوکھلا گیا اور ایسا بوکھلایا کہ اس نے مجبور ہو کر ایک سال کے بعد اسیروں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔اسیرانِ کربلا کی حکمتِ عملی سے ایک سال کے اندر اندر لوگوں کو یہ سمجھ آنی شروع ہوگئی تھی کہ یزید کے مقابلے میں خاموشی جائز نہیں ہے، قیام کے وقت سقوط اور تقریر کے وقت سکوت ننگ و عار ہے، اور جو شخص برائی کو دیکھ کر برا نہیں کہتا وہ بےحِس شخص بھی برائی کا ہی خاموش مددگارہے، اور برائی کا خاموش مددگار یعنی معاشرے میں موجود گونگا شیطان ۔

یہ وہ عظیم تبدیلی تھی جو شہادتِ امام حسینؑ سے چہلم ِ امام حسینؑ تک وقوع پذیر ہوئی۔ اس سے پہلے مسلمانوں میں بے حِس مسلمانوں یعنی گونگے شیطانوں کے خلاف نفرت کا شعور نہیں تھا۔ واقعہ کربلا سےپہلے لوگ یزید کو تو برا کہتے تھے لیکن یزیدکی بدکاریوں پر خاموش رہنے والےگونگے شیطانوں کو بُرا نہیں سمجھتے تھے۔ اسیرانِ کربلا نے یزید کے ہمراہ گونگے شیطانوں کو بھی عوامی کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا۔

اسیرانِ کربلا نے غمِ امام حسینؑ کو ایسا نامرئی ایندھن فراہم کیا کہ یہ غم آتشِ فروزاں میں بدل گیا۔اس کے بعد یزید کے خلاف سوچنے، لکھنے، سوال کرنے، بولنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ جس نے توّابین ، قیامِ مختار اور قیامِ زید شہید سمیت کئی تحریکوں اور معرکوں کو جنم دیا۔ یہاں تک کہ عباسیوں نے امویوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔

اس دوران یہ جتنے نامی گرامی قیام ہوئے ان سب کا نعرہ خونِ حسینؑ کا انتقام تھا۔ آج بھی چہلمِ امام حسینؑ، انتقامِ خون ِحسینؑ کے جذبے کی تجدید کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
یہ دِن اس لئے نہیں منایا جاتا کہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ یزید برا ہے بلکہ یہ دن اس لئے منایا جاتا ہے کہ یزید کی برائیوں پر خاموش رہنے والے بے حِس گونگے شیطان بھی بُرے ہیں۔

اس روز کروڑوں مسلمان گھروں سے نکل کر اسیرانِ کربلا کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ دینِ اسلام کے دشمنوں، ہر زمانے کے یزیدوں اور اُن کے مددگار گونگے شیطانوں کے خلاف آپ کی تحریک زندہ ہے، اور آپ کی جنگ جاری ہے۔
…….فیڈ بیک:___
✍️ *نذر حافی*
nazarhaffi@gmail.com
….حوالہ جات۔۔۔۔۔
فتوح ابن اعثم، ج 5، ص 18 و بحارالانوار، ج 44، ص 325.
ملهوف (لهوف)، ص 99 و بحارالانوار، ج 1، ص 184.
یہ شعر اصل میں ابن زبعری کا ہے۔ اس نے جنگِ احد کے بعد جو اشعار کہے تھے، ان میں سے ایک شعر یہ بھی ہے۔ یزید نے اس کے اس شعر سے اپنے اشعار کا آغاز کیا
تذکرة الخواص/148،صواعق المحرقة/222،طبری ج4/358
یہ جملہ جنگ احد میں اميّة بن ابى حذيفه نے پہلی مرتبہ کیا تھا

تبصرے
Loading...