حضرت امام رضا علیہ السلام کی دس ( 10)عظیم اخلاقی وعملی خصوصیات

حضرت امام رضا علیہ السلام کی دس ( 10)عظیم اخلاقی وعملی خصوصیات 

*ترجمہ وتلخیص:شعبہ تحقیق مجمع طلاب شگر*

امام شیعیان،حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام 11ذی القعدہ،148ہجری کو اپنے جد امجد امام صادق کی شہادت کے 16 دن بعد مدینہ منورہ میں پیداہوئے۔نام «علی»کنیت «ابوالحسن» اور القاب «رضا،صابر،رضی اور وفی »تھے۔ان میں سب سے مشہور «رضا ہے»

امام ہشتم اپنے والدگرامی امام موسی کاظم علیہ السلام۔کی شہادت کے بعد منصب امامت ہرفائز ہوئے۔باقی ائمہ معصومین کی طرح آپ کی امامت بھی خدا کی جانب سے،پیغمبر کی  نص صریح اور اپنے والد گرامی کی طرف سے معرفی کے ذریعے انجام پایا۔۔۔
امام رضاعلیہ السلام دوسرے ائمہ معصومین کی ماننداخلاقی صفات وانسانی کمالات سے آرستہ تھے ۔اس لحاظ سے آپ کی سیرت وکردار دوسروں کے لیے نمونہ عمل ہے۔۔

یہاں فقط چند ذاتی صفات واخلاقی فضائل کی جانب اشارہ کیا جاتاہے۔

1۔جامع ویگانہ شخصیت۔

جامعیت کا مطلب مختلف قسم کی  بنیادی صفات کا موجود ہونا۔ائمہ معصومین اور امام رضا میں یہ صفات جمع تھے۔یگانہ سے مراد ان کی شخصیت کے اجزا میں ہم آہنگی ،معین اصول کی حاکمیت اور  مختلف مسائل میں یکساں ردعمل ہے۔انبیا وائمہ کی عصمت اور ان کی شخصیت کے وحدت میں تنگاتنگ رابط موجود ہے۔

2۔ولایت کے سلسلے میں امام رضا کے اصول

احکومتی ارکان اور فقرا ومساکین  سب کے ساتھ روابط میں کچھ اصول آپ کے رفتار میں نمایاں ہیں۔کہ آپ ہر جگہ اصول ومبانی اسلام کے مدافع تھے۔اور اسلامی معیار کے مطابق عمل کرتے تھے۔ہر جگہ ولایت اور اپنے   سے پہلے اماموں کا دفاع،اپنے مناظرات میں افراد کو متاثر کرتے تھے۔۔امام فقرا وناداروں کا احترام کرتے اور مستکبرین کے مقابل بے اعتنائی اختیار کیا کرتے  اور ہمیشہ لوگوں کی شخصیت ومنزلت کومحفوظ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

3۔امام رضا بلند اخلاقی صفات سے آرستہ

آپ عظیم اخلاقی صفات سے آراستہ تھے۔اس وجہ سے دوست ودشمن سب کو اپنی جانب جذب کرتے۔ابراہیم بن عباس اصولی نقل کرتے ہیں۔میں نے امام رضا کو کبھی کسی کے ساتھ بات کرتے وقت سختی کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔کبھی بھی دوسروں کے سامنے پاوں پھیلا کر نہ بیٹھتے۔اپنے ساتھی پر ٹیک نہ لگاتے اور کبھی بھی قہقہہ کے ساتھ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔بلکہ صرف آپ مسکراتے تھے۔

4۔پرہیزگاری وتقوی

آپ کی پرہیزی گاری ایسی تھی کہ دشمن بھی اس کا اعتراف کرتے تھے۔آپ کی پوری فکر ہمیشہ دین خدا کی حفاظت،الہی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور اپنی اورلوگوں کی نجات تقوی،پرہیزگاری اور عبادت کو سمجھتے تھے۔آپ عبادت میں کامل نمونہ تھے۔اس راہ میں عاشقان عبادات میں شمار ہوتے تھے دن کو روزہ اور اکثر رات بیدار رہتے۔کہ امام دن رات میں ہزار رکعت نماز بجا لاتے۔

5۔سخاوت امام رضا

سخاوت کی بہترین تعریف امام رضا نے کی ہے۔کہ:
سخاوت مند دوسروں کی غذا کھاتا ہے تاکہ خود کا کھانا کھائے لیکن بخیل دوسروں کی غذا نہیں کھاتے تاکہ خود کاکھانا دوسرے نہ کھائے۔اسی طرح روایت ہے امام رضا نے ایک سال عرفہ کے دن تمام اموال کو غریب وفقرا میں تقسیم کیا۔

6۔صبر واستقامت

تمام ائمہ کی زندگی کے  مشترک اصول میں سے ایک جو ہمیشہ نظر آتاہے۔صبر ومقاومت ہے۔امام رضا صبر ومقاومت کا سب سے بڑا نمونہ ہے۔آپ  اہل حلم وشکیبائی تھے۔آپ کی بے  احترامی کی جاتی  تھی مگر آپ خاموشی کی راہ اپناتے۔

7۔عزت نفس

مامون کی جانب سے مسئلہ ولایت عہدی کا ایک مقصد یہ تھا۔امام کو حکومت سے نزدیک کرکے مادی ودنیاوی  لذات اور زرق وبرق کے ذریعے دنیاپرستی اور حب مقام وجاہ  سے متہم کرے۔لیکن امام کی عزت نفس نے اس کی سازش کو ناکام  بنادیا۔امام نے ولی عہدی قبول کرنے کے بعد بھی تمام ارکان  سلطنت سے بے توجہی اپناتے ہوئے ولایت عہدی سے پہلے کی سادہ زندگی کو ہی اپنا شیوہ قرار دیا۔اور حکومتی کاموں کی انجام دہی کے سلسلے میں  آپ نے مامون سے کہاکہ:اس نے میری کسی نعمت میں اضافہ نہیں کیا۔جب مدینہ میں  تھا تو مشرق ومغرب میں میرا نفوذ تھا۔اس وقت  اپنے گھوڑے پر سوار ہوتااور سکون وآزادی کے ساتھ مدینہ کی گلیوں کو طے کرتااور وہ حالت مجھے ہر چیز سے عزیز و بہتر تھی۔

8۔امام کا گھریلو اخلاق

*امام کاظم ۔ع۔کی اکثر عمر زندان  میں گزری،امام رضا سب سے بڑا بیٹا ہونے کے لحاظ سے گھر کی ذمہ داری آپ پر آئی۔اس مدت میں آپ نے اس طرح گھر انے کا خیال رکھا۔اور کسی کو اجازت نہ دی کہ وہ ن کی بے احترامی کرے۔سب کا احترام کرتے اور دشمنوں کے خطرات سے ان کو محفوظ رکھتے۔آپ کا طرز عمل اپنے فرزند امام جواد کے ساتھ انتہائی محبت آمیز اور محترمانہ تھا۔ان کو نام سے مخاطب نہ ہوتے بلکہ کنیت سے پکارتے تھے۔

9۔لوگوں کے ساتھ اخلاقی رفتار

ائمہ کے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ روابط تھے۔اور اجتماعی مسائل  میں ان کے ساتھ نیکی ک سلوک کرتے۔ یہ سیرت اس حدتک اچھی ہے کہ ان کو نمونہ عمل قرار دے کر ہم مختلف افراد کے ساتھ تعلقات کے صحیح طریقہ کو سیکھ سکتے ہیں۔امام رضا بندگان خداکے  ساتھ روابط میں مہر ومحبت  میں اسوہ ہے۔
آپ ذاتی مسائل میں عظیم عفو ودرگزرکے حامل ،ایثار کے بلند ترین ایثار کے مرتبہ  اور دوسروں کی نسبت  زیادہ محبت کرتے تھے۔اگر کوئی امام کے لیے چھوٹی سی خدمت بھی انجام دیتے تو آپ اس کی قدر دانی وشکریہ ادا کرتے تھے۔اور اس کے جبران کی کوشش کرتے تھے۔

10۔امام رضا کی تربیتی روش ورویہ

امام رضا کی نظر میں تمام افراد مقام و منزلت رکھتے ہیں۔اوراپ  ان کا احترام کرتے،حقوق میں سب کالحاظ کرتے،لوگوں کی تحقیر وتوہین اور ان کو پست سمجھنے سے اجتناب کرتے تھے۔آپ کے نزدیک ان  کی شکل وصورت ۔۔۔۔۔معیار نہیں تھا۔بلکہ ہر  انسان ان کی نظر میں قابل احترام تھا۔یہاں تک کہ غلاموں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے اور ان کے ساتھ ایک انسان ہونے کے لحاظ سے طرز عمل اختیار کرتے تھے۔

◀️امام ہشتم کی انہی اخلاقی خصوصیات اور عظیم روش سبب بنا کہ آپ لوگوں کے ہاں محبوب بنے۔یہ محبوبیت اس قدر زیادہ تھی۔خلیفہ عباسی مامون نے جب امام کی شخصیت کی تخریب کی ساری سازشیں ناکام ہوتے دیکھا۔اور لوگوں کے امام کے ساتھ مذہبی احساسات وجذبات کواپنے اوج پر پہنچا۔ اور خاندان بنی عباس میں اختلافات شروع ہوئے  تو امام رضا علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کیا۔اور آپ کے جسد مطہر کو طوس میں سپرد خاک کیا گیا۔اور سالہا سال گزرنے کے بعد کل دنیا میں یہ روضہ مقدس  کعبہ اہل ولایت ہے۔

ترجمہ از :
www.borna.news › 773458

تبصرے
Loading...