سماجی مذہب یا حقیقی مذہب

سماجی مذہب یا حقیقی مذہب

سماجی مذہب یا حقیقی مذہب زندگی کے بہاؤ کا نام سماج ہے بہاؤ پانی کی فطرت ہے لیکن بہاؤ کو حد کے اندر بھی رکھا جا سکتا ہے اور حد سے باہر بھی بہنے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔

بہاؤ تیز بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کی رفتار کو کم بھی کیا جا سکتا ہے۔ بہاؤ کو تقسیم بھی کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح دریا سے بڑی نہر اور نہر سے چھوٹی نہریں نکالی جاتی ہیں۔ اور بہاؤ کو یکجا بھی کیا جا سکتا ہے جیسے مختلف دریاؤں کو ایک دریا میں بلا دیا جاتا ہے۔ بہاؤ کو کبھی روکا بھی جستا ہے۔ اور کبھی رکاوٹوں کو دور بھی کیا جاتا ہے۔

کبھی پانی کی سطح اونچی کی جاتی ہے، کبھی سطح کو نیچا لایا جاتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ پانی کی فطرت ہے نشیب کی طرف بہنا لیکن اس فطرت کو سلیقے کے ٓریعے مفید بنایا جا سکتا ہے اور بیش از بیش فوائد تباہیوں بھی لا سکتا ہے۔ فطرت اور اس کے استعمال کا سلیقہ دو چیزیں ہیں۔

فطرت می٘ں انسانی عمل کو دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ خالق کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ لیکن اس کے استعمال کا سلیقہ وہ کام ہے جس میں انسانی عمل کو بڑا دخل ہے۔ عمل کو ضرورت ہقتی ہے ۔ لیکن چونکہ انسان کتنا ہی باکمال کیوں نہ ہو جائے پھر بھی ناقص ہی رہتا ہے۔ لہذا اس کی تعلیم و تربیت بھی ناقص رہےگی۔ اسی بنا پر ہم ہمیشہ اپنے نظام تعلیم ، نصاب تعلیم ، انداز تعلیم، مقاصد تعلیم پر بتائج تعلیم کے پیش نظر نظر ثانی کرتے رہتے ہیں۔

کیونکہ انسانی نظریات اور اصول ہمیشہ تجرباتی دور میں اور رہیں گے اس انسانی کمزوری کو دور کرنے کے لیے خدا نے مذہب بھیجا۔ کیونکہ کامل کا بھیجا ہونا نظام بھی کامل ہوگا۔

اور جب اس کے لانے والے سمجھانے والے ، پھیلانے والے بھی معصوم ہیں۔ تو نظام بھی کامل ہے۔ اور اس نظام کی تعلیم و تربیت بھی نقائص سے پاک ہے۔مذہب اسی لئے آیا ہے کہ انسان میں خواہشات کا پیدا ہونا فطری ہے مگر خواہشات کے اس فطری بہاؤ کو حدود میں رکھنا ضروری ہے، ان سدود کے مجموعہ کا نام شریعت ہے اور عربی میں شریعت کے معنی بھی گھاٹ اور کنارہ کے ہیں۔

شریعت کا کام یہی ہے کہ انسانی خواہشات کے ذریعہ پیش از پیش انفرادی اور اجتماعی فوائد حاصل کئے جائیں۔ اور خواہشات کے حرص و ہوس بن جانے کے بعد جو انفرادی ۔ خاندانی ، نسلی ، قومی ، بین الاقوامی تباہیوں آتی ہیں۔

جن کے اثرات صدیوں اور ہزاروں سال باقی رہتے ہیں کہ تباہیاں تبہایوں کو پیدا کرتی ہے رہتی ہیں بلکہ تبہایوں کا شجرہ چل پڑتا ہے اور تبہایوں کی نسلیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ اس عظیم و عریض و طویل تبہایوں سے انسان کو اور انسانی معاشرہ کو بچانا بھی دین اور شریعت کا کام ہے۔

لیکن شریعت کا فائدہ اسی قوت حاصل ہوگا اور دین معاژرہ دین اور شریعت کا پابند ہوگا۔مگر بجائے اس کے کہ ہمارا سماج مذہب کا پابند ہوتا ہم نے دین کو اپنی خواہشات کا پوبند بنانے کے لئے سماج کو مذہب پر حاوی کر دیا ہے آج ہم مذہب سے بالکل آزاد ہو چکے ہیں۔

ہر حرام حلال ہے۔ ہر واجب ترک ہے ہر مستحب مکروہ ہے۔ اس کے برخلاف سماج جس مباح بلکہ حرام کام کو واجب کر دے اس کا بجا لانا واجب ہے۔ ہم مذہبی شعور کھو چکے ہیں۔ جہالت عیب ہے ۔

مگر دین سے جہالت کا اظہار اعلیٰ سوسائٹی کی ممبری حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ حد یہاں تک آ پہونچی ہے کہ ہ دین کو مانتے ہیں اور اس پر معترض ہونے کو دینی حق تصور کرتے ہیں۔ دینی احکام کا مضحکہ اڑانا اور مسلمان ہونا اگرچہ متضاد باتیں ہیں۔ مگر ہر ترقی پسند مسلمان اس تضاد کا مجسمون ہے اور تمام مسلمان اسی ترقی پسند مسلمان کا اتباع کرنا اپنے لئے لازم سمجھتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سماج میں جس چیز کو واجب سمجھ لیا گیا ہے۔

اس کو بہرحال انجام دیا جائےگا چاہے مذہب اس کو لاکھ حرام بتائے۔اس بیماری کا علاج یہ ہے کہ ہم سین کو تعلیم حاصل کریں اور دینی واقفیت کو سماج میں رائج کریں تاکہ سماج اور دین کتنا فاصلہ ہے اور کتنا تضاس پیدا ہو چکا ہے۔ اس کا احساس ہمارے سماج کو ہو جائے اور اس احساس کو تعمیری شکل دینے کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو حقیقی دین کا پابند بنائیں۔

اس طرح ہم اس سماجی دین سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو سماجی دین نہیں ہے بلکہ وہ بے دینی ہے۔ جس کو سماج نے اختیار کر لیا ہے اور شعور دین کو بےحس و مضلوج رکھنے کے لئے اس بےدینی کو مذہب کا لباس پہنا دیا گیا ہے اٹھئے اور اس لباس کو نوچ پھیک دیئیے تاکہ دینی کی مکروہ صورت سب کے سامنے آ جائے اور دینی تعلیم کو عام کیجئے۔ تاکہ اس کی روحانی اور پاکیزہ صورت سب کے سامنے آ جائے اور ہمارے معاشرے کا ہر فرد عاشق دین بن جائے۔

 

حواله

 

تبصرے
Loading...