آج کے مصائب

آج کے مصائب

ہم امام حسین (ع) کی مصیبت پر اشک و آہ کے ذریعے ان کی حمایت و نصرت کا اعلان کرتے ہیں لیکن خود اپنے معاشرے میں انسانی مصائب سے بے توجہ ہیں ۔امام حسین (ع) کی مصیبت پر غم و اندوہ کا تقاضا ہے کہ ان تمام مصائب کی مذمت کریں جن سے عالم اسلام اور کمزور اقوام دوچار ہیں ۔ایسا شخص جو ’’قانا ‘‘(١) کی مصیبت اور وہ تمام مقامات جہاں اسرائل جرائم کا مرتکب ہوا ہے جیسے تقریبا پچاس سال پہلے’’دیریاسین‘‘ (٢) میں ہونے والے قتل عام کی مذمت نہ کرے وہ ایک ایسا انسان ہے جس نے امام حسین (ع) کی مصیبت کو سمجھا ہی نہیں ہے۔ لہٰذا ہم جس طرح ان لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جنہوں نے کربلا میں امام حسین (ع) کیلۓ مصائب ایجاد کۓ تھے اسی طرح ہمیں ان تمام لوگوں کی مذمت بھی کرنی چاہۓ جو انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہوۓ ہیں اور اسکے لۓ مصائب کا سبب بنے ہیں۔ ہمیں چاہۓ کہ آج انسانیت پر روا رکھنے جانے والے مصائب پر اعتراض کریں‘ تاکہ ان لوگوں کی راہ میں رکاوٹ بنیں جو حال اور مستقبل میں دنیا کو مصائب سے دوچار کرنے والے ہیں۔ عاشورا کا پیغام یہی ہے اور اس پیغام کو انسانیت تک منتقل ہونا چاہۓ تاکہ وہ انسانیت کولاحق مشکلات پر اسکی فکر کو جھنجھوڑ دے‘ امت کے مسائل پر اسکے احساسات و جذبات کو حرکت دے اور ان مشکلات کے حل کے سلسلے میں اسکی توانائوں کو (حتی صرف منصوبہ بندی کی حد تک ہی سہی) کام میں لاۓ۔ ممکن ہے کچھ لوگ یہ کہیں کہ ہمارے پاس کونسی قوت ہے جس کے بل بوتے پر ہم عالمی استکبار کے خلاف کھڑے ہو سکیں ؟کیا ہمارے پاس طاقت ہے کہ ہم عالمی کفر اور بین الاقوامی صہیونزم کے خلاف پرچم بلند کر سکیں؟ یہ بات صحیح ہے‘ لیکن عالمی کفر بھی ایک زمانے میں کمزور تھا‘ اس نے اپنے آپ کو قوی بنایا۔عالمی استکبار کی کیفیت بھی یہی تھی‘ وہ بھی ضعیف تھا‘ اس نے طاقت و قدرت کے ذرائع کے ذریعے خود کو قوی کیا۔اسرائل تو کوئی چیز ہی نہ تھا‘ بلکہ یہودیوں کے ذہن کا صرف ایک خیال تھا‘ ان کا ایک خواب تھا جسے انہوں نے بھلایا نہیں‘ ایک دوسرے سے یہ نہیں کہا کہ یہ تو ایک خواب ہے جس کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ بلکہ وہ سال بہ سال اس خواب کی عملی تعبیر کی طرف بڑھتے رہے ۔صہیونزم کی پہلی کانفرنس میں اس کانفرنس کے سربراہ ’’ہرزل‘‘ نے کہا تھا کہ : اسرائل آئندہ پچاس سال میں وجود میں آ جاۓ گا ﹣یہ بات ۱۸۹۷ء میں کہی گئ تھی اور اسرائل کی ناجائز حکومت ٹھیک ۵۰ سال بعد ۱۹۴۸ء میں وجود میں آ گئ۔ کیا ’’ہرزل‘‘ علم غیب رکھتا تھا؟نہیں وہ علم غیب نہیں رکھتا تھا بلکہ سمجھ بوجھ رکھنے والا ایک انسان تھا‘ اس نے منصوبہ بندی کی تھی اور دنیا میں طاقت کے پیما نوں سے بخوبی واقف تھا‘ مختلف مقامات ِ قدرت کو اس نے جان لیا تھا اور انہیں جمع کیا تھا‘ جبکہ عرب غفلت کا شکار رہے۔
گو کہ ہرزل اپنی زندگی میں اپنی آرزو کو پورا ہوتے ہوۓ نہ دیکھ سکا ( اور اپنے خوابوں کے پورا ہونے سے پہلے ہی مر گیا) لیکن ا س نے ایک ایسا منصوبہ تیار کیا تھا جس میں ہر مرحلے کی وضاحت تھی ۔اس نے عقلانیت کی ساتھ مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کیا ۔مشکلات دیکھ کر اس نے گھٹنے نہیں ٹیک دیۓ بلکہ ان میں سے ہر مشکل کے لۓ ایک راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ جب مشکلات سامنے آتی ہیں تو ہاتھ پیر چھوڑ دیتے ہیں کہتے ہیں ’’کوئی فائدہ نہیں‘‘ اور تجربہ نہیں کرتے۔ لیکن وہ مشکلات کا سامنے کرتے ہیں اور ان مشکلات کا اقرار کرنے کی جرات رکھتے ہیں ۔پس پھر چارہ جوئ اور ان مشکلات کے حل کے سلسلے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمیں جب کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو یہ کیفیت ہمیںآپے سے باہر کر دیتی ہے اور جب نقصان اٹھاتے ہیں تو یہ نقصان ہمیں زمین پر ڈھیر کر دیتا ہے۔درست ہے کہ ہم آج ضعیف اور کمزور ہیں‘ لیکن آخر کیوں تجربہ نہ کریںاور اسباب قدرت ایجاد نہ کریں اور یوںپچاس برس بعد (ہم بھی) توانا ہو جائیں۔عاشورا ‘ ایک ایسا منبع ہے جس سے سیکھا جاۓ اور طاقت حاصل کی جاۓ ۔عاشورا‘ سیکھنے اور طاقتوربننے کا منبع ہے ۔
عاشورا‘ احساسات کو سمت دینے کا منبع ہے۔غم و اندوہ ‘ اشک وگریے کو ہمیشہ زندہ رکھنا اس بات سے مشروط ہے کہ اشک ‘ اشک ضعف نہ ہوں بلکہ اشک ِ قدرت و قوت ہوں۔ حزن ‘ حزنِ منفی نہ ہو‘ بلکہ مثبت حزن ہو۔ اگر حزن ‘ مقصد اور ہدف کے ساتھ بھی ہو تب بھی اس میں غرق ہو کے نہ رہ جائیں ‘ بلکہ اسے ایک ذمے داری اور فریضے کے عنوان سے دیکھیں ۔کیونکہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ خداوند عالم ہم سے چاہتا ہے کہ دنیا کو آخرت کی اقدار کی بنیاد پر تعمیر کریں : وابتغ فیما اتاک اﷲ الدار الاخرة (اور جو کچھ خدا نے (دنیا میں تمہیں) دیا ہے اس سے آخرت کے گھر کا انتظام کرو۔ سورئہ قصص ۲۸ ﹣ آیت ۷۷) اور عقل‘ احساسات اور جستجو کی قوتوں کے ذریعے جنہیں خداوند عالم نے ہمیں عطا کیا ہے آخرت کا بندوبست کریں ‘اس انداز سے کہ دنیا ہی میں ہماری آخرت ثبت ہو جاۓ اور یوں ہماری دنیا آخرت بن جاۓ اور ہماری آخرت دنیا سے مرتبط ہو جاۓ۔
_____________________
١۔لبنان میں واقع ’’قانا‘‘ کا مہاجر کیمپ جس پر ٦٩ء میں اسرائلی طیاروں کے وحشیانہ حملے کے نتیجے میں ہزاروں نہتے فلسطینی مہاجر عورتیں ‘بچے اور مرد جاںبحق ہوۓ تھے ۔
٢۔۱۹۸۴ء میں اسرائلی افواج نے ’’دیر یاسین ‘‘کے عرب علاقے میںایک حملے کے دوران٤٥٢ فلسطینی مردوں‘عورتوںاور بچوں کا بے دردی کے ساتھ قتل عام کیا تھا۔

http://shiastudies.com/ur/233/%d8%a2%d8%ac-%da%a9%db%92-%d9%85%d8%b5%d8%a7%d8%a6%d8%a8/

تبصرے
Loading...