جنین کے لئے صاف ستھرى فضا

جنین کے لئے صاف ستھرى فضا

ليكن اگر وہ گندى اور زہريلى ہوا ميں سانس لے گى تو اپنى اور بچے دونوں كى صحت كو نقصان پہنچائے گى _ لہذا حاملہ خواتين كو نصيحت كى جاتى ہے كہ وہ كوشش كريں كہ صاف ستھرى ہوا ہے استفادہ كريں _ صاف فضا ميں چليں اور گہرا سانس ليں _ اسى طرح تھكادينے والى شب بيدارى سے بھى سختى سے اجتناب كريں _انہيں يہ بھى چاہے كہ تمباكونوشى سے بچيں _ اور مسموم فضا ميں سانس لينے سے اجتناب كريں _ سوتے ہوئے كمرے كى كھڑكى كھلى ركھيں تا كہ تازہ ہوا داخل ہوسكے كيونكہ آكسيجن كى كمى ممكن ہے بچے پر ناقابل تلافى اثر ڈالے _ڈاكٹر جلالى كا وہ پيراہم پھر آپ كى توجہ كے ليے نقل كرتے ہيں جو قبل ازيں آپ كى نظروں سے كبھى گزرچكا ہے _جسم كے بہت سے نقائص مثلاً ہونٹوں كى خرابى ، پاؤں كے تلوے كا سيدھا ہونا يہاں تك كہ آنكھوں كا بہت چھوٹا ہونا كہ جنہيں پہلے موروثى سمجھاجاتا ہے آج كل ، ماحول بالخصوص دوران حمل آكسيجن كى كمى جيسے عوامل كا نتيجہ سمجھاجاتا ہے _(1)——–1_ روان شناسى كودك ص 190
61اسقاط حملاسلام كے نقطہ نظر سے عورت اور مرد كى باہمى رضامندى سے حمل ٹھرنے كو روكنے ميںكوئي مضائقہ نہيں ہے اگر بيوى اور شوہر اولاد كى خواہش نہ ركھتے ہوں تو پھر وہ ضرر گوليوں، ٹيكوں يا انزال وغيرہ كے ذريعے حمل ٹھہرنے كو روك سكتے ہيں _ البتہ بچے كى پيدائشے كو روكنا اسلام كى نظر ميں پسنديدہ نہيں ہے _ كيونكہ اسلام كى خواہش ہے كہ مسلمانوں كى نسل جتنى بھى ہوسكے پھولے پھلے _ ليكن بہر حال ايسا كرنا حرام نہيں ہے ليكن جب نر او ر مادہ سيل تركيب پاكر عورت كے رحم ميں ٹھہر جائيں اور ايك زندہ موجود وجود ميں آجائے تو وہ اسلام كى نظر ميں محترم ہے اورزندگى كا حق ركھتا ہے _ و ہ نيا موجود اگر چہ بہت چھوٹا ہى كيوں نہ ہو صلاحيت كے اعتبار سے انسان ہے ، وہ ايسا موجود زندہ ہے كہ بڑى تيزى كے ساتھ اور حتمى طور پر غير معمولى طريقے سے كمالات انسانى كى طرف رواں دواں ہے _ وہ ننھا منا سا موجود جو كہ اتنى غير معمولى استعداد ركھتا ہے اپنى مہربان ماں سے اميد ركھتا ہے كہ وہ اس كے ليے پر امن ماحول فراہم كرے گى تا كہ وہ پرورش پاكر ايك كامل انسان بن سكے _ اگر اس باليقات اور باشرف وجود كو تونے ساقط كرديا اور اسے قتل كرديا تو تم قاتل قرار پاؤگى اور اس برے عمل كے ارتكاب كى وجہ سے قيامت كے دن تمہارى بازپرس كى جائے گى _دين مقدس اسلام كہ جو تمام لوگوں كے حقوق كا نگہبان ہے اس نے اسقاط حمل اور اولاد كشى كو كلّى طور پر حرام قرارديا ہے _ اسحان بن عمّار كہتے ہيں كہ ميں نے حضر ت موسى (ع) بن جعفر (ع) كى خدمت ہيں عرض كيا كہ وہ عورت جو حاملہ ہونے سے ڈرتى ہے كيا آپ اسے اجازت ديتے ہيں كہ
62رہ دراكے ذريعے حمل گرادے _ آپ (ع) نے فرمايا:نہيں ميں ہرگز اس چيز كى اجازت نہيں ديتا _راوى نے پھر كہا : ابتداء دور حمل كہ جب ابھى نطفہ ہوتا ہے ، اس وقت كے ليے كيا حكم ہے ؟فرمايا:انسان كى خلقت كا آےاز اسى نطفے سے ہوتا ہے _ (1)اللہ تعالى قرآن مجيد ميں فرماتا ہے :و اذا الموء دة سئلت _ باى ذنب قتلتيعنى _ قيامت كے دن ماں باپ سے پوچھا جائے گا كہ تم نے كس جرم ميں اپنے بے گناہ بچے كو مارڈالا ؟(تكوير _8،9)اسقاط حمل نہايت برا عمل ہے كہ جس سے اسلام نے روكا ہے _ علاوہ ازيں يہ كام ماں كے جسم و جاں كے ليے بھى باعث ضرر ہے _ ڈاكٹر پاك ناد نے اسقاط حمل كے بارے ميں منعقدہ ايك كانفرس سے خطاب كرتے ہوئے كہا:… يہ ثابت ہواہے كہ اسقاط حمل اوسط عمر ميں كمى كرديتا ہے نيز سائنسى تحقيق كے مطابق اسقاط حمل عورتوں كے نفسياتى اعتدال كو تباہ كرديتا ہے _(2)1951 ء سے 1953 ء تك كے نيويارك كے اعداد و شمار كے مطابق 2601 عورتوں كى وفات اسقاط حمل كى وجہ سے ہوئي دس سال كے دوران ميں اس تعدا ميں 1261 4 كا اضافہ ہوا _ چكى ميں 1963 ء كے ريكارڈ كے مطابق 39 عورتوں كا انتقال اسقاط حمل كى وجہ سے ہوا _———1_ وسائل الشيعہ ، ج 19، ص 152_ مكتب اسلام سال 13 ، شمارہ 8
63اسقاط حمل كا ايك بہانہ فقر و تنگ دستى بھى قرارديا جاتا ہے _ بعض نادان ماں باپ فقر و غربت كے بہانے سے اپنے بے گناہ بچوں كو ضائع كرديتےہيں _اس ميں شك نہيں كہ فقر و تگ دستى ايك بڑى مصيبت ہے اور بہت سارے خاندان اس ميں مبتلا ہيں اور اسے برداشت كرنا بہت مشكل كام ہے _ ليكن اسلام اسے بچہ ضائع كرنے كا عذر قبول كرنے كے ليے تيار نہيں _ آخر بے گناہ بچے كا كيا قصور ہے كہ ماں باپ اسے حق حيات سے محروم كرديں _ اللہ تعالى قرآن مجيد ميں فرماتا ہے :ولا تقتلوا اولاد كم خشية املاق نحن نرزقہم و ايّاكم انّ قتلہم كان خطا كبيراًاپنى اولاد كو مفلسى كے خوف سے قتل نہ كرو ہم ہيں كہ جو تمہيں اور انہيں روز ديتے ہيں _ اولاد كو قتل كرنا يقينا ايك بہت بڑا گناہ ہے _ بنى اسرائيل _آيہ 31اب جب كہ ايك انسان كا نطفہ ٹھر چكا ہے ماں با پ كو چاہيے كہ سختى كو برداشت كريں ممكن ہے يہى بچہ كل ايك ممتاز اور عظيم شخصيّت بن جائے كہ ماں باپ اور معاشرہ جس كے وجود سے استفادہ كريں _ ممكن ہے اسب چے كے وجود كى بركت سے خاندان كى اقتصادى حالت بھى بہتر ہوجائے يا اس كے ذريعے سے فقر و تنگ دستى سے نجات مل جائے _اس كے علاوہ بھى كئي بہانے پيش كئے جاتے ہيں _ مثلاً گھر سے باہر كى مشغوليات ، دفتر كى مصروفيات يا بچوں كى كثرت و غيرہ ليكن يہ ايسے عذر نہيں ہيں كہ ان كى وجہ سے شريعت يا عقل اس برے عمل كو جائز قراردے دے _اسقاط حمل نہ يہ كہ اسلام كى نظر ميں ايك برا اور حرام عمل ہے بلكہ اس بڑے گناہ كے ليے كفارہ بھى مقرر كيا گيا ہے كہ جو جنين كى عمر كے اختلاف كے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے _امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيںاگر ساقط شدہ بچہ نطفہ ہواتو اس كا خون بہسونے كے بيس دينا رہے، اگر علقہ اور لوتھڑا ہوتو سونے كے چاليس دينار، اگر مضغہ اور گوشت كى حد تك پہنچ چكا ہوتوسونے كے ساتھ دينار، اگر اس ميں ہڈى بن گئي ہو تو سونے كى اسّى دينار،
64اگر وہ انسان كى صورت اختيار كر چكا ہو تو سونے كے سودينار اور اگر اس ميں روح بھى پيدا ہوچكى ہو تو اس كى ديت ايك كامل انسان كى ديت ہوگى _(1)خانم افسر الملوك عاملى نے اس بارے ميں ايك خوبصورت نظم كہى ہے:
بخواب آمد مرا طفل جنينىبگفتا مادرم را گر بہ بيني
بگو ماد رخطا از من چہ ديدىكہ بہ جرمم بہ خونم دركشيدي
درونت كودكى آرام بودمكجا محكوم برا عدام بودم؟
بخونم چنگ و دندان تيز كردىنہ خون دامان خود، لبريز كردي
بدم تازہ رسيدہ ميہمانتنہ آسيبى رسيد از من بجانت
بہ مہمان بايدت مہمان نوازىنہ بيرحمانہ اش نابودسازي
تو فكر خرج و برجم را نمودىزجسم كو چكى جان در ربودي
مرا روزى بہمرہ بود مادرولى افسوس ننمودى تو باور
تو گردش را بہ من ترجيح دادىاساس ظلم در عالم نہادي————1_ وسائل الشيعہ ج 19 ص 169
65اميد كودكان بر مام باشدچو مادر باشدش آرام باشد
اميد بودرديت را ببينمگلى از گلش حسنت بچينم
ولى ميخواست پستانت زنت چنگغمت بيرون نمايم از دل تنگ
دلم مى خواست از شيرت بنوشمصداى مادرم آيد بگوشم
اميدم بود لبخندم ببينىكنار تختخوابم خوش نشيني
اميدم بددبستانم فرستىدھى تعليم ، درس حق پرستي
بيايم از دردوشادت نمايمسردو كودكان بہرت سرايم
اميدم بودگروم من جوانىزمان پيريت قدرم بداني
زمان پيريت غم خوار باشمبہر كارى برايت يادباشم
من اينك روح پاكم در جنان استمكانم در جوار حوريان است
كنون كن توبہ ،استغفار ، شايدخداى مہربان رحمت نمايدتمنّا دارد و افسر از تواني
66پيامم را بہ مادر ہا رسانى (1)نظم كا ترجمہ :چھوٹا سا سقط شدہ بچہ ميرے خواب ميں آيا اور بولا ميرى ماں كو ديكھو تو اس سے كہوامّى تو نے ميرى كيا خطا ديكھى تھى كہ بے جرم ہى تو نے ميرا خون بہاديا _ميں تو بچپن ميں آرام سے رہتا تھا ميرے قتل كا حكم كيسے سرزد ہوگيا _ميرے خون پر تونے اپنے پنجے اور دانت تيز كئے _ اور اپنے دامن كو ميرے خون سے آلودہ كرليا _ميں ابھى تيرے پاس تازہ مہمان آيا تھا اور مجھ سے ابھى آپ كو كوئي نقصان نہيں پہنچا تھا _ چاہيے كہ آنے والے مہمان كى مہمان نوازى كى جائے نہ كے بے رحمى سے اس كا كام تمام كرديا جائے _تجھے ميرے بارے ميں خرچ كى فكر ميں تھى لہذا تو نے ميرے ننھے سے جسم سے جان نكال دى _ماں ميں تو اپنى روزى ساتھ لے كر آيا تھا ليكن افسوس كہ تجھے اس كا يقين نہ آيا _تو نے گھومنے پھر نے كو مجھ پر ترجيح دى او ردنيا ميں ظلم كى بنياد ڈالى _بچوں كى اميد توماں ہى ہوتى ہے _ اور جب ماں كے پاس ہو تو وہ سكھ چين سے ہوتے ہيں _مجھے تمنا تھى كہ ميں تيرے چہرے كو ديكھوں اور ميں بھى تيرے گلشن حسن سے ايك پھول چنوں _ميرا دل چاہتا تھا كہ ميںتيرے پستان سے دودھ پيوں اور يوں تيرے دل كا غم دور كروں _ مير ى آرزو تھى كہ تيرا دودھ پيوں اور تيرى آواز ميرے كانوں ميں پڑے _آرزو تھى كہ تو مجھے مدر بھيجتى ، مجھے تعليم ديتى اور حق پرستى كا درس پڑھاتى _ميں گھر آتا اور تجھے خوش كرتا اور بچوں والے گيت تجھے سناتا _——–1_ مجلہ مكتب اسلام سال 16_شمارہ 12
67خيا ل تھا كہ جب ميں جوان ہوجاؤں گا تو پھر تجھے اپنے بڑھاپے ميںميرى قدر معلوم ہوتى _ تيرے بڑھاپے ميں ميں تيرا غم خوار ہوتے اور ہر كام ميں تيرا مددگار بنتا _ ميں كہ ايك پاك روح بن كر اب جنت ميں ہوں اور ميرا مقام يہاں حوروں كے جوار ميں ہے اب تو توبہ اور استغفار كر كہ شايد خدائے مہربان اپنى رحمت كرے _اے افسر سيرى تجھ سے يہ تمنا ہے كہ تو ميرا يہ پيغام تمام ماؤں تك پہنچادے _
 

http://shiastudies.com/ur/2403/%d8%ac%d9%86%db%8c%d9%86-%da%a9%db%92-%d9%84%d8%a6%db%92-%d8%b5%d8%a7%d9%81-%d8%b3%d8%aa%da%be%d8%b1%d9%89-%d9%81%d8%b6%d8%a7/

تبصرے
Loading...