دماغ کا سوئچ آن رکھئے

دماغ کا سوئچ آن رکھئے

نظر دیکھنے پر اور دماغ سوچنے پر مجبور ہے۔ اسلام نے دونوں باتوں کی دوعت دی ہے قرآن مجید میں یہ حکم بھی موجود ہے کہ دنیا میں گھومو، زمین کے چکر لگاؤ ، سفر کرو چلو پھرو تاکہ نظر کو دیکھنے کا سامان ملے۔ اور اس بات کی بھی شدید تاکید ہے کہ اپنی ذات سے لے کر کائنات کی ہر سرحد تک جو دیکھو اس پر غور کرو البتہ نظر ہونا یا فکر۔ آنکھ ہو یا دماغ دونوں کو پابند کیا گیا ہے نہ برائی دیکھو نہ سنو نہ سوچو۔مولائے کائنات حضرت امیر االمومنین علی علیہ السلام کچھ ہمراہیوں کے ساتھ اس جگہ سے گزرے جہاں غلاظت غھیر تھی۔ آپ نے فرمایا شوقین لوگ جن چیزوں پر بڑھ چڑھ کر ہاتھ مار رہے تھے یہ وہی چیزیں ہیں ان کا آخری انجام دیکھو۔ اگر یہ انجام یاد رہے تو آغاز میں بھی ہاتھ مارنے کے بجائے انسان کنارہ کشی ہونے کو بہتر قرار دے۔اسی طرح مولی علی نے ایک بار فرمایا کہ آدمی کس بات پر گھمنڈ کرتا ہے ابتدا میں ایک نجس قطرہ ہوتا ہے۔ انتہا میں نجس مردہ ہوتا ہے اور ساری زندگی نجاستوں اور غلاظتوں کو اپنے اندر بھے پھرتا ہے اپنے انجام و آغاز کو دیکھ کر آدمی کو اپنے حقیر ہونے کا احساس ہونا چاہئے نہ کہ غرور کا۔مولی نے انداز فکر کی جو رہبری فرمائی ہے اس کے نمونہ آپ نے بھی پڑھے۔ اسی انداز فکر کی قیامت میں چند مناظر اور کچھ سین ہماری نظروں سے بھی گزرے اور ہم بھی سوچنے پر مجبور ہوئے۔ جی چاہا کہ جو نظر نے دیکھا آپ کو بھی اس کا نظارہ کرا دیں اور جو دماغ نے سوچا آپ کو بھی اپنی سوچ میں شریک کر لیں۔ شاید کبھی آپ بھی ہم کو اپنی دعائین شریک کع لیں۔میرا رخ پورپ کی طرف تھا۔ داہنے ہاتھ پر وسیع وعریض شاہی مسجد تھی الہیٰ سمجد نہ تھی لہذا سیاح تو دیکھنے ؤتے ہیں مگر نمازی نہیں آتے تھے اور اگر کوئی آیا بھی تو اونٹ کے منھ میں زیرہ کہاں دکھائی دیتا ہے۔ بائیں ہاتھ پر ایک گندہ نالہ بہہ رہا تھا جو معلوم نہیں کب سے بہہ رہا تھا اور کہاں کہاں سے اور کیسی کیسی اور کس کی کس کی گندگیاں جمع کرتا ہوا بہہ رہا تھا میرے سامنے کی چعف سے کھلے میدان میں صاف ستھرے ۔ اسکولی ڈریس میں آ راستہ پیراستہ ، چاق و چو بند م ہنستے کھیلتے مگر اپنی تعلیم و ترقی کے لئے فکر مند کڑکوں اور کڑکیوں کے گروپ گزر رہے تھے۔ اسی وقت میری نظر اس چھوٹے سے پل پر پڑی جو گندے نالے پر بنا تھا۔ ایک شخص ایک لڑکے کو مارتا ہوا پل کے ذریعہ نالہ کے اس پار لے لے جا رہا تھا۔ مار جاری تھی کوئی بچانے والا نہ تھا۔ میں چلتے چلتے رک گیا کیونکہ یہ سوچ کر میری سانس رک گئی تھی کہ اسی طرح کل میدان محشر میں جب پابند دین افراد اپنے صاف ستھرے اعمال کے ساتھ جنت کی طعف ہنسی خوشی جا رہے ہوں گے تو دین سے جاہل اور غافل رہنے والوں کو ملائکہ مارتے ہوئے دوزخ کی طرف لے جا رہے ہوں اور اس دن نہ کوئی بچانے والا ہوگا اور نہ بولنے والا ہوگا۔ میں نے ایک بار پھر نظر بھر کر اسکول جانے والے گروپوں کو دیکھا اور یہ طے کر کے زندگی کی ڈگ پر چل پڑا کہ چاہے جو ہو جائے مگر دین کو پڑھیں گے اور پڑھائیںگے۔ دیندار بنیں گےاور دیندار بنائیںگے اور اللہ نے چاہا تو جنت جائیں گے اور جنت میں لے جائیںگے۔ میں چلتا رہا میری نظر اگرچہ دنیا میں گردش کر رہی تھی مگر میرا دماغ دنیا کے اس پات آکرت کو دیکھ رہا تھا۔سفر جاری تھا۔ قدم ، نظر ، دماغ سب اپنے اپنے سفر میں مصروف تھے کہ ایک لمبی چڑھائی آ گئی۔ جتنا چڑھتے گئے سانس بھی چڑھتی گئی۔ ابھی آسھی چڑھائی یعنی مشکل چڑھائی باقی تھی۔ پلٹ کر دیکھا تو کچھ لوگ ہم سے بھی پیچھے رہ گئے تھے اور سامنے دیکھا تو کچھ ہم سے بھی آگے نکل گئے تھے حالانکہ سب ایک ساتھ چلے تھے۔ وجہ صاف تھی جو ہلکے پھلکے تھے اور جن کا سامان کم تھا وہ آگے تھے اور جو بھاری بھکم تھے اور سامان بھی بوجھل لادے تھے وہ پیچھے تھے۔ أج تو میدان محشر دماغ سے چپک کر رہ گیا تھا۔ سوچنے لگے کل یہی حال قیامت کے دن بھی ہوگا۔ قناعت کرنے والے اور ہلکی خواہشات رکھنے والے آگے نکل جائیںگے اللہ کے حضور میں حاضر ہو جائیںگے پروانہ پائیںگے اور جنت میں پاؤں پساریں گے۔ اور اوڑھنا بچھونا بس لالچ ، خواہش ، تمنا ، آرزو تھی دنیا کی یہ بھاری بھکم ہستیاں گناہوں کا بے حساب بوجھ لادے ہوںگی ان کا اٹھنا اور کھڑا ہونا مشکل ہوگا چلنا تو بڑی بات یہ خانہ سکیں گے بلکہ لے جائے جائیںگے خدا کے سامنے پیش ہوںگے مگر دنیا کت کشیر حلال کا دیر تک حساب دیںگے اور دنیا کے ھرام کے ڈھیروں کے عذاب ان کے سامنے ہوںگے جن میں جھونک دیے جائیںگے۔ یہ سوچ کر میں اس طرح لرزا کہ میرا وجود لرز گیا اور طے کیا کہ سمجھیںگے اور سمجھائیںگے اور قناعت کو اپنائین گے ورنہ۔۔۔چڑھائی طے ہونے کے قریب تھی کہ ایک آدمی دیکھا جوتا ہاتھ میں لئے ہے اور ننگے پیر چل رہا ہے۔ موسم کی شدت نے پیروں کا بڑا حال کر دیا ہے۔ لنگڑا نہیں ہے مگر لنگڑا رہا ہے۔ چل رہا ہے مگر اچھلتا دکھائی دے رہا ہے ، قدم رکھتا ہے مگر قدم ٹکتا نہیں ہے۔ ہم سے اس کا حال زار دیکھا نہ گیا۔ لپکے ، قریب پہونچے کہا بھائی جوتہ موجود ہے اور تم پیروں کا بھرتا بنا رہے ہو۔ بولے ۔ دوکان پر سچا تھا۔ اسے دیکھا اور دیکھتے ہی جی لوٹ پوٹ ہو گیا زیادہ قیمت دی۔ خوشامد الگ کی۔ اس نے دام بھی لئے۔ احسان بھی رکھا۔ ہم خوشی خوشی گھر لے آئے۔ آج پہن کر نکلے کہ اپنی شان خود بھی دیکھیں گے اور دوسروں کو بھی دکھائیں گے۔ دل کو یہی یقین تھا کہ ہر قدم شاندار ہوگا۔ اشتہار میں بھی یہی پڑھا تھا مگر تھوڑی دور چلے تھے کہ چھالے پڑ گئے پہن تو لیا تھا مگر اتازنا مشکل ہو گیا۔ پہننے میں انگلی چچی ہوئی تھی۔ اتارنے میں پیرز خمی ہو گیا۔ گوشت سے ناخن جدا ہو گیا۔ اب نہ پہن سکتے ہیں ۔ پھینک سکتے ہیں جس حال میں ہیں تم خود دیکھ رہے ہو۔ حد ہے کہ اجنبی ہو مگر ہمارے لئے رو رہے ہو۔ جوڑا بڑا خوبصورت تھا مگر بے جو نکلا۔ وہ آپ بیتی سنا کر پھر چل پڑا اور مجھے اپنے پڑوسی یاد آئے جو خوبصورتی ، جہیز ، بڑا گھر دیکھ کر اگر اس نے جوتے اور پیر دونوں کو دیکھ لیا ہو تو آرام سے چلتا۔ انھوں نے بھی اگر دینداری کی بنیاد پر شادی کی ہوتی تو خوف خدا دونوں کو ہر تکلیف و اذیت سے محفوظ رکھتا۔میرا دماغ ابھی ہچکولے کھا رہا تھا کہ کان میں ایک چیخ سنائی دی ” ہائے مر گئے ” پلٹ کر دیکھا تو ایک صاحب اپنا سر مع ناک کے پکڑے بیٹھے تھے اور دوسرا اپنے جوتے میں سے اٹھا کر پھر اپنی لاٹھی میں لٹکا کر اور لاٹھی کندھے پر رکھ کر روانہ ہونے والا تھا۔ پہلے ہم ہائے مر گئے طرف متوجہ ہوئے کہ آپ زندگی میں کیوں مر گئے انھوں نے کہا یہ دیہاتی اپنی لاٹھی اس ندھے سے اس کندھے پر رکھ رہا تھا کہ لاٹھی نے پوری وقت سے میرے سر پر سے سفر کیا۔ مزید برآں یہ کہ اس کے نعلدار وزنی جوتوں نے عینک اور ناک دونوں کو توڑ دیا۔ سر کی چوٹ عینک کا نقصان تو برداشت کر سکتا ہے مگر ناک کی چوٹ کون برداشت کر سکتا ہے لہذا ہم تو زندگی ہی میں مر گئے۔ہم دیہاتی کی طرف لیکے کہ گاؤں کی لاٹھی کا شہر کی گنجان آبادی میں کیا کام ہے پھر جو ہاتھ میں رہنے والی چیز ہے اس کا کندھے پر کیا کام پھر لاٹھی بھی کوئی جنازہ ے کہ کاندھا بدلا جائے۔ اس نے ہم کو گھور کر دیکھا اور ہم کو عالم تصور میں لاٹھی اپنے سر پر سے سفر کرتی ہوئی محسوس ہوئی پھر بھی ہم نے پوچھ لیا کہ اور یہ بھی بتاؤ کہ جوتے پہننے کے ل۴ے ہوتے ہیں کہ لٹکانے کے لئے۔ اس نے بار دیگر گھورا اور گرجا قانون رکھو تم اپنے شہر میں۔ ہم ؔزاد لوگ ہیں چاہے کسی کا سر ہھوٹے کہ اگر یہ آزادی ہے تو پھر آوارگی اور درندگی کیا ہوگی کہ اس نے جوتا لٹکانے کا فلسفہ بھی بیان کیا کہ یہ جوتے داد کے ہیں اور ہمارا پوتا پہنےگا۔ مالک نے پیر دیے اور داد نا ے جوتے اور یہ کہہ دیے کہ چمری جائے تو جائے مگر دمڑی نہ جائے اور واقعی چمڑی جا چکی تھی۔ اسی سڑک پر ایک کے پیروں کا بھرتہ بن گیا تھا اور دوسرے کی کھال مردہ ہو چکی تھی۔ اس نے پھر تیسری مرتبہ دیکھا۔ اس مرتبہ اس کی نگاہ کہہ رہی تھجی کہ جاتے ہو کہ دوں ہاتھ اور فوراً ہماری سمجھ میں دے ہاتھ کا معنی سمجھ میں آ گئے۔اسی طرح سوچ بچا ر میں سفر طے ہو گیا ہمارے ایک امیر عزیز ہوائی جہاز سے آئے تھے۔ ہم ان سے ملنے آئے تھے مگر ان کو دیکھ سکے نہ مل سکے کیانکہ وہ بری طرح سردی میں جکڑے تھے اور ایک پل کے لئے بھی ان کی کھانسی نہیں رکتی تھی۔ ہر کھانسی پر کلیجہ پکڑ لیتے تھے۔ سب کھڑے تھے اور یہ پڑے تھے سب دیکھ سکتے تھے مگر کوئی مل نہیں سکتا تھا۔ حال پوچھا معلوم ہوا ایک بریف کیس لئے ہوئے کناڈا سے چلے ہوائی جہاز میں اُڑے۔ مزے اڑاتے دہلی آ گئے۔ وہاں سے ٹرین سے چلے۔ برفباری ہو چکی تھی۔ بریف کیس میں لاکھوں تھے مگر کام نہ آئے۔ ہم دیدار کر کے پلٹے۔ مگر ہمارا دماغ وہیں رہ گیا بلکہ ایک چھلانک میں پھر آخرت پہونچ گیا کہ جو دولت والے بغیر پکے ایمان اور سچے اور اچھے اعمال کے محشر پہونچیں گے وہ اسی طرح تڑپیں گے اور کوئی کام نہ آئےگا۔آخرت کے بار بار تصور نے حافظہ کا ؂ڈھکنا اٹھا دیا تھا اور اپنے کئے ہوئے نےشمار گناہ یاد آ رہے تھے۔ ہم جہاں سے آئے تھے وہاں واپس جا رہے تھے مگر گناہوں کی سیریز کو حافظہ اگل رہا تھا اور ہمارے ہاتھ پیروں کی طات جواب دے چکی تھی۔ ہم میں واپس جانے کی طاقت بھی نہ تھی۔ اسی عالم مجبوری میں دیکھا کہ ایک شریر بچے کو اس کی ماں مار رہی تھی۔ بچہ تڑپتا تھا روتا تھا مگر ماں ہی سے لپٹ جاتا تھا۔ آخر ماں نے کلیجہ سے لگا لیا بچے کے انسو پوچھے اور کہا آئندہ شرارت نہ کرتا۔ بچہ ماں کے کلیجے ے لگا تھا مگر اب اس کا دل دھک دھک نہیں کر رہا تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر خیال آیا کہ جب ماں اتنی رحم دل ہوتی ہے تو رحمٰن و رحیم خالق اور کریم مالک کتنا مہربانی ہوگا مگر پھر بھی بری طرح ڈرے مگر خدا سے روئے مگر خدا کے سامنے اور خدا ہی کے نام پر چودہ معصوموں کو مدد کے لئے پکارا کہ ہماری توبہ قبول کرا دیں۔ بس توبہ کا تصور آتے ہی دل کی دھک دھک ختم ہو گئی اور ہم تیزی سے جہاں سے آئے تھے وہاں دوبارہ حاضر ہونے کے لئے روانہ ہو گئے۔

http://shiastudies.com/ur/905/%d8%af%d9%85%d8%a7%d8%ba-%da%a9%d8%a7-%d8%b3%d9%88%d8%a6%da%86-%d8%a2%d9%86-%d8%b1%da%a9%da%be%d8%a6%db%92/

تبصرے
Loading...