افعال میں توحید اور شرک

افعال میں توحید اور شرک

افعال میں توحید کی حقیقت سے مراد یہ ہے کہ ہمیں یقین حاصل کرنا چاہیئے کہ سارے عوالم خواہ وہ ملک (مادی ) یا ملکوت (روحانی ) سے تعلق رکھتے ہوں ان کا مالک و مدبر اور کنٹرول کرنے والا سوائے خدا کے اور کوئی نہیں اوریقینی طور پر جاننا چاہیے کہ اس کی ربوبیت اور الوہیت میں کسی حالت میں کو ئی شریک نہیں اور اس کی ربوبیت کو آسمان و زمین اور تمام عوالم میں بسنے والوں کے لئے بلا تفریق یکساں جاننا چاہیئے۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:

اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰواتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَھُنَّ یَتَنزَّلُ الْاَمْرُ بیْنَھُنَّ لِتَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ وَاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْماً۔ (سورہ ۶۵۔آیت۱۲)

“خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور انہیں کے برابر زمین کو بھی ۔ان میں خدا کا حکم نازل ہوتا رہتا ہے ۔ تا کہ تم لوگ جان لو کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ اور بے شک خدا اپنے علم میں ہر چیز پر حاوی ہے ۔”

اور خداوند عالم کو آسمانوں کا پیدا کرنے والا جاننا چاہیے۔ اور یقین کامل ہونا چاہیئے کہ اس نے بے شمار ستارے پیدا کئے ہیں کہ ابھی تک ان کا انکشاف نہیں ہوا ۔جدید سائنسی آلات سے صرف ایک کڑور ستارے دریافت کئے گئے ہیں ۔ جو کہ ہر ایک علیحدہ عالم کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر ایک کی روشنی مختلف ہے اور ہر ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر اپنے مخصوص مدار میں گردش کرتا ہے ۔
وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرَاتٌ بِاَمْرِہ (سورہ۱۶۔آیت۱۲)

“اور ستارے اسی کے حکم سے ( تمہارے ) فرمانبردار ہیں۔”

ان ستاروں میں ایک سورج ہے جس کا حجم ہماری زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے۔اس قدر تیز روشنی اسے دی گئی ہے کہ ۳۷لاکھ فرسخ کا فاصلہ صرف آٹھ سیکنڈ میں طے کر کے ہماری زمین تک پہنچتی ہے۔ جس سے ساری زمین کے لئے روشنی ملتی ہے اور اسی سے تمام موجودات کی پرورش ہوتی ہے ۔ کیا شان ہے اس خالق بزرگ و بر تر کی ۔

سُبْحَانَ اللّٰہِ خَالِقِ الْاَعْظَمِ۔

بے رنگ پانی سے لاکھوں رنگ

وہ ایسا خدا ہے کہ زمین کو پھاڑ کر اس سے پھولوں کے اقسام اور گوناگوں خوشبودار پودے نکالتا ہے اور ان کے پتیوں اور پھوکوں میں ہر قسم کے رنگ بھرتا ہے۔ وہی ہستی ہے جس نے انسان کے لئے قوت شامہ (سونگھنے کی حس ) عطا کی جس سے خوشبو اور بد بو کی پہچان ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ قوت باصرہ (دیکھنے کی حس ) پیدا کی تا کہ مناظر قدرت کا مشاہدہ کر سکیں اور اس کے نیز اپنے پیدا کرنے والے کو جان لیں۔

فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّویٰ(بیج اور گٹھلی کو پھاڑنے والا)

وہ ایسا خالق ہے کہ گٹھلی میں شگاف پیدا کرتاہے۔ اس کا آدھا حصہ جڑپکڑنے اور خوراک لینے کے لیے مختلف سمت میں پھیلاتا ہے اور دوسرا حصہ فضا میں بلند کر کے آہستہ آہستہ اس کی نشو و نما کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس سے ہر قسم اور ہر رنگ کے مختلف ذائقے والے پھل پھول پیدا کرتا ہے۔ جبکہ زمین ، پانی اور ہوا مختلف نہیں بلکہ ایک ہیں پھر بھی ذائقہ اور رنگ الگ الگ پیدا کرتی ہیں۔ مختلف ذائقوں کو چکھنے کے لیے انسان کو قوت ذائقہ مرحمت فرمائی تا کہ اُنہیں بے شمار نعمتوں کو چکھ کر اپنے خدا کی عظمت اور رحم و کرم کا اندازہ ہو جائے اور اُسے پہچان سکیں۔

 

فِیْ ظُلُمَاتٍ ثلاثٍ(تین تاریکیوں میں)

خدا وہ بے مانند ذات ہے کہ جس نے گندے نطفے سے ہر قسم کے حیوانات پیدا کیے۔ انسان کو (۱) پیٹ (۲)رحم (۳) اور جھلّی یا مشیمہ کی تاریکیوں میں پیدا کیا۔ اس کے بعد اپنی قدرت کاملہ سے کس قدر عجیب و غریب ترکیب کے ذریعہ عقل جیسی آنکھ عطا کی تا کہ انسان غور و فکر سے اللہ تعالیٰ کے صنعت و آثار دیکھ سکیں۔ اور اپنے نفس اور دوسرے موجودات کا چشم ِباطن سے مشاہدہ کریں۔

گندے خون سے خوشگوار دودھ

خدا وہ ہستی ہے جس نے گندے میلے اور ناپاک خون سے پاک و صاف دودھ نکالا اور وہ پستان کی نالیوں کے ذریعے حیوان و انسان کے شیرخواروں کے گلے میں آسانی سے پہنچا دیتا ہے۔

نُسْقِیْکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُوْنِہ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَناً خَالِصاً سَائغاً للشَّارِبِیْنَ (سورہ۱۶۔آیت۶۶)

“(حیوانات ) کے پیٹ میں (گوبر اور خون) جو کچھ بھرا ہو اہے اس میں سے ہم تم کو خالص دودھ (نکال کر) پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔”

یہ اس حالت میں جبکہ بچہ کسی قسم کی غذا کھانے سے عاجز ہو تا ہے تو خالص دودھ پلانے والا خدا ہے۔ وہی جانداروں کو زندگی اور موت دیتا ہے۔ ہر کسی کو ملنے والا نفع اور خیر اُسی کی جانب سے ہیں اور تمام شر اور ضرر جس سے صادر ہوتا ہے اور دوسرے تک پہنچتا ہے ، اس کی مشیت و حکمت اور اجازت سے ہے۔

قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ

“کہہ دو اے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) ! سب کچھ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔”

روزی دیتا ہے، قبول کرتا ہے

وہ ایسی ذات ہے کہ تمام مخلوقات کو روزی دیتا ہے ۔ رزق کی تقسیم کرنا، کم یا زیادہ دینا مکمل طور پر خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ایسا کریم و رحیم ہے کہ ہر کسی کی دعا قبول کر لیتا ہے۔ اور اس کی حاجت پوری کر دیتا ہے۔ جس سے وہ چاہے بُرائی کو دور کرتا ہے۔ خلاصہ توحید درافعال کے کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّابِاللّٰہِ کے معنی سمجھنا پھر دل میں یقین پیدا کرنا۔ بعبارت دیگر کلمہ شریفہ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کا مفہوم یہی ہے۔

ہر چیز کا موٴثر خدا ہے

جس طرح کہ ہر چیز کی زندگی خدا سے ہے اسی طرح اس کے آثار حیات بھی خدا سے تعلّق رکھتے ہیں اور ان آثار کا ظہور بھی خدا کی جانب سے ہوتاہے۔ خواہ وہ مقدار کے لحاظ سے ظاہر ہو جائے یا کیفیت میں ۔ چنانچہ تجربہ اور وجدان سے ثابت ہوا ہے کہ موثر اشیاء کا اثر کبھی کبھار اُس کے برعکس ہوتا ہے۔ (جیسا کہ آتش ِ نمرود کا اثر یعنی حرارت ختم کر کے اس کو ٹھنڈک میں تبدیل کردیا، کیونکہ خدا ہر چیز کا موٴثر ہے۔)اس اختصار کی تفصیل آگے بیان ہو گی۔

شان ربوبیت کی انتہا نہیں

خداوند عزوجل ہر بیچارے کا فریاد رس اور ہر پریشان حال کو نجات دینے والا ہے اس کے علاوہ دوسری اچھی صفات کا بھی وہی مالک ہے بلکہ وہ ہر نیکی اور خوبی کا سرچشمہ ہے

ھُوَ اللّٰہُ الخَالِقُ الْبَارِیٴُ الْمُصَوِّرُ الرَّزَاقُ الْمُحْیِیْ، الْمُمِیْتُ النَّافِعُ الضَّارُّ الْمُجِیْبُ الْمُعطِیُ الْمُنْعِمُ وغیرہ دوسرے اسماء اور افعال خداوند تعالیٰ کی ربوبیت کے مظہر ہیں اور کلمہٴ مبارکہ رب العالمین تمام اسمائے الہٰیہ کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے خلاصہ اگر تمام دریا سیاہی بن جائیں اور ربوبیت کے شوؤن وحالات لکھنا چاہیں تو تمام دُنیا کا پانی ختم ہو جائے گا اور تمام عالم کی تربیت اور پرورش کی لامتناہی داستان ابتدائی مراحل میں ادھوری رہ جائے گی جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے :

قُلْ لَوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لنَفِدَا لبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنَفْذَکَلِمَاتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہ مَدَداً۔(سورہ۱۸۔آیت۱۰۹)

“کہو (اے رسول) اگر میرے پروردگار کی باتوں کے (لکھنے کے ) واسطے سمندر (کا پانی)ہی سیاہی بن جائے تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار باتیں ختم ہوں سمندر ہی ختم ہو جائے گا اگرچہ ہم ویسا ہی (ایک اور سمندر) اس کی مدد کو لے آئیں۔

انسان کی توانائی

دراصل انسان کا وجود خدا سے ہے اپنے افعال میں جو کچھ قدرت رکھتا ہے وہ بھی خدا ہی سے ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے توانائی عِلم اور ارادہ دیا ہے تاکہ وہ خیروشر کے افعال انجام دے سکے۔

ای ہمہ نقشِ عجب بردرو دیوارِ وجود

ہر کہ فکرت نکند نقش بود بر دیوار

یہ سارے عجیب نقش ونگار جو عالمِ وجود کے درودیوار پر نظر آتے ہیں اگر کسی نے ان پر غوروفکر نہیں کیا تو وہ نقشِ دیوار کی مانند ہے۔

آفرینش ہمہ تنبیہ خداوند دل است

دل ندارد کہ ندارد باخداوند اقرار

موجودات عقل مند انسان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرتی ہیں جس کے پاس عقل نہیں وہ وجودِ خدا کا اقرار نہیں کرتا۔

کہ تواند کہ دوہد میوہٴ شیریں از چوب

یا کہ دانند کہ برآرد گل صد رنگ از خوار

دیکھئے لکڑی سے میٹھا پھل کیا کوئی نکال سکتا ہے؟ یا سینکڑوں رنگوں کے پھولوں کو کانٹوں سے نکالنے کا کرشمہ کیا کوئی جانتا ہے؟

پاک و بے عیب خدائی کے بتقدیر وجود

ماہ وخورشید منور کند بہ لیل و نہار

وہ پاک وبے عیب خدا جس نے تقدیر وتدبیر سے چاند اور سورج کو روشنی دے کر دن اور رات کو وجود میں لایا۔

پادشاہی نہ بدستور کند یاگنجور

نقشبندی نہ بشنگرف کند یا زنگار

وہ ایسا بے نیا ز بادشاہ ہے جس کو نہ دستور کی ضرورت ہے نہ خزانے کی احتیاج اور ایسا نقاش ہے جسے رنگ وروغن سامانِ نقاشی فراہم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

چشمہ از سنگِ بروں آرد و باران از میغ

عنگبین از مگس نہلِ دراز دیبہ باد

وہ پتھر سے پانی کا چشمہ نکالتا ہے اور بادل سے بارش برساتا ہے مکھی سے شہد فراہم کرتا ہے اور کیڑے سے ابریشم تیار کرتا ہے۔

تاقیامت سخن اندر کرم ورحمت او

ہمہ گوئند و یکی گفتہ نیا ید زہزار

(شیخ سعدی)

اگر تمام مخلوقات مل کر قیامت تک اللہ کے بے پایاں رحم وکرم کے بارے میں بات چیت کریں تو اس کے ہزارویں حصّے کا بیان بھی نہ کر سکیں گی۔

اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰہِ لاتُحْصُوْھَا۔

’‘’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ان کو شمار نہیں کر سکو گے ۔”

انسان کی قوّت خدا کی مشیّت میں مقیّد ہوتی ہے

انسان کی توانائی مشیّتِ ایزدی سے گھیری ہوئی اور محدود ہوتی ہے جیسا کہ انسان بہت سے امور کی انجام دہی کے لیے ارادہ تو کرتا ہے لیکن اچانک اُس کا ارادہ منسوخ ہو جاتا ہے یا اپنی توانائی سرے سے ختم ہو جانے کی بنا پر وہ کام کو انجام تک نہیں پہنچا پاتا۔ درحقیقت موثر کی مرضی کے خلاف کام ہوتا ہے اس لیے فاعل کو روک لیتا ہے ۔

چنانچہ کسی نے حضرت امیرالموٴمنین (علیہ السلام) سے دریافت کیا اے میرے مولا!

کَیْفَ عَرَفْتَ رَبَّکَ؟ فَقَال (ع) عَرَفْتُ اللّٰہِ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ وَنَقْضِ الْھِمَمِ

(خطبہ نہج البلاغہ)

“آپ نے اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانا؟” پس فرمایا میں نے اُس کو ارادوں کے منسوخ ہونے اور ہمتوں کے ٹوٹنے سے پہچان لیا ہے ۔

سچ مچ خدا ہی کو تمام اشیائے کائنات کا موٴثر اور جن اشیاء میں مختلف آثار پائے جاتے ہیں ان کا مصدر بھی خدا ہی کو جاننا اور اُسی پر کامل اعتماد رکھنا توحید کا بلند ترین مقام ہے۔ توحید کے اس اعلیٰ مرتبے پر پہنچنے میں بہت کم لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔ جب بندے کو اس بات کا یقین پیدا ہو جائے کہ عالمِ امکان خواہ محسوس (مادی) ہوں یا غیر محسوس (روحانی) ہوں ان سب کا موٴثر سوائے خدا کے اورکوئی نہیں تو لازمی طور پر کچھ علامتیں اُس سے ظاہر ہوتی ہیں اُن میں سے ایک علامت خوفِ خدا ہے۔

خوفِ خُدا

یقین کے مقام پر فائز مومن اپنے پروردگار کی عظمت اور جن گناہوں کا وہ مرتکب ہوا ہے ان کے بغیر اور کسی چیز سے کبھی نہیں ڈرتا چونکہ وہ یقین سے جان چکا ہے کہ سارے چرند، پرند ،رینگنے والے، جن ،بنی آدم، فرشتے اور دوسری مخلوقات سب کے سب اللہ تعالیٰ کی فوج ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ان کی جانب سے کسی کو کسی قسم کا نفع پہنچ سکتا ہے اور نہ نقصان۔ جب اس اعتقاد پر یقین حاصل ہے تو پھر ڈر کس چیز کا؟

اگر تیغِ عالم وجنبد بجنبدز جائے

نبردگی تاخواہد خدائے

اگر کسی کے خلاف ساری دُنیا کی تلواریں حرکت میں آ جائیں تو اس کی جب تک خدا نہ چاہے ایک رَگ بھی نہیں کاٹ سکتا۔

از خدا دان خلاف دشمن و دوست

کہ دل ہر دو در تصرف اوست

دوست اور دشمن کی مخالفت خدا کی طرف سے سمجھ کیونکہ دونوں کے دل خدا کے اختیار میں ہیں۔

مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

روایت ہے کہ وَحَدُّ الْیَقِیْنِ اِن لاَّ تَخَافَ مَعَ اللّٰہِ شَیْئًا

یقین کی آخری حد یہ ہے کہ خدا کے ساتھ اور کسی چیز سے نہ ڈرے حضرت رسولِ اکرم سجدے میں فرماتے ہیں:

اِلٓھِٰی اِنْ لَّمْ یَکُنْ غَضَبَکَ عَلیَّ فَلاَ اُبَالِی (جلد۱۵۔بحارالانوار)

“خداوندا! اگر تیرا غضب میرے اوپر نہیں تو پھر مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں۔”

اُمید بخدا

اگر یہ یقین حاصل ہے کہ عالمِ امکان میں اللہ کے سوا دوسرے کسی موٴثر کا اثر کارگر نہیں تو ایسا مومن یکتا پرست خدا کے علاوہ اور کسی سے کسی قسم کی امیدنہیں رکھتا چنانچہ حضرت امیرالموٴمنین کا ارشادِ گرامی:

لَایَرْجُوَنَّ اَحَدٌ مِّنکُمْ اِلاَّ رَبَّہ (خطبہٴ نہج البلاغہ)

تم میں سے کسی کو اپنے پروردگار کے سوا کسی سے امید نہیں رکھنا چاہیئے جیسا کہ اشارہ ہوا ہر فرد کی اصل خدا سے ہے اور ہر خیر کا وجود اور پیدائش کا مرکز بھی وہی ہے اسی طرح ہر وہ نیکی جو ایک شخص سے دوسرے فرد تک پہنچتی ہے وہ بھی خدا کی طرف سے ہے چنانچہ قرآن مجید میں فرماتا ہے: “بیدک الخیر‘ نیکی فقط پروردگار ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ (قواعدِ نحو کے لحاظ سے یہاں جار و مجرور مقدم ہیں اس لیے مفید حصر ہوتا ہے ۔) سورہ یونس کے آخر میں فرماتا ہے :

وَاِنْ یَمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کاشِفَ لَہ وَاِنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَ رَادَّ لِفَضْلِہ (سورہ۶۔آیت۱۷)

اگر خدا تم کو کسی قسم کی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہیں ۔ اور اگر تمہیں کچھ فائدہ پہنچائے تو بھی (کوئی روک نہیں سکتاکیونکہ ) وہ ہر چیز پر قادر ہے اور دوسری جگہ فرماتا ہے :

وَمَابِکُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰہِ۔

“اور جتنی نعمتیں تمہیں ملتی سب خدا ہی کی طرف سے ہیں ۔”اب واضح ہوا کہ جو کچھ عالمِ ملک (مادی ) اور ملکوت (روحانی) میں موجود ہے سب کے سب خدا کے بندے ہیں اور اس کے سامنے عاجز ہیں ۔

اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰواتِ وَالْاَرضِ اِلاَّ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْداً

(سورہ۱۹۔ آیت ۹۳)

آسمان و زمین میں جتنی چیزیں سب کے سب بندہ ہی بندہ ہیں۔

اگر کوئی اپنے کام میں اپنے پروردگار کے علاوہ کسی دوسرے سے امیدوار ہے تو خداوند کریم اسے لطف وکرم سے اس کی امید کو نامیدی سے بدل دیتا ہے۔ تاکہ وہ اپنے مالکِ حقیقی کی طرف پلٹ کر آئے۔

لَاْقَطِّعَنَ اَمَلَ کُلِّ مُوٴمِّلٍ غَیْرِیْ (عدّة الدّاعی)

میں ان تمام امیدواروں کی امید کے رشتوں کو کاٹ دوں گا جو دوسروں کے باندھے ہوئے ہیں۔

منعم کا شکر ادا کرنا

جن کو یقین ہو کہ عالمِ امکان کا موٴثر خدا ہے تو نعمت دینے والے کا شکر ادا کرنا چاہیئے چونکہ تمام خیرات اُسی کے ہاتھ میں ہے وہ ہر چیز کو جتنا چاہے خیر وبرکت ورحمت دیتا ہے اسی لیے عِلم ویقین کے ساتھ کہتے ہیں “الحمد للہ” یعنی تمام تعریفیں اللہ کے ہی کے لیے مخصوص ہیں۔

شکرو ثنائی وسائط (ذرائع) بھی لازم ہے

اگر کسی کے ذریعے خیر ورزق مل رہا ہے تو اس کی مدح اور شکر ادا کرنا لازم ہے لیکن اس نظر سے اس کا شکر وتعریف کرنا جائز نہیں کہ وہ مستقلاً مصدر خیرورحمت ہے بلکہ اس لحاظ سے سزاوار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے خیرورحمت پہنچانے کا وسیلہ قرار دیا ہے اور پروردگارِعالم کے حکم سے وہ فراہم کرتا ہے اس لیے اگر کسی کے توسط سے خیر ملے تو اس کا شکریہ ادا کرے جیسا کہ معصوم کی طرف سے تاکید ہے

مَنْ لَمْ یَشْکْرِ الْمَخْلُوْقَ لَمْ یَشْکُرِالخالِقَ(بحارالانوار جلد۱۵)

جس نے (منعمِ مجازی یعنی) مخلوق کا شکریہ ادا نہیں کیا گویا وہ اپنے خالق (منعمِ حقیقی) کا شکر بجا نہیں لایا۔

اَشْکَرُ کُمْ لِلّٰہِ اَشْکَرُ کُمْ لِلنَّاسِ(سفینة البحار جلد ۱ صفحہ ۷۰۹)

تمہارے درمیان سب سے زیادہ اللہ کا شکر گذار وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ لوگوں کا ممنون ہو۔

اس میں شک نہیں کہ اگر کسی نے مخلوقِ خدا کو مستقل طور پر خیر پہنچانے والا سمجھا تو شرک میں مبتلا ہوا۔

مخلوق کی مدح میں پوشید ہ شرک

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے تفسیر آیہ مبارکہ

وَمَایُوٴْاَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ ھُمْ مُشْرِکُوْنَ۔(سورہٴ ۱۲۔ آیت ۱۰۶)

اور اکثر لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ خدا پر ایمان نہیں لاتے مگر شرک کیے جاتے ہیں۔

شرک کے بارے میں فرمایاکہ شرک کی اقسام میں سے ایک یہ ہے

مِنْ ذٰلِکَ قَوْلُ الرَّجْلِ لَولَافْلاَنٌ لَھَلَکْتُ وَلَوْلَافُلَانٌ لَاَصَبْتُ کذاوَکَذاوَلَوفُلَانٌ لَضَاعَ عَیَالِی وَلَا بَاْسَ بِاَنٌ یَقُوْلَ لَوْلَا اَمَّنَ اللّٰہُ عَلَیَّ بِفُلاَنٍ لَھَلکْتُ۔(بحارالانوار)

کہ کوئی شخص کہے جائے اگر فلاں آدمی نہ ہوتا تو میں ہلاکت میں پڑتا۔ اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو فلاں چیز مجھے مل جاتی اور اس طرح کہا جائے اگر فلاں نہ ہوتے تو میرے بال بچّے تلف ہو جاتے اس قسم کی عبارتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ بولنے والے کے عقائد بھی ایسے ہیں۔ اگر حقیقت میں ایسا اعتقاد رکھتا ہے تو وہ مشرک ہے اس کے بعد آنحضرت نے فرمایا اگر کوئی یوں کہے : خداوندعالم نے فلاں آدمی کے ذریعے مجھ پر احسان نہ کیا ہوتا تو میں ہلاکت میں پڑتا تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ عین توحید ہے۔

حضرت امام صادق (علیہ السلام) اور سائل شکور

مسمع بن عبدالملک سے روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) منٰی میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک سائل خدمت میں حاضر ہو ۔ آپ نے کسی کو حکم دیا کہ اسے انگور کا ایک خوشہ دیا جائے۔ سائل نے عرض کیا مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ اگر پیسہ ہے تو دیا جائے۔ پس آنحضرت نے فرمایا: “اللہ تجھے وسعت دے”۔ مگر کچھ دیا نہیں۔ اس کے دوسرا سائل خدمت میں حاضر ہوا۔ آنجناب نے تین دانہ انگور دست مبارک سے اٹھا کر اسے مرحمت فرمایا۔سائل نے اٹھا لیا اور کہا:

الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِیْنَ الَّذِیْ رَزَقَنِیْ

“ساری حمد و ثنا تمام عالم کے پوردگار کے لیے ہے جس نے مجھے روزی عطا کی۔

فرمایا: ٹھہر جاؤ! دونوں دست مبارک ہتھیلیوں تک انگور کے دانوں سے پُر کر کے دو مرتبہ اور دیا۔ سائل دوبارہ شکر خدا بجا لایا۔ آنحضرت (علیہ السلام) نے پھر فرمایا : ذرا اور ٹھہر جا۔ جب وہ کھڑا رہا تو آپ نے اپنے غلام سے دریافت فرمایا تیرے پاس کتنے پیسے موجود ہیں؟ عرض کیا تقریباً بیس درہم۔ آپ نے سائل کو دے دیئے۔ اس نے اُٹھا کر کہا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ھٰذا مَنُّکَ وَحْدَکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ

“ساری تعریفیں تمام عالم کے پوردگار کے لیے مخصوص ہیں۔ خدایا ، یہ روزی تیری طرف سے ہے۔ تو یکتا ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔”

چوتھی مرتبہ فرمایا: ابھی ٹھہر جاؤ۔ اپنی قمیض اتار کو اُسے دی اور فرمایا: اسے پہن لو۔ سائل نے اُسے پہن لیا اور اس خدا کا شکر ادا کیا جس نے اُسے لباس دیا اور خوش و خرم کیا۔ اس وقت سائل نے حضرت کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اے بندہٴ خدا اللہ تعالیٰ تجھے اچھا صلہ عطا کرے اور روانہ ہو گیا۔

مسمع راوی کہتا ہے اگر سائل امام (علیہ السلام) کی طرف متوجہ نہ ہوتا اور صرف خدا کی حمد بجا لاتا تو آپ مزید عطیہ کا سلسلہ جاری رکھتے۔

 

توحید اور توکل

یادرکھیئے! تما م اسبا ب سبب پیداکرنے والے (مسبب)کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔ اس لئے موحد(یکتا پرست) کو چاہیئے کہ اپنے سارے امور میں خواہ وہ منفعت حاصل کرنے سے تعلّق رکھتے ہوں یا ان کا ضررو نقصان دور کرنے کا واسطہ ہو۔ ہر حالت میں اس کی امیدیں فقط اپنے پروردگار سے وابستہ ہونی چاہئیں۔ اسے جاننا چاہیئے کہ تمام اسباب ارادہٴ خدا کے ماتحت ہیں۔ اگر خیر کے تمام اسباب اس کے لیے فراہم ہو جائیں مگر خدا نہ چاہتا ہو تو محال ہے کہ اسے کوئی خیر پہنچ جائے۔ اس طرح تمام ظاہری اسباب کے سلسلے اس سے کٹ جائیں اور خدا فراہم کرنا چاہتا ہو تو کسی صورت فراہمی کا سبب پیدا کر دے گا۔

اگر ضرر پہنچانے کے تمام اسباب اکھٹے ہو جائیں لیکن خدا اسے محفوظ رکھنا چاہتا ہو تو کوئی شر اُسے چھو نہیں سکتا۔

توحید اور تسلیم

موحّد کو چاہیئے کہ تمام مقدرات الٰہیہ کے سامنے بلاچوں و چرا سرِتسلیم خم کر دے اور امور تکوینی مثلاً عزت و ذلت، صحت و مرض، غنا و فقر، موت و حیات اور مور تکلیفیہ جیسے واجبات و محرمات کے امور میں دل و زبان سے کسی قسم کا اعتراض اور انکار ہر گز نہ کرے۔ اور ان امور میں اپنی فکر و نظر کا اظہار بھی نہ کرے۔ مثلاً ایسا کیوں ہوا؟ اس طرح ہونا چاہیئے تھا۔ یا ہوں کہیے “بارش کیوں نہیں ہوئی، ہوا اس قدر گرم کیوں ہوئی۔” یا یہ کہنا کہ اللہ نے مجھے مال یا اولاد کیوں نہیں دی۔ فلاں جوان کیوں عنفوان جوانی میں مر گیا اور فلاں بوڑھا رہا؟ اللہ نے اس چیز کو واجب اور اس کو حرام کیوں قرار دیا۔ اس طرح کی باتیں بنانے والا درحقیقت خدا کی الوہیت اور اس کی ربوبیت میں اپنے کو شریک قرار دیتا ہے۔

لَوْ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللّٰہَ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ وَاَقَامُوْا الصَّلوٰةَ وَاٰتُوا الزَّکوٰةَ وَجَجُّوْا الْبَیْتَ وَصَامُوْا شَھْرَ رَمَضَانَ ثُمَّ قَالُوْا لِشیءٍ صَنَعَہُ اللّٰہُ وْصَنَعَہ النَّبِیُّ اِلاَّ صَنَعَ خِلاَفَ الَّذِیْ صَنَعَ اَوْوَجَدُ وْاذٰلِکَ فِیْ قُلُوبِھِمْ لَکَانُوا بذٰلِکَ مُشْرِکِیْنَ، ثُمَّ تَلاَ ھٰذِہِ الْاَیَة (( فَلاَوَرَبِّکَ لَایوٴْمِنُوْنَ حتّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْما شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِی اَنْفُسِھِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْتَ و۔یُسَلِّمُوْا تَسْلِیماً۔))

ثُمَّ قَالَ اَبو عَبداللّٰہِ (ع): فَعلَیْکُمْ بِالتَّسْلِیْم۔

(اصول کافی کتاب الایمان والکفر۔ باب الشرک باللہ حدیث۶)

“اگر کچھ لوگ یکتا خدا کی ، جس کا کوئی شریک نہیں، عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة بھی دیں اور خانہ خدا کا حج بھی بجا لائیں اور ماہ رمضان کا روزہ بھی رکھیں ۔ اس کے بعد ان احکام کے متعلق جو اللہ تعالیٰ نے یا پیغمبرِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمائے ہیں اعتراض کریں اور کہیں : ایسا کیوں نہیں کیا؟ یا دل میں تصور کریں اگرچہ زبان سے اقرار نہ بھی کریں پھر بھی وہ مشرک ہو ں گے۔ اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی: پس اے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے تا وقتیکہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تم کو اپنے حاکم (نہ بنائیں) پھر (یہی نہیں بلکہ) جو کچھ تم فیصلہ کرو اس سے کسی طرح دل تنگ بھی نہ ہوں بلکہ خوش خوش اس کو تسلیم کرلیں(اور اعتراض نہ کریں)۔ (سورہٴ نسأ ، آیت ۶۵) اس کے امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا تم پر لازم ہے کہ تسلیم کرو”۔

مجلسی شرح کافی میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جو کچھ خدا کرتا ہے اس سے ناراضگی کا اظہار کرنا اور جو کچھ آئمہ ٴ اطہار (علیہم السلام) سے صادر ہو اس کو تسلیم نہ کرنا شرک ہے۔

بنا بر ایں جب اہل توحید مصیبت و بلا میں گرفتار ہو جائیں تو اپنی زبان اور دل کو قضائے الٰہی کے بارے میں اعتراض کرنے سے روکنا واجب ہے۔ البتہ عزیزوں اور دوستوں کی موت پر گریہ و فریا د کرنا جائز ہے بلکہ پسندیدہ ہے۔ لیکن اعتراض کے طور پر کہنا : یہ کیوں ہوا؟ ایسا نہیں ہو نا چاہیئے تھا، سراسر حرام ہے۔

توحید اور محبت

خدائے واحد کے پرستار کو یقین کے ساتھ جاننا چاہیئے کہ پروردگار عالم خود اس کا اور سارے موجودات کا حقیقی منعم ہے۔ اور جو جو چیزیں جہاں سے اور جس سے اس کو ملتی ہیں خدا ہی کا فضل و کرم ہیں۔ اور ظاہری اسباب و علل بھی اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہیں۔ پس دلی محبت اور دوستی کی سزاوار بھی اس کی ذات ہے۔ سوائے ذات خدا کے اور کسی سے بلا واسطہ دوستی نہیں رکھنی چاہیئے۔ ہاں اگر کسی سے دوستی کا رشتہ باندھنا منظور ہو تو اس لحاظ سے کہ وہ شخص “محبوب ِخدا” ہے۔ اور بس …حب محبوب خدا حبِ خدا است۔ چونکہ اس کی دوستی عین محبت خدا اور حکم خدا ہے جیسا کہ انبیأ و آئمہ (علیہم السلام) اور مومنین سے محبت کرنا۔

یا اس لیے کسی نعمت الٰہی سے قلبی ملاپ پیدا کرنا کہ یہ عطیہٴ پروردگار ہے تا کہ اس کے حصول سے وہ شکرِ خدا بجا لائے جس سے قرب الٰہی اور اس کی خوشنودی بھی حاصل کرسکتا ہے۔ مثلاً اہل و عیال اور مال و حیات دنیوی سے محبت کرنا عبادت پروردگار ہے۔ اس کے برعکس خوشنودی خدا کو نظر انداز کر کے براہ راست ان سے یا کسی چیز سے محبت کرے تو فرد شرک میں مبتلا ہوتا ہے۔ اگر غیر خدا کی دوستی زیادہ شدّت سے ہو اور خدا کی محبت نسبتاً کم ہو ، یہاں تک کہ دونوں محبتوں کے تصادم کی صورت میں غیر خدا کی دوستی کو ترجیح دیتا ہو تو شرک کے علاوہ حرام بھی ہے۔ اس لیے وہ عذاب کا مستحق ہے۔ مثلاً کسی کے دل میں خدا سے زیادہ مال ِدنیا کی محبت ، لہٰذا اس کے لیے ممکن نہیں کہ حکمِ خدا کے مطابق واجبات مالی ادا کرے۔ اس بارے میں بہت سی قرآنی آیتیں اور احادیث وارد ہیں۔ بطور مختصر تین روایتیں نقل کی جاتی ہیں:

(۱) سُئِلَ اَبُو عَبدِاللّٰہِ عَنْ قَولِہ تَعَالٰی اِلاَّ مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْم فَقَال (ع) اَلقَلْبُ السَّلِیْمُ اَلَّذِیْ یَلقٰی رَبَّہ وَلَیْسَ فِیْہِ اَحَدٌ سِوَاہ، قَال (ع) وَکُلُّ قَلْبٍ فِیْہِ شِرْکٌ اَوْشَکٌ فَھُوَ سَاقِطٌ (اصول کافی۔ باب الاخلاص)

“کسی نے حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اس آیہٴ مبارکہ کے معنی دریافت کیے”:

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَابَنُوْنَ اِلاَّ مَنْ اَتٰی اللّٰہِ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔

“قیامت کے دن مال و اولاد فائدہ نہیں دیں گے مگر یہ کہ خدا کے حضور قلب سلیم لے کر حاضر ہو۔ آپ (علیہ السلام)نے فرمایا: سالم دل وہ ہے کہ جب اللہ سے ملاقات کرے تو اس کے سوا اور دوسرے کی محبت اس میں نہ پائے۔ ہر وہ دل جس میں شرک اور شک ہو وہ ساقط یعنی ہلاکت کے قابل ہے۔”

(۲) قَالَ اَبُو عَبْدِاللّٰہِ عَلَیْہِ السَّلاَمُ لَایُمحِّضُ رَجُلٌ اَلاِیْمَانَ بِاللّٰہِ حَتّیٰ یَکُوْنَ اللّٰہُ اَحَبَّ اَلَیْہِ من نَّفْسِہ وَاَبِیْہ وَاُمِّہ وَوُلْدِہ وَاَھْلِہ وَمَالِہ وَمِنَ النَّاسِ کُلِّھِمْ

(سفینة البحار جلد ۱۔ ص ۲۰۱)

“حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: کسی شخص کا ایمان بخدا خالص نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے نفس ، عزیز، ماں باپ، اولاد، بیوی اور تمام لوگوں یا مال سے زیادہ محبت کرے”۔

(۳) “حضرت سلیمان علیٰ نبینا (علیہ السلام) کے دور ِحکومت میں ایک چڑے نے اپنی مادہ سے کہا: اری تو مجھے جفت ہو نے سے کیوں روکتی ہے؟ میں اس قدر طاقت رکھتا ہو کہ اگر چاہوں تو حضرت سلیمان کے گنبد کو اپنی چونچ سے اُٹھا کر دریا میں پھینک دوں۔

جب ہو نے چڑے کی بات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے کانوں تک پہنچایا تو وہ مسکرائے اور دونوں کو دربار میں بلوایا اور پوچھا کہ زبانی دعویٰ جو تم کررہے ہو ، وہ عملی طور پر کر کے دکھا سکتے ہو؟ عرض کیا: ہر گز نہیں، لیکن باتوں سے میں اپنی شخصیت کو بیوی کے سامنے سنوار کر پیش کر کے اپنی بزرگی کا اظہار کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ مرعوب ہو جائے۔ اور عاشق و معشوق کے درمیان ہونے والی باتوں پر ملامت نہیں ہو نی چاہیئے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مادہ چڑیا سے فرمایا تم کیوں اس سے روگردانی اور بے اعتنائی کررہی ہو۔ جبکہ و ہ تم سے محبت کا دعویٰ کررہا ہے۔ مادّہ نے عرض کی : یا رسول اللہ وہ جھوٹا دعویٰ کر رہا ہے۔ وہ میرا دوست نہیں چونکہ اس کی محبت دوسرے کے ساتھ ہے۔ پس حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا دل ان باتوں سے متاثر ہوا اور وہ بہت رونے لگے۔ اور چالیس دن تک اپنے عبادت خانے سے باہر نہیں نکلے۔ اور دعا کی کہ خداوند عالم چڑے کے دل کو اپنے جوڑے کے علاوہ دوسرے کی محبت سے پاک کردے۔
(سفینة البحار، جلد ۲، صفحہ ۲۰۰)

http://shiastudies.com/ur/235/%d8%a7%d9%81%d8%b9%d8%a7%d9%84-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%aa%d9%88%d8%ad%db%8c%d8%af-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b4%d8%b1%da%a9/

تبصرے
Loading...